لانگ مارچ کی تیاریاں پیپلز پارٹی نے مختلف کمیٹیاں تشکیل دے دیں

حکومت کی جانب سے دوبارہ سخت پابندیاں عائد نہیں کی گئیں تو حالات انتہائی غیرمعمولی بھی ہو سکتے ہیں۔

حکومت کی جانب سے دوبارہ سخت پابندیاں عائد نہیں کی گئیں تو حالات انتہائی غیرمعمولی بھی ہو سکتے ہیں۔ فوٹو : فائل

سینیٹ انتخابات میں اسلام آباد کی نشست سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے اور اس نے 26 مارچ کو وفاقی حکومت کے خلاف ہونے والے لانگ مارچ کی تیاریوں کا آغاز کردیا ہے۔

اس ضمن میں پیپلزپارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو کی صدارت میں ہونے والے ایک اجلاس میں لانگ مارچ کی تیاریوں کا جائزہ لیا گیا۔اطلاعات کے مطابق لانگ مارچ کا آغاز 26 مارچ کو کراچی سے بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ہوگا۔ مجوزہ لانگ مارچ کی تیاریوں کے لئے سندھ بھر میں 12سے 16مارچ تک ڈویژنل کنونشن منعقد ہوں گے۔

لانگ مارچ کی تیاریوں کے لئے پیپلزپارٹی نے مختلف کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں۔ پیپلزپارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری وقار مہدی کی سربراہی میں نو رکنی مرکزی صوبائی کمیٹی قائم کی گئی ہے۔ مرکزی صوبائی کمیٹی میں سعید غنی، ناصر شاہ، عاجز دھامراہ،سرفراز راجڑ، جاوید نایاب،شگفتہ جمانی و دیگر شامل ہوں گے جبکہ ڈویژنل سطح پر بھی کمیٹیاں قائم کی گئیں ہیں۔

ڈویژنل کمیٹیاں پیپلزپارٹی کے ڈویژنل صدور کی سربراہی میں قائم کی گئیں ہیں۔اس بات کا بھی امکان ہے کہ لانگ مارچ کی صورت رواں سال گڑھی خدا بخش میں ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر 4اپریل کے سالانہ جلسہ کا انعقاد ممکن نہیں ہوگا۔ پیپلزپارٹی نے لانگ مارچ کے کامیاب انعقاد کے لئے سندھ میں تیاریاں تیز کردی ہیں۔ بلاول بھٹو کی زیر قیادت مجوزہ لانگ مارچ کراچی، ٹھٹھہ،کوٹری، مٹیاری سے گزرے گا۔ لانگ مارچ کے شرکا سندھ میں تین دن، پنجاب میں دو دن قیام کریں گے، جہاں ان کا مختلف شہروں میں استقبال کیا جائے گا۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تحریک اب انتہائی اہم مرحلے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی کی کامیابی نے اپوزیشن کو ایک نیا حوصلہ دیا ہے اور اس فتح سے پیپلزپارٹی کے موقف کو تقویت پہنچی ہے ، جس نے اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو ضمنی اور سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے اور اسمبلیوں سے مستعفی نہ ہونے پر قائل کیا تھا۔ لانگ مارچ کی کامیابی کے حوالے سے ان مبصرین کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کا اصل امتحان عوام کو بڑی تعداد میں اس مارچ میں شریک کرنا ہوگا۔

پیپلزپارٹی سندھ ، مسلم لیگ (ن) پنجاب اور مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علماء اسلام ف خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں اثر و رسوخ رکھتی ہیں ۔ اگر یہ جماعتیں اپنے کارکنوں کو متحرک رکھنے میں کامیاب رہیں تو اس لانگ مارچ میں لوگوں کی ایک اچھی تعداد شریک ہو سکتی ہے تاہم اسلام آباد پہنچ کر اپوزیشن کی حکمت عملی کیا ہوگی یہ ایک اہم سوال ہے۔ پیپلزپارٹی سندھ میں برسراقتدار ہے اور اسی لیے لانگ مارچ کا آغاز بھی یہیں سے کیا جا رہا ہے تاکہ ایک کامیاب پاور شو کیا جا سکے لیکن اسلام آباد میں اگر حکومت کے خاتمے تک دھرنا دینے کا اعلان کیا گیا تو دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا پیپلزپارٹی اپنی سندھ حکومت کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوگی یا نہیں؟ آنے والے چند ماہ ملک کی سیاست میں انتہائی اہم سمجھے جا رہے ہیں اور کسی غیر متوقع تبدیلی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔

سندھ میں سینیٹ الیکشن کے حوالے سے جس سرپرائز کی گونج سنائی دے رہی تھی وہ سامنے آگیا ہے اور پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے ارکان کی تعداد کی بنسبت ایک نشست زیادہ حاصل کر کے اپنے دعووں کی تصدیق کردی ہے۔

سندھ میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کو پانچ نشستیں حاصل کرنے کی امید تھی لیکن حیرت انگیز طور پر جی ڈی اے کے پیر صدر الدین شاہ راشدی کو ان انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا،جس پر جی ڈی اے کی جانب سے شدید تحفظات سامنے آئے ہیں۔انتخابات میں پیپلزپارٹی کے شیری رحمن ، تاج حیدر ،شہاد ت اعوان ایڈوکٰٹ ،سلیم مانڈوی والا ،جام مہتاب ڈاہر فاروق ایچ نائیک،پلوشہ خان ،پی ٹی آئی کے سیف اللہ ابڑو اور فیصل واوڈا جبکہ ایم کیو ایم پاکستان کے فیصل سبزواری اور خالدہ اطیب نے کامیابی حاصل کی۔


پاکستان پیپلز پارٹی سندھ نے وفاق میں سید یوسف رضا گیلانی اور سندھ میں پیپلز پارٹی کے سینیٹرز کی کامیابی پر سندھ بھر میں جشن جمہوریت کے نام سے تین روزہ جشن بھی منایا ۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سینیٹ الیکشن میں پیپلز پارٹی کی کامیابی پر سید یوسف رضا گیلانی اور دیگر امیدواروں کو دلی مبارک باد پیش کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ارکان قومی اسمبلی نے وفاقی حکومت کو مسترد کردیا ہے۔

سندھ سے ایک نشست زیادہ حاصل کرنے پر مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی امیدواروں کے غلط انتخاب کا فائدہ ہمیں ملاہے۔ پی ٹی آئی ارکان کے اغوا کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ کریم بخش گبول، شہریار شر اور اسلم ابڑو ایک ہی گاڑی میں آئے تھے اغوا کا جو الزام لگ رہا ہے کیا اسے باقی دونوں نے اغوا کیا تھا؟ادھر جی ڈی اے کے ان الزامات کے بعد کہ پی ٹی آئی کے ارکان ان کے رہنما پیر صدر الدین شاہ راشدی کی شکست کا باعث بنے پر پی ٹی آئی رہنما پیر صاحب کی شکست کی ذمہ داری جی ڈی اے پر ہی عائد کر دی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی پر الزام لگانا ناانصافی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں اس مرتبہ سندھ میں جو ماحول بنا وہ کسی طور پر جمہوریت کے لیے سود مند نہیں ۔اغوا کے الزامات اور خریدو فروخت کی باتیں ایوان کے تقدس کو پامال کرتی ہیں۔ سینیٹ انتخابات کا طریقہ کار سپریم کورٹ کی گائیڈ لائنز میں بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ مستقل میں اس طرح کے الزامات لگانے کی نوبت نہ آئے۔

ملک میں کورونا وائرس کی تیسری لہر کے خدشے کے پیش نظر طبی ماہرین نے حکومت سے ایک مرتبہ پھر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی جانب سے کورونا وائرس کے سلسلے میں عائد کردہ پابندیوں میں نرمی کے اعلان سے اب تک ملک بھر میں کورونا وائرس کے کیسز میں تقریبا 30 فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ایسوسی ایشن نے یہ بھی کہا کہ پاکستان سپر لیگ کے کھلاڑی حفاظتی اقدامات میں غفلت اور تماشائیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے سبب وائرس سے متاثر ہوئے۔ان حالات کے سبب پی ایس ایل ملتوی کرنا پڑا۔

یاد رہے کہ 24 فروری کو این سی او سی نے تجارتی سرگرمیوں، اسکولز، دفاتر اور دیگر کام کی جگہوں پر کورونا وائرس سے متعلق زیادہ تر پابندیاں نرم کرنے اور انہیں مکمل طور پر فعال کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ادھر محکمہ صحت سندھ کا کہنا ہے کہ شہر قائد میں 65 سال سے زائد عمر کے افراد کو کورونا ویکسین لگانے کے لیے رجسٹریشن کا آغاز 10 مارچ سے ہو گا۔صوبائی محکمہ صحت کے مطابق کراچی میں مزید 16 ویکسینیشن سینٹرز قائم کر دیئے گئے ہیں جس کے بعد شہر میں ویکسینیشن سینٹرز کی تعداد 27 ہو گئی ہے۔

محکمہ صحت کے مطابق ضلع جنوبی میں 4 ویکسینیشن سینٹرز بنائے گئے ہیں، ضلع جنوبی میں جناح اسپتال، خالق دینا ہال، ایس آئی یو ٹی اور لیاری جنرل اسپتال میں سینٹرز فعال ہیں۔طبی ماہرین کے مطابق کورونا وائرس کے حوالے سے یکدم پابندیوں کو ہٹایا جانا انتہائی نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے اور کورونا کی تیسری لہر پہلی دو لہروں سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔شہریوں کے طرز عمل سے ایسے لگتا ہے کہ ملک میں کورونا کا کوئی وجود نہیں ہے۔ حکومتی ایس او پیز پر عملدرآمد ناپید ہے۔

اگر یہی طرز عمل جاری رہا اور حکومت کی جانب سے دوبارہ سخت پابندیاں عائد نہیں کی گئیں تو حالات انتہائی غیرمعمولی بھی ہو سکتے ہیں۔اس حوالے سے حکومت کو فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔عوام کو چاہیے کہ وہ کورونا سے بچاؤ کی ایس او پیز پر عمل کرے تاکہ کورونا سے تحفظ کے ساتھ معاشی سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔اگر این سی او سی کورونا سے بچاؤ کے لیے کوئی اہم فیصلے کرتی ہے تو سندھ حکومت کو فوری اس پر مکمل عمل درآمد کرانا ہوگا۔

ملک بھر کی طرح کراچی سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر مختلف تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔اس موقع پر مختلف تنظیموں کی جانب سے یوم حیا بھی منایا گیا۔اس دن کے حوالے سے سندھ اسمبلی میں ایک قرارداد بھی متفقہ طور پر منظور کی گئی۔ایوان میں خطاب کرتے ہوئے ارکان کا کہنا تھا کہ ہر ادوار میں بھی خواتین کا کردار اہم رہا ہے۔ بے نظیر بھٹو شہید کا کردار سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔انہوں نے اپنے دور میں خواتین کیلئے بہت کام کیا۔ ہمیں سال کے تمام دنوں میں خواتین کے حقوق کی بات کرنی چاہیے۔

ادھر کراچی میں عورت مارچ کے تحت دھرنے کا انعقاد بھی کیا گیا ، جس میں خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ان تقریبات میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے جامع اور مربوط گفتگو کی گئی۔اس امر کی ضرورت ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں خواتین کے تحفظ کے لیے کی گئی قانون سازی پر موثر عمل درآمد کے ساتھ ان کی ملازمتوں کے لیے بھی اقدام کرے ۔
Load Next Story