تِل اوراس کا تیل پارکنسن کا مرض روکنے میں مؤثر ثابت
جاپانی ماہرین کے مطابق تِلوں کا استعمال اعصابی خلیات کو تندرست اور ڈوپامائن کی سطح برقرار رکھتا ہے
BIRMINGHAM:
ہمارے گھروں میں تل اور ان کا تیل عام استعمال کیا جاتا ہے۔ اب جاپانی ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ تل کھانے اور اس کے تیل میں موجود اجزا الزائیمر اور پارکنسن جیسے ہولناک امراض کے حملے کو روکتے ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ تلوں میں قدرتی طور پرموجود ایک اہم جزو 'سیسمنول' دماغی خلیات (نیورون) اور اس سے خارج ہونے والے نیوروٹرانسمیٹر کیمیکل ڈوپامائن کی سطح کر صحتمند حالت پر رکھتا ہے۔ یہ دونوں معاملات بگڑجائیں تو تو پارکنسن کا مرض قدم جمانے لگتا ہے۔
اوساکا یونیورسٹی کے سائنسدانوں کے مطابق ابتدائی تجربات بہت حوصلہ افزا رہے ہیں اور اب وہ بہت جلد مریضوں پر آزمائش کا سوچ رہے ہیں۔ تحقیق کے مطابق 'سیسمنول' خلیات کو تباہ کرنے والی آکسیڈیٹوو اسٹریس کو روکتا ہے۔ تلوں کا یہ جزو ری ایکٹو آکسیجن اسپیشیز(آراوایس) اوراینٹی آکسیڈنٹس کے اخراج کو بھی باقاعدہ بڑھاتے ہیں۔ اگر یہ توازن بگڑجائے تو پارکنسن کا مرض لاحق ہوسکتا ہے۔
لاعلاج پارکنسن کے مریض توازن نہیں رکھ پاتے، ان کی حرکات متاثر ہوتی ہیں اور بولنے میں بھی دقت محسوس کرتے ہیں۔ مرض کی شدت بڑھتی جاتی ہے ہر دن خراب سے خراب تر ہوتا جاتا ہے۔ اس موقع پر تل کا تیل ایک بہترین دوا بن کر سامنے آیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تلوں کا چھلکا خود تل کے مقابلے میں ذیادہ 'سیسمنول' رکھتا ہے۔
تجربہ گاہ میں کئے گئے مشاہدات سے ثابت ہوا ہے کہ 'سیسمنول' اعصاب کو تباہ ہونے سے روکتا ہے اور آکسیڈیٹواسٹریس پیدا کرنے والے کئی اہم پروٹین کو بھی اس سے باز رکھتا ہے۔ اس طرح ہم اس ننھے منے مزیدار تل کو دماغ کا محافظ کہہ سکتےہیں۔
ہمارے گھروں میں تل اور ان کا تیل عام استعمال کیا جاتا ہے۔ اب جاپانی ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ تل کھانے اور اس کے تیل میں موجود اجزا الزائیمر اور پارکنسن جیسے ہولناک امراض کے حملے کو روکتے ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ تلوں میں قدرتی طور پرموجود ایک اہم جزو 'سیسمنول' دماغی خلیات (نیورون) اور اس سے خارج ہونے والے نیوروٹرانسمیٹر کیمیکل ڈوپامائن کی سطح کر صحتمند حالت پر رکھتا ہے۔ یہ دونوں معاملات بگڑجائیں تو تو پارکنسن کا مرض قدم جمانے لگتا ہے۔
اوساکا یونیورسٹی کے سائنسدانوں کے مطابق ابتدائی تجربات بہت حوصلہ افزا رہے ہیں اور اب وہ بہت جلد مریضوں پر آزمائش کا سوچ رہے ہیں۔ تحقیق کے مطابق 'سیسمنول' خلیات کو تباہ کرنے والی آکسیڈیٹوو اسٹریس کو روکتا ہے۔ تلوں کا یہ جزو ری ایکٹو آکسیجن اسپیشیز(آراوایس) اوراینٹی آکسیڈنٹس کے اخراج کو بھی باقاعدہ بڑھاتے ہیں۔ اگر یہ توازن بگڑجائے تو پارکنسن کا مرض لاحق ہوسکتا ہے۔
لاعلاج پارکنسن کے مریض توازن نہیں رکھ پاتے، ان کی حرکات متاثر ہوتی ہیں اور بولنے میں بھی دقت محسوس کرتے ہیں۔ مرض کی شدت بڑھتی جاتی ہے ہر دن خراب سے خراب تر ہوتا جاتا ہے۔ اس موقع پر تل کا تیل ایک بہترین دوا بن کر سامنے آیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تلوں کا چھلکا خود تل کے مقابلے میں ذیادہ 'سیسمنول' رکھتا ہے۔
تجربہ گاہ میں کئے گئے مشاہدات سے ثابت ہوا ہے کہ 'سیسمنول' اعصاب کو تباہ ہونے سے روکتا ہے اور آکسیڈیٹواسٹریس پیدا کرنے والے کئی اہم پروٹین کو بھی اس سے باز رکھتا ہے۔ اس طرح ہم اس ننھے منے مزیدار تل کو دماغ کا محافظ کہہ سکتےہیں۔