کاشتکاروں کا بٹ کوائن عود

عالمی سطح پر عود کی مارکیٹ 32 ارب ڈالرز کی ہے، جو اگلے آٹھ سال میں دگنی ہوجائے گی


سعد الرحمٰن ملک November 22, 2023
عود کی سب سے نایاب قسم ’کینام‘ ہے جس کی قیمت عالمی مارکیٹ میں 9 ملین ڈالرز فی کلو ہے۔ (فوٹو: فائل)

آپ کے خیال میں ایک درخت کس قدر مہنگا بک سکتا ہے؟ ایک لاکھ روپے؟ دس لاکھ روپے؟ بنکاک کے ایک مندر میں ایسا درخت موجود ہے جس کی قیمت 2 کروڑ 30 لاکھ ڈالرز لگ چکی ہے۔ بلاشبہ یہ دنیا کا قیمتی ترین درخت ہے جسے عربی میں ''عود'' اور انگریزی میں Agerwood کہتے ہیں۔


عود کی سب سے نایاب قسم 'کینام' ہے جس کی قیمت عالمی مارکیٹ میں 9 ملین ڈالرز فی کلو ہے۔ کچھ عرصہ قبل شنگھائی میں کینام کا دو کلو کا ٹکڑا 1 کروڑ 80 لاکھ ڈالرز میں فروخت ہوا۔ عام طور پر عود کی قیمت اس میں موجود عرق کی مقدار پر منحصر ہوتی ہے جو 80 ہزار ڈالر فی لیٹر بکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی چھال دو سو ڈالر سے پانچ ہزار ڈالر فی کلو تک فروخت ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس درخت میں ایسا کیا ہے جس کےلیے جاپانی سرمایہ کار اتنی قیمت دینے کےلیے تیار ہیں؟


عود ایسا درخت ہے جسے بدھ مت، ہندو مت اور اسلام میں مذہبی حیثیت حاصل ہے۔ جہاں ہندوؤں کی مذہبی کتاب رگ وید میں اس کا تذکرہ ملتا ہے، وہیں شواہد ملے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے دور میں اس لکڑی کو ہندوستان سے منگوا کر خوشبو کےلیے استعمال کیا جاتا تھا۔


حدیث شریف میں ہے کہ ''تم اس عودِ ہندی کو لازم جانو کہ اس میں سات طرح کی شفا ہے''۔ جن خوش نصیب لوگوں کو بیت اللہ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ہے انہوں نے حرم کی فضا میں مسحور کن خوشبو محسوس کی ہوگی۔ یہ خوشبو عود کے سلگنے سے اٹھتی ہے۔ کعبہ شریف کے غلاف اور حجرۂ اسود پر بھی عود کی خوشبو لگائی جاتی ہے۔


عود کا شمار دنیا کے مہنگے ترین پرفیومز میں کیا جاتا ہے، جسے صرف عرب شہزادے اور امیر لوگ ہی استعمال کرتے ہیں۔ اس درخت کے طبی فوائد کا ذکر کریں تو اس کی تاثیر خواب آور ہے۔ جوڑوں کے درد، جلدی امراض، ہاضمے کی خرابی اور کینسر میں فائدہ دیتا ہے۔ جو لوگ مراقبہ یا اسی قسم کی ذہنی مشقیں کرتے ہیں ان کےلیے عود کے بخارات موثر ہیں۔


عود کی مانگ میں عالمی سطح پر دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر اس کی مارکیٹ 32 ارب ڈالرز کی ہے، جو اگلے آٹھ سال میں دگنی ہوجائے گی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اتنے فوائد کے باوجود اس درخت کی مانگ پوری نہیں ہورہی؟ سادہ الفاظ میں اس کی وجہ عود کی محدود پیداوار ہے۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر درخت میں عود پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ خوشبو اٹھتی ہے بلکہ جب ان درختوں میں ایک خاص قسم کی پھپوندی لگتی ہے تو اس میں سرخی مائل مادہ پیدا ہوتا۔ یہ مادہ دراصل پھپھوندی کے خلاف درخت کے مدافعتی کیمیکلز ہیں جن کے پیدا ہونے سے لکڑی کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ ایسی لکڑی کے ٹکڑوں یا برادے کو سلگا کر خوشبو کے حصول کےلیے یا اس میں سے عرق نکال کر صنعتی پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔ قدرتی طور پر صرف 2 فیصد عود میں پھپھوندی پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے اس میں مصنوعی طور پر فنگل انفیکشن کرائے جاتے ہیں، جس کےلیے اس کے تنے پر چار انچ کے فاصلے پر کیل لگائے جاتے ہیں یا تنے میں انجیکشن لگائے جاتے ہیں۔


عام طور پر درخت دیکھنے سے پتا نہیں چلتا کہ اس میں عود پیدا ہوگیا ہے یا نہیں۔ اس لیے عود کی دن بدن بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کےلیے بے دریغ کٹائی کی جارہی ہے۔ آسام میں عود کے جنگلات معدوم ہوچکے ہیں۔ اگرچہ حکومتی سرپرستی میں عود کی شجرکاری شروع ہوچکی ہے لیکن یہ طلب کو پورا کرنے کےلیے ناکافی ہے۔ عالمی تنظیم سائٹس نے اس درخت کو معدوم ہونے سے بچانے کےلیے کٹائی پر پابندی عائد کردی ہے۔ ملائیشیا اور انڈونیشیا میں اس درخت کی برآمد کا ایک کوٹہ مقرر ہے جس کےلیے سائٹس کا جاری کردہ سرٹیفکیٹ دکھانا پڑتا ہے۔ اتنی پابندی اور سخت عالمی قوانین کے باوجود بھی عود کی بلیک مارکیٹنگ ہورہی ہے۔


بنکاک کی عرب اسٹریٹ عود مافیا کا گڑھ ہے اور اس کاروبار میں پولیس، کسٹم حکام اور انڈر ورلڈ مافیا تک شامل ہیں۔ دنیا بھر کے مختلف ممالک سے خفیہ طور پر عود کے درخت کاٹ کر یہاں فروخت کیے جاتے ہیں۔ عود مافیا اس کا وزن بڑھانے کےلیے سیسے کی ملاوٹ بھی کر رہی ہے جو انسانی صحت کےلیے جان لیوا ہے۔


عود کی زیادہ تر کاشت ویت نام، کمبوڈیا، چین، تھائی لینڈ، جاپان، سری لنکا اور بھارت میں کی جاتی ہے۔ پاکستان میں آب و ہوا اور زمین عود کی کاشت کےلیے سازگار ہے۔ یہ درخت کم از کم 5 ڈگری اور زیادہ سے زیادہ 42 ڈگری درجہ حرارت برداشت کرلیتا ہے، جبکہ 25 ڈگری درجہ حرارت پر اس کی نشوونما بہترین ہوتی ہے۔ پاکستان کے بیشتر علاقوں میں مارچ اور اپریل میں اس کی کاشت کےلیے موسم موزوں ہوتا ہے۔ اس کے بیج شروع میں گملے وغیرہ میں لگانے چاہئیں تاکہ ان کا اچھی طرح خیال رکھا جاسکے۔ ہلکی مٹی میں ڈائریکٹ بیج لگا دیے جائیں تو دس دن میں بیج پھوٹ آتے ہیں۔ ابتدائی چند ہفتے پودوں کو کھڑکی کے سامنے کھلی جگہ پر رکھیں تاکہ روشنی ملتی رہے۔ تین ماہ بعد پودے کھیت میں منتقل کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد ان کی دیکھ بھال عام درختوں کی طرح کی جاتی ہے۔ عام طور پر 10 سال میں یہ درخت مکمل طور پر تیار ہوجاتا ہے لیکن آج کل 4 سال بعد اس کی فروخت شروع کردی جاتی ہے۔


آج کل زراعت صرف چند فصلیں اگانے تک محدود نہیں ہے۔ موجودہ دور میں ترقی یافتہ ممالک ایگرو فاریسٹری کے فروغ کےلیے کام کررہے ہیں۔ جس میں فصلوں کے ساتھ ساتھ درخت لگا کر کاشتکاروں کی آمدنی بڑھائی جاتی ہے۔ عام کسان اپنی فصلوں کے علاوہ اس طرح کے درخت لگا کر لاکھوں کما سکتے ہیں۔ عود، زیتون، ساگوان اور صندل وغیرہ جتنے پرانے ہوتے جائیں ان کی قیمت میں اتنا زیادہ اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اس لیے یہ درخت آنے والی نسلوں کےلیے بھی سرمایہ ثابت ہوسکتے ہیں۔


ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سرپرستی میں ان درختوں پر تحقیق کی جائے اور ایسی ورائٹیز بنائی جائیں جو مقامی ماحول سے مطابقت رکھتی ہوں۔ اس کے بعد ان کی کاشت کےلیے موزوں طریقہ کار اپناتے ہوئے کسانوں کو تربیت دی جائے تاکہ وہ ایگرو فاریسٹری سے فائدہ اٹھا سکیں۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں