کہاں سیاسی رہنما اور کہاں فوجی آمر

ہمیں یہ بات بار بار دہرانی چاہیے کہ پاکستان دنیا کے خوش قسمت ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔ کیا ہے جو یہاں نہیں ہے؟

zahedahina@gmail.com

ہمیں یہ بات بار بار دہرانی چاہیے کہ پاکستان دنیا کے خوش قسمت ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔ کیا ہے جو یہاں نہیں ہے؟ فطرت کا کون سا نظارہ ہے جو پاکستان کے حصے میں نہیں آیا۔ پہاڑ، سمندر،دریا، جنگل،گلیشیئر، ریگستان، دلکش اور رنگا رنگ سماج، مختلف قومیتیں، ان کی پرمایہ زبانیں، لوک گیت اورکہانیاں ہزاروں برسوں سے ارتقا پذیر تہذیب اور تمدن، جفاکش لوگ، ذہین، نوجوان، دانش وفراست کا انمول خزانہ رکھنے والے بزرگ اور ہر مشکل اورعذاب کا بہادری سے مقابلہ کرنے والے عوام۔ ایسا ملک آج کہاں پہنچاہوتا اگر اُسے ایک مہذب ریاست میسر آتی۔ مہذب ریاست؟ جی ہاں، ہمارا ملک اور سماج مہذب، معتدل اور روادار ہے لیکن اسے ایک مہذب جمہوری ریاست میں تبدیل نہیں ہونے دیا گیا۔

مہذب ریاست کی بنیاد چند اصولوں پر قائم ہوتی ہے۔ اول یہ کہ ریاست کا ایک جمہوری آئین ہو، یہ آئین کسی فرد واحد کا بنایا ہوا نہ ہو بلکہ اسے ملک کے عوام اپنے منتخب کردہ نمایندوں کے ذریعے تشکیل دیں۔ آئین کے جمہوری ہونے کی دوسری شرط یہ ہے کہ اس دستاویز میں ریاست کے ہر شہری کو رنگ، نسل، مذہب، مسلک، صنف اور قومیت کے امتیاز سے بالا تر ہوکر مساوی طور پر بنیادی انسانی اور جمہوری حقوق کی ضمانت فراہم کی گئی ہو۔ کوئی ملک اگر کثیر القومی ہو اور اس کا نظام وفاقی ہو تو ایسی صورت میں تمام قومیتوں کے قومی حقوق کا مکمل تحفظ بھی آئین میں موجود ہو۔ ان تمام عوامل کی موجودگی سے ہی ایک مہذب جمہوری آئین تشکیل پاتا ہے جس کے بعد آئین پر عمل درآمد کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ مہذب ریاست وہ ہے جو اپنے جمہوری آئین پر عمل کرے اور یہ اس طرح ممکن ہے کہ آئین میں جو ریاستی ادارے تشکیل دیے گئے ہیں وہ اپنی حدود سے کبھی تجاوز نہ کریں خواہ یہ ادارے اپنی ساخت میں کتنے ہی طاقتورکیوں نہ ہو ۔ پارلیمنٹ، حکومت کی نگرانی کرے، حکومت آئین کے مطابق فرائض سرانجام دے اور عدلیہ بلاتاخیر اور بلاامتیاز انصاف فراہم کرے۔

مہذب ریاست کے ان بنیادی عوامل سے کوئی انکار نہیں کرتا لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ہر ملک کے شہریوں کو اپنی ریاست کو ایک مہذب جمہوری ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے سخت جدوجہد کرنی پڑی ہے۔ پاکستان بھی ان ملکوں میں شامل ہے جس کے عوام نے ریاستی اقتدار کو غیر جمہوری طاقتوں سے وا گزارکرانے کے لیے ایک طویل جنگ لڑی ہے۔ یہ جنگ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ گاہے، گاہے ایسے امتحان سامنے آجاتے ہیں جہاں یہ ثابت کرنے کی ضرورت پڑتی ہے کہ کیا ہم ایک ایسی مہذیب ریاست میں تبدیل ہوچکے ہیں؟ کیا قانون کی نظر میں ریاست کے تمام شہری مساوی حیثیت رکھتے ہیں اور کوئی فرد خواہ وہ کتنا ہی بااختیار ہو یا رہ چکا ہو قانون سے بالاتر نہیں ہے۔

پاکستان کے عوام نے آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے لیے لڑنے والوں اور آئین و حقوق کو غصب کرنے والوں کے درمیان ایک فرق روا رکھا ہے۔ انھوں نے ہمیشہ آزادی اور جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی حمایت کی ہے جس کے باعث ہم آج ایک مستحکم ہوتے ہوئے جمہوری نظام میں سانس لے رہے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ وہ ملک جو جمہوری طریقہ کار کے مطابق وجود میں آیا تھا،اس کے شہریوں کو پہلے دن سے ہی آزادی اور جمہوریت سے محروم رکھا گیا۔ اس حقیقت سے کم لوگ واقف ہوں گے کہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے ابتدائی پانچ برسوں میں مجموعی طور پر کم از کم 3000 سیاسی کارکن جیلوں میں قید تھے۔ 1954 کے عام انتخابات کے متوقع نتائج سے خوف زدہ ہوکر ہزاروں لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ جگتو فرنٹ نے عام انتخابات میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی اسی لیے قانون ساز اسمبلی کو تحلیل کردیا گیا۔ اس کا علم بھی کم لوگوں کو ہوگا کہ 1957میں پاکستان پر مسلط ہونے والے میجر جنرل اسکندر مرزا کو اس وقت مشرقی پاکستان کا گورنر بنایا گیا تھا جنہوں نے جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے والے سیاسی کارکنوں پر ظلم اوربربریت کی انتہا کردی تھی۔ 1956 کے آئین کے تحت 1959 میں عام انتخابات کے انعقادکا راستہ روکنے کے لیے غیر جمہوری عناصر نے فوجی اشرافیہ کی قیادت میں مارشل لاء نافذ کردیا اور پاکستان کے عوام اور اس میں بسنے والی قومیتوں کے تمام جمہوری اور قومی حقوق سلب کرلیے گئے۔ مشرقی پاکستان کے سیاسی کارکنوں نے جدوجہد جاری رکھی جس کے نتیجے میں 1970کے عام انتخابات میں عوامی لیگ کامیاب ہوئی، جمہوری حکومت کے قیام کا امکان پیدا ہوا، ملک توڑ دیا گیا لیکن پاکستان کو ایک مہذب جمہوری ریاست میں تبدیل نہیں ہونے دیا گیا۔جمہوریت کے لیے لڑنے والے غدار قرار پائے اور غاصبوں کو ہیرو بناکر اور 21 توپوں کی سلامی دے کر سپرد خاک کیا گیا۔


تحریک پاکستان میںمشرقی بنگال پیش پیش تھا اور سندھ پہلا صوبہ تھا جس نے پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کرائی تھی۔ یہ قرارداد کبھی کامیاب نہ ہوتی اگر جی ایم سید کی کاوشیں شامل نہ ہوتیں۔ لوگوں کو بتانے کی ضرورت ہے کہ غیر جمہوری طاقتوں اور غاصبوں نے جس جی ایم سید کو غدار کہا یہ وہی سیاسی رہنما تھا جس نے 1937میں سندھ اسمبلی کا رکن بننے کے لیے ایک سال بعد 1938 میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور مسلم لیگ سندھ کا صدر منتخب ہوا۔ جی ایم سید جیسے سیاسی کارکن نہ ہوتے تو ہم آج پاکستان میں نہ ہوتے۔ آزادی کے فوراً بعد اختلاف رائے کی بنیاد پر انھیں قید کرلیا گیا۔ وہ پاکستان کے پہلے سیاسی قیدی تھے، جو 30 سال قید اور نظر بندی میں رہے اور جب دار فانی کوچ کیا تب بھی ان کا گھر سب جیل تھا۔ بلوچستان کے عبدالکریم خان کو 1950میں گرفتار کیا گیا، وہ 22 سال زندہ رہے جس میں 16 سال انھوں نے قید میں گزارے۔ بلوچستان کے سیاسی کارکنوں نے ایوبی آمریت اور ون یونٹ کے خلاف جدوجہد جاری رکھی۔ جنرل ایوب خان نے 1958میں فوجی آپریشن کیا۔ سردار نو روز خان سے قرآن پر حلف اٹھا کر مفاہمت کی گئی۔ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انھیں اور دیگر کارکنوں کو حراست میں لیا گیا۔ 1960میں ان کے بیٹوں کو سکھر اور حیدرآباد جیل میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ شدید صدمے سے دوچار نوروز خان 1962 میں کوہلو جیل میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔ بلوچستان کے سیاسی کارکنوں پر غاصبوں نے قیام پاکستان کے فوراً بعد سے عرصہ حیات تنگ کیا جو آج بھی جاری ہے۔ آزادی کے فوراً بعدصوبہ سرحد کے رہنما خان عبدالغفار خان نے 3 فروری 1948 کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں وفاداری کا حلف اٹھایا۔ جناح صاحب اور بادشاہ خان کے درمیان غیر جمہوری عناصر کے نمایندے عبدالقیوم خان نے دوریاں پیدا کیں۔ غفار خان نے پاکستان کی پہلی اپوزیشن جماعت بنائی جس کا نام پاکستان آزاد پارٹی تھا۔ انھیں نظر بند کرتے رہنے کا عمل مسلسل جاری رہا۔ انھوں نے ون یونٹ کے خلاف تحریک منظم کی اور نیشنل عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی۔ یہ وہ سیاسی رہنما تھے جنھیں 1962 میں ایمنسٹی نے ضمیر کا قیدی قرار دیا اور 1984 میں انھیں نوبل انعام کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔ برصغیر کی آزادی ان جیسے سیاسی رہنماؤں کی جدوجہد کا ثمر ہے۔

پاکستان کو ایک مہذب جمہوری ریاست بنانے کی جدوجہد آگے بڑھتی رہی۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو گرفتار ہوئے۔ ان پر قتل کی سازش کامقدمہ دائرکیا گیا،یہ مقدمہ جن صاحب نے دائر کیا وہ آج ایک غاصب حکمران کے وکیل ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی گئی جسے پوری دنیا نے عدالتی قتل سے تعبیر کیا۔ بے نظیر بھٹو اور ان کے خاندان نے فوجی آمر کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے۔ بے نظیر بھٹو برسوں قید میں رہیں،جلاوطن ہوئیں اور 2007میں قتل کردی گئیں۔ آصف علی زرداری نے 10 سال جیل کاٹی، نواز شریف 14 ماہ قید میں رہے، زنجیروں میں جکڑ کر شہر شہر گھمایاگیا، انھیںعمر قید کی سزا سنائی گئی، جبری جلاوطن ہوئے، باپ کی میت کے ساتھ نہیں آنے دیا گیا۔ پاکستان میں ایک دو نہیں سیکڑوں سیاسی کارکنوں نے جانوں کا نذرانہ دیا اور ہزاروں نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔جمہوریت کے لیے صحافیوں،محنت کشوں، کسانوں ، وکلاء اور طلباء نے بے مثال قربانیاں دیں۔ آج جو بھی حقوق اور آزادی ہمیں میسر ہے وہ ان ہی سیاسی کارکنوں کا صدقہ ہے۔

آزادی، جمہوریت، انسانی حقوق، منصفانہ معاشی نظام، تفریق سے پاک، روادار اور روشن خیال سماج کے قیام کے لیے جدوجہد کرنے والے تاریخ کے افق پرہمیشہ کہکشاں کی طرح جگمگاتے ہیں، عوام کے دلوں میں بستے اور راج کرتے ہیں۔ آزادی اور حقوق کو غصب کرنے والے اپنے عہد میں خواہ کتنے ہی طاقت ورکیوں نہ رہے ہوں تاریخ میں ہمیشہ برے ناموں سے یاد کیے جاتے ہیں۔ کہاں نیلسن منڈیلا، کہاں اڈولف ہٹلر، کہاں مارٹن لوتھرکنگ اور کہاں مسولینی، کہاں آنگ سانگ سوچی اور کہاں جنرل نیون۔ کہاں حسن ناصر، نو روز خان اور کہاں جنرل ایوب، کہاں ضیاء الحق اور کہاں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو۔ کہاں جنرل پرویز مشرف اور کہاں نواز شریف ۔ تاریخ جھوٹ نہیں بولتی، کبھی نہیں بولتی۔

کاش وہ وقت آئے جب ہم کہہ سکیں کہ پاکستان ایک مہذب جمہوری ریاست ہے۔ یہ صرف اس وقت ممکن ہے جب قانون کی نظر میں سب برابر ہوں۔ سیاسی کارکن اور فوجی آمر دونوں۔
Load Next Story