ہل چلانے والا زمین کا مالک
حقیقت یہ ہے کہ آج بھی سندھ اور پنجاب میں جاگیردار ہزاروں ایکڑ زمین کے مالک ہیں۔
NUR-SULTAN:
آج کل بھارت میں کسانوں کی تاریخی تحریک چل رہی ہے جسے شروع ہوئے کئی ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو رہا ہے لیکن بھارتی حکومت ان کے مطالبات ماننے کے لیے تیار نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسانوں کو حکومت سے ہی کیوں مطالبات منوانے کی ضرورت ہے۔
بلاشبہ ملک کا نظم و نسق چلانے کے لیے ایک تنظیم کی ضرورت ہوتی ہے اور عوام نے اس تنظیم کا نام حکومت رکھا ہے۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے لیکن اس تنظیم کو غیر معمولی اختیارات دے کر عوام کو اس کا تابع بنا دیا گیا یوں لاکھوں کروڑوں انسانوں کو مٹھی بھر حکمرانوں کا تابع بنا دیا گیا اور یہ مٹھی بھر لوگ جسے انتظامیہ کہا جاتا ہے اس کے ماتحت ادارے پولیس اور اسی طرح کی کئی تنظیمیں ہوتی ہیں اور اس کے مسلح ہونے کی وجہ سے دس مسلح سپاہی دس ہزار عوام پر بھاری ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پاس حکومت کے عطا کردہ اختیارات ہوتے ہیں اور یہ مسلح ملازم قانون کے نام پر عوام پر حاوی ہوتے ہیں انھیں ''ضرورت کے وقت'' عوام پر گولیاں چلانے اور ان کی جانیں لینے کا اختیار ہوتا ہے، یہ اختیار قانون کی شکل میں ان مسلح گروہوں کے پاس ہوتا ہے اور ''ضرورت'' کے وقت خواہ ضرورت جائز اور منصفانہ ہو یا ناجائز غیر منصفانہ اسے استعمال کرتے ہیں اور اس اختیار کی وجہ سے نہتے عوام مارے جاتے ہیں۔
چونکہ یہ اموات قانون کے تحت ہوتی ہیں اس لیے ان کا کوئی محاسبہ نہیں ہوتا۔ کسانوں کی تحریک ہو یا مزدوروں کی ہڑتال یہ عوام کے ان مطالبات کے حوالے سے ہوتی ہیں جو ان کی زندگی کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ یہ ساری کوششیں اپنے مطالبات کی شکل میں ہوتی ہیں۔ مثلاً مزدور اپنی اجرتوں میں اضافے کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ مطالبہ ان کی جائز ضرورتوں کا حصہ ہوتا ہے۔ عوام کو دبا کر رکھنے عوام کو تقسیم کرنے کے لیے مختلف حوالوں سے ان کی علیحدہ شناخت بنائی گئی۔ یوں ان کی طاقت کو توڑا گیا۔
موجودہ انتظامی سسٹم میں اختیارات کا مرکز آفیسر ہوتے ہیں عوامی مفادات کا یہ تقاضا ہے کہ انتظامی مشینری کو عوام کی اہل کمیٹیوں کو تفویض کیا جائے اور تنازعات کے فیصلوں کا اختیار ان کمیٹیوں کو سونپا جائے چونکہ یہ کمیٹیاں عوامی نمایندوں پر مشتمل ہوں گی لہٰذا وہ کوئی ایسا حکم نہیں دیں گی جو عوام مزدوروں، کسانوں کے مفادات کے خلاف اور ظلم و جبر پر مبنی ہو۔ انتظامیہ ایک سپاہی سے لے کر آئی جی تک طاقت کے نشے میں چور ہوتے ہیں اگر ان پر عوامی کمیٹیوں کا اختیار ہو تو یہ طاقتیں طاقت کا غلط استعمال نہیں کرسکیں گی۔
بات بھارت میں کسان تحریک سے شروع ہوئی تھی اس حوالے سے بھارت کی کسان تحریک کو تاریخی قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس تحریک کو اب چار ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو رہا ہے۔ مودی کا شمار بھارت کی نچلی ذاتوں میں ہوتا ہے، لہذا اسے بھارت کی کسان تحریک کے پس منظر سے زیادہ واقفیت ہونا چاہیے، مودی بھارت کے ایک چھپرا ہوٹل میں باہر والے کی حیثیت سے کام کر چکا ہے، اسے غریب عوام کے مسائل اور مشکلات کا زیادہ بہتر علم ہوگا۔ اس پس منظر میں بھارتی کسانوں کی مشکلات اور مسائل کا نسبتاً زیادہ علم ہونا چاہیے، مودی جی ہزاروں خواتین، بچوں بوڑھوں کو سخت سردی میں آسمان کے نیچے اکڑتے اور سکڑتے دیکھ رہے ہیں لیکن اس انسان کو ان کی تکالیف کا ذرہ برابر احساس نہیں۔
بھارتی کسانوں کا تعلق پنجاب سے ہے اور پاکستان میں بھی کسانوں کا بڑا حصہ پنجاب سے تعلق رکھتا ہے۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں کسانوں کے غیر متنازعہ لیڈر چوہدری فتح محمد رہے ہیں ان کے علاوہ کسانوں کو منظم کرنے میں سی آر اسلم اور ان کے ساتھیوں کا بھی بڑا ہاتھ رہا ہے۔ بدقسمتی سے اب نہ پنجاب میں نہ سندھ یا خیبرپختونخوا میں کسان تحریکیں منظم رہیں۔ اب ناتجربہ کار لوگ پاکستانی کسانوں کی قیادت کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریکیں کھاد، بیج تک محدود ہیں۔
کسان مزارع سب جاگیردار طبقے کی پیداوار ہیں۔ کسان خواہ اس کا تعلق پاکستان سے ہو یا بھارت سے انتہائی غربت کے عالم میں زندگی گزار رہا ہے۔ ویسے تو عام کسانوں کے مطالبے کھاد، بیج وغیرہ تک محدود رہے ہیں لیکن ہشت نگر تحریک ایک الگ اور منفرد تحریک تھی ،بعدازاں پختونخوا میں بھی کسان تحریک ختم ہوگئی۔ اب کسان قیادت عموماً عمومی مراعات کو اپنے بڑے مطالبے کے طور پر پیش کر رہی ہیں ان تنظیموں کو اب پاکٹ یونین کی حیثیت حاصل ہے۔
پاکستان میں کئی بار زرعی اصلاحات کی گئیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی سندھ اور پنجاب میں جاگیردار ہزاروں ایکڑ زمین کے مالک ہیں۔
آج کل بھارت میں کسانوں کی تاریخی تحریک چل رہی ہے جسے شروع ہوئے کئی ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو رہا ہے لیکن بھارتی حکومت ان کے مطالبات ماننے کے لیے تیار نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسانوں کو حکومت سے ہی کیوں مطالبات منوانے کی ضرورت ہے۔
بلاشبہ ملک کا نظم و نسق چلانے کے لیے ایک تنظیم کی ضرورت ہوتی ہے اور عوام نے اس تنظیم کا نام حکومت رکھا ہے۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے لیکن اس تنظیم کو غیر معمولی اختیارات دے کر عوام کو اس کا تابع بنا دیا گیا یوں لاکھوں کروڑوں انسانوں کو مٹھی بھر حکمرانوں کا تابع بنا دیا گیا اور یہ مٹھی بھر لوگ جسے انتظامیہ کہا جاتا ہے اس کے ماتحت ادارے پولیس اور اسی طرح کی کئی تنظیمیں ہوتی ہیں اور اس کے مسلح ہونے کی وجہ سے دس مسلح سپاہی دس ہزار عوام پر بھاری ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پاس حکومت کے عطا کردہ اختیارات ہوتے ہیں اور یہ مسلح ملازم قانون کے نام پر عوام پر حاوی ہوتے ہیں انھیں ''ضرورت کے وقت'' عوام پر گولیاں چلانے اور ان کی جانیں لینے کا اختیار ہوتا ہے، یہ اختیار قانون کی شکل میں ان مسلح گروہوں کے پاس ہوتا ہے اور ''ضرورت'' کے وقت خواہ ضرورت جائز اور منصفانہ ہو یا ناجائز غیر منصفانہ اسے استعمال کرتے ہیں اور اس اختیار کی وجہ سے نہتے عوام مارے جاتے ہیں۔
چونکہ یہ اموات قانون کے تحت ہوتی ہیں اس لیے ان کا کوئی محاسبہ نہیں ہوتا۔ کسانوں کی تحریک ہو یا مزدوروں کی ہڑتال یہ عوام کے ان مطالبات کے حوالے سے ہوتی ہیں جو ان کی زندگی کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ یہ ساری کوششیں اپنے مطالبات کی شکل میں ہوتی ہیں۔ مثلاً مزدور اپنی اجرتوں میں اضافے کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ مطالبہ ان کی جائز ضرورتوں کا حصہ ہوتا ہے۔ عوام کو دبا کر رکھنے عوام کو تقسیم کرنے کے لیے مختلف حوالوں سے ان کی علیحدہ شناخت بنائی گئی۔ یوں ان کی طاقت کو توڑا گیا۔
موجودہ انتظامی سسٹم میں اختیارات کا مرکز آفیسر ہوتے ہیں عوامی مفادات کا یہ تقاضا ہے کہ انتظامی مشینری کو عوام کی اہل کمیٹیوں کو تفویض کیا جائے اور تنازعات کے فیصلوں کا اختیار ان کمیٹیوں کو سونپا جائے چونکہ یہ کمیٹیاں عوامی نمایندوں پر مشتمل ہوں گی لہٰذا وہ کوئی ایسا حکم نہیں دیں گی جو عوام مزدوروں، کسانوں کے مفادات کے خلاف اور ظلم و جبر پر مبنی ہو۔ انتظامیہ ایک سپاہی سے لے کر آئی جی تک طاقت کے نشے میں چور ہوتے ہیں اگر ان پر عوامی کمیٹیوں کا اختیار ہو تو یہ طاقتیں طاقت کا غلط استعمال نہیں کرسکیں گی۔
بات بھارت میں کسان تحریک سے شروع ہوئی تھی اس حوالے سے بھارت کی کسان تحریک کو تاریخی قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس تحریک کو اب چار ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو رہا ہے۔ مودی کا شمار بھارت کی نچلی ذاتوں میں ہوتا ہے، لہذا اسے بھارت کی کسان تحریک کے پس منظر سے زیادہ واقفیت ہونا چاہیے، مودی بھارت کے ایک چھپرا ہوٹل میں باہر والے کی حیثیت سے کام کر چکا ہے، اسے غریب عوام کے مسائل اور مشکلات کا زیادہ بہتر علم ہوگا۔ اس پس منظر میں بھارتی کسانوں کی مشکلات اور مسائل کا نسبتاً زیادہ علم ہونا چاہیے، مودی جی ہزاروں خواتین، بچوں بوڑھوں کو سخت سردی میں آسمان کے نیچے اکڑتے اور سکڑتے دیکھ رہے ہیں لیکن اس انسان کو ان کی تکالیف کا ذرہ برابر احساس نہیں۔
بھارتی کسانوں کا تعلق پنجاب سے ہے اور پاکستان میں بھی کسانوں کا بڑا حصہ پنجاب سے تعلق رکھتا ہے۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں کسانوں کے غیر متنازعہ لیڈر چوہدری فتح محمد رہے ہیں ان کے علاوہ کسانوں کو منظم کرنے میں سی آر اسلم اور ان کے ساتھیوں کا بھی بڑا ہاتھ رہا ہے۔ بدقسمتی سے اب نہ پنجاب میں نہ سندھ یا خیبرپختونخوا میں کسان تحریکیں منظم رہیں۔ اب ناتجربہ کار لوگ پاکستانی کسانوں کی قیادت کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریکیں کھاد، بیج تک محدود ہیں۔
کسان مزارع سب جاگیردار طبقے کی پیداوار ہیں۔ کسان خواہ اس کا تعلق پاکستان سے ہو یا بھارت سے انتہائی غربت کے عالم میں زندگی گزار رہا ہے۔ ویسے تو عام کسانوں کے مطالبے کھاد، بیج وغیرہ تک محدود رہے ہیں لیکن ہشت نگر تحریک ایک الگ اور منفرد تحریک تھی ،بعدازاں پختونخوا میں بھی کسان تحریک ختم ہوگئی۔ اب کسان قیادت عموماً عمومی مراعات کو اپنے بڑے مطالبے کے طور پر پیش کر رہی ہیں ان تنظیموں کو اب پاکٹ یونین کی حیثیت حاصل ہے۔
پاکستان میں کئی بار زرعی اصلاحات کی گئیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی سندھ اور پنجاب میں جاگیردار ہزاروں ایکڑ زمین کے مالک ہیں۔