مشرف اور ساتھی وقار نہ دکھا سکے
جنرل پرویز مشرف کو میں ایک فوجی آمر ہی سمجھتا ہوں اور اپنی اس بات پر اب بھی قائم کہ آمرانہ نظام ملکوں کو...
جنرل پرویز مشرف کو میں ایک فوجی آمر ہی سمجھتا ہوں اور اپنی اس بات پر اب بھی قائم کہ آمرانہ نظام ملکوں کو سنوارا نہیں بگاڑا کرتے ہیں۔ میں لیکن عقلِ کل نہیں ہوں۔ جب سے جنرل مشرف کے خلاف قائم بغاوت والے مقدمہ سے ان کی ابتلاء کا وقت شروع ہوا مجھے بے تحاشا لوگوں نے ابلاغ کے تمام ذرایع کے ذریعے بہت لتاڑا۔ ان کی اکثریت نے الزام لگایا کہ شاید جنرل مشرف سے کسی ذاتی پرخاش کی بنا پر میں سیاستدانوں کے ''اصل کرتوت'' دیکھنے کے قابل ہی نہیں رہا۔ چند لوگوں کی طرف سے اتنا شدید ردعمل بھگتنے کی وجہ سے میں اس کالم میں ''خوئے غلامی'' کا ذکر کرنے پر مجبور ہوا۔ یہ ذکر کرتے ہوئے ایک بار پھر یہ دریافت بھی کیا کہ ہمارے سیاستدان پاکستان کے عوام کو فوجی آمریتوں کے مقابلے میں جمہوری عمل کے ذریعے ایک بہتر نظام نہ دے پائے۔
ان کی کوتاہیاں اور کمزوریاں مگر فوجی آمریت کا جواز ہرگز نہیں بنتیں۔ سیاسی عمل جاری رہے تو دلی میں ''عام آدمی پارٹی'' نمودار ہو جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں تحریک انصاف کی شاندار اُٹھان کا اصل سبب بھی وہ شعور تھا جو آزاد میڈیا اور جمہوری نظام کی بدولت ہمارے لوگوں میں بڑی تیزی سے پھیلا ہے۔ عمران خان اور ان کی جماعت کے بارے میں اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود مجھے اس بات کا بہت دُکھ ہے کہ وہ اور تحریک انصاف 11 مئی 2013ء کو نمایاں طور پر نظر آنے والے پیغامات کو پوری طرح سمجھ نہ پائے۔ بہت عرصہ ان کی سوئی انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی دہائی دینے پر اٹکی رہی۔ آج کل توجہ طور خم کے راستے افغانستان میں موجود نیٹو افواج کو جانے والی رسد روکنے کی طرف منتقل ہو گئی ہے۔ وہ جسے Big Picture کہا جاتا ہے بالکل نظر انداز کر دی گئی ہے۔
11 مئی 2013 کا اصل پیغام یہ تھا کہ پاکستان ایک نام نہاد ''زرعی'' لہذا ذہنی اور سماجی اعتبار سے پسماندہ ملک نہیں رہا۔ چھوٹے بڑے شہروں کی آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا ہے جس نے اپنی ذات اور ملک کی بے تحاشا فکر کرنے والا ایک بہت ہی متحرک متوسط طبقہ پیدا کیا ہے۔ یہ طبقہ ''نظام کہن''سے مطمئن نہیں۔ تبدیلی چاہتا ہے۔ معاشرے میں حقیقی تبدیلی مگر قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں جارحانہ تقاریر کے ذریعے پیدا نہیں کی جا سکتی۔ اس کا اصل اظہار زیادہ سے زیادہ اختیارات کی حامل مقامی حکومتوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
خیبرپختون خوا میں حکومت بنا لینے کے بعد تحریک انصاف کو اپنی پوری قوت ایک جدید بلدیاتی نظام قائم کرنے پر لگا دینا چاہیے تھی۔ وہ نظام قائم ہو کر اپنی برکتیں دکھانا شروع کر دیتا تو ہمارے باقی صوبوں کے عوام اپنی حکومتوں کو ایسا ہی نظام قائم کرنے پر مجبور کر دیتے۔ تحریک انصاف کے امکانات لٹ جانے کا ذکر یہاں ختم کرنے کے بعد میں جنرل مشرف کے موضوع پر لوٹتے ہوئے اطلاع آپ کو یہ دینا چاہتا ہوں کہ ان کی حمایت میں مجھے جلے بھنے پیغامات بھیجنے والوں کی بے پناہ اکثریت کا تعلق کسی ایک لسانی گروہ سے ہرگز نہیں تھی۔ پنجاب کے بعد سب سے زیادہ پیغامات مجھے سندھی بولنے والوں نے بھیجے۔ اپنے اس ذاتی تجربے کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں بڑی سنجیدگی سے یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہوں کہ جنرل مشرف کی حمایت میں بہت سخت الفاظ ادا کرنے کے بعد الطاف حسین صاحب نے اپنے ممدوح کو حقیقی معنوں میں کیا فائدہ پہنچایا ہے۔
جنرل صاحب کے والدین یقیناً دلی کی نہر والی حویلی میں موجود دو کمروں کے مکان سے ہجرت کے بعد پاکستان آئے تھے۔ سید مشرف الدین علی گڑھ کے ایک متحرک طالب علم بھی رہے تھے۔ وہ غلام احمد پرویز کے شدید معتقد تھے۔ کالج کے زمانے میں ان کے چند باغی سمجھے جانے والے ''انقلابیوں'' کے ساتھ بھی بڑے گہرے مراسم تھے۔ انگریزوں کے اس خطے سے چلے جانے کے بعد بھی ہماری ایجنسیوں نے ان مراسم کو فراموش نہ کیا۔ مرحوم بڑی شدت سے بلکہ یہ محسوس کیا کرتے کہ ان کی علی گڑھ کے زمانے کی سرگرمیاں ان کی وزارتِ خارجہ میں مناسب عہدے اور ترقیاں نہ ملنے کی اصل وجہ ہیں۔ سید مشرف الدین کے شکوے اور مشکلات اپنی جگہ مگر ان کے تینوں بیٹوں نے اپنے اپنے میدانوں میں اسی ملک میں رہتے ہوئے بہت نام کمایا۔
پرویز مشرف فوج میں گئے تو کافی Negative Reports کے باوجود ترقیاں پاتے بالآخر چیف آف آرمی اسٹاف بن گئے۔ جنرل محمود اور عزیز نے اصل 12اکتوبر کیا تھا۔ جنرل سعید الظفر نے جو اس دن فوج کے سب سے سینئر جنرل تھے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان تینوں جرنیلوں کا مشرف صاحب کے ساتھ کوئی نسلی اور لسانی تعلق نہ تھا۔ بیوروکریسی میں جنرل صاحب کے سب سے زیادہ وفادار اور تگڑے دوست طارق عزیز تھے اور سیاسی طور پر انھیں سب سے زیادہ کمک گجرات کے چوہدریوں نے فراہم کی۔ ان تمام لوگوں کی بھرپور معاونت کے ذریعے 9برس تک ''کن فیکون'' والے اختیارات کے حامل رہنے والے جنرل مشرف کو ابتلاء کی اس گھڑی میں صرف ایک لسانی گروہ کا نمایندہ بنا کر مظلوم دکھانا بڑی زیادتی کی بات ہے۔ الطاف حسین صاحب اگر جنرل مشرف کو واقعی ہی اپنا دوست گردانتے ہیں تو انھیں بغاوت کے مقدمے کے بارے میں وہ کچھ نہیں کہنا چاہیے تھا جو انھوں نے ببانگ دہل کہا۔ فیض احمد فیضؔ کا اصرار رہا کہ:
''جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے''
جنرل مشرف کے لیے ا پنے دل میں کوئی دوستانہ جذبات نہ رکھنے کے باوجود میں انھیں اور ان کے دوستوں کو ابتلاء کی اس گھڑی میں با وقار دیکھنا چاہتا تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ ایسے تاریخی لمحات میں انھوں نے وہ Grace نہ دکھائی جس کی میں توقع کر رہا تھا۔
ان کی کوتاہیاں اور کمزوریاں مگر فوجی آمریت کا جواز ہرگز نہیں بنتیں۔ سیاسی عمل جاری رہے تو دلی میں ''عام آدمی پارٹی'' نمودار ہو جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں تحریک انصاف کی شاندار اُٹھان کا اصل سبب بھی وہ شعور تھا جو آزاد میڈیا اور جمہوری نظام کی بدولت ہمارے لوگوں میں بڑی تیزی سے پھیلا ہے۔ عمران خان اور ان کی جماعت کے بارے میں اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود مجھے اس بات کا بہت دُکھ ہے کہ وہ اور تحریک انصاف 11 مئی 2013ء کو نمایاں طور پر نظر آنے والے پیغامات کو پوری طرح سمجھ نہ پائے۔ بہت عرصہ ان کی سوئی انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی دہائی دینے پر اٹکی رہی۔ آج کل توجہ طور خم کے راستے افغانستان میں موجود نیٹو افواج کو جانے والی رسد روکنے کی طرف منتقل ہو گئی ہے۔ وہ جسے Big Picture کہا جاتا ہے بالکل نظر انداز کر دی گئی ہے۔
11 مئی 2013 کا اصل پیغام یہ تھا کہ پاکستان ایک نام نہاد ''زرعی'' لہذا ذہنی اور سماجی اعتبار سے پسماندہ ملک نہیں رہا۔ چھوٹے بڑے شہروں کی آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا ہے جس نے اپنی ذات اور ملک کی بے تحاشا فکر کرنے والا ایک بہت ہی متحرک متوسط طبقہ پیدا کیا ہے۔ یہ طبقہ ''نظام کہن''سے مطمئن نہیں۔ تبدیلی چاہتا ہے۔ معاشرے میں حقیقی تبدیلی مگر قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں جارحانہ تقاریر کے ذریعے پیدا نہیں کی جا سکتی۔ اس کا اصل اظہار زیادہ سے زیادہ اختیارات کی حامل مقامی حکومتوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
خیبرپختون خوا میں حکومت بنا لینے کے بعد تحریک انصاف کو اپنی پوری قوت ایک جدید بلدیاتی نظام قائم کرنے پر لگا دینا چاہیے تھی۔ وہ نظام قائم ہو کر اپنی برکتیں دکھانا شروع کر دیتا تو ہمارے باقی صوبوں کے عوام اپنی حکومتوں کو ایسا ہی نظام قائم کرنے پر مجبور کر دیتے۔ تحریک انصاف کے امکانات لٹ جانے کا ذکر یہاں ختم کرنے کے بعد میں جنرل مشرف کے موضوع پر لوٹتے ہوئے اطلاع آپ کو یہ دینا چاہتا ہوں کہ ان کی حمایت میں مجھے جلے بھنے پیغامات بھیجنے والوں کی بے پناہ اکثریت کا تعلق کسی ایک لسانی گروہ سے ہرگز نہیں تھی۔ پنجاب کے بعد سب سے زیادہ پیغامات مجھے سندھی بولنے والوں نے بھیجے۔ اپنے اس ذاتی تجربے کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں بڑی سنجیدگی سے یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہوں کہ جنرل مشرف کی حمایت میں بہت سخت الفاظ ادا کرنے کے بعد الطاف حسین صاحب نے اپنے ممدوح کو حقیقی معنوں میں کیا فائدہ پہنچایا ہے۔
جنرل صاحب کے والدین یقیناً دلی کی نہر والی حویلی میں موجود دو کمروں کے مکان سے ہجرت کے بعد پاکستان آئے تھے۔ سید مشرف الدین علی گڑھ کے ایک متحرک طالب علم بھی رہے تھے۔ وہ غلام احمد پرویز کے شدید معتقد تھے۔ کالج کے زمانے میں ان کے چند باغی سمجھے جانے والے ''انقلابیوں'' کے ساتھ بھی بڑے گہرے مراسم تھے۔ انگریزوں کے اس خطے سے چلے جانے کے بعد بھی ہماری ایجنسیوں نے ان مراسم کو فراموش نہ کیا۔ مرحوم بڑی شدت سے بلکہ یہ محسوس کیا کرتے کہ ان کی علی گڑھ کے زمانے کی سرگرمیاں ان کی وزارتِ خارجہ میں مناسب عہدے اور ترقیاں نہ ملنے کی اصل وجہ ہیں۔ سید مشرف الدین کے شکوے اور مشکلات اپنی جگہ مگر ان کے تینوں بیٹوں نے اپنے اپنے میدانوں میں اسی ملک میں رہتے ہوئے بہت نام کمایا۔
پرویز مشرف فوج میں گئے تو کافی Negative Reports کے باوجود ترقیاں پاتے بالآخر چیف آف آرمی اسٹاف بن گئے۔ جنرل محمود اور عزیز نے اصل 12اکتوبر کیا تھا۔ جنرل سعید الظفر نے جو اس دن فوج کے سب سے سینئر جنرل تھے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان تینوں جرنیلوں کا مشرف صاحب کے ساتھ کوئی نسلی اور لسانی تعلق نہ تھا۔ بیوروکریسی میں جنرل صاحب کے سب سے زیادہ وفادار اور تگڑے دوست طارق عزیز تھے اور سیاسی طور پر انھیں سب سے زیادہ کمک گجرات کے چوہدریوں نے فراہم کی۔ ان تمام لوگوں کی بھرپور معاونت کے ذریعے 9برس تک ''کن فیکون'' والے اختیارات کے حامل رہنے والے جنرل مشرف کو ابتلاء کی اس گھڑی میں صرف ایک لسانی گروہ کا نمایندہ بنا کر مظلوم دکھانا بڑی زیادتی کی بات ہے۔ الطاف حسین صاحب اگر جنرل مشرف کو واقعی ہی اپنا دوست گردانتے ہیں تو انھیں بغاوت کے مقدمے کے بارے میں وہ کچھ نہیں کہنا چاہیے تھا جو انھوں نے ببانگ دہل کہا۔ فیض احمد فیضؔ کا اصرار رہا کہ:
''جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے''
جنرل مشرف کے لیے ا پنے دل میں کوئی دوستانہ جذبات نہ رکھنے کے باوجود میں انھیں اور ان کے دوستوں کو ابتلاء کی اس گھڑی میں با وقار دیکھنا چاہتا تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ ایسے تاریخی لمحات میں انھوں نے وہ Grace نہ دکھائی جس کی میں توقع کر رہا تھا۔