’’داستاں ختم ہونے والی ہے‘
میری طرح اخبار پڑھنے کی عادت آپ کو بھی ہے، اخباروں میں درج کالموں اور مضامین میں رنگ بھرنے کے لیے کبھی ...
میری طرح اخبار پڑھنے کی عادت آپ کو بھی ہے، اخباروں میں درج کالموں اور مضامین میں رنگ بھرنے کے لیے کبھی شعر بھی لکھے جاتے ہیں۔ ان میں سے جو شعر مجھے پسند آتا ہے، میں اس کو نقل کر لیتا ہوں۔ ایسے ہی چند شعر پیش کر رہا ہوں۔ حالات حاضرہ اس قدر پریشان کن ہو گئے ہیں کہ اب تو سب سے مظلوم خود ہمارا ملک بنتا جا رہا ہے۔ معلوم نہیں بعض پاکستانیوں کو اس پر کیا غصہ ہے کہ وہ اسے پاکستان پر نکالنے کے لیے کوئی بہانہ تلاش کرتے رہتے ہیں۔ یوں کہیں کہ ان کی ہمتیں اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ اب اس کے وجود سے ہی بے زاری کا برملا اعلان کیا جا رہا ہے۔ صرف 66 برس میں ہی ہم اس ملک سے تنگ آ گئے ہیں جس میں خدا نے تو بہت کچھ جمع کر دیا لیکن ہم میں نعمتوں کے ان ذخیروں اور گل و گلزار کو سمیٹنے کی ہمت ہی نہیں رہی۔ بات شعر کی کر رہا ہوں گھبراہٹ میں کچھ افاقہ بعض اوقات شعر و شاعری سے بھی ہوتا ہے۔
ہمارے ایک شاعر جان ایلیا کا شعر ہے، پتہ نہیں اس کا مخاطب کوئی شخص یا کوئی وطن ہے
داستاں ختم ہونے والی ہے تم مری آخری محبت ہو
عمر خیام کی ایک رباعی تنگ کر رہی ہے۔ میرے خیال میں صرف ترجمہ ہی مناسب ہو گا جہاں اب اردو بھی اجنبی بنتی جا رہی ہے وہاں فارسی کون سمجھے گا۔
اٹھو اور آئو، آئو میرے دل کے لیے
اب اپنے حسن و جمال سے میری مشکل حل کرو
میرے لیے مئے کا ایک پیالہ (کوزہ) لے آئو
کہ میں اسے پی جائوں
اس سے پہلے کہ میری مٹی سے پیالے بننے لگیں
...............
سرشام کتنی امید تھی' کیسا غبار تھا
مگر اس غبار میں اک سر بریدہ سوار تھا
...............
ہمارے شوق کے آسودہ و خوشحال ہونے تک
تمہارے عارض و گیسو کا سودا ہو چکا ہو گا
...............
زمیں پر آسماں رکھا ہوا ہے
مجھے بھی درمیاں رکھا ہوا ہے
...............
اخبار میں اک گمشدہ انسان کی ہے تصویر
آئینے میں دیکھا ہے کہیں میں تو نہیں ہوں
...............
جب سے دستار فضیلت پائی ہے دربار میں
جانے کیوں شانوں پہ اپنا سر نہیں لگتا مجھے
...............
اچھا ہوا کہ زندہ نہیں ہیں مرے بزرگ
حاکم بنا ہوا ہے جو کارندہ تھا مرا
...............
ساری عمر اسی خواہش میں گزری ہے
دستک ہو گی اور دروازہ کھولوں گا
...............
رات بہت ہے تم چاہو تو سو جائو
میرا کیا ہے میں دن میں بھی سو لوں گا
...............
ذرا سوچ کر مجھے خرچ کر میں بہت کم ہوں بچا ہوا
...............
ایک محبت ہی کافی ہے باقی عمر اضافی ہے
...............
وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لے میرا
میں اس کے تاج کی قیمت لگا کے آیا تھا
...............
بلوچستان کے شہر بھنھور کو کون نہیں جانتا، اس شہر کی سسّی ایک بلوچ آوارہ گرد پنوں کو دل دے بیٹھی پھر اس کے ساتھ جو ہوا اس کو پنجابی لوک گیت میں یوں بیان کیا گیا ہے۔
شہر بھنبھور دی کڑیو تسی نک وچہ نتھ نہ پائیو
میں بھل گئی تسی بھل نہ جائیو
یاری نال بلوچ نہ لائیو
...............
خیرات کا مجھے لالچ نہیں ظفرؔ
میں اس گلی میں صرف صدا کرنے آیا ہوں
...............
یہ رستے راہ رئوں سے بھاگتے ہیں
یہاں چھپ چھپ کے چلتی ہیں ہوائیں
...............
لائی ہے زندگی مری کس موڑ پر مجھے
آنکھیں ہیں اور کچھ نظر آتا نہیں مجھے
...............
ہر ایک شخص اسی کی دہائی دیتا ہے
بڑا عجیب سا منظر دکھائی دیتا ہے
محل کے سامنے اک شور ہے قیامت کا
امیر شہر کو اونچا سنائی دیتا ہے
...............
پھولوں کو بکھیرا تو چراغوں کو بجھایا
اب ڈھونڈتی پھرتی ہے ہوا اور کسی کو
...............
ان لوگوں کی بات کرو جو عشق میں خوش انجام ہوئے
نجد میں قیس' یہاں پر انشاؔء خوار ہوئے ناکام ہوئے
...............
تاک میں دشمن بھی تھے اور پشت پر احباب بھی
پہلا پتھر کس نے مارا' یہ کہانی پھر سہی
...............
لو دے اٹھیں پھسلتی ہوئی انگلیاں ظفر
وہ آگ تھی کھلے ہوئے ریشم کے تھان میں
...............
لگا کے آگ میں آیا تھا نیم شب جس کو
ہوئی جو صبح تو دیکھا' مکان میرا تھا
...............
رہتا ہے اک ملول سا چہرہ پڑوس میں
اتنا نہ تیز کیجیے' ڈھولک کی تھاپ کو
...............
پلٹ کے دیکھا تو کچھ بھی نہ تھا ہوا کے سوا
جو میرے ساتھ تھے جانے کدھر گئے چپ چاپ
...............
یہ بعد میں کھلے گا کہ کس کس کا خوں ہوا
ہر اک بیان ختم' عدالت تمام شد
...............
شعروں میں اب جہاد ہے روزہ نماز ہے
اردو غزل کے جتنے تھے کفار مر گئے
...............
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشاں ہوں میں
روز اک موت نئے طرز کی ایجاد کرے
...............
شہتوت کا رس تھا نہ غزالوں کے پرے تھے
اس بار میں جشن میں تاخیر سے پہنچا
...............
کیا رات تھی بدلے گئے جب نام ہمارے
پھر صبح کو خیمے تھے' نہ خدام ہمارے
...............
فضا میں شمشیر ایک لمحہ دکھائی دے گی
پھر لہو میں مزا بہت دیر تک رہے گا
...............
نجات کے لیے روز سیاہ مانگتی ہے
زمیں اہل وطن سے پناہ مانگتی ہے
...............
انا کی جنگ ہم جیت تو گئے لیکن
پھر اس کے بعد بہت دیر تک نڈھال رہے
...............
کل تھکے ہارے پرندوں نے نصیحت کی مجھے
شام ڈھل جائے تو محسنؔ تم بھی گھر جایا کرو
...............
کسی دیوار سے ٹکڑا یا نہ در سے گزرا
وقت' حیرت ہے خدا جانے کدھر سے گزرا
...............
پھر جو اس شہر میں آنا ہو تو ملنا مجھ سے
گھر کا آسان پتہ ہے کہ گھر ہے ہی نہیں
...............
یہ پہاڑوں کا فیض ہے ورنہ کون دیتا ہے دوسری آواز
...............
بادشاہ اپنا ہے دراصل کوئی اور ظفرؔ
اور یہ ساری رعایا بھی کسی اور کی ہے
...............
سیل زماں کے ایک تھپیڑ ے کی دیر تھی
تخت و کلاہ و قصر کے سب سلسلے گئے
...............
مری حیات مرے ساتھ کیوں بسر نہ ہوئی
سفید بال ہوئے اور مجھے خبر نہ ہوئی
...............
اے رہبرو! تم اسے آئینہ دکھا دو دیوانہ خود اپنا ہی پتہ پوچھ رہا ہے
...............
چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار
میں خودکو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوتے
...............
ہنگامۂ دنیا کا حاصل ہیں سو دو آنسو
اک اشک محبت ہے اک اشک ندامت ہے
...............
اب نہیں کوئی بات خطرے کی اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
...............
مکاں سے کیا مجھے لینا' مکاں تم کو مبارک ہو
مگر یہ گھاس والا ریشمی قالین میرا ہے
...............
منزل الگ تراشی' رشتہ الگ بنایا پھر ڈوبنے کو ہم نے دریا الگ بنایا