ایک شہرِ نا پرساں کا پُرسا
لیجیے ، نئے سال نے طلوع ہوتے ہی اسلام آباد میں اہل سنت والجماعت کے دو لیڈروں کے بہیمانہ قتل کا سانحہ دیکھ لیا ہے۔
لیجیے ، نئے سال نے طلوع ہوتے ہی اسلام آباد میں اہل سنت والجماعت کے دو لیڈروں کے بہیمانہ قتل کا سانحہ دیکھ لیا ہے۔ اپنی لوکیشن اور ماحول کے اعتبار سے اس شہر کو کبھی ''شہرِ نگاراں'' سے موسوم کیا جاتا تھا۔ بلند اور سرسبز پہاڑوں میں گھِرا، قدرتی جنگلات میں کھڑا، سکون سے بھرا یہ شہر کبھی پُرامن بھی تھا، آلائشوں اور آلودگیوں سے پاک، جرائم سے دور ۔۔۔ مگر اب سب کچھ یا دِ ماضی بن کر رہ گیا ہے۔ اجنبیوں کی گرفت میں آیا یہ شہر اب اپنے دیس میں رہنے والوں کے لیے مکمل اجنبی بن چکا ہے۔ کوئی لمحہ ایسا نہیں جاتا جب دن کے اجالوں اور شب کی تاریکیوں میں باہر نکلتے وقت ہر شخص گھبراتا اور اپنے خدا سے اپنی اور گھروالوں کی سلامتی کے لیے دعائیں نہ مانگتا ہو۔ کسی کو معلوم نہیں کہ گلی کا موڑ مُڑتے ہی اسے کون دبوچ لے گا؟ مال تو جاتا ہی رہے گا، عزت و حُرمت بھی پامال کردی جائے گی۔ اس شہر کا نام ''اسلام آباد'' ہے ۔
آبادی کے بوجھ، تعمیرات کے بے جا پھیلاؤ اور کیپٹل پولیس کے بعض اہل کاروں کی بدعنوانیوں نے اس کی روح کو کچل کر رکھ دیا ہے۔ اسلام آباد پولیس کا ''تاریخی ریکارڈ'' ہے کہ کسی بھی چھوٹے بڑے پولیس اہل کار کو کڑی محکمانہ سزا نہیں دی جاسکی ہے۔ وجہ؟ اس لیے کہ جنھیں سزائیں دینے کا اختیار ہے، ان کے اپنے ہاتھ صاف نہیں ہیں۔تو پھر پہلا پتھر کون پھینکے گا؟ کیپٹل پولیس میں کالی بھیڑوں پر گہری نظر رکھنے اور کرپٹ عناصر کو پولیس فورس سے چھانٹنے کے لیے ایک ''پروفیشنل اسٹینڈرڈ یونٹ'' قائم کیا گیا۔ اس کی سربراہی اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) کے سپرد کی گئی لیکن یہ ادارہ بھی وہ کارکردگی نہیں دکھا سکا جو اسے دکھانی چاہیے ہے۔ اس حوالے سے 25نومبر 2013کو ایک رپورٹ شایع ہوئی ہے کہ اے آئی جی صاحب ان افسران میں شامل ہیں جنہوں نے ، عدالت کے ایک واضح فیصلے کے برعکس، نیشنل پولیس فاؤنڈیشن ہاؤسنگ اسکیم میں دو سے زائد پلاٹ حاصل کیے ہیں۔
اس شہر نگاراں، جسے بوجوہ شہر ناپرساں بنا دیا گیا ہے، نے وزارتِ اطلاعات کے ایک سینیئر اور دیانتدار افسر جناب محمد سلیم بیگ کو نئے سال کی آمد کے ساتھ ہی ایک نئے انداز میں سلامی دی ہے۔ سلیم بیگ صاحب، جو گذشتہ حکومت میں پی آئی او بھی رہے اور دو وزرائے اعظموں کے معتمد افسر بھی خیال کیے جاتے ہیں کہ یہ ریلیشنز آخر کار حکومت ہی کی خدمت کے لیے بروئے کار آتے ہیں۔
یہ شہر ناپرساں وطن عزیز کا واحد شہر ہے جو براہ راست وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان صاحب کے کنٹرول میں آتا ہے۔ شہر کے باسیوں نے ان سے بلند توقعات وابستہ کررکھی ہیں۔ اسلام آباد کی سلامتی اور امن کے سب سے بڑے دشمن یہاں بسنے والے غیر قانونی افغان مہاجرین ہیں جنہوں نے اب قبضہ گروپوں کی شکل اختیار کر لی ہے۔ وہ ریڑھی بانوں کے بھی از خود نمبردار بن کر وفاقی دارالحکومت کے مزدوروں کو دھمکا بھی رہے ہیں اور ان سے زبردستی بھتہ بھی وصول کرتے ہیں۔ اس ضمن میں اسلام آباد کے مضافات میں کئی بار خونریز تصادم ہوچکے ہیں۔ وزیرداخلہ بھی ان حقائق سے باخبر ہوں گے۔ وہ خود بھی جانتے ہیں کہ غیر قانونی اور غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین اسلام آباد کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ (اس میں گذشتہ حکومتوں کی مجرمانہ غفلتیں بھی شامل ہیں کہ انھوں نے ان مہاجرین پر کسی قسم کا کوئی چیک نہ رکھا) اس عذاب سے ابتدائی طور پر نجات حاصل کرنے کے لیے چوہدری نثار علی خان نے اقتدار میں آتے ہی حکم دیا تھا کہ اسلام آباد میں مقیم جملہ افغان مہاجرین کے بارے میں اعداد و شمار اکٹھے کیے جائیں۔ نومبر 2013ء کے آخری ہفتے ایک رپورٹ چوہدری صاحب کی خدمت میں پیش کردی گئی جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ اسلام آباد کی صرف کچی آبادیوں میں بسنے والے غیر قانونی افغان مہاجرین کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔ اسلام آباد کے پوش علاقوں میں ان کی تعداد کتنی ہوگی، یہ ابھی راز ہے۔ اب دیکھتے ہیں وزیرداخلہ صاحب اس عفریت سے کیسے نمٹتے ہیں۔ ان افغان مہاجرین نے کیسا کیسا غدر مچارکھا ہے، اس کی ایک ہلکی سی تصویر 25نومبر 2013ء کو ایک معاصر نے پیش کی ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت افغانستان میں ایک ایسا سول جج (نور احمد ولد حبیب الرحمن) بھی ملازمت کررہا ہے جو اسلام آباد میں کئی برس غیر قانونی طور پر افغان مہاجر بن کر مقیم رہا اور اس کے پاس پاکستان کا قومی شناختی کارڈ بھی ہے۔ یہ غیر قانونی حرکت اس نے کیسے کی، یہ ہمارے ''نادرا'' کے لیے شرم کا مقام ہے۔