خود کش حملے اور فتوی
خودکُش بم بارخود ہلاک ہوتا ہےاوراپنے ساتھ کچھ افراد کولے مرتا ہے لیکن کلاشنکوف اورایٹم بم کی ہلاکتوں کواس سے کیا نسبت؟
2013 خود کش اور فدائی حملوں کے لحاظ سے خراب ترین رہا۔ ''کنفلکٹ مانیٹرنگ سینٹر'' کے مطابق اِس برس پاکستان میں 47 خود کُش حملے ہوئے۔ اِن حملوں میں 701 ہلاکتیں ہوئیں۔ اعداد و شمار کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں451 عام شہری تھے،129 قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کار، 6 حکومتی رضا کار اور 115 متشدد ہلاک ہوئے۔ اِن حملوں میں 1582 افراد زخمی ہوئے۔1347 عام شہری،225 قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کار اور10 متشدد زخمی ہوئے۔
پہلا خود کُش حملہ پاکستان میں 2002 میں ہوا تھا۔ جب سے اب تک 376 خود کُش حملے ہو چکے ہیں۔ گزشتہ 11 برس کے دوران ہونے والے اِن تمام تر خود کُش حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 5714 بتائی جاتی ہے۔ 9/11 سے قبل پاکستان میں خود کُش حملے نہیں ہوا کرتے تھے۔ خود کُش حملوں میں تیزی لال مسجد آپریشن (2007 ) کے بعد دیکھنے میں آئی۔ اس سے قبل کبھی بھی خودکُش حملوں کے اعداد و شمار نے دہائی کے ہندسے نہیں چھوئے تھے۔
برطانوی میڈیکل جنرل ''لینسیٹ'' میں شایع ہونے والے ایک مطالعے کے مطابق عراق میں 2003 میں جب سے جنگ چھڑی ہے 12 ہزار عام شہری خودکُش حملوں سے ہلاک ہوئے۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد 30 ہزار سے زائد ہے۔خود کُش حملے کئی حوالوں سے ایک اہم موضوع ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک سعودی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے سعودی مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز آل شیخ نے اِس بارے میں فرمایا ''خود کُش حملہ ایک سنگین جرم ہے۔ اِس طرح کی کارروائیاں وہ لوگ کرتے ہیں جنھیں جہنم میں جانے کی بہت جلدی ہوتی ہے۔'' آپ نے فرمایا کہ خود کُش حملے مسلمان نوجوان طبقے کو گمراہ اور تباہ کرنے کی گھناؤنی سازش ہے۔ دینِ اسلام تو کسی ایک شخص کی جانب سے بھی خودکُشی کو حرا م قرار دیتا ہے، تو پھر خود کُش حملے کِس طرح جائز ہو سکتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ خودکُش حملہ آور نا صرف مسلمان بلکہ تمام انسانیت کا دشمن ہے، اور ایسا وہی کرتا ہے جسے جہنم میں واصل ہونے کی بہت زیادہ جلدی ہوتی ہے۔ سعودی مفتی اعظم اس سے قبل بھی اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے عام شہریوں کی ہلاکت کو غیر اسلامی قرار دے چکے ہیں ۔ خطبہ ئِ حج کے موقعے پر بھی آپ نے اس کی مذمت فرمائی تھی۔
سعودی مفتیِ اعظم کی رائے اور فتوے کے آگے سرِ تسلیم خم ہے۔ علمائے کرام اور مفتیانِ عظام کی آراء سے سرتابی مسلمانوں کی سرشت ہی میں نہیں۔ یقینی طور پر یہ رائے بھی سر آنکھوں پر۔ واقعہ یہ ہے کہ خود کشی کے اسلام میں حرام ہونے کے بارے میں کبھی بھی مسلمانوں کے درمیان دو رائیں نہیں پائی گئیں۔ یہ بات ہر خاص و عام مسلمان جانتا اور مانتا ہے۔ ہمیں بھی تسلیم ہے۔ یہاں تک کہ یہ امر غیر مسلموں پر بھی عیاں ہے۔ مثال کے طور پر ''سی این این'' 14 فروری 2013 کو یونی ورسٹی اوف الباما کے ''کرمنل جسٹس'' کے پروفیسر ''ایڈم لینک فورڈ'' کا مضمون شایع کرتا ہے۔ عنوان ہے ''دی ٹُرتھ اباؤٹ سوسائڈ بمبارز'' اس مضمون میں پروفیسر واضح طور پر بیان کرتے ہیں کہ اسلام میں خودکشی کی کوئی گنجائش نہیں۔ مختلف فکری حوالوں کے علاوہ پروفیسر اپنے مضمون کے آخر میں سورہ نساء کی آیات 29-30 کا انگریزی ترجمہ درج کرتے ہیں۔ اسی موضوع پر پروفیسر ایڈم کی ایک کتاب''دا مِتھ اوف مارٹرڈم'' بھی شایع ہو چکی ہے۔ آپ کی کتاب اس عمومی خیال سے ہٹ کر ہے کہ خود کُش بم بار شوقِ شہادت میں یا جنت کے حصول کے لیے خود کو ختم کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ آپ کا کہنا ہے کہ سچائی یہ نہیں۔ بلکہ سچائی یہ ہے کہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ خود کُشی حرام ہے۔ خود کُش بم بار پروفیسر کے مطالعات اور تحقیق کے مطابق وہ افراد ہوتے ہیں جن میں مزاجاً خود کُشی کا رجحان پایا جاتا ہے۔ تفصیلات متعلقہ کتاب یا مضمون میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔
سعودی مفتی اعظم، دیگر علمائے کرام، ماہرینِ جُرمیات و ماہرینِ نفسیات کی آرا سے ہمیں قطعی انکار نہیں۔ لیکن ہم چند اور چیزیں بھی سمجھنا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک یہ کہ کوئی بھی خود کُش بم بار بغیر بم باندھے، بغیر بارود استعمال کیے تو پھٹ نہیں سکتا۔ تو کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اور مفتیان ِ عظام ان اسلحہ سازوں، اور بارود کی تجارت کرنے والوں کے بارے میں؟ اُن تمام ممالک کے بارے میں جنھوں نے اس تجارت کی اجازت دے رکھی ہے۔ وہ جنت میں جائیں گے یا جہنم میں؟ دنیا بھر میں80 فی صد سے زائد اسلحہ سلامتی کونسل کے 5 مستقل رُکن ممالک میں تیار ہوتا ہے۔ ہمیں امن کا سبق پڑھایا جاتا ہے خود اسلحہ بیچتے ہیں۔ اِن کے بارے میں کیا حکم ہے؟ نیز جدید نفسیات اس بارے میں کیا حکم لگاتی ہے؟
لیفٹینٹ جنرل میخائل ٹیموفی وِک کلاشن کوف (10نومبر 1919 تا 23 دسمبر2013) ایک روسی جنرل اور ہتھیار ساز تھے۔ آپ بدنام ِ زمانہ رائفل اے کے 47 المعروف کلاشن کوف کے خالق تھے۔ اس مہلک رائفل کے علاوہ آپ نے اے کے ایم، اے کے74، اور پی کے مشین گن بھی بنائی۔ دنیا بھر میں دہشت گردی کی وارداتوں اور انسانی ہلاکتوں میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی رائفل اے کے 47 یاکلاشن کوف ہی ہے۔ یہ 2002 کی بات ہے، جب ''دی گارجئین'' کی برلن میں نامہ نگار سے گفتگو کرتے ہوئے میخائل کلاشن کوف نے اپنے کیے پر دکھ اور پشیمانی کا اظہار کیا۔ دی گارجئین نے منگل 30 جولائی2002کو یہ شایع کیا ہے، میخائل نے کہا ''کاش میں نے اے کے 47 کے بجائے کوئی ایسی مشین ایجاد کی ہوتی جو انسانوں کے فائدے کی ہوتی۔ کاش میں نے کسانوں کے کام آنے والی کوئی مشین بنائی ہوتی'' میخائل کلاشن کوف کا کچھ ہی دن قبل 94 برس کی عمر میں انتقال ہوا ہے۔البرٹ آئن اسٹائن، آپ سے کون واقف نہیں۔
آپ ایٹم بم کے خالق عظیم سائنس دان ہیں۔ ٹیڈ مورگن نے امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کی سوانح ''ایف ڈی آر'' لکھی۔ یہ کتاب 1985 میں سائمن اینڈ سُشر نے شایع کی تھی۔ ٹیڈ مورگن اس کتاب میں آئن اسٹائن کے حوالے سے بتاتا ہے کہ معروف سائنس دان کو پشیمانی تھی کہ انھوں نے ایٹم بم کے استعمال کی اجازت کیوں دی۔ وہ آئن اسٹائن کے بارے میں لکھتا ہے کہ ان کا کہنا تھا کہ ''میں نے اپنی زندگی میں ایک بڑی غلطی کی، اور وہ یہ تھی کہ صدر فرینکلن کو ایٹم بم بنانے کے بارے میں خط لکھا''۔ گویا ہمارے محترم سائنس دان کو اپنی ایجاد اور اپنی سوچ پر کوئی پشیمانی نہیں انھیں صرف خط لکھنے پر پشیمانی ہے۔ بلکہ اِس میں بھی اُن کی رائے ہے کہ وہ بم نہ بناتے تو جرمن بنا لیتے۔
ایک خود کُش بم بار، خود ہلاک ہوتا ہے اور اپنے ساتھ کچھ افراد کو لے مرتا ہے۔ لیکن کلاشن کوف اور ایٹم بم کی ہلاکتوں کو اس سے کیا نسبت؟ کارل سیگان کہتا ہے کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے پیٹرول سے بھرے کمرے میں بیٹھے دو افراد سیکڑوں کی تعداد میں دیا سلائیاں جمع کرنے لگیں۔ ہم مفتی صاحبان کی رائے سے سرتابی کی مجال نہیں رکھتے ہم بھی خود کُشی کو حرام اور خود کُش بمبار کو غلط کہتے ہیں۔ لیکن ہماری سعودی مفتیِ اعظم اور دیگر مفتیانِ عظام سے التماس ہے کہ ہمیں یہ بھی بتائیں کہ ایٹم بم، نیپام بم، راکٹ، ڈرون اور اسلحہ اور گولا بارود بنانے والی یہ سائنس اور یہ سائنس دان، ان کے پشتی بان افراد، ادارے اور ممالک یہ سب جہنمی ہیں یا جنت میں جائیں گے؟ہماری عیسائی اور یہودی علماء سے بھی التماس ہے اپنی اپنی تعلیمات کے حوالے سے عوام کو اپنی رائے سے آگاہ فرمائیں۔ ہندو، جین مت اور عظیم بدھا کی کیا تعلیمات ہیں وہ بھی سامنے آنی چاہیے ہیں۔ خدارا حضرات چند فتاوی اور ...!