میانمار میں فائرنگ سے7 افراد کی ہلاکت ایمنسٹی کا فوج پر قتل عام کا الزام
اقوام متحدہ نے میانمار فوج سے پرامن مظاہرین کے جواب میں تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا
میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف جاری پرامن مظاہروں پر سیکیورٹی اہل کاروں کی فائرنگ سے اب تک 7 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی جانب سے میانمار کی فوج سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ پرامن مظاہرین کے جواب میں انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا جائے تاہم اب ایمنسٹی انٹرنیشنل نے الزام لگایا ہے کہ ملٹری پرامن مظاہرین کے خلاف جنگی حربے استعمال کررہی ہے۔
رپورٹس کے مطابق جمعرات کو میااِنگ کے علاقے میں ایک مظاہرے پر سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں 6 افراد ہلاک ہو گئے تھے جب کہ ایک شخص یانگون کے ضلع شمالی ڈیگون میں مارا گیا، سڑک پر خون میں لت پت پڑے ایک شخص کی تصاویر فیس بک پر بھی پوسٹ کی گئیں۔
سیاسی قیدیوں کے ایک مشاورتی گروپ نے کہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز جاری کریک ڈاؤن میں اب تک 60 مظاہرین کو ہلاک اور 2 ہزار کو گرفتار کر چکی ہیں۔
دوسری جانب فوج اپنی بغاوت کے لیے یہ جواز پیش کر رہی ہے کہ آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے فراڈ کر کے انتخابات جیتے تاہم الیکٹورل کمیشن اس دعوے کو مسترد کر چکا ہے۔
فوجی ترجمان بریگیڈیئر جنرل زا مِن ٹون نے جمعرات کو دارالحکومت میں ایک نیوز کانفرنس میں آنگ سان سوچی سمیت میانمار کے صدر اور کابینہ وزرا پر کرپشن کے الزامات بھی لگائے، تاہم وہ کوئی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے.
واضح رہے کہ فوج نے یکم فروری کو آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا جس پر ملک بھر میں بڑے مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی جانب سے میانمار کی فوج سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ پرامن مظاہرین کے جواب میں انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا جائے تاہم اب ایمنسٹی انٹرنیشنل نے الزام لگایا ہے کہ ملٹری پرامن مظاہرین کے خلاف جنگی حربے استعمال کررہی ہے۔
رپورٹس کے مطابق جمعرات کو میااِنگ کے علاقے میں ایک مظاہرے پر سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں 6 افراد ہلاک ہو گئے تھے جب کہ ایک شخص یانگون کے ضلع شمالی ڈیگون میں مارا گیا، سڑک پر خون میں لت پت پڑے ایک شخص کی تصاویر فیس بک پر بھی پوسٹ کی گئیں۔
سیاسی قیدیوں کے ایک مشاورتی گروپ نے کہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز جاری کریک ڈاؤن میں اب تک 60 مظاہرین کو ہلاک اور 2 ہزار کو گرفتار کر چکی ہیں۔
دوسری جانب فوج اپنی بغاوت کے لیے یہ جواز پیش کر رہی ہے کہ آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے فراڈ کر کے انتخابات جیتے تاہم الیکٹورل کمیشن اس دعوے کو مسترد کر چکا ہے۔
فوجی ترجمان بریگیڈیئر جنرل زا مِن ٹون نے جمعرات کو دارالحکومت میں ایک نیوز کانفرنس میں آنگ سان سوچی سمیت میانمار کے صدر اور کابینہ وزرا پر کرپشن کے الزامات بھی لگائے، تاہم وہ کوئی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے.
واضح رہے کہ فوج نے یکم فروری کو آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا جس پر ملک بھر میں بڑے مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔