سعودی عرب نے حوثیوں کے بڑھتے حملوں پر دنیا کو تیل کے بحران سے خبردار کردیا

سعودی فوج حوثیوں کے 526 مسلح ڈرونز اور 346 بیلسٹک میزائل گرا چکی ہے،سعودی سفیر


ویب ڈیسک March 11, 2021
سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حوثیوں کے حملوں میں اضافہ ہورہا ہے(فوٹو،فائل)

سعودی عرب نے خبردار کیا ہے کہ یمن کی حوثی ملیشیا کی جانب سے اس کی تیل تنصیبات پر حملے نہ رکے تو توانائی کا عالمی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔

امریکا میں تعینات سعودی سفیر شہزادی ریما بنت بندر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ایران کی پشت پناہی سے حوثی ملیشیا کے سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملوں سے عالمی سطح پر توانائی کی فراہمی عد استحکام کا شکار ہوسکتی ہے۔ ان حملوں سے آرامکو میں کام کرنے والے سعودی شہریوں اور دنیا کے دیگر 80 ممالک سے تعلق رکھنے والے کارکنان کی زندگی اور عالمی معیشت دونوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

شہزادی ریما بنت بندر کاکہنا تھا کہ سعودی عرب مسلح ڈرونز اور بیلیسٹک میزائل کے حملوں پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کررہا ہے۔ تاہم سعودی فوج حوثیوں کے 526 مسلح ڈرونز اور 346 بیلسٹک میزائل گرا کر شہریوں آبادیوں کو ان حملوں سے محفوظ کرچکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی جانب سے یمن تنازع کو حل کرنے کے لیے مسلسل کوششوں کے باوجود صورت حال خراب ہورہی ہے۔ سرحدوں پر حملے بڑھ رہے ہیں جب کہ کچھ عرصے قبل ایرانی معاونت سے لڑنے والی حوثی ملیشیا نے مارب میں تیل کی تنصیبات کا کنٹرول حاصل کرنے کی بھی کوشش کی۔

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب یمن کے تنازع کا سیاسی حل چاہتا ہے تاہم ایرانی نظریات کے حامل شدت پسند سرحد پار اس تنازع کو مسلسل بڑھاوا دے رہے ہیں۔

سعودی سفیر کا کہنا تھا کہ حوثیوں نے بحیرہ احمر میں موجود تیل ذخیرہ کرنے والے آئل ٹینکر کی مرمت کے لیے اقوام متحدہ کی ٹیموں کو جانے کی اجازت نہیں دی جب کہ یہ ٹینکر مسلسل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اگر اس کی بروقت مرمت نہ ہوئی تو 1989 میں الاسکا میں ایکزون والڈیز کی تباہی سے پیدا ہونے والے بحران سے بھی سنگین صورت حال رونما ہوسکتی ہے۔

یہ خبر بھی پڑھیے: سعودی عرب میں آئل پلانٹ پر حوثی باغیوں کا راکٹ حملہ

واضح رہے کہ حوثی ملیشیا کی جانب سے سعودی تیل تنصیبات پر حملوں کا سلسلہ گذشتہ کئی برسوں سے جاری ہے اور پچھلے چند ماہ میں ان میں تیزی آرگئی ہے۔ گزشتہ ہفتے راس تنورہ کے علاقے میں بھی حوثیوں نے تیل تنصیبات کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔ ان حملوں پر امریکا سمیت دیگر ممالک نے اظہار مذمت بھی کیا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں