آغاز سال نو۔۔۔۔ ایک جائزہ

کیا اس سال ہمارے ملک سے غربت، جہالت، مہنگائی ختم ہو جائے گی۔ کیا غریبوں کو پیٹ بھر کر کھانا ملے گا


نجمہ عالم January 07, 2014

جب کان فائرنگ کی آوازوں سے پھٹنے لگے تو یقین ہو گیا کہ 2013 رخصت ہو گیا اور 2014کا آغاز ہو چکا ہے۔ میرے موبائل پر کئی پیغامات سال نو کی مبارک باد کے موجود تھے اور میں سوچ رہی تھی کہ کیا واقعی یہ نیا سال ہے، اگر ہے تو کیا یہ سال گزشتہ سے مختلف ہو گا؟ کیا اس سال ہمارے ملک سے غربت، جہالت، مہنگائی ختم ہو جائے گی۔ کیا غریبوں کو پیٹ بھر کر کھانا شدید سردی میں ان کے معصوم بچوں کو گرم کپڑے اور ننگے پیروں کو جوتے نصیب ہو جائیں گے، کیا دہشت گردی کا عفریت ختم ہو جائے گا، حکمراں واقعی عوام کے خادم بن جائیں گے، سیاستدان اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ملکی مفاد کے لیے کام کریں گے، کیا لوگوں کو بر وقت انصاف مہیا ہو گا، کیا غریب، مزدور، کسان کا استحصال ہونا بند ہو جائے گا اور کیا معاشرے میں خواتین کو ان کا جائز مقام مل جائے گا؟

ہمارا شہر کراچی کیا دوبارہ عروس البلاد اور روشنیوں کا شہر بن جائے گا، کیا بم دھماکے، فائرنگ، ٹارگٹڈ کلنگ، قتل و غارت گری، اغوا، دہشت گردی پر قابو پا لیا جائے گا؟ ملک شاہراہ ترقی پر گامزن ہو گا؟ اگر یہ سب اس سال ممکن ہوا تو واقعی یہ نیا سال ہے اور اگر سب کچھ جوں کا توں ہی رہے تو پھر اس سال میں اور سال گزشتہ میں سوائے اس کے کہ ہر ذی روح کی زندگی کا ایک سال کم ہو گیا یا یہ کہ غربت، جہالت، بے روزگاری، پسماندگی اور دہشت گردی میں مزید ایک سال کا اضافہ ہو گیا اور کیا فرق ہے؟ بہرحال فائرنگ کی شدت میں کچھ کمی ہوئی تو نہ جانے کب نئے سال کے بارے میں سوچتے سوچتے آنکھ لگ گئی۔

صبح بیدار ہو کر اخبارات دیکھے تو معلوم ہوا سال نو کے استقبال پر پورا شہر فائرنگ اور دھماکوں سے تقریباً رات بھر گونجتا رہا جگہ جگہ ٹریفک جام کے باعث گاڑیوں میں لوٹ مار کے واقعات بھی رونما ہوئے۔ ہمارے مستقبل کے معمار یعنی نوجوانوں کے شور شرابے سے لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔ مگر جو گھر سے باہر تھے ان کا گھر پہنچنا مشکل ہو گیا۔ قانون کے نگہبانوں نے قانون شکنوں یعنی ڈبل سواری اور فائرنگ کرتے نوجوانوں پر قابو پانے کی بجائے پٹرول پمپ بند کرا دیے اور لوگوں کی گاڑیوں کا ایندھن سڑک پر ہی ٹریفک جام کی وجہ سے ختم ہو گیا۔ غرض وہ خدشہ جو مجھے رات بھر لاحق رہا تھا صد فی صد درست ثابت ہوا کہ نئے سال کا آغاز گزشتہ سال سے ذرا بھی مختلف انداز میں نہیں ہوا تھا۔ نئے سال کے پہلے دن یعنی یکم جنوری کو سابق آرمی چیف اور صدر مملکت پرویز مشرف پر غداری کیس کی فرد جرم عاید کی جانی تھی مگر وہ سیکیورٹی خدشات کے باعث عدالت میں حاضر نہ ہو سکے تو عدالت عالیہ نے کہا کہ اگر مشرف عدالت میں پیش نہ ہوئے تو ان کی گرفتاری کا حکم دیا جائے گا۔ کیونکہ وہ سابق صدر اور آرمی چیف رہ چکے ہیں اس لیے ان کے وارنٹ جاری نہیں کیے جا رہے۔

2 جنوری کو مشرف عدالت میں حاضر ہونے کے لیے گھر سے روانہ ہوئے مگر راستے میں طبیعت خراب ہونے کے باعث عدالت کے بجائے فوجی ادارہ امراض قلب میں پہنچا دیے گئے۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت حال مشرف کے حامیوں اور چاہنے والوں کے علاوہ ان کے مخالفین کے لیے بھی باعث تشویش تھی۔ مشرف کے حامیوں نے ان کی صحت اور درازی عمر کے لیے دعائیں شروع کر دیں جب کہ ان کے مخالفین نے بھی اس خیال سے کہ اگر زیادہ بیمار ہوں گے تو علاج کی غرض سے کہیں ملک سے باہر جانے میں کامیاب نہ ہو جائیں ان کی زندگی اور صحت کے لیے دعائیں کیں۔ مگر مخالفین میں سب سے انتہا پسندانہ ردعملٰ بلاول زرداری کا رہا۔ انھوں نے فرمایا کہ ''یقین نہیں آتا کہ اس بزدل شخص نے فوج کی وردی پہنی تھی۔'' یہ انداز مخالفت انتہائی غیر مہذب بھی ہے۔ بلاول ابھی نووارد ہیں، انھیں آداب سیاست سکھانے کی اشد ضرورت ہے۔ کسی ایسے شخص کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کرنا جو ممکن ہے کہ موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا ہو، کی توقع کسی سیاسی کارکن سے بھی نہیں کی جاسکتی۔ یہ دنیا دارالامکافات ہے جو ہم دوسروں کے ساتھ کرتے ہیں وہ جلد ہمارے سامنے آ جاتا ہے، بقول نظیر اکبر آبادی:

کانٹا کسی کے مت لگا گو مثل گل پھولا ہے تو
وہ تیرے حق میں تیر ہے کس بات پر بھولا ہے تو
مت آگ میں ڈال اور کو پھر گھاس کا پولا ہے تو
سن رکھ یہ نکتہ بے خبر کس بات پر بھولا ہے تو
کلجگ نہیں کرجگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے اس ہات دے اس ہات لے

دوسری جانب ایم کیو ایم کے قائد نے مشرف کے لیے جہاں نیک جذبات کا اظہار اور جلد صحت یابی کی دعا کی وہاں رکن رابطہ کمیٹی (لندن) محمد انور نے بلاول کے بیان پر سخت الفاظ میں اظہار خیال کیا ہے۔

میں نے اپنے گزشتہ کالم میں (جو 31 دسمبر کو شایع ہوا تھا) سقوط ڈھاکہ کے اسباب کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ''اس سانحہ عظیم کے بعد ہمیں سنبھل جانا چاہیے تھا مگر ہم نے نہ کوئی سبق حاصل کیا اور نہ اپنے رویے میں تبدیلی کی، آج بلوچستان اور اردو بولنے والوں کے ساتھ وہی رویہ اختیار کیا ہوا ہے جس کے باعث ان میں احساس محرومی بڑھ رہا ہے دیکھیے ہمارا یہ رویہ کیا گل کھلاتا ہے۔ قبل اس کے کہ ہماری قومیت اور سالمیت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی جائے ہمیں ہوش میں آ جانا چاہیے''۔ جس وقت میں یہ سطور لکھ رہی تھی مجھے احساس نہ تھا کہ میرا اندازہ اس قدر جلد درست ثابت ہو جائے گا۔ تین جنوری کو حیدر آباد میں ایم کیو ایم کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے الطاف حسین نے یہ مطالبہ کر دیا کہ اگر اردو بولنے والے پسند نہیں ہیں تو ان کے لیے الگ صوبہ بنا دیا جائے بجائے اس کے کہ ہمیں دوسرے درجے کا شہری سمجھ کر ہمارے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جائے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر ہمیں ہر شعبے میں ففٹی ففٹی حصہ دیا جائے تو شہری سندھ صوبے کا مطالبہ واپس لیا جاسکتا ہے۔ الطاف حسین کے اس خطاب نے سندھ ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں ایک ہلچل مچا دی اور ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں اس پر ردعمل کا اظہار کر رہا ہے۔

سندھی قوم پرستوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ الطاف حسین کے اس بیان کو ملک توڑنے کی کوشش اور آئین سے غداری اور جانے کیا کیا قرار دیا جا رہا ہے۔ مگر کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ انھوں نے دراصل کن حالات کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے یعنی وہی ترجیحی سلوک اور مساوی حقوق نہ ملنا۔ مگر ہم نے پہلے بھی کسی ایشو پر سنجیدگی اختیار کی نہ آیندہ ہی ایسا کوئی ارادہ نظر آ رہا ہے۔ بات کو اس کے تناظر سے الگ کر کے اپنی اپنی بولیاں بولنا اور ہر سنجیدہ صورت حال سے سیاسی مفادات حاصل کرنا ہمارا شیوہ بن چکا ہے۔

اس کا خمیازہ ہم پہلے بھی بھگت چکے ہیں اور اب بھی ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے کہ اس صورت حال کو تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مفاد کے لیے استعمال کریں گی اور کوئی دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے متاثرین کے تحفظات کو دور کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ مگر آج دنیا کے حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں آج کسی کا غیر فطری استحصال شاید مزید نہ چل سکے۔ ملک کے تمام عناصر کو برابری کی بنیاد پر حقوق دینا اور مل جل کر رہنا ہی وقت کا اہم تقاضہ ہے۔ اگر ہم پاکستان کو قائم رکھنا اور ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے جانبدارانہ اور منفی رویوں پر فوراً غور کر کے نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ساتھ ہی اس احساس محرومی کا سدباب کرنا ہو گا جو ملک کے کسی بھی حصے اور کسی بھی علاقے میں پیدا ہو رہا ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔