رواداری کا کلچر
صدیوں کی نفرت کو دفن کر کے نئے سماج جنم لے رہے ہیں جن کی بنیادیں محبت پر رکھی جا رہی ہیں
گیارہویں صدی میں جب ہندوؤ ں اور مسلمانوں کا باقاعدہ سابقہ شرو ع ہوا تو باہمی اشتراک سے ایک نیا معاشرہ وجود میں آنے لگا۔ مغلوں کے عہد حکومت میں ہندو اور مسلمان دونوں میں مذہب کے ظاہری اختلاف کے باوجود عوام کی سطح پر باطنی یک رنگی اور اندرونی وحدت پیدا ہو چکی تھی اور ایک ملی جلی معاشرت وجود میں آ رہی تھی چنا نچہ راکھی کو سلو نو (سال نو) کا نام اکبر ہی کے زمانے میں دیا گیا۔ اس تہوار سے مغلوں کی مزید محبت کا ثبوت برہمنی رام کنور کے شاہی تعلقات سے ملتا ہے۔ اس برہمنی نے شاہ عالم گیر ثانی کی لاش کو جمنا کی ریتی پر پڑا پایا تھا اور ساری رات اس کا سر زانو پر لیے بیٹھی رہی۔ سلونو کے سلسلے میں ہندوؤں اور مسلمانو ں کے اس میل جول کی تصدیق نظیر اکبر آبادی کی نظم ''راکھی'' سے بخوبی ہو جاتی ہے۔ تہواروں کے اس پہلے سلسلے کا خاتمہ دیوالی پر اور دوسرے کا ہولی پر ہوتا ہے دیوالی کی تقریب میں مسلمان بادشاہ بھی شریک ہوتے تھے شاہ عالم آفتا ب کے ہندی اردو کلام سے ثابت ہوتا ہے کہ قلعہ معلیٰ میں دیوالی بھی عید، بقر عید، آخری چارشنبہ اور عرسوں کی طرح بڑی دھوم دھام سے منائی جاتی تھی۔ اماوس کے روز سر سوتی کے پو جن کا التزام کیا جاتا تھا، جا بجا چراغ جلائے جاتے تھے، آتش بازی کے تماشے ہوتے تھے، عورتیں سولہ سنگھار کرتی تھیں اور منگل گان ہوتے تھے۔
اس سے ظا ہر ہے کہ آج سے دو سو برس پہلے ہندوستان کے مقامی تہوار محض مذہبی مراسم نہیں سمجھے جاتے تھے بلکہ سماجی میل جول اور باہمی رواداری کا مرقع بن گئے تھے۔ دیوالی اور شب برات میں ایک حد تک یک رنگی پیدا ہو گئی تھی۔ سید احمد دہلوی نے ''رسوم دہلی'' میں لکھا ہے کہ دہلی کے مسلمان رمضان اور عید کی طرح دیوالی کو بھی ایک تہوار گنتے تھے اور اس دن سسرالی رشتوں میں بالکل ہندوؤں کی طرح لین دین کی رسمیں ہوتی تھیں۔ قدیم اردو شا عری سے معلوم ہوتا ہے کہ بسنت کا تہوار مسلمانوں میں بھی مقبول تھا اور اس کو شاہی تقریب کا درجہ حاصل تھا اور تہوار کے دن قلعہ معلی میں زرد لباس پہننے کا رواج تھا پھولوں کا گڑو سا بنا کر سر پر لانے کی رسم ادا کی جاتی تھی اور سب مل جل کر پھولوں سے کھیلتے تھے۔
بسنت کی طرح ہولی کی رنگینیاں بھی محض ہندوؤں تک محدو د نہیں تھیں پھاگ گانے اور پھاگ کھیلنے کا عام رواج تھا۔ نیل اور کیسر رنگ کی پچکاریاں بھری جاتی تھیں ایک دوسرے پر عبیر اور گلال چھڑکتے تھے اور پھولوں کی گیندوں سے کھیلتے تھے رواداری کے یہ جذبات یک طرفہ نہیں تھے جس طرح مسلمان ہندوؤں کے تہواروں میں دلچسپی لیتے تھے اسی طرح ہندو بھی اسلامی روایات اور نظریات کا احترام کرتے تھے۔ عہد مغلیہ کے اکثر ہندو مصنفین اپنی تصانیف کی ابتداء ''بسم اللہ الرحمن الرحیم '' اور ''یافتاح '' جیسے اسلامی کلمات سے کرتے تھے۔ ہندوؤں میں متعدد ایسے شاعر ہوئے ہیں جو نہایت احترام و عقیدت سے نعت کہتے تھے۔
مرہٹے محرم بڑے احترام کے ساتھ منایا کرتے تھے۔ گوالیار کا محرم آج بھی مشہور ہے لکھنو میں ہزار ہا ہندو صدق دل سے تعزیہ داری اختیار کرتے تھے اور سوز خوانی میں شریک ہوتے تھے ہمارے سیاسی زوال کے باوجود محبت اور رواداری کے رشتے مضبوط تھے یہ اثرات یک طرفہ نہیں تھے بلکہ دونوں نے ایک دوسرے کو متا ثر کیا اور معاشرتی سطح پر ایک ہم آہنگی پیدا ہو گئی تھی۔ مخلوط معاشرت کی یہ یک رنگی اس زمانے کے رسم و رواج میں بھی دیکھی جا سکتی ہے مذہبی رسوم الگ الگ ہیں لیکن عام رواج ایک جیسے ہیں آج ہمیں اپنے آپ کو دیکھ کر یقین ہی نہیں آتا کہ ہم کیسے تھے اور کیسے بن گئے ہیں۔پاکستان تاریخ کے پروسس کی پیداوار تھا جو ایک آزاد مملکت کی صورت میں برصغیر کے نقشے پر نمودار ہوا اور جس کے باعث ایک نیا جغرافیہ وجود میں آ گیا۔
جغرافیے سے کلچر جنم لیتا ہے جہاں تک کلچر کا تعلق ہے وہ نہ تو بنا بنایا درآمد ہوتا ہے اور نہ کسی مشورے یا حکم سے نافذ ہی کیا جا سکتا ہے یہیں سے ہماری مشکلات شروع ہوتی ہیں اس لیے کہ سیاسی اعتبار سے ہماری عمر صرف 66 بر س ہے جس کو قوم کہتے ہیں آج سے 66 بر س پہلے جب کوئی پاکستان ہی نہ تھا۔ تو ظاہر ہے کہ کوئی پاکستان قوم بھی نہیں تھی۔ لیکن وہ خطہ جسے ہم پاکستان کہتے ہیں اس کی تاریخی عمر پانچ ہزار سال ہے جو کہ ہم موئن جودڑو سے شروع کرتے ہیں، تہذیب معاشرے کی طرز زندگی اور طرز فکر و احساس کا جو ہر ہوتی ہے قائد اعظم نے 11 اگست 1947کو دستور ساز اسمبلی میں جو تقریر کی اس خطاب میں ایک با ت قابل غور ہے '' ہم نے پاکستان بنا لیا ہے اب اسے قوم بنانے جا رہے ہیں'' ۔
یعنی واضح طور پر یہ بات کہی گئی کہ ریاست کے حوالے سے ایک نئی قوم بنانی ہے جو پہلے نہیں تھی۔ وہ تمام عناصر اور گروہ جو مطالبہ پاکستان کے قائل ہی نہیں تھے انھوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اب پاکستان بن گیا ہے چنانچہ اس میں ہماری حکومت ہونی چاہیے اور انھوں نے اس مطالبے کو مذہب کا نام دینا شروع کر دیا۔ اور اسی کھینچا تانی میں الجھاؤ اور انتشار پھیلتا ہی چلا گیا۔ نہ ہم قوم بن سکے نہ ہی ہماری کوئی تہذیب بن سکی ۔
میتھیو آرنلڈ نے کلچر کی تعریف یہ کی تھی کہ یہ Study of perfection ہے یعنی ایک معاشرے کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے رہن سہن اور فکر و عمل کے موجودہ طریقوں کو کمال کی طرف لے جائے اور لے جاتا رہے جب کہ ہم نے تنگ نظری اور خود پسندی کے تحت یہ مان لیا کہ ہمارے معاشرے کے طریقے کمال ہیں اور ہماری کو شش یہ ہونا چاہیے کہ انھیں زیادہ سے زیادہ منجمد کرتے جائیں۔ کیا الٹی گنگا ہم نے بہائی ہے، ہم اپنے قاتل خود ہی نکلے ہیں ہم وہ شہید ہیں جسے تعصب، قدامت پرستی، نفرت، عدم برداشت، جہالت، عدم رواداری نے مل کر قتل کیا ہے زندگی ایک ترقی ہے جس میں قدیم جدید کی طرف بڑھ رہا ہے شعور اور لا شعوری طور پر تبدیلیاں ہو رہی ہیں مختلف جگہو ں اور مختلف قسم کے لوگ قریب سے قریب آ رہے ہیں دنیا بھر میں مختلف کلچر ایک دوسرے میں ضم ہو رہے ہیں مختلف قوموں، نسلوں اور مختلف قسم کے لوگوں کے نئے اتحاد بن رہے ہیں۔
صدیوں کی نفرت کو دفن کر کے نئے سماج جنم لے رہے ہیں جن کی بنیادیں محبت پر رکھی جا رہی ہیں جب کہ ہم اپنے آپ کو تقسیم در تقسیم کرتے چلے جا رہے ہیں ایک دوسرے کو اپنے آپ میں سے خارج کر رہے ہیں اپنے آپ کو تقسیم کرنے اور خارج کرنے کا عمل قوموں کو فنا کر دیتا ہے۔ ہم نے اپنے ماضی کے دونوں کلچر ہند اسلامی کلچر اور موئن جو دڑو کلچر جن کی بنیاد محبت، اخوت، رواداری اور برداشت پر قائم تھی کو دفن کر کے ایک نیا کلچر پاکستان میں فروغ دیا جس کی بنیاد نفرت، تعصب، تقسیم، عدم برداشت، عد م رواداری اور تقسیم در تقسیم پر قائم ہے جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ تمام دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ قیام پاکستان کا مقصد ہند اسلامی کلچر کا تحفظ تھا۔ ہند اسلامی کلچر وہی ہے جو آج سے تقریباً5000 ہزار بر س قبل وادی سندھ کی تہذیب میں موجود تھا یہ بات طے ہے کہ ہمارے تمام مسائل کا حل ہند اسلامی کلچر ہی میں موجود ہیں۔