امریکی کانگریس کی محکومیت
دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اسرائیل ہی واحد ایسی حکومت ہے جس نے دنیا کے مختلف ممالک پر بم گرائے
Sheldon Adelson جو امریکا میں ری پبلکن پارٹی کے بہت بڑے ڈونر ہونے کے ساتھ ساتھ pro-Israel political action committees کے Fund Raiser بھی ہیں، امریکا میں نیو یارک سٹی میں Yeshiva یونیورسٹی میں 22 اکتوبر 2013ء کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکا کو چاہیے کہ وہ ایران پر ایک ایٹم بم پھینک کر ایران کے ایٹمی پروگرام کو نیست ونابود کر دے۔
دوسری طرف برطانوی پارلیمنٹ کے ایک سابقہ رکن اور لیبر پارٹی کے رہنما Jack Straw کاکہنا ہے کہ اسرائیلی لابی امریکی کانگریس کو پورے طریقے سے کنٹرول کرتی ہے۔
Dr. James Petras کاکہنا ہے کہ یہ وقت ہے کہ امریکی کانگریس میں صیہونیوں کے اثر و نفوذ کے خلاف کام کیا جائے اور صیہونیوں کی جانب سے امریکی کانگریس پر اثر انداز ہونے کے معاملات کو منظر عام پر لایا جائے۔
اب جب کہ حال ہی میں ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین طے پا جانے والے معاہدے کے بعد یہ بات تو بڑی واضح ہو چکی ہے کہ امریکا اس بات پر مجبور ہو چکا ہے کہ ایران کو ایک طاقت تسلیم کرے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اسرائیل ہی واحد ایسی حکومت ہے جس نے دنیا کے مختلف ممالک پر بم گرائے اور دوسرے ممالک بالخصوص افریقا میں اور مشرق وسطیٰ کی سر زمینوں پر غاصبانہ تسلط قائم کیا۔ اپنے ناجائز قیام کے روز اول سے ہی اسرائیل نے اپنی فوجی طاقت کو بے پناہ بڑھانے کی کوشش کی ہے اور اقوام متحدہ کے ایٹمی مشاہدہ کاروں کو رسائی نہیں دی۔ متعدد رپورٹس کے مطابق ان ایٹم بموں کی تعداد چار سو ہو چکی ہے۔اسرائیل نے ہمیشہ بین الاقوامی قوانین کو پائمال کیا ہے لیکن کسی میں اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ اسرائیل کو ان بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر عدالت کے کٹہرے پر لایا جائے،۔
امریکی خفیہ ادارے کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل نہ صرف اپنے لیے کیمیائی ہتھیاروں کو بنا رہا ہے بلکہ دنیاکے دیگر ممالک میں ان خطر ناک اور مہلک ہتھیارو ں کو خفیہ طریقوں سے اسمگل بھی کر رہا ہے، اسرائیل نے تاحال این پی ٹی نامی بین الاقوامی معاہدے پر دستخط نہیں کیے اور اقوام متحدہ کے مشاہدہ کاروں کو اجازت نہیں دی ہے کہ وہ اس کے ہتھیاروں کا معائنہ کرسکیں۔
صیہونیوں کی امریکا میں موجود ایک تنظیم ZPC ( ztonist power configuration) کے دباؤ میں امریکا نے ہمیشہ اسرائیلی ہتھیاروں کی روک تھام کے لیے ہونے والی کوششو ں کو سبو تاژ کیا ہے اور اس تنظیم کے دباؤ میں ہمیشہ اسرائیل کو بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی سپلائی جاری رکھی ہے۔
اس طرح امریکی افواج کی جانب سے اسرائیل کو ٹیکنالوجی کی مد میں دیے جانے والی امداد گزشتہ نصف صدی میں ایک سو بلین ڈالر سے زیادہ ہے۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ 1973 میں اسرائیل کو عربو ں کے مقابلے میں شکست سے نکلوانے میںا مریکی سفارت کاری او امریکی افواج کا بڑا کردا ر رہا۔ اسرائیل نے امریکا کے ایک بحری جہاز یو ایس ایس لبرٹی کو 1967 میں سمندر میں نشانہ بنا ڈالا تھا تاہم امریکا نے اپنے ہی فوجیوں اور شہریوں کے قتل پر اسرائیل کے جرائم پر نہ تو کوئی احتجاج کیا اور نہ ہی اسرائیل سے اس کا انتقام لیا، صرف یہی نہیں بلکہ اس کے باوجود امریکا نے نہ تو سفارتی سطح پر کوئی آواز بلند کی بلکہ اپنے شہریوں کے قتل پر خاموشی اختیا ر کر لی جس پر صیہونی انتظامیہ نے امریکا کا شکریہ ادا کیا۔
اسرائیل کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت نے اردن اور مصر کے فوجی ڈکٹیٹروں کو مجبور کیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اتحادی بن جائیں اور تعاون کی فضا قائم کریں، تا کہ خطے میں فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی سے متعلق اور تحریک آزادی فلسطین کی جد و جہد کو کچل دیا جائے۔
اسرائیل گزشتہ دو دہائیو ں سے اپنے غیر ملکی ایجنٹوں کے ذریعے ایران کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے جب کہ اس حوالے سے ایران کے سائنسدانو ں کو ٹارگٹ کلنگ میں نشانہ بنایا گیا ہے۔ (Zionist power configuration) کی جانب سے امریکا کو عراق جنگ میں دھکیلنے کے بعد لاکھوں عراقیوں کے قتل عام کے بعد لبنان میں حزب اللہ کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی اور اس مقصد کی خاطر شام میں موجود سیکولر حکومت کو دہشت گردوں کی مدد سے غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی جاتی رہی، البتہ 2006ء میں ہزاروں لبنانیوں کے قتل عام کے باوجود اسرائیل کو حزب اللہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے، حتیٰ کہ اسرائیل کو امریکا کی پوری حمایت کے ساتھ ساتھ (Zionist power configuration) کی پراپیگنڈا مہم کی حمایت حاصل تھی۔ یہاں سنہ2006ء میں حزب اللہ کے ہاتھوں بد ترین شکست سے دوچار ہونے کے بعد اسرائیل نے سنہ2008 ء میں فلسطینی علاقے غزہ کو تہس نہس کرنے کی منصوبہ بندی بنا لی اور غزہ پر بڑا حملہ کیا۔
اسرائیل کے مفادات کے لیے کام کرنے والے گروہ (Zionist power configuration) نے حکمت عملی تیار کی کہ امریکا کی کانگریس میں موجود کرپٹ افراد کی خدمات حاصل کی جائیں اور پھر ا ن کو مال و متاع سے خریدا گیا تا کہ وہ امریکا پر دباؤ بڑھا سکیں کہ امریکا ایرا ن پر حملہ کرنے پر آمادہ ہو جائے۔ حتٰی اس صیہونی گروہ نے امریکا میں ذرایع ابلاغ پر بھرپور کنٹرول حاصل کر رکھا ہے کہ جس کے ذریعے وہ پراپیگنڈا کرتے ہیں اور ایران پر حملے کی راہیں ہموار کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ روز مرہ کی بات ہے کہ امریکا کے دو بڑے روزنامے نیو یارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ اسرائیلی جنگی جنون کے ایجنڈے آرٹیکل کی صورت میں شایع کرتے ہیں۔(Zionist power configuration) امریکا سمیت NATO ممالک کو بھی دباؤ میں لینے کی کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح ایران پر حملہ کیا جائے۔
امریکا میں موجود دہری شہریت کے حامل کہ جن کی ایک شہریت امریکی اور دوسری اسرائیلی ہے، کانگریس پر اثر انداز ہوتے ہیں اور امریکی پالیسیوں کو اسرائیلی مفادات کی خاطر تبدیل کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، اسرائیلی شہریت کے حامل ان با اثر امریکیوں کو تل ابیب سے براہ راست کنٹرول کیا جاتا ہے، 2001 سے2008 تک بش انتظامیہ کے اہم عہدوں پر فائز رہنے والے دہری شہریت کے حامل اور اسرائیلی مفادات کے محافظ افراد میں شامل افراد کے نام یہ ہیں۔
(Paul Wolfowitz, Douglas Feith), Middle East Security (Martin Indyk, Dennis Ross), the Vice President's office ('Scooter' Libby), Treasury (Levey) and Homeland Security (Michael Chertoff).
اسی طرح اوباما انتظامیہ میں بھی اسرائیلی اورا مریکی شہریت کے حامل اسرائیلی مفادات کے محافظین یہ ہیں۔
Dennis Ross, Rahm Emanuel, David Cohen, Secretary of Treasury Jack "Jake the Snake"
Lew, Secretary of Commerce Penny Pritzke Michael Froman , Trade Representative
درج بالا افراد کی امریکی انتظامیہ میںموجودگی اس بات کا سبب بن رہی ہے کہ اسرائیل کو امریکا ہر سال تین بلین ڈالر کی فوجی امداد سے نواز رہا ہے جب کہ گذشتہ پچاس برسو ں میں اب تک اسرائیل ایک سو بلین ڈالر امریکا سے وصول کر چکا ہے۔۔
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے جہاں دنیا بھر کے 1.8 بلین مسلمانوں سے اچھے تعلقات کو قطع کر رکھا ہے وہاں اسرائیل کے صیہونیوں کی آباد کاری کو فلسطینی سر زمین پر مکمل حمایت بھی دے رکھی ہے جو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ صیہونی لابی امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو کنٹرول کرتی ہے۔ یقیناً اسرائیل ایک جنگی جنونی بھیڑیا ہے جو نہ صرف ایران، مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا خود امریکا کے لیے بھی خطرہ بن چکا ہے، اگر امریکی عوام نے اسرائیل کے خلاف بر وقت قیام نہ کیا تو شدید نقصان اٹھانا پڑے گا۔
دوسری طرف برطانوی پارلیمنٹ کے ایک سابقہ رکن اور لیبر پارٹی کے رہنما Jack Straw کاکہنا ہے کہ اسرائیلی لابی امریکی کانگریس کو پورے طریقے سے کنٹرول کرتی ہے۔
Dr. James Petras کاکہنا ہے کہ یہ وقت ہے کہ امریکی کانگریس میں صیہونیوں کے اثر و نفوذ کے خلاف کام کیا جائے اور صیہونیوں کی جانب سے امریکی کانگریس پر اثر انداز ہونے کے معاملات کو منظر عام پر لایا جائے۔
اب جب کہ حال ہی میں ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین طے پا جانے والے معاہدے کے بعد یہ بات تو بڑی واضح ہو چکی ہے کہ امریکا اس بات پر مجبور ہو چکا ہے کہ ایران کو ایک طاقت تسلیم کرے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اسرائیل ہی واحد ایسی حکومت ہے جس نے دنیا کے مختلف ممالک پر بم گرائے اور دوسرے ممالک بالخصوص افریقا میں اور مشرق وسطیٰ کی سر زمینوں پر غاصبانہ تسلط قائم کیا۔ اپنے ناجائز قیام کے روز اول سے ہی اسرائیل نے اپنی فوجی طاقت کو بے پناہ بڑھانے کی کوشش کی ہے اور اقوام متحدہ کے ایٹمی مشاہدہ کاروں کو رسائی نہیں دی۔ متعدد رپورٹس کے مطابق ان ایٹم بموں کی تعداد چار سو ہو چکی ہے۔اسرائیل نے ہمیشہ بین الاقوامی قوانین کو پائمال کیا ہے لیکن کسی میں اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ اسرائیل کو ان بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر عدالت کے کٹہرے پر لایا جائے،۔
امریکی خفیہ ادارے کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل نہ صرف اپنے لیے کیمیائی ہتھیاروں کو بنا رہا ہے بلکہ دنیاکے دیگر ممالک میں ان خطر ناک اور مہلک ہتھیارو ں کو خفیہ طریقوں سے اسمگل بھی کر رہا ہے، اسرائیل نے تاحال این پی ٹی نامی بین الاقوامی معاہدے پر دستخط نہیں کیے اور اقوام متحدہ کے مشاہدہ کاروں کو اجازت نہیں دی ہے کہ وہ اس کے ہتھیاروں کا معائنہ کرسکیں۔
صیہونیوں کی امریکا میں موجود ایک تنظیم ZPC ( ztonist power configuration) کے دباؤ میں امریکا نے ہمیشہ اسرائیلی ہتھیاروں کی روک تھام کے لیے ہونے والی کوششو ں کو سبو تاژ کیا ہے اور اس تنظیم کے دباؤ میں ہمیشہ اسرائیل کو بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی سپلائی جاری رکھی ہے۔
اس طرح امریکی افواج کی جانب سے اسرائیل کو ٹیکنالوجی کی مد میں دیے جانے والی امداد گزشتہ نصف صدی میں ایک سو بلین ڈالر سے زیادہ ہے۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ 1973 میں اسرائیل کو عربو ں کے مقابلے میں شکست سے نکلوانے میںا مریکی سفارت کاری او امریکی افواج کا بڑا کردا ر رہا۔ اسرائیل نے امریکا کے ایک بحری جہاز یو ایس ایس لبرٹی کو 1967 میں سمندر میں نشانہ بنا ڈالا تھا تاہم امریکا نے اپنے ہی فوجیوں اور شہریوں کے قتل پر اسرائیل کے جرائم پر نہ تو کوئی احتجاج کیا اور نہ ہی اسرائیل سے اس کا انتقام لیا، صرف یہی نہیں بلکہ اس کے باوجود امریکا نے نہ تو سفارتی سطح پر کوئی آواز بلند کی بلکہ اپنے شہریوں کے قتل پر خاموشی اختیا ر کر لی جس پر صیہونی انتظامیہ نے امریکا کا شکریہ ادا کیا۔
اسرائیل کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت نے اردن اور مصر کے فوجی ڈکٹیٹروں کو مجبور کیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اتحادی بن جائیں اور تعاون کی فضا قائم کریں، تا کہ خطے میں فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی سے متعلق اور تحریک آزادی فلسطین کی جد و جہد کو کچل دیا جائے۔
اسرائیل گزشتہ دو دہائیو ں سے اپنے غیر ملکی ایجنٹوں کے ذریعے ایران کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے جب کہ اس حوالے سے ایران کے سائنسدانو ں کو ٹارگٹ کلنگ میں نشانہ بنایا گیا ہے۔ (Zionist power configuration) کی جانب سے امریکا کو عراق جنگ میں دھکیلنے کے بعد لاکھوں عراقیوں کے قتل عام کے بعد لبنان میں حزب اللہ کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی اور اس مقصد کی خاطر شام میں موجود سیکولر حکومت کو دہشت گردوں کی مدد سے غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی جاتی رہی، البتہ 2006ء میں ہزاروں لبنانیوں کے قتل عام کے باوجود اسرائیل کو حزب اللہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے، حتیٰ کہ اسرائیل کو امریکا کی پوری حمایت کے ساتھ ساتھ (Zionist power configuration) کی پراپیگنڈا مہم کی حمایت حاصل تھی۔ یہاں سنہ2006ء میں حزب اللہ کے ہاتھوں بد ترین شکست سے دوچار ہونے کے بعد اسرائیل نے سنہ2008 ء میں فلسطینی علاقے غزہ کو تہس نہس کرنے کی منصوبہ بندی بنا لی اور غزہ پر بڑا حملہ کیا۔
اسرائیل کے مفادات کے لیے کام کرنے والے گروہ (Zionist power configuration) نے حکمت عملی تیار کی کہ امریکا کی کانگریس میں موجود کرپٹ افراد کی خدمات حاصل کی جائیں اور پھر ا ن کو مال و متاع سے خریدا گیا تا کہ وہ امریکا پر دباؤ بڑھا سکیں کہ امریکا ایرا ن پر حملہ کرنے پر آمادہ ہو جائے۔ حتٰی اس صیہونی گروہ نے امریکا میں ذرایع ابلاغ پر بھرپور کنٹرول حاصل کر رکھا ہے کہ جس کے ذریعے وہ پراپیگنڈا کرتے ہیں اور ایران پر حملے کی راہیں ہموار کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ روز مرہ کی بات ہے کہ امریکا کے دو بڑے روزنامے نیو یارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ اسرائیلی جنگی جنون کے ایجنڈے آرٹیکل کی صورت میں شایع کرتے ہیں۔(Zionist power configuration) امریکا سمیت NATO ممالک کو بھی دباؤ میں لینے کی کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح ایران پر حملہ کیا جائے۔
امریکا میں موجود دہری شہریت کے حامل کہ جن کی ایک شہریت امریکی اور دوسری اسرائیلی ہے، کانگریس پر اثر انداز ہوتے ہیں اور امریکی پالیسیوں کو اسرائیلی مفادات کی خاطر تبدیل کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، اسرائیلی شہریت کے حامل ان با اثر امریکیوں کو تل ابیب سے براہ راست کنٹرول کیا جاتا ہے، 2001 سے2008 تک بش انتظامیہ کے اہم عہدوں پر فائز رہنے والے دہری شہریت کے حامل اور اسرائیلی مفادات کے محافظ افراد میں شامل افراد کے نام یہ ہیں۔
(Paul Wolfowitz, Douglas Feith), Middle East Security (Martin Indyk, Dennis Ross), the Vice President's office ('Scooter' Libby), Treasury (Levey) and Homeland Security (Michael Chertoff).
اسی طرح اوباما انتظامیہ میں بھی اسرائیلی اورا مریکی شہریت کے حامل اسرائیلی مفادات کے محافظین یہ ہیں۔
Dennis Ross, Rahm Emanuel, David Cohen, Secretary of Treasury Jack "Jake the Snake"
Lew, Secretary of Commerce Penny Pritzke Michael Froman , Trade Representative
درج بالا افراد کی امریکی انتظامیہ میںموجودگی اس بات کا سبب بن رہی ہے کہ اسرائیل کو امریکا ہر سال تین بلین ڈالر کی فوجی امداد سے نواز رہا ہے جب کہ گذشتہ پچاس برسو ں میں اب تک اسرائیل ایک سو بلین ڈالر امریکا سے وصول کر چکا ہے۔۔
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے جہاں دنیا بھر کے 1.8 بلین مسلمانوں سے اچھے تعلقات کو قطع کر رکھا ہے وہاں اسرائیل کے صیہونیوں کی آباد کاری کو فلسطینی سر زمین پر مکمل حمایت بھی دے رکھی ہے جو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ صیہونی لابی امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو کنٹرول کرتی ہے۔ یقیناً اسرائیل ایک جنگی جنونی بھیڑیا ہے جو نہ صرف ایران، مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا خود امریکا کے لیے بھی خطرہ بن چکا ہے، اگر امریکی عوام نے اسرائیل کے خلاف بر وقت قیام نہ کیا تو شدید نقصان اٹھانا پڑے گا۔