لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی

مشترکہ اعلامیہ میں فریقین نے اپنی اپنی پرنسپل پوزیشن سے ذرا سا ہٹ کر اعلامیہ جاری کیا ہے۔

gfhlb169@gmail.com

25فروری کو پاکستان اور بھارت کی بری افواج کے ہیڈکوارٹرز سے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہاگیا کہ ڈی جی ایم اوزکے درمیان بات چیت کے نتیجے میں یہ طے پایا ہے کہ ریاستِ جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر 2003 جنگ بندی معاہدے اور دوسرے تمام معاہدوں کی مکمل پابندی کی جائے گی۔

بظاہر یہ ایک بہت ہی احسن قدم ہے۔ مشترکہ اعلامیہ میں فریقین نے اپنی اپنی پرنسپل پوزیشن سے ذرا سا ہٹ کر اعلامیہ جاری کیا ہے۔ بھارت نے اعلامیے میں کراس بارڈر ٹیررازم کا کوئی ذکر نہیں کیا۔یہ بھی نہیں کہا کہ ٹیرر اور ڈائیلاگ اکٹھے نہیں چل سکتے۔

بھارت نے کور ایشوز کو ایڈریس کرنے کی بات بھی کی ہے، ماضی میں کور ایشو سے مراد صرف اورصرف کشمیر رہاہے، اس لیے کور ایشو کا ذکر بھی بھارت کی طرف سے اپنے پرنسپل اسٹینڈ سے تھوڑا سا ہٹنا ہے۔ ادھر 5اگست2019 سے ہماری پوزیشن یہ رہی ہے کہ جب تک 5اگست کے اقدامات واپس نہیں ہوتے کوئی ڈائیلاگ نہیں ہو سکتا۔5اگست کے بھارتی اقدامات واپس نہیں ہوئے اور بات ہو رہی ہے تو پاکستان کی جانب سے بھی گنجائش پیدا کی گئی ہے۔

2003میں جنگ بندی معاہدے میں یہ قرار پایا تھا کہ لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف 500میٹر کے اندر کوئی دفاعی تعمیر نہیں کی جائے گی۔پیشگی اطلاع کر کے پہلے سے موجود تعمیرات کی صرف مرمت کی جا سکتی ہے۔ یہ بھی طے پایا تھا کہ دونوں اطراف سے ایک دوسرے کی فوجی چوکیوں کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔

کسی بھی غیر پسندیدہ اور سنگین صورتحال میں دونوں میں سے کوئی فریق بھی فلیگ میٹنگ بُلا سکتا ہے۔ اس معاہدے کی رُو سے صورتحال کی سنگینی کو کم کرنے کے لیے ہاٹ لائن پر رابطے کا آپشن بھی موجود تھا۔2003سیز فائر معاہدے کی کمزور سائڈ یہ تھی کہ اسے لکھا نہیں گیا تھا صرف فریقین کے درمیان یہ ایک Unwritten Understandingتھی۔اس انڈراسٹینڈنگ کی وجہ سے خلاف ورزیاں شروع ہونے سے پہلے پورے چار سال امن سے گزر گئے ۔2013 میں ایک مرتبہ پھر بات چیت ہوئی اور دونوں طرف سے بیک وقت ایک مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا۔

5اگست 2019 کو بھارت نے یک طرفہ قدم اُٹھاتے ہوئے اپنے آئین سے ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے بارے میں شقیں حذف کر دیں تو دونوں ممالک کے درمیان حالات بہت بگڑ گئے، اس کا اثر لائن آف کنٹرول پر بھی بہت ُبرا پڑا۔ بھارت ہزاروں بار لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی ۔پچھلے ڈیڑھ سال میں آزاد کشمیر کی 40خواتین شہید ہوئیں اور 36بچے لقمہ اجل بنے۔سیکڑوں گھر بھارتی بمباری کی زد میں آکر جل کر خاکستر ہو گئے۔مرد شہداء کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

25فروری کو جاری ہونے والا مشترکہ اعلامیہ اُسی رات سے نافذالعمل ہو گیا۔یہ اعلامیہ بہت خوش آیند ہے لیکن اس سے بہت سے سوالات نے جنم لیا ہے۔ کیا یہ اعلامیہ جز وقتی امن لائے گا یا اس سے دیرپا امن کے حصول میں مدد ملے گی۔کیا اب دونوں ممالک اپنے اپنے سفیر واپس بھیج دیں گے۔ریاستِ جموں و کشمیر کے اندر کشمیری مسلمانوں پر جو غیر قانونی،غیر اخلاقی پابندیاں لگائی ہوئی ہیں کیا کشمیریوں کو ان مظالم سے چھٹکارا مل سکے گا۔کیا اس اعلامیے کی ٹائمنگ کچھ بتاتی ہے۔


پاکستان اور بھارت نے یہ قدم کیوں اُٹھایا۔ کیا بائیڈن کی وائٹ ہاؤس آمد کا اس مشترکہ اعلامیے سے کوئی تعلق ہے،ایسے سوالات کو زیرِ غور لا کر ہم کچھ جاننے اور سمجھنے کی پوزیشن میںآ سکتے ہیں۔ DGMOsکے مشترکہ اعلامیے سے تقریباً تین ہفتے قبل چیف آف اسٹاف پاکستان آرمی جناب جنرل قمر جاوید باجوہ نے کچھ اس طرح سے کہاIt is time to extend a hand of peace in all directions.Pakistan n India must resolve the long outstanding issue of Kashmir in a dignified n peaceful manner. یعنی پاکستان ہر طرف امن کا ہاتھ بڑھاتا ہے ۔

پاکستان اور بھارت کو کشمیر کے مسئلے کا ایک باعزت حل پر امن طریقوں سے نکالنا چاہیے۔ مشترکہ اعلامیئے کے بعد بھارتی چیف آف آرمی اسٹاف سے ایک پریس کانفرنس میں سوال کیا گیا کہ لداخ میں چین بھارت اسٹینڈ آف کے دوران کیا پاکستان نے اس صورتحال کا ناجائز فائدہ اٹھایا تو بھارتی آرمی چیف نے بغیر کسی تردد کے کہا کہ اس تنازعے کے دوران کوئی ایسے شواہد نہیں ملے کہ پاکستان صورتحال کا فائدہ اٹھا کر بھارت پر دباؤ ڈالنا چاہتا تھا۔پاکستان آرمی چیف اور بھارتی آرمی چیف دونوں کے بیانات بتاتے ہیں کہ دونوں افواج اس اعلامیے کی حامی ہیں تاہم ماضی میں بھارت عام طور پر دیرپا امن کا حامی نہیں رہا ہے۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان سفارتی تعلقات بہت نچلی سطح پر ہیں۔اگر اگلے چند مہینوں میں دونوں ممالک سفیروں کا تبادلہ کر لیتے ہیں اور سفارتی تعلقات مکمل بحال کر لیتے ہیں تو یہ اس بات کا عندیہ ہو گا کہ دونوں ممالک کے درمیان تمام شعبوں میں تعلقات بہتری کی جانب گامزن ہیں۔

مشترکہ اعلامیے کی ٹائمنگ کے حوالے سے بہت سی آراء ہیں۔کچھ اہلِ نظر کا خیال ہے کہ لداخ میں چین اور بھارت کے درمیان تنازعہ وقتی طور پر تو حل ہو چکا ہے لیکن اس تنازعے نے بھارت کو باور کرایا کہ وہ چین اورپاکستان کے ساتھ بیک وقت نہیں لڑ سکتا ،پھر بھارتی معیشت زوال پذیر ہے او رCombat Fatigue بھی ہے اس لیے عقلمندی اسی میں ہے کہ پاکستان سے معاملات ٹھیک کر لیے جائیں کیونکہ لداخ میں اسٹینڈ آف کے دوران اگر پاکستان فائدہ اٹھاتا تو بھارت کے لیے بہت مشکل صورتحال پیدا ہو سکتی تھی۔ادھر پاکستان بھی ایک سے زیادہ محاذوں پر بر سرِ پیکار ہے۔ میری رائے میں اس اعلامیے کا بائیڈن کی آمد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

آپ جانتے ہیں کہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے ساتھ رہنے والے ہمارے کشمیری بہن،بھائی اور بچے کس مشکل سے دوچار ہیں۔آئے دن بھارتی بمباری سے ان کے گھر جلتے ہیں اور افراد شہید ہوتے ہیں۔ بھارتی فوج جان بوجھ کر ہماری سویلین آبادی کو نشانہ بناتی ہے۔ لائن آف کنٹرول پر امن ہونے سے ہمارے نہتے بہن بھائیوں کو سکون کی زندگی نصیب ہو گی۔ مشترکہ اعلامیے کے سب سے بڑے Beneficieriesہمارے یہی ہم وطن ہیں۔

بہر حال اگر مشترکہ اعلامیہ کے بعد مکمل سفارتی تعلقات بحال ہوتے ہیں ، پانچ سال سے التوا کا شکار سارک سربراہی کانفرنس پاکستان میں منعقد ہوتی ہے اور نتائج برآمد کرنے والے ڈائیلاگ ہوتے ہیں تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ تعلقات بہتری کی جانب رواں دواں ہیں جس سے مقبوضہ کشمیر کے مسلمان بھی فائدہ اٹھائیں گے ورنہ پہلے کی طرح ایک بار پھر ایک جز وقتی کارروائی ہے۔

قارئینِ کرام افغانستان اور بھارت کے حوالے سے بہت اہم پیش رفت ہوئی ہے۔بائیڈن ایڈمنسٹریشن نے ہمارے خطے کے لیے نیشنل سیکیورٹی گائیڈلائن جاری کی ہے جس میں چین کو امریکا کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ دکھایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ امریکا بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید گہرا کرے گا۔یہ پاکستان کے لیے Alarming ہے۔دوسری اہم ڈویلپمنٹ پاکستان کے لیے خاصی تشویش ناک ہے۔نئے امریکی وزیرِ خارجہ نے افغان صدر غنی کو ایک خط ارسال کیا ہے۔

اس خط میں کہا گیا ہے کہ بھارت افغان امن مذاکرات میں پورے طور پر شامل ہو۔ ترکی میں افغان مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جائے جس میں افغان حکومت،طالبان، روس، چین، ایران، پاکستان،بھارت شامل ہوں۔گویا امریکا پاکستان اور افغان طالبان کو مجبور کرنے جا رہا ہے کہ وہ افغان عمل میں بھارت کو برابر کا شریکِ کار تسلیم کریں۔ امریکا ایک تو دوحہ معاہدے کی پابندی سے پہلو تہی کر رہا ہے اور دوسرا پاکستان کے لیے مشکلات میں بے پناہ اضافہ کرنے جا رہا ہے۔
Load Next Story