’’شاویز مو ‘‘ زندہ ہے
ہیوگو شاویز کی زندگی اور جدوجہد نے یہ ثابت کردیا کہ مارکسزم ابھی زندہ ہے اور غربت انسان کا مقدر نہیں ہے۔
مارچ کے دو اہم ترین واقعات۔14مارچ کو اس عظیم انسان کی برسی ہے' جس نے انسانی تاریخ میں ارتقاء کا قانون فطرت 'انسانی ذہن' انسانی سماج میں جدلی تغیر کا 'سرمایہ دارانہ طرز پیداوار اور قدر زائد کا قانون دریافت کرکے محنت کش طبقات کی غیر طبقاتی سماج کے لیے سائنسی بنیادوں پر جدوجہد کی راہ متعین کی۔
دنیا اس عظیم انسان کو کارلمارکس کے نام سے جانتی ہے، اس کا نام صدیوں تک رہے گا اور اس کا کام بھی' محنت کش 'ان کے اس نعرے ''دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہوجاؤ'' کو لے کر غیر طبقاتی سماج کے قیام کی جدوجہد کو تیز کرنے کی عہد کی تجدید کرتے ہیں۔ آج کارل مارکس ' مارکسزم اور اس کی نئی شکل ''شاویزمو '' کی شکل میں زندہ ہے اور جب تک طبقاتی سماج رہے گا ''شاویزمو ''بھی زندہ رہے گا۔
ہیوگو شاویز 28جولائی 1954کو پیدا ہوئے اور5مارچ2013کو فوت ہوئے'2فروری 1999سے اپنی موت تک لاطینی امریکا کے ملک وینزویلاکے صدر رہے۔ ابتداء ہی سے کارل مارکس'لینن 'چے گویرا اور کیوبا کے انقلابی سربراہ فیڈرل کاسترو کے نظریات سے متاثر تھے 'یونائیٹڈ سوشلسٹ پارٹی آف وینزویلا(PSUV)کے صدر تھے۔ انھوں نے عوام کی طاقت اور جمہوری عمل کے ذریعے سوشلزم لانے کا کامیاب تجربہ کیا' وہ اپنے انقلاب کو ''بولیویرین انقلاب ''یا ''اکیسویں صدی کا سوشلزم'' کہتے تھے اور ان کے چاہنے والے ان کے نظریات کو ''شاویزمو'' کہتے ہیں۔دو فوجی بغاوتوں سے عوامی قوت کے ذریعے بچ نکل کر شاویز 'سامراج کے خلاف ڈٹے رہے۔
5 مارچ 2013 کو لاطینی امریکا اور دنیا بھر کے محنت کش غم میں ڈوبے ہوئے تھے' آج وہ دیوانہ دنیا میں نہیں رہا' جب سامراجی دنیا اور سرمایہ داری کے پٹھو سوشلزم کا جنازہ نکالنے کی خوشی منا رہے تھے تو انھوںنے ایسے وقت میں سامراجی دنیا کو للکارا اور اعلان کیا کہ' سوشلزم ابھی زندہ ہے اور سامراجیوں کو خوشیاں منانے کے بجائے غریب طبقات اور غریب ممالک کا استحصال بند کرنا چاہیے۔
ان کا اصلی جرم یہ تھا کہ انھوں نے سرد جنگ کے خاتمے سے انکار کردیا۔انھوں نے اس وقت قومی ملکیت کی معاشی حکمت عملی پر عمل شروع کردیا جب سرمایہ داری کے ایجنٹ ساری دنیا کو باور کرا رہے تھے کہ ''مارکیٹ اکانومی اور نجی ملکیت''ہی ترقی کی کلید ہیں'انھوں نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ انسانی سماج کے اندر اصلی اور بنیادی تضاد ''طبقاتی تضاد ''ہے اور جب تک طبقاتی جنگ ختم نہیں ہوگی 'اس وقت تک دنیا میں نہ امن آسکتا ہے اور نہ ہی کوئی ترقی ہو سکتی ہے اور'' تہذیبوں کی جنگ'' ایک خیالی جنگ ہے 'جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ سامراجیوں کی ذہنی اختراع ہے۔ہیوگو شاویز کی موت سے نہ صرف بولیویا اور لاطینی امریکا میں غم کے سایے چھائے ہوئے تھے بلکہ دنیابھر کے محنت کش اور سامراج دشمن مغموم تھے۔ دوسری طرف سامراجی اور سرمایہ دارانہ نظام کے حامی ان کی موت کا جشن منا رہے تھے۔
ہیوگو شاویز کے سیاسی نظریات اور ان کی وراثت کیا ہیں؟ آئیے ذرا شاویزمو (Chavismo)کی چند جھلکیاں ملاحظہ کریں' ہیوگو شاویز نے ایسی اقتصادی پالیسیاں وضع کیں جن کی وجہ سے دولت کی از سرنو تقسیم میں مدد ملی' اس کے نتیجے میں ان کی 14سالہ دور اقتدار کے دوران ملک میں غربت کی شرح 81فی صد سے کم ہو کر 23فی صد تک آگئی' ملک کی کل آبادی کا 97فی صد لکھ پڑھ سکتی ہے' دس سال کے دوران 22نئی سرکاری یونیورسٹیاں قائم کی گئیں۔
وینزویلا کے لاکھوں لوگوں کو زندگی میں پہلی بار ڈاکٹر کے معائنے کی سہولت میسّر آئی'اس کی پالیسیوں کے نتیجے میں ایک رپورٹ کے مطابق ''60لاکھ بچوں کو مفت کھانا ملنا شروع ہوا' ملک کی تمام آبادی کو مفت صحت کی سہولیات ملیں' GDPکے تناسب سے تعلیم پر خرچ ہونے والی رقم دگنی ہوگئی' 2011میں ایک ہاؤسنگ پروگرام کا اجراء کیا گیا جس کے تحت 350,000مکانات تعمیر کیے گئے' گندے ماحول اور کچی آبا دیوں والے لاکھوں خاندانوں کو ان نئے گھروں میں آباد کیا گیا '' ۔
ہیوگو شاویز کا اصلی جرم وہی تھے جو پہلے ہی ہم بیان کر چکے ہیں'انھوں نے اگر ایک طرف عالمی سامراجی مفادات پر ضرب لگائی اور تیل کی صنعت کو قومی تحویل میں لے کر اس کی آمدنی کا رخ عوام کی طرف کردیا تھا اور اس کے علاوہ ملک کے سرمایہ داروں 'جاگیرداروں اور سامراجی ایجنٹوںکو اقتدار سے نکال کران کی جگہ عوام کو اقتدار کا مالک بنایا تو دوسری طرف محنت کشوں کی پہلی جمہوری حکومت قائم کرکے اس سامراجی پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دیا کہ سوشلزم کا'' نظام بدترین آمریت'' لاتا ہے۔
اس کے علاوہ ہیوگو شاویز نے امریکی فلاسفر اور سرمایہ داری اور مغربی جمہوریت کے حامی فرانسس فوکویاما کے ''End of History'' کے فلسفے کو رد کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ سرمایہ داری نظام اور سرمایہ دارانہ جمہوریت انسانیت کی معراج نہیں بلکہ انسانوں کے مسائل کی بنیادی وجہ ہیں اور ان کا خاتمہ کرکے سوشلزم لانا ہی انسانیت کی بقاء اور ترقی کے لیے ضروری ہے' انھوں نے سیموئیل پی ہنٹنگٹن کے اس سامراجی فلسفے کو بھی غلط ثابت کیا کہ اب طبقاتی جنگوں کا زمانہ گزر گیا اور اب آیندہ '' تہذیبوں کے درمیان جنگ'' ہوگی کے فلسفے کو غلط ثابت کرتے ہوئے ہیوگو شاویز نے ثابت کیا کہ سماج کے اندر طبقاتی جنگ کا خاتمہ نہیں ہوا بلکہ یہ ابھی تک جاری ہے اور جب تک سماج میں طبقات ختم نہیں ہوتے امن اور ترقی ناممکن ہے۔
ان کا تیسرا بڑا گناہ یہ ہے کہ انھوں نے ''امریکی سامراج کی کالونی'' کہلانے والے براعظم لاطینی امریکا کو اپنے سامراج دشمن خیالات کی وجہ سے پراگندہ کردیا اور وہاں سے نکل کر عالمی سطح پر سامراجیت کے خلاف نظریات پھیلانے کا سبب بن رہے تھے 'لاطینی امریکا میں جہاں ایک طرف انتہائی بہادر رہنماؤں، بولیویا کے ایوا مورالس اور ایکویڈور کے کوری نے کھلم کھلا ''شاویزمو'' کے نظریے کو قبول کیا تو دوسری طرف برازیل' ارجنٹائن اور چلی کے حکمرانوں نے بھی شاویز کے خلاف امریکی سازشوں کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ بین الاقوامی محاذ پر وہ واحد لیڈر تھے جو ہیٹی' افغانستان 'عراق اور فلسطین میں سامراجی ایجنڈے پر سوالات اٹھا سکتے تھے۔ عالمی سامراجی میڈیا نے شاویز کے آخری رسومات اور دنیا بھر سے آئے ہوئے لاکھوں لوگوں کی اس کے جنازے میں شرکت کو نظر انداز کیا ہے۔
ہیوگو شاویز کی زندگی اور جدوجہد نے یہ ثابت کردیا کہ مارکسزم ابھی زندہ ہے اور غربت انسان کا مقدر نہیں ہے۔آج بھی سوشلزم کا کامیاب سفرباوجود سامراجی سازشوں کے'ویت نام 'شمالی کوریااور دوسرے ملکوں میں کامیابی سے جاری ہے۔ وینزویلا میں شاویز کی موت کے بعد ان کے جانشین صدر نکولس مادورو کو باوجود سامراجی سازشوں کے نہ ہٹایا جا سکا 'بولیویا میں انقلابی ایوا مورالس کو سامراجی سازشوں سے فوج نے برطرف کیا اور پھر انتخابات کرائے تو چے گویرا کے پیروکار مورالس کے ساتھی اکثریت سے پھر انتخابات جیت گئے۔ امریکی سرزمین پر سوشلزم کا لہراتا ہوا پرچم آج بھی سامراج کے سینے پر مونگ دل رہا ہے۔