تہذیب و ثقافت
مختلف ممالک کے مختلف علاقوں میں مختلف تہذیب و ثقافت کے لوگ رہتے ہیں جوکہ سیکڑوں ہزاروں سال پرانے ہیں۔
تہذیب و ثقافت عام طور پر ایک ہی معنی میں استعمال ہونے والے الفاظ ہیںاور ان کا زیادہ تر استعمال ساتھ ساتھ ہی ہوتا ہے۔ ان کے درمیان ایک فرق موجود ہے جس کو سمجھنا ضروری ہے۔ کسی بھی جگہ کسی بھی خطے میں رہنے والے لوگوں کا رہن سہن، رسم و رواج، طور طریقے، زبان، ادب، فنون لطیفہ ان کے نظریات، ان کے عقائد، ان کی سوچیں وہ کن باتوں پر یقین رکھتے ہیں۔
ان باتوں کو ان کی مختلف صورتوں کو ثقافت کہتے ہیں۔ یہی تمام صورتیں، تمام طور طریقے، رسم و رواج جب معاشرے میں استعمال کیے جاتے ہیں تو ان کو ایک طریقے، سلیقے میں یہ سمجھ لیں کہ کچھ اصول وضوابط کے تحت انھیں استعمال کیا جاتا ہے تو وہ پھر تہذیب کے معنی میں آجاتا ہے۔ کسی بھی ثقافت کا وہاں کے رہنے والوں پر زیادہ اثر ہوتا ہے۔
مختلف ممالک کے مختلف علاقوں میں مختلف تہذیب و ثقافت کے لوگ رہتے ہیں جوکہ سیکڑوں ہزاروں سال پرانے ہیں۔ ہمارا ملک بھی مختلف تہذیب و ثقافت کے ملاپ کا ایک مقام ہے ہماری جو قدیم تہذیبیں ہیں ان میں وادیٔ سندھ اور مہرگڑھ، گندھارا کی تہذیبیں شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ہندوؤں، افغانیوں، منگولوں، مغلوں، ترکوں، ایرانیوں اور انگریزوں کی تہذیب و ثقافت کے اثرات بھی نظر آتے ہیں۔ دریا و سمندر، پہاڑ و جنگلات، نخلستان یہاں کی آب و ہوا ان سب نے مل کر ہمارے ملک کی تہذیب و ثقافت کو مزید رنگا رنگ دلکش بنا دیا ہے یہی وجہ ہے مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک الگ الگ زبانیں بولی جاتی ہیں، اپنا اپنا رہن سہن نظر آتا ہے۔
مہرگڑھ قدیم ترین تہذیب ہے اسی دور میں پہلی مرتبہ جنوبی ایشیا میں باقاعدہ زراعت کا آغاز ہوا جو وادیٔ سندھ کی تہذیب کے اختتام تک رہا۔ مہرگڑھ بلوچستان کے ایک علاقے کی تہذیب ہے۔ یہاں جو آثار ملے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ یہاں کے لوگوں نے اینٹوں کے گھروں تعمیر کیے یہ شہر جوکہ ایک سو ستر ایکڑ پر پھیلا ہوا تھا ''مہرگڑھ'' قدیم تہذیب کا اب تک دریافت ہونے والا بڑا شہر ہے۔
موئن جو دڑو کے کھنڈرات لاڑکانہ ڈویژن سندھ میں واقع ہیں۔ کہا جاتا ہے اس وقت یہاں کی آبادی تقریباً پچاس لاکھ نفوس پر تھی۔ یہاں کی گلیاں، تالاب، گھروں کی ترتیب اور فراہمی آب اور نکاسی آب کا نظام تھا اس کو دیکھ کر یہ اندازہ کیا جاتا ہے کہ وہ لوگ اتنی کم، محدود سہولتوں کے باوجود مہذب طریقے سے زندگی گزارتے تھے۔ موئن جو دڑو بھی قدیمی اہم شہروں میں شامل کیا گیا ہے۔
بدھ مت، ہندومت کی تہذیب ہمارے ملک کے شمالی علاقوں میں پروان چڑھی۔ ان علاقوں کے تہذیبی اثرات پر یونانی تہذیب کا اثر نظر آتا ہے۔
گندھارا تہذیب کا مرکز ٹیکسلہ کے مضافات میں واقع ہے وہاں ایک عجائب گھر قائم کیا گیا جس میں گندھارا تہذیب کی باقیات موجود ہیں۔ گندھارا تہذیب کے جو آثار ملے ہیں تمام کو عجائب گھر میں محفوظ کردیا گیا ہے۔
ہمارے ملک کے رسم و رواج سادہ ہیں اور اپنے علاقوں کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی قومی زبان ''اردو'' ہے اور ہر علاقے کے لوگ قومی زبان ''اردو'' آپس میں اسی زبان سے جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی دیگر زبانوں میں پنجابی، سرائیکی، پشتو، ہندکو، بلوچی، سندھی، گجراتی، گلگتی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ قومی لباس شلوار قمیض ہے۔ ٹوپی، اجرک، چادر جو استعمال کی جاتی ہیں ان کے علاقوں کی شناخت الگ ہوجاتی ہے۔
بزرگان دین کے جو عرس ہوتے ہیں ان مواقعوں پر میلے لگائے جاتے ہیں ان میں علاقائی اشیا فروخت کی جاتی ہیں علاوہ ازیں کھیل اور تماشے کے ذریعے بچوں اور بڑوں کو تفریح بھی فراہم کی جاتی ہے۔ عرس کے موقع پر قوالی، حمد و ثنا، ذکر کی محافل لوگوں کے دلوں کو چھوتی ہیں۔ مزارات کے عرس میں ہزاروں افراد کی شرکت ہوتی ہے۔
کھیل میں بھی ہماری ثقافت کا اثر ہے ''ہاکی'' قومی کھیل ضرور ہے لیکن کرکٹ یہاں زیادہ کھیلا اور دیکھا جاتا ہے۔ دیگر علاقائی کھیلوں میں کشتی، ملاکھڑا، کبڈی، گلی ڈنڈا، کنچے، لٹو، تیراکی، والی بال، فٹ بال کے مقابلے بھی دیکھے جاتے ہیں۔
شادی بیاہ،پیدائش و اموات پر بھی مختلف رسم و رواج ہیں۔ شادی و بچہ کی پیدائش پر مختلف انداز میں خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ ماہ رمضان میں مسلمانوں کے لیے روزے فرض ہیں، مساجد افطار میں نمازیوں سے کیسے بھری ہوتی ہیں۔ ماہ رمضان کے اختتام پر عیدالفطر منائی جاتی ہے۔ عیدالاضحی میں مویشیوں کی قربانی کی جاتی ہے۔ پاکستان میں اسلامی ثقافت کا اپنا رنگ اور مختلف مذاہب کا اپنا رنگ ہے۔
پاکستان میں دوسری تہذیبوں کے اثرات بھی دیکھے گئے ہیں، خاص طور پر جو شہری علاقے ہیں وہ مغربی اور پڑوسی علاقوں میں رنگے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے ہم اپنی پہچان کھو رہے ہیں۔ یہ ہمارے لیے قطعی مناسب نہیں کیونکہ ہر قوم کی اپنی تہذیب و ثقافت ہوتی ہے۔ اغیارکی تہذیب کو اپنانے والے نہ صرف وہ اپنوں کو کھو دیتے ہیں بلکہ آنے والی قوم اسلامی تہذیب و اقدارکوکچل دیتی ہے۔
ہر قوم کی اپنی تہذیب اس کی پہچان ہوتی ہے جو اپنا اثر رکھتی ہے اور اپنا مقام پاتی ہے۔ زندہ باشعور اقوام اپنی ثقافت کے ورثے کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں اس کی حفاظت کرتی ہیں اپنی تہذیب و ثقافت کو کبھی بھی فراموش نہیں کرتیں ۔ ہمیں اپنی شناخت کو قائم رکھنے کے لیے رواداری، اقدارکو زندہ رکھنے کے لیے اپنی تہذیب کی بقا کرنی ہوگی۔ اپنی تہذیب و ثقافت کو آج کے لیے اور آنے والے کل کے لیے بچانا ہوگا جو زندہ اور باشعور اقوام کی پہچان ہے۔
اچھا اخلاق ہماری تہذیب کا خاصا ہے،کچھ اعلیٰ و ارفع باتیں کتب میں موجود پائیں لیکن ان پر عمل نظر نہیں آیا۔ اسلامی اقدار یا تہذیب و ثقافت اہم بلکہ اس پر عمل لازم ہے۔ کہا جاتا ہے کسی کو کمزور کرنا ہے تو اس کو اپنا مقروض بنا دو، نہ صرف کمزور بلکہ آپ کا مطیع ہوجائے گا۔ مغرب ہمارے ساتھ کچھ ایسا ہی کر رہا ہے۔ ہم کو ہمارے دین اسلام کی تہذیب و افکار سے علیحدہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ہمیں گریزکرنا چاہیے ہمارے لیے یہی بہتر ہے۔