قوم پرستی بلوچستان اور سامراج پہلاحصہ

بلوچ قوم پرستوں کو اس بات کا ادراک تک نہیں کہ ایک بار پھر سامراج کے ہاتھوں اس خطے کی اقوام کھلونا بن رہی ہیں

اس تحریر کا بنیادی محرک کتاب چہرہ (Face Book) کے ان باکس میں ہونے والی وہ بحث ہے جو بلوچستان کے حوالے سے قوم پرست بلوچ آرگنائزیشن کے کچھ ارکان نے شروع کر رکھی ہے، مجھے بھی اس حساس بحث میں شامل کیا گیا تو میں نے اس موضوع پر کچھ تفصیل سے زمینی حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے لکھنا مناسب سمجھا۔ میرے لیے حیرانی کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو پاکستان کے قیام کو ایک ''تاریخی غلطی'' قرار دیتے ہیں یا یہ سمجھتے ہیں کہ سامراجیوں نے سامراجیوں کے ذریعے اور سامراجیوں کے لیے پاکستان کو بنایا وہی قوم پرستی کا نعرہ لگانے والے لوگ سامراجیوں کے ساتھ کھڑے ہو کر ایک اور غلطی کے مرتکب ہونا چاہتے ہیں اور متضاد رویہ یہ وہ اپنے اس کردار کو جو سامراجیوں کی حمایت میں ادا کر رہے ہیں، نیشنل ازم اور آزاد قومی ریاست کے قیام کے لیے جنگ کا نام دے رہے ہیں۔

تقسیم در تقسیم کا یہ مرحلہ کسی طرح بھی پاکستان کے قیام سے الگ عمل تو نہیں، مگر سیاسی تاریخ کے اس موڑ پر بلوچ قوم پرستوں کو اس بات کا ادراک تک نہیں کہ ایک بار پھر سامراج کے ہاتھوں اس خطے کی اقوام کھلونا بن رہی ہیں۔ سرمایہ دار ہمیشہ یک قومی نظریے کا سہارا لیتے ہیں، کیونکہ انسانوں کے باہمی ربط میں اہم کردار زبان کا ہوتا ہے اور زبان کی ہی بنیاد پر اختلاف قائم کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ نیشنل ازم کی تحریک کا رجحان سرمایہ داری نظام کے تحت تشکیل پاتا ہے اور آزاد قومی ریاست کی بنیاد میں بدیہی طور پر موجود ہوتا ہے، مگر اس کو مضبوطی روایتی استحصالی مقامی با اثر گروہوں کے ذریعے بخشی جاتی ہے۔ اس لیے قوم پرستی سرمایہ داروں کے لیے کئی طرح سے معاون ہوتی ہے۔

قوم پرستی کے حامی سیاسی آئیڈیالوجی کے تحت اپنے مقاصد کے حصول کے لیے قوم کی آزادی کا آئیڈیا استعمال کرتے ہیں، جو سیاست کی تاریخ میں سب سے زیادہ پر اثر اور کارآمد نعرہ رہا ہے۔ دائیں بازو کی سیاست اور بائیں بازو کی سیاست جیسے الفاظ ہمیں روزمرہ سیاسی مباحث میں اکثر سننے کو ملتے رہتے ہیں، مگر نیشنل ازم تیسری قسم کی سیاسی آئیڈیالوجی کی نمایندگی کرتا ہے جس کو واضح طور پر نہ تو بائیں بازو کی سیاست میں رکھا جا سکتا ہے نہ دائیں بازو کی سیاست میں، پھر بھی یہ دو طرح کی سیاست میں ایسی گاڑی کی طرح استعمال ہوتی ہے جس سے تجارت میں نقل و رسد کا کام لیا جا سکتا ہے ۔

قوم پرستی کی آئیڈیالوجی مفاد پرستوں کے لیے بہت کارآمد ہوتی ہے اور انسانی سیاسی تاریخ میں نیشنل ازم کے نام پر فسادات پہلی بار برپا نہیں ہو رہے جو صرف پاکستان اور بلوچستان سے وابستہ ہیں۔ اگر سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو قوم پرستی کی آئیڈیالوجی سرمایہ داروں کی جاگیرداروں پر واضح فتح کے دور سے سرمایہ داری سے وابستہ ہے۔ سرمایہ داروں کی پہلی فتح تبھی ممکن ہوئی تھی جب انھوں نے اس کو نیشنل ازم کی تحریک کے ساتھ وابستہ کر کے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے راستہ ہموار کیا تھا۔ جنس کی پیداوار اور سرمایہ داری کی فتح کے لیے جاگیردارانہ نظام ہی کے پروردہ بورژوا کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے علاقے میں ایسے حصے پر سیاسی طور پر قبضہ کر لیں جس کے عوام کی زبان ایک ہو ثقافت و سماج ایک ہو تا کہ دیگر سماجی و معاشی تضادات کو مشترک زبان و ثقافت کے نام پر مختلف خیالات کے تحت حل کر کے مقامی منڈی پر قابض ہو سکے۔ قوم پرستی کی بنیاد در حقیقت معاشی ہوتی ہے معیشت کو ہی مدِ نظر رکھتے ہوئے قومی آزادی کی تحریک کا آغاز کیا جاتا ہے۔


اس کے لیے سامراجی قوتیں اور سرمایہ دارانہ نظام کے حامی پوری دنیا سے ایسی تحریک کی پشت پناہی کرنے میں مصروف ہوتے ہیں جیسا کہ بلوچستان کے قوم پرست ''تحریکِ آزادی'' کے حامی آزاد منڈی کے بانی امریکا کی مدد سے پوری طرح لیس ہو کر اپنے ہی لوگوں کو بے دریغ موت کے گھاٹ اس لیے اُتار رہے ہیں کہ وہ اپنی وابستگی پاکستان کے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ امریکا اور دنیا کے سامراجیوں کی نظریں اس خطے پر عرصہ دراز سے تھیں، اس کے حصول کے لیے اب بلوچوں کے ذریعے امریکا نے اپنے مخصوص طریقہ کار سے کام لیتے ہوئے بلوچوں پر مختلف تھیوریوں کا اطلاق کر کے ان کی سوچ کو کنٹرول کر لیا ہے۔

امریکا یہ کام پہلی جنگ عظیم سے کر رہا ہے، جب نوم چومسکی کے مطابق امریکی تاریخ دانوں نے "historical Engineering" کی بنیاد رکھی، جس کے ذریعے وہ تاریخ کو لکھیں گے نہیں بلکہ تاریخی حقائق کی ڈیزائننگ اس طور کیا کریں گے کہ گورنمنٹ کی پالیسیوں کو عوام اور دنیا کی نظر میں درست ثابت کر کے جنگ کے مخالفین کو چپ کرا سکیں۔ امریکیوں ہی کی تھیوری ہے کہ جب لوگ کنٹرول نہ کیے جا سکیں تو بہتر یہ ہوتا ہے کہ ان کو اس سوچ کے ذریعے کنٹرول کیا جائے جو وہ پہلے سے سوچ رہے ہوتے ہیں، مثال کے طور پر بلوچ قوم پرست جو خود کو ایک الگ قوم تو تصور کرتے تھے مگر اس تصور کی جو صورتحال اس وقت سیاست میں نظر آ رہی ہے وہ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ امریکا بلوچوں کی قوم پرستی کے تصور کے ذریعے ان کی سوچ کو کنٹرول کر کے پاکستان سے علیحدگی کی تحریک کی پشت پناہی شروع کر رہا ہے۔

دوسری طرف بلوچ سردار بھی خود اسی حربے کو استعمال کرتے ہوئے بلوچستان کے عوام کی سوچ کو قوم پرستی کے تحت اپنے کنٹرول میں کر رہے ہیں اور جو لوگ ایسا نہیں کرتے ان پر غداری کا لیبل لگا کر موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ نیشنل ازم کی تحریک کے ایک رکن نے اپنی اسٹیٹمینٹ میں یہ واضح طور پر تسلیم کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ اپنی زندگی کے خوف سے خاموش رہنے پر مجبور ہیں۔ بلوچ قوم پرست سمجھتے ہیں کہ یہ آزادی کی جنگ ہے جو ان کی قومی شناخت کے استحکام اور آزاد بلوچ ریاست کے قیام کے لیے کی جا رہی ہے، اپنی آزادی کو وہ اپنا حق سمجھتے ہیں مگر یہ سمجھنے سے بالکل قاصر ہیں کہ ان کو آزادی کی ضرورت فیڈرل گورنمنٹ سے نہیں، بلکہ بین الاقوامی سرمایہ داروں اور سامراجیوں سے حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

جنھوں نے بلوچ قوم پرست رہنمائوں پر Indoctrination کی پریکٹس شروع کر رکھی ہے۔ یہ ایسا طریقہ ہے جس کے تحت انسانی دماغ کو غلام بنایا جاتا ہے اور وہ وہی سوچنے لگتا ہے جو اس کا مخالف چاہتا ہے۔ امریکا کا پراپگینڈا سسٹم بہت پرانا اور کارآمد ہے اس کے تحت امریکا نے کئی ممالک میں اپنی مرضی کے حالات پیدا کیے اور اپنے سیاسی مقاصد کے حصول میں سب سے زیادہ کامیاب رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب یہ تیکنیک امریکیوں کے لیے آرٹ کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اس آرٹ کے ذریعے سب سے پہلے شکار ہونے والا طبقہ انٹلیکچؤلز کا ہوتا ہے، کیونکہ یہ سب سے زیادہ تحاریر کو پڑھنے والا بھی ہوتا ہے اور امریکا اپنے پراپگینڈے کا استعمال سب سے زیادہ اخبارات کے اداریوں اور کالم نویسی کے ذریعے کرتا ہے۔
Load Next Story