بلاول بھٹو کی آٹھ رکنی مشاورتی کمیٹی

بلاول بھٹو 30نومبر 2013ء کو پیپلزپارٹی کے یوم تاسیس پر تقریر سے اپنی عملی سیاست کا باقاعدہ آغاز کرچکے ہیں...

فوٹو: فائل

بلاول بھٹو 30نومبر 2013ء کو پیپلزپارٹی کے یوم تاسیس پر تقریر سے اپنی عملی سیاست کا باقاعدہ آغاز کرچکے ہیں اور وہ تمام قومی ایشوز پر کھل کرجارجانہ انداز اختیار کر رہے ہیں، اس سے واضح ہوگیا ہے کہ پیپلزپارٹی اگلا الیکشن بلاول بھٹو کی سرکردگی میں لڑے گی۔

بلاول بھٹو آہستہ آہستہ پیپلزپارٹی کے غیر متنازعہ لیڈر بن رہے ہیں کیونکہ وہ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی لیگسی اور سیاسی جانشینی کے واحد وارث بن کر سامنے آئے ہیں۔ سابق صدرآصف علی زرداری کئی بار کہہ چکے تھے کہ بلاول بھٹو مناسب موقع پر سیاست کرے گا، اب لگتا ہے کہ آصف زرداری سیاست سے پیچھے ہٹ کر خود بلاول بھٹوکو موقع دے رہے ہیں۔ بلاول بھٹو نے 27دسمبر کو گڑھی خدا بخش میں اپنی تقریر میں کہا تھا کہ بے نظیر بھٹو کے سارے بچے سیاست کریں گے، اب لگتا یوں ہے کہ پورا خاندان بلاول کی قیادت میں آگے چلے گا۔ 27دسمبر کو بے نظیر بھٹو شہید کی برسی پر بھی بلاول بھٹو کی تقریر بڑی اہم تھی، اس سے کئی حوالے سے پیپلزپارٹی میں پایا جانے والا کنفیوژن ختم ہوگیا ہے۔ بلاول بھٹو کے بارے میں یہ خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ سابق دور حکومت میں پیپلزپارٹی کی جس طرح کی گورننس رہی ہے اس سے وہ مطمئن نہیں اور وہ پارٹی میں نئی گروپ بندی اور حکمت عملی لانا چاہتے ہیں ۔

اس پس منظر میں بلال بھٹو کی مشاورتی ٹیم کی تشکیل دوسرا اہم ترین فیصلہ ہے اور بلاول بھٹو نے اپنی 8رکنی مشاورتی کمیٹی میں وہ لوگ شامل کئے ہیں جو پچھلی حکومت میں اہم نہیں تھے۔ ان میں چار سینئر مشیر بنائے گئے ہیں، جن میں بشیر ریاض ، بیرسٹرمسعود کوثر، جہانگیر بدر اور نوابزادہ غضنفر علی گل شامل ہیں جبکہ ہشام ریاض شیخ چیف آف سٹاف، فواد چودھری میڈیا ایڈوائزر،جمیل سومرو میڈیا ایڈوائزر و کوآرڈینیٹر میڈیا سیل بلاول ہاؤس اور سریندر ولاسی مشیر برائے اقلیتی امور تعینات کئے گئے۔ قمر زماں کائرہ، ڈاکٹر عاصم حسین، فاروق ایچ نائیک، رحمٰن ملک سمیت وہ چہرے جو سابق زرداری حکومت میں اہم عہدوں پر نظر آتے تھے ان میں سے کوئی بھی بلاول کی ٹیم میں شامل نہیں ہے۔ بلاول بھٹو کے چاروں سینئر مشیر ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے ساتھ رہے ہیں۔ بلاول بھٹو نے دو نوجوانوں ہشام ریاض شیخ اور فواد چودھری کو بھی اپنی ٹیم میں شامل کیا ہے، وہ ان کے قریبی ساتھیوں میں شمار کئے جاتے ہیں اور یہ نوجوان بلاول بھٹو کی نئی سوچ کے عکاس ہیں۔

ہشام ریاض شیخ سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے احمد ریاض کے صاحبزادے اور پیپلزپارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی کے منگیتر بھی ہیں اور ایچی سن کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ وہ پچھلے چھ سال سے بلاول بھٹو کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ہشام ریاض شیخ بطور چیف آف سٹاف بلاول بھٹو کے ڈے ٹو ڈے آفیئرز اور آفس ورک دیکھیں گے ۔ فواد چوہدری پیپلزپارٹی کے سابق وزرائے اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے مشیر برائے سیاسی امور رہ چکے ہیں۔ ان کے تایا چوہدری الطاف حسین بے نظیر بھٹو کے دور میں گورنر پنجاب تھے۔ فواد چوہدری میڈیا میں ذاتی حلقہ اثر رکھتے ہیں، ملک کے نامور ٹی وی اینکرز، کالم نویس اور رپورٹرز ان کے ذاتی دوستوں میں شامل ہیں۔وہ عالمی میڈیا میں بھی تعلقات رکھتے ہیں۔ وہ موجودہ دور کی میڈیا وار سے بخوبی واقف ہیں، انہیں پتہ ہے کہ کیسے کسی شخصیت کی امیج بلڈنگ کرنی ہے اور کونسے سیاسی ایشو کو میڈیا میں اوپر نیچے کرنا ہے۔ وہ قانونی نزاکتوں سے بھی آگاہ ہیں اور پارٹی کا بڑے موثر اور مدلل انداز میں دفاع کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں۔




وہ میڈیا میں بلاول بھٹو کی کافی مدد کرسکیں گے۔ فواد چودھری بڑے مؤثر انداز سے حکومتی پالیسیوں کو ٹارگٹ کرتے ہیں۔ جمیل سومرو پہلے سے ہی بلاول ہاؤس میڈیا کے امور دیکھ رہے تھے، ان پر ایک بار پھر اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے، جمیل سومرو سندھی اخبارات کو دیکھیں گے۔ بشیر ریاض پیپلزپارٹی کی تشکیل سے پہلے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے قریب رہے اور انہیں چیئرمین کا اعتماد حاصل تھا۔ بشیر ریاض نے-79 1978ء میں برطانیہ میں مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو کے ساتھ مل کر بھٹو کی رہائی کیلئے تحریک چلائی۔ انہیں محترمہ بینظیر بھٹو کا معتمد خاص ہونے کا اعزاز حاصل تھا، محترمہ جن لوگوں پر سب سے زیادہ اعتماد کرتی تھیں، وہ ان میں شامل تھے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر بلاول بھٹو تک نسل در نسل بھٹو خاندان کے ساتھ ہیں اور انہیں بھٹو خاندان کے اہم فرد کی حیثیت حاصل ہے ۔ بشیر ریاض کا بے نظیر بھٹو شہید کے میڈیا کے حوالے سے بڑا رول تھا ۔ وہ فارن پریس کو دیکھتے تھے۔ وہ اس وقت بھٹولیگسی فاؤنڈیشن کے سربراہ بھی ہیں اور اس پلیٹ فارم پر پارٹی کیلئے گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں ۔ بشیر ریاض اب تک سات کتابیں شائع کر چکے ہیں، ان میں ذوالفقار علی بھٹو کی اپنی کتاب ''مائی پاکستان'' کے انگلش اور ارود ایڈیشن،''دختر مشرق'' کا نیا ترمیم شدہ ایڈیشن ،''بے نظیر یادیں''،''اگر مجھے قتل کر دیا گیا''اردو ایڈیشن،''عظیم المیہ''شامل ہیں۔-2007 1999ء تک بے نظیر بھٹو شہید کے مضامین پر مشتمل کتاب بھی تیاری کے آخری مراحل میں ہے ۔ یوں انہیں پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان کی زندہ تاریخ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

نوابزادہ غضنفر گل پارلیمانی سیاست میں گائیڈ لائن کیلئے لائے گئے ہیں۔ بے نظیر بھٹو نوابزادہ غضنفر گل کی گفتگو بہت پسند کرتی تھیں اور ان کی پارٹی کے ساتھ گہری وابستگی بھی رہی ہے۔ ان کی گجرات کی مقامی سیاست میں چودھری برادران سے ہمیشہ رقابت رہی ہے جس کے باعث وہ مسلم لیگ(ق) کے ساتھ اتحاد کے سخت خلاف تھے۔ نوابزادہ غضنفر گل کے بھائی پیپلزپارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ(ن) میں چلے گئے مگر وہ مشکل حالات میں بھی پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے۔

جہانگیر بدر دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ ورکر کی سیاست کی ہے جس پر انہیں ورکر کی نمائندگی کیلئے لایا گیا ہے۔ وہ ورکرز کیلئے اپنی گائیڈ لائن دیں گے۔ بیرسٹر مسعود کوثر گورنر خیبر پختونخوا رہ چکے ہیں اور نامور انقلابی شاعر احمد فراز کے بھائی ہیں۔ وہ پیپلزپارٹی کے ورکرز میں ترقی پسند سوچ کی نمائندگی کرتے ہیں۔بلاول بھٹو کی ٹیم میں ایسی پارٹی شخصیات کو شامل کیا گیا جن سے لبرل اور ماڈریٹ تشخص کو تقویت ملے گی اور پیپلزپارٹی میں بائیں بازو کا رنگ نمایاں نظر آئے گا۔ یہ مشاورتی ٹیم پالیسی معاملات میں بلاول بھٹو کی مدد کرے گی اور مختلف ایشوز پر اپنی رائے دے گی۔ ان نامزدگیوں سے بھی تاثر ملتا ہے کہ بلاول بھٹو پارٹی میں ترقی پسند سوچ کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں اور بلاول بھٹو کی سربراہی میں پارٹی پالیسی ماڈریٹ ہوگی۔ بلاول بھٹو اس ماڈریٹ سوچ کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ بلاول بھٹو نے اپنی تقریروں اور پیغامات میں پارٹی منشور کی وضاحت کردی ہے۔ جو حلقے یہ سمجھ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی محض سندھ تک محدود ہوگئی ہے، ان کی آنکھیں اس وقت کھلیں گی ، جب بلاول بھٹو لاہور میں جلسہ کریں گے، جو سیاسی قوتیں سمجھ رہی ہیں کہ پنجاب ان کا ہے تو ان کے لیے اطلاع ہے کہ بلاول کی مشاورتی ٹیم میں وہ لوگ شامل ہیں جنہوں نے پنجاب میں پارٹی کا عروج اور زوال دیکھا ہے، وہ بلاول کو پنجاب کے میدان جنگ میں ہر صورت اتاریں گے اور بلاول بھی یہ جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر نے جنگ لڑی تھی۔ سب دیکھیں گے کہ آئندہ الیکشن میں بلاول لاہور کے اسی حلقے سے الیکشن لڑیں گے جہاںسے بھٹو اور بے نظیر کامیاب رہے، پنجاب کس کے ساتھ ہے، اس کا پتہ بھی چل جائے گا، بس ذرا وقت آنے دیں، پھر دیکھیں جیالا کیسے دما دم مست قلندر کا نعرہ بلند کرتا ہے۔
Load Next Story