طالبان سے مذاکرات کیلئے واضح پالیسی اپنانے کی ضرورت
مرکزی حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا پہلا راؤنڈ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کی وجہ سے ناکام ہونے کے بعد...
ISLAMABAD:
مرکزی حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا پہلا راؤنڈ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کی وجہ سے ناکام ہونے کے بعد اب مولانا سمیع الحق کے توسط سے دوسرا راؤنڈ شروع تو کردیا ہے۔
تاہم اس دوسرے راؤنڈ کے حوالے سے بہت سے ابہام موجود ہیں کیونکہ ایک جانب تو مولانا سمیع الحق یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ انھیں طالبان کے ساتھ مذاکرات کا فریضہ سونپ دیا گیاہے اور انہوں نے اس سلسلے میں رابطے بھی شروع کر رکھے ہیں جبکہ دوسری جانب سے سرکاری طور پر اس کی باقاعدہ تردید یا تصدیق سامنے نہیں آئی جس کی وجہ سے صورت حال واضح نہیں ہے ، مولانا سمیع الحق کو اگر طالبان کے ساتھ مذاکرات کا فریضہ سونپا گیا ہے تو یقینی طور پر اس صورت حال کی وجہ سے مولانا فضل الرحمٰن ناراض ہوں گے۔
کیونکہ مولانا فضل الرحمٰن قیام امن کے سلسلے میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کا معاملہ اپنے ہاتھوں میں رکھنے کے خواہاں ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا پہلا راؤنڈ شروع ہوئے بغیر ہی ختم ہوگیا تو مولانا فضل الرحمٰن نے اپنی پارٹی کی جانب سے تشکیل کردہ قبائلی جرگہ کو کوئی ماہ تک غیر فعال رہنے کے بعد دوبارہ نہ صرف فعال کیا بلکہ جرگہ کے اجلاس کے بعد وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کرتے ہوئے انھیں اس بارے میں رپورٹ بھی دی اور اسی تسلسل میں مذکورہ قبائلی جرگہ نے اپنا کام بھی شروع کردیا جس میں ابتدائی طور پر طالبان کے ساتھ کچھ رابطے بھی کیے گئے تاہم مولانا سمیع الحق کے اچانک درمیان میں آنے سے ایک مرتبہ پھر حالات تبدیل ہوگئے ہیں ۔
یہ بات تو یقینی ہے کہ اگر مولانا سمیع الحق قیام امن کے سلسلے میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کریں گے تو مولانا فضل الرحمٰن خود کو اس عمل سے دور رکھیں گے اور اگر مولانا فضل الرحمٰن اس حوالے سے کوشاں ہوں گے تو پھر مولانا سمیع الحق اس عمل سے الگ رہیں گے تاہم مرکزی حکومت کی اس حوالے سے جو پالیسی نظر آرہی ہے وہ یہی ہے کہ مرکز نہ تو مولانا سمیع الحق کو ناراض کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی مولانا فضل الرحمٰن کو اس سارے معاملے میں سائیڈ لائن کر رہاہے کیونکہ مرکزی حکومت اور وزیراعظم میاں نواز شریف کے جن کے مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل الرحمن دونوں کے ساتھ دیرینہ مراسم بھی ہیں اور اس بات سے بھی وہ بخوبی واقف ہیں کہ مذکورہ دونوں مولانا صاحبان کا طالبان کے کون ،کون سے گروپوں پر اثر و رسوخ ہے۔
وہ ممکنہ طور پر دونوں مولانا صاحبان کے تجربہ اور صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کے خواہاں ہیں تاہم ان تمام باتوں سے قطع نظر طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے اب بھی دھند کے بادل چھائے ہوئے ہیں کیونکہ مرکز اس سلسلے میں کھل کر بات نہیں کر رہا جس کی وجہ سے یا تو اشاروں کنایوں میں باتیں کی جا رہی ہیں یا پھر ذرائع ہی اندر کی باتیں کھینچ ،کھینچ کر باہر لا رہے ہیں جس کی وجہ سے اصل حقیقت سامنے آنے کی بجائے سنی سنائی باتیں اور دلوں میں چھپی خواہشات ہی سامنے آ رہی ہیں اور اس ساری صورت حال کا خاتمہ اور کوئی نہیں بلکہ خود مرکزی حکومت ہی کر سکتی ہے تاہم مرکز جس بے دلی سے یہ معاملہ لے کر آگے بڑھ رہا ہے اس سے کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ مرکز کو کسی ''خاص اشارہ'' کا انتظار ہے اور جب تک وہ اشارہ مرکز کو مل نہیں جاتا ، مرکز معاملات کو اسی انداز میں لے کر چلتا رہے گا۔
اگر ایک طرف حکومت نے کنفیوژن کی صورت حال برقرار رکھی ہوئی ہے تو دوسری جانب طالبان کے کیمپ میں بھی ایسی ہی صورت حال پائی جاتی ہے جس کا اندازہ اس وقت سے لگایا جا رہا تھا کہ جب طالبان کی قیادت وزیرستان سے پہلی مرتبہ نکل کر خیبر پختونخوا کے بندوبستی علاقہ کے رہائشی مولانا فضل اللہ کے ہاتھوں میں آئی جن کے حوالے سے یہ بات خوب عیاں ہے کہ وہ سخت گیر انسان کے طور پر شہرت رکھتے ہیں اور انھیں حکومت کے ساتھ مذاکرات کا شدید مخالف سمجھا جاتا ہے ۔ جبکہ دوسری جانب یہ بھی اطلاعات ہیں کہ طالبان کے بعض گروپ اس بات کے خواہاں ہیں کہ مرکزی حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کیے جائیں اور یہ سلسلہ آگے بڑھایا جائے جس کی وجہ سے شاید اب تک اس حوالے سے کوئی واضح پالیسی ان کی جانب سے بھی وضع نہیں کی جاسکی ، یہی وجہ ہے کہ حکومت بھی معاملات کو دھیرے ،دھیرے آگے بڑھا رہی ہے اور طالبان بھی ،گویا دونوں جانب سے ''دیکھو اور انتظار کرو''کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے۔
، تاہم اس جمودی کیفیت کا خاتمہ بہرکیف دونوں جانب سے ضرور ہونا چاہیے کیونکہ معاملات کو یوں جمود میں آخر کب تک رکھا جا سکتا ہے ؟ اس حوالے سے یہ بات بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے کہ مرکزی حکومت اور طالبان دونوں افغانستان کی صورت حال کے حوالے سے معاملات کا انتظار کر رہے ہیں کیونکہ جس 2014 ء کا نام لے کر ڈرایا جاتا تھا وہ سال شروع ہو چکا ہے اور افغانستان کی صورت حال یہ ہے کہ اب تک وہاں پر افغان صدر حامد کرزئی نے معاہدہ پر دستخط نہیں کیے جس کی وجہ سے امریکی اور نیٹو افواج کے وہاں ٹھہرنے کے حوالے سے بھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا اس لیے اس بات کا امکان موجود ہے کہ سارا انتظار افغانستان کی صورت حال میں تبدیلی کے حوالے سے کیا جا رہا ہو اور جب وہاں کے حوالے سے صورت حال واضح ہو جائے تو پھر ممکنہ طور پر پاکستان میں بھی معاملات واضح ہونا شروع ہوں۔
مولانا فضل الرحمٰن خیبرپختونخوا میں عام انتخابات کے فوراًبعد سے جس رابطہ کا انتظار کر رہے تھے وہ رابطہ آخر کار ہو ہی گیا ہے او ریہ رابطہ ہے مولانا فضل الرحمٰن اور آفتاب شیر پاؤ کا ، مولانا فضل الرحمٰن کی صوبہ میں حکومت سازی کے وقت خواہش تھی کہ آفتاب شیر پاؤ ان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں تاکہ وہ صوبہ میں اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل حکو مت بناسکیں تاہم اس وقت قومی وطن پارٹی نے آزمائے ہوؤں کو آزمانے کی بجائے نئے لوگوں کو آزمانے کا فیصلہ کیا اور تحریک انصاف کے ساتھ شریک اقتدار ہوگئی، تاہم اب اقتدار کی کشتی سے اتارے جانے کے بعد قومی وطن پارٹی نے اپوزیشن کی جماعتوں کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے ، مولانا فضل الرحمٰن اور آفتاب احمد شیر پاؤ کے درمیان ہونے والی اس ملاقات کے حوالے سے دور، دور کی کوڑیاں لائی جا رہی ہیں اور یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اب صوبہ میں تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ کرکے ہی دم لیں گی ۔ مگر زمینی حقائق اس سے مختلف ہیں کیونکہ تحریک انصاف اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ اقتدار برقراررکھنے کے لیے لازمی اعداد وشمار پورے رکھے ہوئے ہے اور جس فارورڈ بلاک کی امید پر حکومت کو چلتا کرنے کے خواب دیکھے جا رہے ہیں اس فارورڈ بلاک کے آثار بھی تاحال دور ، دور تک موجود نہیں ہیں اور ایسے حالات میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ارکان سنبھل کر ہی چلیں گے تاکہ ان کے خلاف پارٹی کی جانب سے کوئی کاروائی نہ ہو اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر وہ تحریک انصاف کے خلاف ہوکر اپوزیشن جماعتوں کا ساتھ دیتے بھی ہیں تو اس صورت میں دوسری جانب انھیں پانچ اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل بھان متی کے کنبہ کے ساتھ ملنا ہوگا جو پہلے ہی سے حکومتی عہدوں کی تقسیم کے فارمولے بھی وضع کر چکی ہیں اس لیے پی ٹی آئی جو ارکان آج اپنی پارٹی کے ساتھ رہتے ہوئے محرومین میں سے ہیں، وہ پی ٹی آئی مخالف بن کر بھی محرومین ہی میں سے ہوں گے۔
مرکزی حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا پہلا راؤنڈ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کی وجہ سے ناکام ہونے کے بعد اب مولانا سمیع الحق کے توسط سے دوسرا راؤنڈ شروع تو کردیا ہے۔
تاہم اس دوسرے راؤنڈ کے حوالے سے بہت سے ابہام موجود ہیں کیونکہ ایک جانب تو مولانا سمیع الحق یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ انھیں طالبان کے ساتھ مذاکرات کا فریضہ سونپ دیا گیاہے اور انہوں نے اس سلسلے میں رابطے بھی شروع کر رکھے ہیں جبکہ دوسری جانب سے سرکاری طور پر اس کی باقاعدہ تردید یا تصدیق سامنے نہیں آئی جس کی وجہ سے صورت حال واضح نہیں ہے ، مولانا سمیع الحق کو اگر طالبان کے ساتھ مذاکرات کا فریضہ سونپا گیا ہے تو یقینی طور پر اس صورت حال کی وجہ سے مولانا فضل الرحمٰن ناراض ہوں گے۔
کیونکہ مولانا فضل الرحمٰن قیام امن کے سلسلے میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کا معاملہ اپنے ہاتھوں میں رکھنے کے خواہاں ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا پہلا راؤنڈ شروع ہوئے بغیر ہی ختم ہوگیا تو مولانا فضل الرحمٰن نے اپنی پارٹی کی جانب سے تشکیل کردہ قبائلی جرگہ کو کوئی ماہ تک غیر فعال رہنے کے بعد دوبارہ نہ صرف فعال کیا بلکہ جرگہ کے اجلاس کے بعد وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کرتے ہوئے انھیں اس بارے میں رپورٹ بھی دی اور اسی تسلسل میں مذکورہ قبائلی جرگہ نے اپنا کام بھی شروع کردیا جس میں ابتدائی طور پر طالبان کے ساتھ کچھ رابطے بھی کیے گئے تاہم مولانا سمیع الحق کے اچانک درمیان میں آنے سے ایک مرتبہ پھر حالات تبدیل ہوگئے ہیں ۔
یہ بات تو یقینی ہے کہ اگر مولانا سمیع الحق قیام امن کے سلسلے میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کریں گے تو مولانا فضل الرحمٰن خود کو اس عمل سے دور رکھیں گے اور اگر مولانا فضل الرحمٰن اس حوالے سے کوشاں ہوں گے تو پھر مولانا سمیع الحق اس عمل سے الگ رہیں گے تاہم مرکزی حکومت کی اس حوالے سے جو پالیسی نظر آرہی ہے وہ یہی ہے کہ مرکز نہ تو مولانا سمیع الحق کو ناراض کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی مولانا فضل الرحمٰن کو اس سارے معاملے میں سائیڈ لائن کر رہاہے کیونکہ مرکزی حکومت اور وزیراعظم میاں نواز شریف کے جن کے مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل الرحمن دونوں کے ساتھ دیرینہ مراسم بھی ہیں اور اس بات سے بھی وہ بخوبی واقف ہیں کہ مذکورہ دونوں مولانا صاحبان کا طالبان کے کون ،کون سے گروپوں پر اثر و رسوخ ہے۔
وہ ممکنہ طور پر دونوں مولانا صاحبان کے تجربہ اور صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کے خواہاں ہیں تاہم ان تمام باتوں سے قطع نظر طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے اب بھی دھند کے بادل چھائے ہوئے ہیں کیونکہ مرکز اس سلسلے میں کھل کر بات نہیں کر رہا جس کی وجہ سے یا تو اشاروں کنایوں میں باتیں کی جا رہی ہیں یا پھر ذرائع ہی اندر کی باتیں کھینچ ،کھینچ کر باہر لا رہے ہیں جس کی وجہ سے اصل حقیقت سامنے آنے کی بجائے سنی سنائی باتیں اور دلوں میں چھپی خواہشات ہی سامنے آ رہی ہیں اور اس ساری صورت حال کا خاتمہ اور کوئی نہیں بلکہ خود مرکزی حکومت ہی کر سکتی ہے تاہم مرکز جس بے دلی سے یہ معاملہ لے کر آگے بڑھ رہا ہے اس سے کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ مرکز کو کسی ''خاص اشارہ'' کا انتظار ہے اور جب تک وہ اشارہ مرکز کو مل نہیں جاتا ، مرکز معاملات کو اسی انداز میں لے کر چلتا رہے گا۔
اگر ایک طرف حکومت نے کنفیوژن کی صورت حال برقرار رکھی ہوئی ہے تو دوسری جانب طالبان کے کیمپ میں بھی ایسی ہی صورت حال پائی جاتی ہے جس کا اندازہ اس وقت سے لگایا جا رہا تھا کہ جب طالبان کی قیادت وزیرستان سے پہلی مرتبہ نکل کر خیبر پختونخوا کے بندوبستی علاقہ کے رہائشی مولانا فضل اللہ کے ہاتھوں میں آئی جن کے حوالے سے یہ بات خوب عیاں ہے کہ وہ سخت گیر انسان کے طور پر شہرت رکھتے ہیں اور انھیں حکومت کے ساتھ مذاکرات کا شدید مخالف سمجھا جاتا ہے ۔ جبکہ دوسری جانب یہ بھی اطلاعات ہیں کہ طالبان کے بعض گروپ اس بات کے خواہاں ہیں کہ مرکزی حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کیے جائیں اور یہ سلسلہ آگے بڑھایا جائے جس کی وجہ سے شاید اب تک اس حوالے سے کوئی واضح پالیسی ان کی جانب سے بھی وضع نہیں کی جاسکی ، یہی وجہ ہے کہ حکومت بھی معاملات کو دھیرے ،دھیرے آگے بڑھا رہی ہے اور طالبان بھی ،گویا دونوں جانب سے ''دیکھو اور انتظار کرو''کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے۔
، تاہم اس جمودی کیفیت کا خاتمہ بہرکیف دونوں جانب سے ضرور ہونا چاہیے کیونکہ معاملات کو یوں جمود میں آخر کب تک رکھا جا سکتا ہے ؟ اس حوالے سے یہ بات بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے کہ مرکزی حکومت اور طالبان دونوں افغانستان کی صورت حال کے حوالے سے معاملات کا انتظار کر رہے ہیں کیونکہ جس 2014 ء کا نام لے کر ڈرایا جاتا تھا وہ سال شروع ہو چکا ہے اور افغانستان کی صورت حال یہ ہے کہ اب تک وہاں پر افغان صدر حامد کرزئی نے معاہدہ پر دستخط نہیں کیے جس کی وجہ سے امریکی اور نیٹو افواج کے وہاں ٹھہرنے کے حوالے سے بھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا اس لیے اس بات کا امکان موجود ہے کہ سارا انتظار افغانستان کی صورت حال میں تبدیلی کے حوالے سے کیا جا رہا ہو اور جب وہاں کے حوالے سے صورت حال واضح ہو جائے تو پھر ممکنہ طور پر پاکستان میں بھی معاملات واضح ہونا شروع ہوں۔
مولانا فضل الرحمٰن خیبرپختونخوا میں عام انتخابات کے فوراًبعد سے جس رابطہ کا انتظار کر رہے تھے وہ رابطہ آخر کار ہو ہی گیا ہے او ریہ رابطہ ہے مولانا فضل الرحمٰن اور آفتاب شیر پاؤ کا ، مولانا فضل الرحمٰن کی صوبہ میں حکومت سازی کے وقت خواہش تھی کہ آفتاب شیر پاؤ ان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں تاکہ وہ صوبہ میں اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل حکو مت بناسکیں تاہم اس وقت قومی وطن پارٹی نے آزمائے ہوؤں کو آزمانے کی بجائے نئے لوگوں کو آزمانے کا فیصلہ کیا اور تحریک انصاف کے ساتھ شریک اقتدار ہوگئی، تاہم اب اقتدار کی کشتی سے اتارے جانے کے بعد قومی وطن پارٹی نے اپوزیشن کی جماعتوں کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے ، مولانا فضل الرحمٰن اور آفتاب احمد شیر پاؤ کے درمیان ہونے والی اس ملاقات کے حوالے سے دور، دور کی کوڑیاں لائی جا رہی ہیں اور یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اب صوبہ میں تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ کرکے ہی دم لیں گی ۔ مگر زمینی حقائق اس سے مختلف ہیں کیونکہ تحریک انصاف اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ اقتدار برقراررکھنے کے لیے لازمی اعداد وشمار پورے رکھے ہوئے ہے اور جس فارورڈ بلاک کی امید پر حکومت کو چلتا کرنے کے خواب دیکھے جا رہے ہیں اس فارورڈ بلاک کے آثار بھی تاحال دور ، دور تک موجود نہیں ہیں اور ایسے حالات میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ارکان سنبھل کر ہی چلیں گے تاکہ ان کے خلاف پارٹی کی جانب سے کوئی کاروائی نہ ہو اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر وہ تحریک انصاف کے خلاف ہوکر اپوزیشن جماعتوں کا ساتھ دیتے بھی ہیں تو اس صورت میں دوسری جانب انھیں پانچ اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل بھان متی کے کنبہ کے ساتھ ملنا ہوگا جو پہلے ہی سے حکومتی عہدوں کی تقسیم کے فارمولے بھی وضع کر چکی ہیں اس لیے پی ٹی آئی جو ارکان آج اپنی پارٹی کے ساتھ رہتے ہوئے محرومین میں سے ہیں، وہ پی ٹی آئی مخالف بن کر بھی محرومین ہی میں سے ہوں گے۔