الطاف حسین کی تقریر پر سیاسی رہنماؤں کا سخت ردعمل

متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے کراچی اور حیدرآباد میں ہونے والے جلسوں میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی...

فوٹو: فائل

متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے کراچی اور حیدرآباد میں ہونے والے جلسوں میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی تقاریر پر سندھ میں سخت ردعمل سامنے آیا ہے ۔

حیدرآباد کے جلسے میں الطاف حسین نے کہا تھا کہ اگر اردو بولنے والے سندھی پسند نہیں ہیں تو ان کا صوبہ الگ کردیا جائے اور اگر ان کے مسائل حل نہ کئے گئے تو بات صوبے سے الگ ملک تک بھی جاسکتی ہے ۔ ان کے اس بیان پر پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے فوری ردعمل میں کہا تھا کہ '' مرسوں ، مرسوں ، سندھ نہ ڈیسوِں '' یعنی ہم مر جائیں گے لیکن سندھ نہیں دیں گے ۔ دیگر سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست رہنما ؤں کی طرف سے بھی اس بیان پر انتہائی دکھ اور تشویش کا اظہار کیا گیا اور سندھ کی تقسیم یا پاکستان کو توڑنے کی بات کی زبردست مخالفت کی گئی۔ سندھ بھر میں اس بیان پر زبردست احتجاج بھی کیا گیا ۔ قومی عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو نے یہ اعلان کیا کہ پیر 6 جنوری کو پورے سندھ میں پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال ہو گی ۔

اس ہڑتال کی کئی سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں نے حمایت کی تھی ۔ بعد ازاں کراچی کے جلسے میں خطاب کرتے ہوئے الطاف حسین نے اپنے اس بیان کی وضاحت کی اور کہا کہ سندھ دھرتی ماں ہے ، اسے تقسیم کرنے کا کبھی نہیں کہا لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بات بھی کہہ دی کہ اگر حقوق نہیں دینے تو سندھ کو 1 اور 2 بنا دیا جائے ۔ ایک سندھ پیپلز پارٹی والوں کے لیے ہو اور دوسرا سندھ مہاجروں ، پنجابیوں ، پختونوں ، سندھیوں اور بلوچوں کے لیے ہو

۔ اس طرح الطاف حسین نے اپنے دوسرے جلسے میں سندھ کو تقسیم کرنے کی بات دوسرے انداز میں کی لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کی طرف سے اگرچہ دوسرے بیان پر بھی رد عمل سخت تھا لیکن رد عمل دینے میں پہلے والا جوش و خروش نہیں تھا ۔ کراچی والے جلسے کے بعد ایم کیو ایم کا ایک وفد سابق وزیر اعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کے ساتھ ایاز لطیف پلیجو کے پاس ملاقات کے لیے پہنچ گیا ۔ وفد کے ایاز لطیف پلیجو سے مذاکرات کامیاب رہے اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ سندھ کی وحدت کے خلاف کوئی بات نہیں کی جائے گی۔ اس پر ایاز لطیف پلیجو نے ہڑتال کی کال واپس لے لی اور سیاسی ماحول میں پائی جانے والی کشیدگی کم ہو گئی۔




خوش آئند بات یہ ہے کہ الطاف حسین کے بیانات اور اس پر مختلف سیاسی رہنماؤں کے رد عمل کے باوجود سندھ میں عوامی سطح پر کوئی کشیدگی پیدا نہیں ہوئی اور لوگ ہر جگہ پر امن رہے ۔ ایم کیو ایم کے رہنما بھی اپنے قائد کے بیان کی وضاحت کرتے رہے اور معاملات کو سلجھاتے رہے جبکہ دیگر سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کے رہنماؤ ں کی طرف سے بھی جو رد عمل سامنے آیا ، اس میں اس بات کا خاص طور پر خیال کیا گیا کہ لوگوں میں نفرت پیدا نہ ہو ۔ تمام لوگ بھائی چارے اور ہم آہنگی کی بات کرتے رہے ۔کراچی میں ایک دو علاقوں میںصورت حال کشیدہ ہوئی لیکن پورے ملک میں کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا ۔ یہ بات تشویشناک ہے کہ ان بیانات کی وجہ سے سیاسی ماحول گرم ہونے کے ساتھ ساتھ ٹارگٹ کلنگ میں بھی اضافہ ہوا ۔ یہ سیاسی قیادت کی اجتماعی دانشمندی ہے کہ صورت حال قابو میں رہی اور لسانی نفرتوں کو ہوا نہیں دی گئی ۔ ایم کیو ایم کے قائد نے اس طرح کے بیانات کیوں دیئے ؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں اور اندازے قائم کیے جا رہے ہیں ۔ مختلف سیاسی رہنما ، سیاسی تجزیہ کار اور مبصرین مختلف آراء پیش کر رہے ہیں لیکن اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ ان بیانات کے پس پردہ اسباب کچھ دنوں بعد سامنے آئیں گے ۔

اب تک جو بات واضح نظر آ رہی ہے، وہ یہ ہے کہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات 18جنوری کو نہیں ہوں گے۔ کوئی بھی وثوق سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ بلدیاتی انتخابات آئندہ کب ہوں گے ۔ بلدیاتی انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع ہونے کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے متعدد آئینی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا کہ آزادکمیشن کی نگرانی میں حلقہ بندیاں دوبارہ کرکے 18جنوری کو انتخابات کرائے جائیں اور اگر سندھ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اس کام میں وقت درکار ہے کہ تووہ انتخابات کی تاریخ میں توسیع کرانے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور سپریم کورٹ سے رجوع کرے ۔ حکومت سندھ نے حلقہ بندیاں ازسرنوکرنے کی بجائے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائرکردی ہے اور یہ موقف اختیار کیا ہے کہ حلقہ بندیاں قانون کی مطابق کی گئی ہیں اور حکومت سندھ نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا ہے ۔ لہٰذا سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر 18جنوری کو انتخابات کرا دیئے جائیں

۔ جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا ہے اور یہ موقف اختیار کیا ہے کہ سندھ اور لاہورہائی کورٹ کے فیصلوں کے بعد سندھ اور پنجاب میں غیر یقینی صورت حال پیدا ہوگئی ہے ۔ سپریم کورٹ بلدیاتی انتخابات کی تاریخوں کے حوالے سے کوئی حکم دے تاکہ امیدواروں میں پائی جانے والی بے چینی کا خاتمہ کیا جاسکے ۔ اس طرح الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات کی تاریخ میں توسیع کے لیے رجوع کرکے سندھ اور پنجاب کی حکومتوں کو ان الزامات سے بچا لیا ہے کہ وہ انتخابات نہیں کرانا چاہتی ہیں ۔ معاملات چونکہ عدالتوں میں چلے گئے ہیں ، اس لیے سپریم کورٹ سے بھی یہ توقع کی جا رہی ہے کہ بلدیاتی انتخابات کی تاریخ میں توسیع کی اجازت دے دی جائے گی ۔ ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کے بیانات کے بعدحلقہ بندیوں اور سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترامیم کے خلاف ایم کیو ایم اور سندھ کی اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے درمیان جو اتحاد قائم ہوا تھا ، وہ بہت حد تک ٹوٹ گیا ہے ۔

متحدہ اپوزیشن کا جو تصور پیدا ہو رہا تھا ، اس کو بھی نقصان پہنچا ہے ۔ اس طرح حکومت نہ صرف اپوزیشن کے دباؤ سے نکل آئی ہے بلکہ حلقہ بندیوں اور ترامیم کے معاملے پر اپوزیشن کی جماعتوں کی عوامی حمایت بھی متاثر ہوئی ہے ۔ اس طرح حکومت سندھ نہ صرف مارچ میں انتخابات کرانے کے اپنے مقصد میں کامیاب ہوتی نظرآرہی ہے بلکہ اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کا جواز بھی بہت حد تک کم ہوگیا ہے ۔ حکومت سندھ نے اگرچہ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ پہلے کی طرح مشاورت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن یہ مشاورت قانونی جنگ ختم ہونے کے بعد ہی شروع ہو سکتی ہے ۔ الیکشن کمیشن کی درخواست پر پنجاب اور سندھ بلدیاتی انتخابات کی تاریخ میں توسیع تو ہو جائے گی اور تاریخ کے حوالے سے امیدواروں میں پائی جانے والی بے چینی بھی ختم ہوجائے گی لیکن کراچی میں امیدواروں کو قتل کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے ، وہ ختم ہوگا یا نہیں ؟ یہ اس وقت سب سے بڑا سیاسی سوال ہے ۔
Load Next Story