اشرافیہ کا پاکستان
پاکستان کے کرتا دھرتا خوش حال ہیں، محفوظ ہیں کہ بیشتر اپنے ساتھ سیکیورٹی کا پورا لاؤ لشکر لے کر چلتے ہیں۔
بلوچستان میں سینیٹ الیکشن کا ٹکٹ ستر کروڑ روپے میں حاصل کرنے کا الزام، سندھ کے پی ٹی آئی کے رہنما کا الزام کہ سینیٹ کی ٹکٹ 35 کروڑ روپے میں دی گئی۔
الیکشن سے قبل ارکان اسمبلی کو کروڑوں روپے کے ترقیاتی کاموں کی یقین دِہانی، بقول وزیر اعظم سینیٹ الیکشن کے لیے ووٹ خریدنے کی منڈی لگی ہوئی ہے؛ یہ اور ایسے ہی الزامات گزشتہ کئی ہفتوں میں بار بار سنے۔ کچھ مختلف انداز کے الزامات چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے سلسلے میں دونوں جانب سے سامنے آئے کہ ہمارے ممبران کو دھمکی آمیز کالز کی گئیں، اِس کے یا اُس کے لیے ووٹ ڈالنے کا کہا گیا۔
یہ ہے ایک طرح کا پاکستان جس کا گزشتہ کئی عشروں سے ہم نظارہ کر رہے ہیں۔ اس سے قبل ضمنی انتخابات کا معرکہ بھی اسی شد و مد سے برپا ہوا۔ سیاست میں روپے پیسے کی اندھا دھند ریل پیل اب کسی کے لیے بھی اچنبھے کی بات نہیں رہی، ہاں مگر اب دھیرے دھیرے طاقت ، عدم برداشت اور تشدد بھی روا ہوتا جا رہا ہے۔ ڈسکہ الیکشن کے نتیجے میں جو میدان ڈسکہ میں سجا، سو سجا، اس کے بعد میڈیا میں تا دیر فریقین نے ایک دوسرے کو رگڑا۔ مجال ہے کسی ایک فریق نے اپنی معمولی کوتاہی بھی قبول کرنے کا تردد کیا ہو۔ بلکہ حسب معمول اس کے بعد الیکشن کمیشن پر تنقید اور اعلیٰ عدالتوں میں اپنی اپنی درخواستوں کی شنوائی سے معرکہ آرائی کا تسلسل برقرار رکھا۔
اس طرح کے پاکستان کے کرتا دھرتا خوش حال ہیں، محفوظ ہیں کہ بیشتر اپنے ساتھ سیکیورٹی کا پورا لاؤ لشکر لے کر چلتے ہیں۔ اس پاکستان کے باسیوں کے مسائل ہی کچھ اور ہیں؛ اب کیا ہوگا؟ اقتدار میں اب کون کون سی نئی سازشی تھیوری چل رہی ہے؟ کون سا نیا فارمولا کہیں دور نیم تاریک ڈرائنگ روم میں بن رہا ہے؟ اگلا محاذ کیا ہوگا؟ کون گیا؟ اب کس کے پو بارہ ہیں ؟ وغیرہ وغیرہ۔ایک اور طرح کا پاکستان بھی اسی دھرتی پر آباد ہے، یہ کیسا پاکستان ہے؟ اس کی یوں تو روز و شب بے تحاشا مثالیں دیکھتے ہیں اور میڈیا میں پڑھتے سنتے بھی ہیں۔
دو روز قبل پاکستان بھر سے دو سال کا ڈیٹا جمع کرکے پہلی بار ایک عرق ریزی سے ایک جامع رپورٹ سامنے لائی گئی۔پاکستان سوسائٹی آف نیفرولوجی کے مطابق پاکستان 2013 میں شوگر مریضوں کی تعداد کے حساب سے دنیا کے ٹاپ دس ممالک میں شامل نہ تھا ۔ اگراضافے کی وہی شرح برقرار رہتی تو 2025-30تک پاکستان کے دنیا کے ٹاپ دس ممالک میں شامل ہونے کی توقع تھی۔ مگر کیا کیجیے کہ شوگر کا مرض اس تیزی سے پھیل رہا ہے کہ دس بارہ سال کا سفر صرف چار سالوں میں طے کر لیا !
پاکستان 2017 میں ٹاپ دس ممالک میں شامل ہوچکا ہے۔ 2019 کے اعدادوشمار اس سے بھی زیادہ خوف ناک ہیں۔ پاکستان اس وقت لگ بھگ دو کروڑ شوگر مریضوں کے ساتھ دنیا بھر میںچوتھا متاثرہ ترین ملک ہے۔ اس وقت مرض کے اضافے کی شرح 7 -8% سالانہ ہے مگر ماہرین کو خدشہ ہے کہ جس رفتار سے یہ مرض پھیل رہا ہے ، اس کے بڑھنے کی شرح 2030تک 11-12% ہو سکتی ہے۔ اس اعتبار سے یہ ایک خاموش مگر مہلک پیش رفت ہے ۔
پاکستان رینل Renal ڈیٹا سسٹم کے ذریعے سے ترتیب پانے والی پہلی رپورٹ سے یہ پریشان کن حقیقت سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں گردو ں کی آخری اسٹیج یعنی End Stage Kidney Disease میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ کلینیکل ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں ڈائلاسزکے 44% مریض ہیپا ٹائیٹس کے شکار ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق گردوں کی آخری اسٹیج کے مریضوں میں 33% شوگر کے ہیں۔
شوگر اور ہیپاٹائیٹس میں اس تیز پھیلاؤ سے واضح ہے کہ پاکستان صحت کے ایک بڑے بحران کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ شیخ زائد اسپتال کے شعبہ نیفرالوجی میں قائم اس ڈیٹا سسٹم کے ذریعے پہلی بار کلینیکل ڈیٹا اکٹھا کرکے ایک جامع رپورٹ مرتب کی گئی جب کہ اس سے قبل ان اعدادوشمار کا تخمینہ عالمی ادارے ہی لگاتے تھے۔
ان ماہرین کے مطابق گردوں کی آخری اسٹیج کی بیماری میں 40- 59% تک سب سے بڑی وجہ شوگر ہی سامنے آئی۔ اس کے بعد پتھری سمیت دیگر وجوہات ہیں۔ گردوں کی بیماری حد سے بڑھ جانے پر بہت سے مریضوں کے لیے ڈائیلسز ہی زندگی کا آسرا رہ جاتا ہے، علاج تکلیف دہ اور مہنگا بھی ہوتا ہے۔ان وجوہات کو روکنے کے لیے حکومتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ مگر سال ہا سال کا اندازِ سیاست ہیلتھ سیکٹر کی ٹرانسفرز پوسٹنگ اور اربوں روپے کے بجٹ کے لیے تو ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے مگر بنیادی وجوہات سے اغماض کے سبب پاکستان میں یہ مہلک امراض مزید تیزی سے پھیل رہے ہیں۔
مقتدر اشرافیہ اب تک اپنے پاکستان میں محفوظ ہمہ وقت اقتدار کی سانپ سیڑھی والا کھیل کھیلتے آئے ہیں جب کہ دو اور طرح کے پاکستان اپنے بوجھ تلے بے بس ہو رہے ہیں۔ اگر بقیہ دو طرح کے پاکستان کے مسائل کی طرف توجہ نہ کی گئی تو اشرافیہ کا پاکستان زیادہ دیر تک محفوظ نہیں رہ پائے گا۔ تاریخ کا سبق تو یہی ہے اگر کوئی سیکھنا چاہے۔
الیکشن سے قبل ارکان اسمبلی کو کروڑوں روپے کے ترقیاتی کاموں کی یقین دِہانی، بقول وزیر اعظم سینیٹ الیکشن کے لیے ووٹ خریدنے کی منڈی لگی ہوئی ہے؛ یہ اور ایسے ہی الزامات گزشتہ کئی ہفتوں میں بار بار سنے۔ کچھ مختلف انداز کے الزامات چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے سلسلے میں دونوں جانب سے سامنے آئے کہ ہمارے ممبران کو دھمکی آمیز کالز کی گئیں، اِس کے یا اُس کے لیے ووٹ ڈالنے کا کہا گیا۔
یہ ہے ایک طرح کا پاکستان جس کا گزشتہ کئی عشروں سے ہم نظارہ کر رہے ہیں۔ اس سے قبل ضمنی انتخابات کا معرکہ بھی اسی شد و مد سے برپا ہوا۔ سیاست میں روپے پیسے کی اندھا دھند ریل پیل اب کسی کے لیے بھی اچنبھے کی بات نہیں رہی، ہاں مگر اب دھیرے دھیرے طاقت ، عدم برداشت اور تشدد بھی روا ہوتا جا رہا ہے۔ ڈسکہ الیکشن کے نتیجے میں جو میدان ڈسکہ میں سجا، سو سجا، اس کے بعد میڈیا میں تا دیر فریقین نے ایک دوسرے کو رگڑا۔ مجال ہے کسی ایک فریق نے اپنی معمولی کوتاہی بھی قبول کرنے کا تردد کیا ہو۔ بلکہ حسب معمول اس کے بعد الیکشن کمیشن پر تنقید اور اعلیٰ عدالتوں میں اپنی اپنی درخواستوں کی شنوائی سے معرکہ آرائی کا تسلسل برقرار رکھا۔
اس طرح کے پاکستان کے کرتا دھرتا خوش حال ہیں، محفوظ ہیں کہ بیشتر اپنے ساتھ سیکیورٹی کا پورا لاؤ لشکر لے کر چلتے ہیں۔ اس پاکستان کے باسیوں کے مسائل ہی کچھ اور ہیں؛ اب کیا ہوگا؟ اقتدار میں اب کون کون سی نئی سازشی تھیوری چل رہی ہے؟ کون سا نیا فارمولا کہیں دور نیم تاریک ڈرائنگ روم میں بن رہا ہے؟ اگلا محاذ کیا ہوگا؟ کون گیا؟ اب کس کے پو بارہ ہیں ؟ وغیرہ وغیرہ۔ایک اور طرح کا پاکستان بھی اسی دھرتی پر آباد ہے، یہ کیسا پاکستان ہے؟ اس کی یوں تو روز و شب بے تحاشا مثالیں دیکھتے ہیں اور میڈیا میں پڑھتے سنتے بھی ہیں۔
دو روز قبل پاکستان بھر سے دو سال کا ڈیٹا جمع کرکے پہلی بار ایک عرق ریزی سے ایک جامع رپورٹ سامنے لائی گئی۔پاکستان سوسائٹی آف نیفرولوجی کے مطابق پاکستان 2013 میں شوگر مریضوں کی تعداد کے حساب سے دنیا کے ٹاپ دس ممالک میں شامل نہ تھا ۔ اگراضافے کی وہی شرح برقرار رہتی تو 2025-30تک پاکستان کے دنیا کے ٹاپ دس ممالک میں شامل ہونے کی توقع تھی۔ مگر کیا کیجیے کہ شوگر کا مرض اس تیزی سے پھیل رہا ہے کہ دس بارہ سال کا سفر صرف چار سالوں میں طے کر لیا !
پاکستان 2017 میں ٹاپ دس ممالک میں شامل ہوچکا ہے۔ 2019 کے اعدادوشمار اس سے بھی زیادہ خوف ناک ہیں۔ پاکستان اس وقت لگ بھگ دو کروڑ شوگر مریضوں کے ساتھ دنیا بھر میںچوتھا متاثرہ ترین ملک ہے۔ اس وقت مرض کے اضافے کی شرح 7 -8% سالانہ ہے مگر ماہرین کو خدشہ ہے کہ جس رفتار سے یہ مرض پھیل رہا ہے ، اس کے بڑھنے کی شرح 2030تک 11-12% ہو سکتی ہے۔ اس اعتبار سے یہ ایک خاموش مگر مہلک پیش رفت ہے ۔
پاکستان رینل Renal ڈیٹا سسٹم کے ذریعے سے ترتیب پانے والی پہلی رپورٹ سے یہ پریشان کن حقیقت سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں گردو ں کی آخری اسٹیج یعنی End Stage Kidney Disease میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ کلینیکل ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں ڈائلاسزکے 44% مریض ہیپا ٹائیٹس کے شکار ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق گردوں کی آخری اسٹیج کے مریضوں میں 33% شوگر کے ہیں۔
شوگر اور ہیپاٹائیٹس میں اس تیز پھیلاؤ سے واضح ہے کہ پاکستان صحت کے ایک بڑے بحران کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ شیخ زائد اسپتال کے شعبہ نیفرالوجی میں قائم اس ڈیٹا سسٹم کے ذریعے پہلی بار کلینیکل ڈیٹا اکٹھا کرکے ایک جامع رپورٹ مرتب کی گئی جب کہ اس سے قبل ان اعدادوشمار کا تخمینہ عالمی ادارے ہی لگاتے تھے۔
ان ماہرین کے مطابق گردوں کی آخری اسٹیج کی بیماری میں 40- 59% تک سب سے بڑی وجہ شوگر ہی سامنے آئی۔ اس کے بعد پتھری سمیت دیگر وجوہات ہیں۔ گردوں کی بیماری حد سے بڑھ جانے پر بہت سے مریضوں کے لیے ڈائیلسز ہی زندگی کا آسرا رہ جاتا ہے، علاج تکلیف دہ اور مہنگا بھی ہوتا ہے۔ان وجوہات کو روکنے کے لیے حکومتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ مگر سال ہا سال کا اندازِ سیاست ہیلتھ سیکٹر کی ٹرانسفرز پوسٹنگ اور اربوں روپے کے بجٹ کے لیے تو ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے مگر بنیادی وجوہات سے اغماض کے سبب پاکستان میں یہ مہلک امراض مزید تیزی سے پھیل رہے ہیں۔
مقتدر اشرافیہ اب تک اپنے پاکستان میں محفوظ ہمہ وقت اقتدار کی سانپ سیڑھی والا کھیل کھیلتے آئے ہیں جب کہ دو اور طرح کے پاکستان اپنے بوجھ تلے بے بس ہو رہے ہیں۔ اگر بقیہ دو طرح کے پاکستان کے مسائل کی طرف توجہ نہ کی گئی تو اشرافیہ کا پاکستان زیادہ دیر تک محفوظ نہیں رہ پائے گا۔ تاریخ کا سبق تو یہی ہے اگر کوئی سیکھنا چاہے۔