جمہوری اخلاقیات داؤ پر
وزیر اعظم عمران خان پر 180اراکین اسمبلی کا اعتماد جمہوریت کی فتح ہے۔
ہم سینیٹ کے چیئرمین کا انتخاب جیتیں گے، صادق سنجرانی حکومت اور ریاست کے نمایندہ ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان پر 180اراکین اسمبلی کا اعتماد جمہوریت کی فتح ہے، یوسف رضا گیلانی کو کامیاب بنانے کے لیے ووٹ خریدے گئے، ہم ابھی لوٹوں کے خلاف کارروائی کے متحمل نہیں ہوسکتے، ہم انتخاب میں کامیابی کے لیے ہر حربہ استعمال کریں گے۔
وزیر اعظم عمران خان ، وزیر داخلہ شیخ رشید اور وزیر اطلاعات شبلی فراز گزشتہ ہفتہ سے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے قومی اسمبلی سے سینیٹر منتخب ہونے کے بعد یہ بیانات دے رہے ہیں۔ ان بیانات کے سائے میں سینیٹ کے انتخابات منعقد ہوئے۔ حکومتی وزراء ان جماعتوں کے رہنماؤں کو روزانہ بدعنوان قرار دیتے نہیں تھکتے۔
وزیر اعظم عمران خان نے اعتمادکی تحریک کی کامیابی کے بعد اپنی تقریرکا بیشتر حصہ مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف ، ان کے اہلِ خانہ ، پیپلز پارٹی کے آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی کو دنیا کے سامنے کرپٹ ترین سیاستدان قرار دینے میں صرف کیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے فرمایا کہ یہ رہنما ٹکٹ دینے کے پیسے لیتے ہیں۔
اب ان پیسے دے کر سینیٹر بننے والوں سے اپنے امیدوار کے لیے ووٹ مانگنے کا مطلب کیا ہے؟ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ وزیر اعظم کو اعتماد کی تحریک کی حمایت میں جو 180ووٹ ملے ان میں وہ اراکین بھی شامل تھے جنھوں نے اپنے قائد کی ہدایات کو پامال کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیے تھے، جب یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کا اعلان ہوا تو وزراء نے کہا کہ ان بکنے والے اراکین کے خلاف کارروائی ہوگی۔ وزیر اطلاعات مسلسل یہ فرماتے ہیں کہ سینیٹ کے گزشتہ انتخابات میں پارٹی کی ہدایات نہ ماننے والے 20 اراکین صوبائی اسمبلی کو پارٹی سے نکال دیا گیا تھا مگر اب ان اراکین سے ووٹ لے کر ان کو سرخرو کیا گیا۔
وزیر اعظم عمران خان الیکشن کمیشن کے آزادانہ کردار سے ناراض ہیں۔ ان کی ناراضگی فارن فنڈنگ کیس کی کارروائی اور ڈسکہ میں قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں پریزائیڈنگ افسروں کے اغواء کے واقعہ کو الیکشن کمیشن کی جانب سے ریکارڈ پر لانے کے بعد شروع ہوئی۔ 2018 کے انتخابات سے پہلے الیکشن کمیشن نے بلند و بانگ دعوے کیے تھے۔ پہلی دفعہ پولنگ اسٹیشن میں کلوز ڈورکیمرے نصب کیے گئے۔ پریزائیڈنگ افسروں کو اپنے اسمارٹ فون سے ریٹرننگ افسر اور الیکشن کمیشن کے دفتر تک نتائج کی فوری رسائی کے لیے RTS کا نظام قائم کیا گیا تھا۔
2013 کے انتخابات میں دھاندلیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پریزائیڈنگ افسروں کے مرتب کردہ فارم 45 کی خامیوں کو دورکرتے ہوئے نئے طریقے سے ترتیب دیا گیا تھا مگر انتخاب والے دن RTS کے نظام نے کام نہیں کیا۔ کراچی، لاہور اور دیگر شہروں کے نتائج 18 سے 27 گھنٹوں بعد الیکشن کمیشن کے دفتر پہنچے۔
نادرا کے حکام نے واضح کیا کہ RTS کے نظام میں کوئی خامی نہیں تھی۔ مخالف جماعتوں کے امیدواروں نے الزام لگایا کہ گنتی کے وقت ان کے کاؤنٹنگ ایجٹوں کو پولنگ بوتھ سے نکال دیا گیا۔ اس وقت کے الیکشن کمیشن نے ان شکایات پر کوئی توجہ نہیں دی تھی اور وزیر اعظم عمران خان نے اس بناء پر الیکشن کمیشن کے کردار کو سراہا تھا۔
فیصل واوڈا نے قومی اسمبلی کے انتخاب میں ووٹ ڈالا اور تھوڑی دیر بعد ان کا استعفیٰ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرایا گیا۔ یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادہ علی حیدر گیلانی کی ایک وڈیو منظر عام پر آئی۔ علی حیدر گیلانی اس وڈیو میں تحریک انصاف کے دو اراکین سے گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔
سندھ کے وزیر اطلاعات ناصر شاہ کا حوالہ بھی اس وڈیو میں سنائی دیا۔ گزشتہ ہفتہ یہ دو اراکین وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ دینے والوں میں شامل تھے۔ ان اراکین نے وزیر اعظم سے ملاقات کی اور صحافیوں کے سوالات کے جواب میں کہا کہ وہ عمران خان کے سپاہی ہیں۔ اب کہا جارہا ہے کہ تحریک انصاف کے تھنک ٹینک نے اسٹنگ آپریشن کیا تھا ۔ قانونی ماہرین اس استدلال کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
جماعت اسلامی کے چترال سے قومی اسمبلی کے رکن کا کہنا ہے کہ انھیں ڈاکٹر حفیظ شیخ کو ووٹ دینے کے لیے حلقہ میں ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈز فراہم کرنے کی پیشکش کی گئی تھی۔ ایک فرد عبدالقادرکو بلوچستان سے سینیٹ کا ٹکٹ دیا گیا، جب ان پر ٹکٹ خریدنے کے الزامات لگے تو ٹکٹ واپس لیاگیا اور وہ آزاد حیثیت میں کامیاب ہوگئے اور آج وہ وزیر اعظم کے سائے میں فخرکر رہے ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر حفیظ شیخ کو دوبارہ وزیر بنا دیا گیا ہے۔ پاکستان میں شفاف انتخابات اور انتخابی نتائج کے مطابق اقتدار کی پرامن منتقلی اہم مسائل میں شامل ہیں۔
50 کی دہائی میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں کمیونسٹ پارٹی کے امیدوار مرزا ابراہیم کو دھاندلی کے ذریعہ شکست دی گئی تھی۔ اسی بناء پر جھرلو کی اصطلاح رائج ہوئی۔ سوائے 1970 کے انتخابات کے تمام انتخابات مشکوک قرار پائے۔
1977 کے انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات پر چلنے والی پرتشدد تحریک کی بناء پر جنرل ضیاء الحق کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کوکمزورکرنے کا موقع ملا۔ انتخابی دھاندلیوں کے حوالے سے صورتحال اتنی خراب ہے کہ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ برملا کہتے ہیں کہ بلوچستان میں انتخابات میں امیدواروں کی کامیابی کا فیصلہ ووٹر نہیں کرتے بلکہ کہیں اور انتخابی نتائج طے ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کی ہوائی فوج کے سابق سربراہ ائیر مارشل اصغر خان نے 1991 کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف عدالتوں میں طویل جدوجہد کی۔
مگر اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ تمام حقائق سامنے آنے کے باوجود کسی فرد کو سزا نہ ملی۔ انتخابات میں دھاندلیوں سے جہاں عوام کا جمہوری اداروں پر اعتماد مجروح ہوتا ہے وہاں دھاندلی کے ذریعہ منتخب ہونے والی حکومت ڈیپ اسٹیٹ کی بلیک میلنگ کا شکار رہتی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت اسی کھیل کا شکار ہوئی، یوں شفاف انصاف کا نعرہ فضاؤں میں تحلیل ہوا۔ اس دفعہ پیپلز پارٹی بھی اس کھیل میں ملوث رہی۔ سندھ میں قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ کی دہشت گردی کے مقدمہ میں مسلسل حراست اور تحریک انصاف کے دو منتخب رہنماؤں کا اپنی جماعت سے انحراف اور سرکاری پنجوں میں بیٹھنا پیپلز پارٹی کے جمہوری اقتدار کی پاسداری کے نعرہ پر سیاہی پھیلا رہا ہے۔
وزیر اعظم بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں یوسف رضا گیلانی کے لیے ووٹ خریدے جارہے ہیں۔ انھوں نے الیکشن کمیشن کو بھی مشورہ دیا تھا کہ کمیشن سینیٹ کے انتخابات میں ووٹوں کی خریدو فروخت کے بارے میں خفیہ ایجنسیوں کی بریفنگ لے۔ ووٹوں کی خریدوفروخت ایک حساس معاملہ ہے مگر اس معاملہ میں اگر وزیر اعظم کے پاس کوئی معلومات ہیں یا کسی ایجنسی نے کوئی رپورٹ بنائی ہے تو وزیر اعظم عمران خان کی ذمے داری ہے کہ ان رپورٹوں کو شایع کریں تاکہ عوام حقائق سے آگاہ ہوسکیں۔
چیف الیکشن کمشنر کو ایجنسیوں کی خفیہ بریفنگ سے شفاف انتخاب کا مسئلہ حل ہوگا۔ بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ سینیٹ میں حکومتی نمایندے اقلیت میں ہیں اور حکومت اپنا امیدوارکامیاب کرانا چاہتی ہے تو یہ صرف اسی طرح کی ہارس ٹریڈنگ سے ممکن ہے جیسی ہارس ٹریڈنگ سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی کا سبب بنی تھی۔
اس انتخابی قصہ میں شیخ رشید کی یہ بات کہ صادق سنجرانی حکومت اور ریاست کے نمایندے ہیں ساری دنیا اس بات کا کیا مطلب لے گی وزیر اعظم عمران خان کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ووٹنگ اوپن بیلٹ سے ہوں یا خفیہ بیلٹ سے اگر تمام سیاسی جماعتیں جمہوری اخلاقیات کی پاسداری نہیں کریں گی تو جمہوری نظام کمزور رہے گا۔
وزیر اعظم عمران خان ، وزیر داخلہ شیخ رشید اور وزیر اطلاعات شبلی فراز گزشتہ ہفتہ سے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے قومی اسمبلی سے سینیٹر منتخب ہونے کے بعد یہ بیانات دے رہے ہیں۔ ان بیانات کے سائے میں سینیٹ کے انتخابات منعقد ہوئے۔ حکومتی وزراء ان جماعتوں کے رہنماؤں کو روزانہ بدعنوان قرار دیتے نہیں تھکتے۔
وزیر اعظم عمران خان نے اعتمادکی تحریک کی کامیابی کے بعد اپنی تقریرکا بیشتر حصہ مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف ، ان کے اہلِ خانہ ، پیپلز پارٹی کے آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی کو دنیا کے سامنے کرپٹ ترین سیاستدان قرار دینے میں صرف کیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے فرمایا کہ یہ رہنما ٹکٹ دینے کے پیسے لیتے ہیں۔
اب ان پیسے دے کر سینیٹر بننے والوں سے اپنے امیدوار کے لیے ووٹ مانگنے کا مطلب کیا ہے؟ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ وزیر اعظم کو اعتماد کی تحریک کی حمایت میں جو 180ووٹ ملے ان میں وہ اراکین بھی شامل تھے جنھوں نے اپنے قائد کی ہدایات کو پامال کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیے تھے، جب یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کا اعلان ہوا تو وزراء نے کہا کہ ان بکنے والے اراکین کے خلاف کارروائی ہوگی۔ وزیر اطلاعات مسلسل یہ فرماتے ہیں کہ سینیٹ کے گزشتہ انتخابات میں پارٹی کی ہدایات نہ ماننے والے 20 اراکین صوبائی اسمبلی کو پارٹی سے نکال دیا گیا تھا مگر اب ان اراکین سے ووٹ لے کر ان کو سرخرو کیا گیا۔
وزیر اعظم عمران خان الیکشن کمیشن کے آزادانہ کردار سے ناراض ہیں۔ ان کی ناراضگی فارن فنڈنگ کیس کی کارروائی اور ڈسکہ میں قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں پریزائیڈنگ افسروں کے اغواء کے واقعہ کو الیکشن کمیشن کی جانب سے ریکارڈ پر لانے کے بعد شروع ہوئی۔ 2018 کے انتخابات سے پہلے الیکشن کمیشن نے بلند و بانگ دعوے کیے تھے۔ پہلی دفعہ پولنگ اسٹیشن میں کلوز ڈورکیمرے نصب کیے گئے۔ پریزائیڈنگ افسروں کو اپنے اسمارٹ فون سے ریٹرننگ افسر اور الیکشن کمیشن کے دفتر تک نتائج کی فوری رسائی کے لیے RTS کا نظام قائم کیا گیا تھا۔
2013 کے انتخابات میں دھاندلیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پریزائیڈنگ افسروں کے مرتب کردہ فارم 45 کی خامیوں کو دورکرتے ہوئے نئے طریقے سے ترتیب دیا گیا تھا مگر انتخاب والے دن RTS کے نظام نے کام نہیں کیا۔ کراچی، لاہور اور دیگر شہروں کے نتائج 18 سے 27 گھنٹوں بعد الیکشن کمیشن کے دفتر پہنچے۔
نادرا کے حکام نے واضح کیا کہ RTS کے نظام میں کوئی خامی نہیں تھی۔ مخالف جماعتوں کے امیدواروں نے الزام لگایا کہ گنتی کے وقت ان کے کاؤنٹنگ ایجٹوں کو پولنگ بوتھ سے نکال دیا گیا۔ اس وقت کے الیکشن کمیشن نے ان شکایات پر کوئی توجہ نہیں دی تھی اور وزیر اعظم عمران خان نے اس بناء پر الیکشن کمیشن کے کردار کو سراہا تھا۔
فیصل واوڈا نے قومی اسمبلی کے انتخاب میں ووٹ ڈالا اور تھوڑی دیر بعد ان کا استعفیٰ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرایا گیا۔ یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادہ علی حیدر گیلانی کی ایک وڈیو منظر عام پر آئی۔ علی حیدر گیلانی اس وڈیو میں تحریک انصاف کے دو اراکین سے گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔
سندھ کے وزیر اطلاعات ناصر شاہ کا حوالہ بھی اس وڈیو میں سنائی دیا۔ گزشتہ ہفتہ یہ دو اراکین وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ دینے والوں میں شامل تھے۔ ان اراکین نے وزیر اعظم سے ملاقات کی اور صحافیوں کے سوالات کے جواب میں کہا کہ وہ عمران خان کے سپاہی ہیں۔ اب کہا جارہا ہے کہ تحریک انصاف کے تھنک ٹینک نے اسٹنگ آپریشن کیا تھا ۔ قانونی ماہرین اس استدلال کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
جماعت اسلامی کے چترال سے قومی اسمبلی کے رکن کا کہنا ہے کہ انھیں ڈاکٹر حفیظ شیخ کو ووٹ دینے کے لیے حلقہ میں ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈز فراہم کرنے کی پیشکش کی گئی تھی۔ ایک فرد عبدالقادرکو بلوچستان سے سینیٹ کا ٹکٹ دیا گیا، جب ان پر ٹکٹ خریدنے کے الزامات لگے تو ٹکٹ واپس لیاگیا اور وہ آزاد حیثیت میں کامیاب ہوگئے اور آج وہ وزیر اعظم کے سائے میں فخرکر رہے ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر حفیظ شیخ کو دوبارہ وزیر بنا دیا گیا ہے۔ پاکستان میں شفاف انتخابات اور انتخابی نتائج کے مطابق اقتدار کی پرامن منتقلی اہم مسائل میں شامل ہیں۔
50 کی دہائی میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں کمیونسٹ پارٹی کے امیدوار مرزا ابراہیم کو دھاندلی کے ذریعہ شکست دی گئی تھی۔ اسی بناء پر جھرلو کی اصطلاح رائج ہوئی۔ سوائے 1970 کے انتخابات کے تمام انتخابات مشکوک قرار پائے۔
1977 کے انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات پر چلنے والی پرتشدد تحریک کی بناء پر جنرل ضیاء الحق کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کوکمزورکرنے کا موقع ملا۔ انتخابی دھاندلیوں کے حوالے سے صورتحال اتنی خراب ہے کہ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ برملا کہتے ہیں کہ بلوچستان میں انتخابات میں امیدواروں کی کامیابی کا فیصلہ ووٹر نہیں کرتے بلکہ کہیں اور انتخابی نتائج طے ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کی ہوائی فوج کے سابق سربراہ ائیر مارشل اصغر خان نے 1991 کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف عدالتوں میں طویل جدوجہد کی۔
مگر اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ تمام حقائق سامنے آنے کے باوجود کسی فرد کو سزا نہ ملی۔ انتخابات میں دھاندلیوں سے جہاں عوام کا جمہوری اداروں پر اعتماد مجروح ہوتا ہے وہاں دھاندلی کے ذریعہ منتخب ہونے والی حکومت ڈیپ اسٹیٹ کی بلیک میلنگ کا شکار رہتی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت اسی کھیل کا شکار ہوئی، یوں شفاف انصاف کا نعرہ فضاؤں میں تحلیل ہوا۔ اس دفعہ پیپلز پارٹی بھی اس کھیل میں ملوث رہی۔ سندھ میں قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ کی دہشت گردی کے مقدمہ میں مسلسل حراست اور تحریک انصاف کے دو منتخب رہنماؤں کا اپنی جماعت سے انحراف اور سرکاری پنجوں میں بیٹھنا پیپلز پارٹی کے جمہوری اقتدار کی پاسداری کے نعرہ پر سیاہی پھیلا رہا ہے۔
وزیر اعظم بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں یوسف رضا گیلانی کے لیے ووٹ خریدے جارہے ہیں۔ انھوں نے الیکشن کمیشن کو بھی مشورہ دیا تھا کہ کمیشن سینیٹ کے انتخابات میں ووٹوں کی خریدو فروخت کے بارے میں خفیہ ایجنسیوں کی بریفنگ لے۔ ووٹوں کی خریدوفروخت ایک حساس معاملہ ہے مگر اس معاملہ میں اگر وزیر اعظم کے پاس کوئی معلومات ہیں یا کسی ایجنسی نے کوئی رپورٹ بنائی ہے تو وزیر اعظم عمران خان کی ذمے داری ہے کہ ان رپورٹوں کو شایع کریں تاکہ عوام حقائق سے آگاہ ہوسکیں۔
چیف الیکشن کمشنر کو ایجنسیوں کی خفیہ بریفنگ سے شفاف انتخاب کا مسئلہ حل ہوگا۔ بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ سینیٹ میں حکومتی نمایندے اقلیت میں ہیں اور حکومت اپنا امیدوارکامیاب کرانا چاہتی ہے تو یہ صرف اسی طرح کی ہارس ٹریڈنگ سے ممکن ہے جیسی ہارس ٹریڈنگ سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی کا سبب بنی تھی۔
اس انتخابی قصہ میں شیخ رشید کی یہ بات کہ صادق سنجرانی حکومت اور ریاست کے نمایندے ہیں ساری دنیا اس بات کا کیا مطلب لے گی وزیر اعظم عمران خان کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ووٹنگ اوپن بیلٹ سے ہوں یا خفیہ بیلٹ سے اگر تمام سیاسی جماعتیں جمہوری اخلاقیات کی پاسداری نہیں کریں گی تو جمہوری نظام کمزور رہے گا۔