بُک شیلف
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔
'صادقین نامہ'
یہ کتاب بہ عنوان ''صادقین، شاعر، مصور خطاط'' راشد اشرف کی 'زندہ کتابیں' کے تحت منصۂ شہود پر آئی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ اس میں جریدے 'طلوع افکار' کے 'صادقین نمبر' کے متعدد مضامین جمع کیے گئے ہیں۔۔۔ اس کتاب میں شامل مضامین نگاروں میں احمد ندیم قاسمی، ہاشم رضا، نورالحسن جعفری، منیر احمد شیخ، ڈاکٹر محمود الرحمن، نصر اللہ خان، منو بھائی، مختار زمن، زاہدہ حنا، آغا ناصر، مجاہد لکھنوی ودیگر شامل ہیں۔
اِس کے علاوہ منظر عباس نقوی، سید ولی حیدر، اشفاق حسین، گلزار احمد نقوی اور محمد علی حیدر نقوی کے غیر مطبوعہ خاکے اور مضامین بھی شامل کیے گئے ہیں اور صادقین کے ایک انٹرویو کے علاوہ ان کے اپنے لکھے ہوئے پانچ مضامین بھی کتاب کی زینت ہیں۔۔۔ 'خاص کیفیت' میں صادقین صاحب کے بانگِ درا سنانے کا واقعہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ بانگِ درا کا کوئی بھی شعر پڑھ کر سنائیے، اس صفحے کے باقی شعر میں آپ کو سنائوں گا۔ پ
روفیسر منظر عباس نقوی لکھتے ہیں کہ ' عالمِ مدہوشی میں صادقین سا ہوش مند میں نے کوئی دوسرا نہیں دیکھا'' اسی کتاب میں صادقین کی غالب کی قبر پر حاضری کا دل چسپ احوال بھی شامل ہے، جس میں وہ غالب کو اپنا ہم مشروب بناتے ہیں۔۔۔ کتاب کے پہلے حصے 'طلسمِ ذات' میں مختلف شخصیات کی 20 نگارشات، پھر 'غیر مطبوعہ خاکے اور مضامین' میں پانچ تحریریں مع انٹرویو، ''بقلم فن کار'' میں صادقین کے مضامین اور پھر 'نقدِشعر' میں سبطِ حسن، مالک رام، ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور خاطر غزنوی کے رشحات قلم شامل ہیں۔ اِس کتاب میں شامل صادقین کے مضامین کا موضوع فن مصوری وشاعری وغیرہ کے خواص اور اس کی گہرائی ہے۔۔۔ فضلی سنز (03362633887) سے شایع شدہ 456 صفحاتی کتاب کی قیمت 500 روپے ہے۔ اس کتاب کے مرتب سید سلطان احمد نقوی ہیں۔
وادیٔ مہران میں سمائی ایک بستی
پنجاب میں جس طرح 'سر جیمس ایبٹ' کے نام پر 'ایبٹ آباد' موجود ہے، بالکل اسی طرح 'سر ہنری ای ایم جیمس' کے نام پر سندھ میں 'جیمس آباد' بھی موجود ہے۔۔۔ اور اس شہر کے اندرون سے روشناس کرانے کے لیے پروفیسر ڈاکٹر جمیل حسین نے یہ تصنیف پیش کی ہے، جس کا عنوان ''سندھو کنارے، شہر لوگ اور معاشرت'' رکھا گیا ہے۔۔۔ ڈاکٹر صاحب کی اپنے شہر سے لگن کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنا نام 'جمیل جیمس آبادی' بھی لکھتے ہیں۔۔۔ کتاب پڑھیے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم کسی سفرنامے میں کسی جگہ کے بارے میں معلومات لیتے ہیں، کہ وہاں لوگ کیسے ہیں، کام کیا کرتے ہیں، کون سی زبان بولتے ہیں، کیا کھاتے پیتے ہیں، کیا پہنتے اوڑھتے ہیں۔
کون کون سے ادارے قائم ہیں، وہاں کا موسم اور لوگوں کا رکھ رکھائو کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ بالکل ایسے ہی اس کتاب میں ہم 'جیمس آباد' کے بارے میں ایسی تمام معلومات خوب حاصل ہوتی ہیں۔۔۔ اس کے ساتھ وہاں کی بااثر شخصیات کا تذکرہ علاحدہ ہے اور تاریخی طور پر علاقے کے نظم ونسق اور انتظامی معاملات کے حوالوں کا بھی خوب اہتمام کیا گیا ہے۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ جو چیز ہم نے محسوس کی وہ یہ تھی کہ بہت سی جگہوں پر مصنف اپنے شہر کے بارے میں ذاتی تجربات اور مشاہدات کو بھی کتاب کی زینت بنایا ہے، جس سے خود نوشت کا رنگ بھی جَھلکنے لگتا ہے۔ یہ تمام چیزیں مجموعی طور پر اِسے ایک دل چسپ کتاب بنا دیتی ہیں۔۔۔ 'فضلی بکس' (03362633887) سے شایع ہونے والی 260 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 700 روپے ہے۔
کچھ 'بھٹکے' ہوئے قصے۔۔۔
کتاب کے عنوان 'کہانی آوارہ ہوتی ہے' کو مترجم سلیم اختر ڈھیرہ نے ممتاز ادیب انتظار حسین کی بات سے اکتساب کیا ہے، جنھوں نے بتایا تھا کہ وہ شیکسپیئر کی ایک کہانی پڑھ کر حیران رہ گئے کہ یہ تو انھوں نے اپنی 'نانی اماں' سے سنی ہوئی ہے، یعنی کہانی ادھر سے اُدھر گھومتی رہتی ہے، یہ آوارہ ہوتی ہے۔
یہاں، وہاں سفر کرتی چلی جاتی ہے۔۔۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہماری اس رائے سے ناقدین اتفاق کریں گے یا نہیں، وہ یہ کہ اگرچہ یہ اطالوی لوک کہانیوں کا اردو ترجمہ ہے، لیکن اس کی ورق گردانی کرتے ہوئے متعدد بار بچوں کی کہانیاں پڑھنے کا گمان ہوا۔۔۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ کہانیاں اکثر دیومالائی قصوں پر مبنی ہیں۔
یہی عنصر شاید اس کتاب کی خوبی بھی ہو کہ یہ ہم بہت ہلکے پھلکے انداز میں پڑھتے چلے جاتے ہیں اور بہت خوب صورتی سے قصہ تمام بھی ہو جاتا ہے۔۔۔ شاید مترجم کے ذہن میں بھی کہیں یہ بات موجود ہو کیوں کہ وہ کتاب میں لکھتے ہیں کہ ''جب نانیاں سدھار جائیں اور داستان گو مرجائیں تو راتیں مختصر ہو جایا کرتی ہیں۔''
یہی نہیں انھوں نے کہانی سننے اور سنانے کا رواج اٹھ جانے پر بھی دکھ کا اظہار کیا ہے۔۔۔ اور اُن کی یہ کوشش اسی کمی کا مداوا کرنے کی کوشش ہے کتاب کے 'پسِ ورق' پر موجود تفصیلات کے مطابق اس کتاب کے مترجم سلیم اختر ڈھیرہ محکمہ ہائر ایجوکیشن سے وابستہ ہیں، انگریزی میں ان کی شاعری کی کتاب پیل لیوز (Pale Leaves) کو 2007ء میں 'قومی ایوارڈ برائے انگریزی ادب' دیا گیا، ایک انگریزی اخبار نے انھیں 'انقلابی شاعر' قرار دیا۔۔۔ اس کتاب میں 30 کہانیوں کو ترجمہ کیا گیا ہے۔۔۔ 180 صفحات کی اس مجلد کتاب کی قیمت 500 روپے ہے اور اس کو 'مثال پبلی کشینز' فیصل آباد (03006668284) نے شایع کیا ہے۔
تیرھویں اور چودھویں صدی کے کچھ اہم معرکے
'عین جالوت تاشقحب' میں محمد عاطف بیگ نے سیف الدین قطر، برکت خان، سلطان بیبررس اور امام ابن تیمیہ کے منگولوں کے ساتھ معرکوں کو اس کتاب میں قلم بند کیا ہے۔۔۔ وہ لکھتے ہیں کہ 'اسلام کی پوری تاریخ میں ہر طرح کے اہل علم کا ایسا اجتماع شاید ہی ہوا ہو، جیسا کہ منگولوں کے حملے کے وقت شام ومصر کی سرزمین پر ہوا۔۔۔' ان کی اس کتاب کا محرک پچھلے برس کے رمضان المبارک میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹ 'فیس بک' پر ایک تحریر بنی۔۔۔ پھر اس کتاب کی تیاری کے لیے انھوں نے قدیم مخارج کے علاوہ جدید مستشرقین کی تحقیق سے بھی مدد لی اور کتاب کے حاشیے میں انھوں اس کے حوالوں کا بھی اہتمام کیا۔۔۔
تقریباً 460 صفحات پر مشتمل یہ تحقیقی کاوش 50 سے زائد چھوٹے چھوٹے ابواب میں تقسیم کی گئی ہے۔۔۔ سرورق اور پس ورق پر تلوار، ڈھال اور گَھڑسوار جنگجو کتاب کے مندرجات میں برپا معرکوں کی خبر دے رہے ہیں، جہاں مختلف گرم محاذوں کا احوال ہے، گھمسان کے رَن ہیں، فتح وشکست کے ماجرے ہیں۔۔۔ مختلف لشکروں کی جنگی حکمت عملیاں اور ان کے ایک دوسرے سے مکالمے اور پیغامات بھی ہیں۔۔۔کتاب کی اشاعت فضلی سنز (03362633887)کراچی سے کی گئی ہے، جب کہ یہ مکتبہ قدوسیہ (0321-4460487) لاہور سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔
''رعنائیِ تحریر''
'رعنائیِ تحریر' تفاخر محمود گوندل کے مذہبی وسماجی مضامین اور مراسلوں کا مجموعہ ہے، جو روزنامہ ایکسپریس اور دیگر معاصر روزناموں کی زینت بنتے رہے۔۔۔ ان مضامین کو پروفیسر ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی نے مرتب کیا ہے۔۔۔ 'ایکسپریس' کے ہفتہ وار صفحے دین ودانش کے انچارج عبداللطیف ابو شامل لکھتے ہیں کہ ''تفاخر محمود گوندل نے سماج میں پھیلی ہوئی تاریکی کو پرے دھکیلنے اور روشنی کو عام کرنے کے لیے اپنے قلم کو کامل ماہ تاب بنایا ہے، جس کے نور سے گم کردہ منزل پھر سے راہ راست پر آسکتی ہے۔ انھوں نے امت مسلمہ کے مسائل پر درد مندی سے کلام کیا ہے۔
ایسا دل نشیں کلام جو کبھی ہماری اردو زبان کا افتخار تھا۔'' اس کتاب میں تفاخر محمود گوندل نے سیرت طیبہ کے ساتھ مختلف دینی موضوعات پر بھی اظہارخیال کیا ہے، اہم بات یہ ہے کہ ہر تحریر کے ساتھ اخبار کا حوالہ مع تاریخ درج کیا گیا ہے، تاہم باقاعدہ فہرست کی کمی ضرور محسوس ہوتی ہے۔ اس کتاب کے صفحات 250 ہیں، قیمت درج نہیں، جب کہ ناشر قلم فائونڈیشن (0300-0515101) ہے۔
ممتاز صحافی وسیاسی کارکن حمید اختر کی دو 'زندہ کتابیں'
ممتاز صحافی اور سیاسی کارکن حمید اختر کی تصنیف 'آشنائیاں کیا کیا' میں سجاد ظہیر، فیض احمد فیض، سبط حسن، ساحر لدھیانوی، کرشن چندر، ابن انشا، اخلاق احمد دہلوی، ابراہیم جلیس، سعادت حسن منٹو اور جوش ملیح آبادی کے علاوہ حمید اختر کا خود پر لکھا گیا مضمون بھی شامل کیا گیا ہے۔۔۔ جس کے آخر میں قوسین میں درج ہے کہ ''رحلت کے بعد اشاعت کے لیے لکھا گیا، مگر دیر ہونے کی وجہ سے قبل ازوقت شایع کیا جا رہا ہے۔'' آپ اس کتاب میں شامل مندرجات کو خاکے کہہ لیجیے۔
ان شخصیات کے حوالے سے یادداشتیں قرار دے دیجیے یا ان پر سوانحی مضمون تصور کر لیجیے۔۔۔ شاید ہر طرح ہی درست رہے گا۔۔۔ ان مضامین میں فیض کے سوا ہر شخصیت پر لکھے گئے مضمون کو ایک علاحدہ عنوان بھی دیا گیا ہے۔۔۔ جیسے ساحر کو بنجارہ، کرشن چندر کو مضطرب روح، ابن انشا کو پینڈو، ابراہیم جلیس کو 'دکن کا تحفہ' اور خود کو یعنی حمید اختر کو 'بے وقوف' لکھا گیا ہے۔
یہ کتاب 1988ء میں پہلی بار شایع ہوئی، اب راشد اشرف نے سلسلے 'زندہ کتابیں' کے تحت اسے دوبارہ قارئین تک پہنچایا ہے۔۔۔ 'زندہ کتابیں' کے تحت شایع ہونے والی حمید اختر کی دوسری کتاب 'کال کوٹھری' ہے جو 1953ء میں پہلی بار شایع ہوئی ۔۔۔ 1951ء میں ان کی اسیری کی یہ کہانی قید وبند کی صعوبتوں کا بیان تو ہے ہی، لیکن اس کے مختصر مختصر مضامین کو ہم اس کی انفرادیت قرار دے سکتے ہیں۔۔۔ دو، دو اور تین، تین صفحات کے ان مضامین میں ہر ایک پر علاحدہ عنوان اس کی تفصیلات کی خبر دیتا ہے۔۔۔ چوں کہ یہ اسیری کی داستان ہے، اس لیے ہر سطر سے ہی یہ پتا چلتا ہے کہ ایک مقید شخص کے لیے زندگی کے معنی کس قدر مختلف ہوجاتے ہیں، اس کو دکھائی دینے والا مٹھی بھر آسمان اسے کتنا وسیع معلوم ہوتا ہے۔
پابند سلاسل ہوتے ہوئے کس طرح انھیں بھی چھوٹی چھوٹی چیزوں کی اہمیت پتا چلتی ہے اور اس تنہائی میں وہ گنتی کے لوگوں کے ساتھ کے لیے ترس جاتے ہیں۔۔۔ کہ اسے عرضی کرنی پڑتی ہے کہ اسے عید کی نماز تو مل کر پڑھ لینے دی جائے۔۔۔ وہیں کبھی کوئی آواز کسی خبر کسی سراغ کے لیے متوجہ کرتی ہے، پتا چلتا ہے کہ سزائے موت کے اس قیدی کی صدا ہے، جس کی ساری اپیلیں مسترد ہو چکی ہیں۔۔۔ الغرض اس کتاب میں ایسے بہت سے احوال قلم بند ہیں۔ دونوں کتابیں 'اٹلانٹس' (021-32581720, 0300-2472238) نے شایع کی ہیں، ضخامت بالترتیب 232 اور 234 صفحات اور قیمت پانچ، پانچ سو روپے ہے۔
'مہاجر قوم' کی بے چینیاں سمجھانے کی ایک احسن کوشش
محمد عثمان جامعی کی یہ کتاب اشاعت سے پہلے ہی کراچی کے کچھ حلقوں کی جانب سے تنقید کی زد میں آگئی۔۔۔ بالخصوص اس کے عنوان 'سرسید، سینتالیس، سیکٹر انچارج' اور سرورق پر بنی ہوئی پستول پر بہت زیادہ اعتراض کیا گیا کہ 'یہ تو ایک روایتی موقف کو بڑھاوا دیتا ہے اور انھی سیاسی الزامات کا تسلسل ہے۔
جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔' یہاں تک کہا گیا کہ بس 'سرورق' دیکھ لیا، اب ہمیں پتا چل گیا کہ اس کتاب کے اندر کیا ہوگا، اس لیے اب ہمیں کتاب پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں۔۔۔ ہم نے یہ آرا سننے کے بعد ازسرنو کتاب کی ورق گردانی کی کہ دیکھیں کہ اس بات میں کتنی سچائی ہے اور کتنی نہیں۔۔۔ لیکن مجموعی طور پر اب بھی ہمارا یہی خیال ہے کہ ہمیں اس کے سرورق پر بالکل نہیں اٹکنا چاہیے۔۔۔ آپ بے شک سرورق کے 10 کے 10 نمبر کاٹ لیں۔
لیکن مندرجات کے 90 نمبر اسے پڑھ کر پورے انصاف کے ساتھ دیجیے۔۔۔ ہم نے اسے کراچی اور مہاجروں پر ایک ایسی دستاویز پایا، جس نے شاید حالیہ دنوں تک کے لگ بھگ تمام ہی بڑے المیے، ظلم، جبر، دہشت، غلطیاں، سازش، بربریت، پروپیگنڈے، تعصب اور نفرت تک سب کچھ بہت سلیقے سے اور کافی حد تک تصویر کے دونوں رخ کے ساتھ ایسے قلم بند کر دیا ہے کہ جس میں ماضی کی بازگشت بھی خوب سنائی دیتی ہے۔۔۔ البتہ لکھنے والے نے کیا زیادہ لکھا اور کیا کم۔۔۔ بلاشبہ اس پر بحث ہوتی رہے گی، لیکن مجموعی طور پر اس کتاب میں بہت کچھ لکھ دیا گیا ہے، جس سے ایک طرف اس قوم کے 'راہ نمائوں' کو بھی کچھ نہ کچھ صلاح ملے گی اور اس کے ساتھ امید ہے کہ ہمارے ملک کا وہ تنگ نظر ''اہل نظر'' جس کے تخیل میں کراچی اور 'کراچی والے' ذرا کم ہی سما پاتے ہیں۔
وہ اس کتاب سے سرسری نہیں گزر سکے گا۔۔۔ اس کے ہر تیسرا ورق، اور ہر دوسرا باب اسے جھنجھوڑے گا، جگائے گا اور بتائے گا کہ تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے۔۔۔ اور پھر شاید لوگ کم ازکم دوسروں کے لیے بھی وہ بنیادی حقوق کھل کر تسلیم کر سکیں، جس کی مانگ وہ اپنی قوم کے لیے کرتے ہیں۔۔۔ 1980ء اور 1990ء کی دہائی میں سندھ اور کراچی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور سیاسی ومذہبی اٹھان کا بیان کرتا یہ ناول ایک ویب سائٹ 'ہم سب' پر قسط وار شایع ہوا۔۔۔ جس کا طرزِاظہار ایک خاتون کی ڈائری کی شکل میں ہے۔۔۔
وہ گاہے گاہے ان تغیرات اور اردگرد کے ماحول کو، غلط فہمیوں اور غلطیوں کو اپنے 'روزنامچے' پر اتارتی جاتی ہے۔۔۔ اگرچہ موضوع کے ذیل میں شاید کچھ بھی افسانوی نہیں اور نہ ہی کچھ زیبِ داستاں کے لیے ہے۔۔۔ ہاں، یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ قاری یہ کہے کہ فلاں مسئلے پر تو یہ بھی ہوا تھا اور ویسے بھی ہوا تھا، یا ایسے تو بالکل بھی نہیں ہوا تھا، تو یقیناً وہ بات بھی درست ہوگی، لیکن چوں کہ یہ ایک جگہ کے واقعات، مشاہدات اور تجربات ہیں، اور ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے، کہ مختلف لوگ ایک ہی واقعے کو اپنی اپنی بساط کے مطابق دیکھتے ہیں، اس لیے اس کتاب میں 'نوشابہ' نے جو کچھ لکھا ہے۔
وہ اپنے تئیں اس کی یادداشت اور مشاہدات ہیں، جو واقعی برپا بھی ہوئے ہیں، اس کا زمانہ ایسا ہے کہ اس میں ایک قوم کی بے چینی اور اس کے ساتھ ہونے والی مختلف نوعیت کی باتیں جمع ہوتی چلی گئی ہیں۔۔۔ اس لیے کراچی، 'مہاجر قومیت' اور سندھ کے مسئلے جیسے موضوعات پر تحقیق کرنے والوں کے لیے اس کتاب میں بے شمار تاریخی حوالے ملیں گے، یا اگر اسے آپ 'ادب' کے خانے تک محدود کرنا چاہیں، تو تب بھی یہ کتاب تحقیق کے لیے بے شمار فرضیے ضرور دے سکتی ہے۔۔۔ جیسے کسی معاملے پر ایسا ہوا یا فلاں فلاں ماجرے کو عوام نے کیسے محسوس کیا اور اس پر کیا رائے دی اور کسی بات کو قبول یا رد کیا تو اس کی توجیہ کیا رہی وغیرہ۔۔۔ اس کے مندرجات میں اختلاف رائے کی گنجائش ضرور ہے، لیکن اس موضوع اور سلسلے وار واقعات کی تاریخ سے یک سر انکار کرنا درست بات نہیں ہوگی۔۔۔ اس کتاب کی اشاعت اٹلانٹس پبلی کیشنز نے (021-32581720, 0300-2472238) کی ہے اور قیمت 480 روپے ہے۔
یہ کتاب بہ عنوان ''صادقین، شاعر، مصور خطاط'' راشد اشرف کی 'زندہ کتابیں' کے تحت منصۂ شہود پر آئی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ اس میں جریدے 'طلوع افکار' کے 'صادقین نمبر' کے متعدد مضامین جمع کیے گئے ہیں۔۔۔ اس کتاب میں شامل مضامین نگاروں میں احمد ندیم قاسمی، ہاشم رضا، نورالحسن جعفری، منیر احمد شیخ، ڈاکٹر محمود الرحمن، نصر اللہ خان، منو بھائی، مختار زمن، زاہدہ حنا، آغا ناصر، مجاہد لکھنوی ودیگر شامل ہیں۔
اِس کے علاوہ منظر عباس نقوی، سید ولی حیدر، اشفاق حسین، گلزار احمد نقوی اور محمد علی حیدر نقوی کے غیر مطبوعہ خاکے اور مضامین بھی شامل کیے گئے ہیں اور صادقین کے ایک انٹرویو کے علاوہ ان کے اپنے لکھے ہوئے پانچ مضامین بھی کتاب کی زینت ہیں۔۔۔ 'خاص کیفیت' میں صادقین صاحب کے بانگِ درا سنانے کا واقعہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ بانگِ درا کا کوئی بھی شعر پڑھ کر سنائیے، اس صفحے کے باقی شعر میں آپ کو سنائوں گا۔ پ
روفیسر منظر عباس نقوی لکھتے ہیں کہ ' عالمِ مدہوشی میں صادقین سا ہوش مند میں نے کوئی دوسرا نہیں دیکھا'' اسی کتاب میں صادقین کی غالب کی قبر پر حاضری کا دل چسپ احوال بھی شامل ہے، جس میں وہ غالب کو اپنا ہم مشروب بناتے ہیں۔۔۔ کتاب کے پہلے حصے 'طلسمِ ذات' میں مختلف شخصیات کی 20 نگارشات، پھر 'غیر مطبوعہ خاکے اور مضامین' میں پانچ تحریریں مع انٹرویو، ''بقلم فن کار'' میں صادقین کے مضامین اور پھر 'نقدِشعر' میں سبطِ حسن، مالک رام، ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور خاطر غزنوی کے رشحات قلم شامل ہیں۔ اِس کتاب میں شامل صادقین کے مضامین کا موضوع فن مصوری وشاعری وغیرہ کے خواص اور اس کی گہرائی ہے۔۔۔ فضلی سنز (03362633887) سے شایع شدہ 456 صفحاتی کتاب کی قیمت 500 روپے ہے۔ اس کتاب کے مرتب سید سلطان احمد نقوی ہیں۔
وادیٔ مہران میں سمائی ایک بستی
پنجاب میں جس طرح 'سر جیمس ایبٹ' کے نام پر 'ایبٹ آباد' موجود ہے، بالکل اسی طرح 'سر ہنری ای ایم جیمس' کے نام پر سندھ میں 'جیمس آباد' بھی موجود ہے۔۔۔ اور اس شہر کے اندرون سے روشناس کرانے کے لیے پروفیسر ڈاکٹر جمیل حسین نے یہ تصنیف پیش کی ہے، جس کا عنوان ''سندھو کنارے، شہر لوگ اور معاشرت'' رکھا گیا ہے۔۔۔ ڈاکٹر صاحب کی اپنے شہر سے لگن کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنا نام 'جمیل جیمس آبادی' بھی لکھتے ہیں۔۔۔ کتاب پڑھیے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم کسی سفرنامے میں کسی جگہ کے بارے میں معلومات لیتے ہیں، کہ وہاں لوگ کیسے ہیں، کام کیا کرتے ہیں، کون سی زبان بولتے ہیں، کیا کھاتے پیتے ہیں، کیا پہنتے اوڑھتے ہیں۔
کون کون سے ادارے قائم ہیں، وہاں کا موسم اور لوگوں کا رکھ رکھائو کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ بالکل ایسے ہی اس کتاب میں ہم 'جیمس آباد' کے بارے میں ایسی تمام معلومات خوب حاصل ہوتی ہیں۔۔۔ اس کے ساتھ وہاں کی بااثر شخصیات کا تذکرہ علاحدہ ہے اور تاریخی طور پر علاقے کے نظم ونسق اور انتظامی معاملات کے حوالوں کا بھی خوب اہتمام کیا گیا ہے۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ جو چیز ہم نے محسوس کی وہ یہ تھی کہ بہت سی جگہوں پر مصنف اپنے شہر کے بارے میں ذاتی تجربات اور مشاہدات کو بھی کتاب کی زینت بنایا ہے، جس سے خود نوشت کا رنگ بھی جَھلکنے لگتا ہے۔ یہ تمام چیزیں مجموعی طور پر اِسے ایک دل چسپ کتاب بنا دیتی ہیں۔۔۔ 'فضلی بکس' (03362633887) سے شایع ہونے والی 260 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 700 روپے ہے۔
کچھ 'بھٹکے' ہوئے قصے۔۔۔
کتاب کے عنوان 'کہانی آوارہ ہوتی ہے' کو مترجم سلیم اختر ڈھیرہ نے ممتاز ادیب انتظار حسین کی بات سے اکتساب کیا ہے، جنھوں نے بتایا تھا کہ وہ شیکسپیئر کی ایک کہانی پڑھ کر حیران رہ گئے کہ یہ تو انھوں نے اپنی 'نانی اماں' سے سنی ہوئی ہے، یعنی کہانی ادھر سے اُدھر گھومتی رہتی ہے، یہ آوارہ ہوتی ہے۔
یہاں، وہاں سفر کرتی چلی جاتی ہے۔۔۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہماری اس رائے سے ناقدین اتفاق کریں گے یا نہیں، وہ یہ کہ اگرچہ یہ اطالوی لوک کہانیوں کا اردو ترجمہ ہے، لیکن اس کی ورق گردانی کرتے ہوئے متعدد بار بچوں کی کہانیاں پڑھنے کا گمان ہوا۔۔۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ کہانیاں اکثر دیومالائی قصوں پر مبنی ہیں۔
یہی عنصر شاید اس کتاب کی خوبی بھی ہو کہ یہ ہم بہت ہلکے پھلکے انداز میں پڑھتے چلے جاتے ہیں اور بہت خوب صورتی سے قصہ تمام بھی ہو جاتا ہے۔۔۔ شاید مترجم کے ذہن میں بھی کہیں یہ بات موجود ہو کیوں کہ وہ کتاب میں لکھتے ہیں کہ ''جب نانیاں سدھار جائیں اور داستان گو مرجائیں تو راتیں مختصر ہو جایا کرتی ہیں۔''
یہی نہیں انھوں نے کہانی سننے اور سنانے کا رواج اٹھ جانے پر بھی دکھ کا اظہار کیا ہے۔۔۔ اور اُن کی یہ کوشش اسی کمی کا مداوا کرنے کی کوشش ہے کتاب کے 'پسِ ورق' پر موجود تفصیلات کے مطابق اس کتاب کے مترجم سلیم اختر ڈھیرہ محکمہ ہائر ایجوکیشن سے وابستہ ہیں، انگریزی میں ان کی شاعری کی کتاب پیل لیوز (Pale Leaves) کو 2007ء میں 'قومی ایوارڈ برائے انگریزی ادب' دیا گیا، ایک انگریزی اخبار نے انھیں 'انقلابی شاعر' قرار دیا۔۔۔ اس کتاب میں 30 کہانیوں کو ترجمہ کیا گیا ہے۔۔۔ 180 صفحات کی اس مجلد کتاب کی قیمت 500 روپے ہے اور اس کو 'مثال پبلی کشینز' فیصل آباد (03006668284) نے شایع کیا ہے۔
تیرھویں اور چودھویں صدی کے کچھ اہم معرکے
'عین جالوت تاشقحب' میں محمد عاطف بیگ نے سیف الدین قطر، برکت خان، سلطان بیبررس اور امام ابن تیمیہ کے منگولوں کے ساتھ معرکوں کو اس کتاب میں قلم بند کیا ہے۔۔۔ وہ لکھتے ہیں کہ 'اسلام کی پوری تاریخ میں ہر طرح کے اہل علم کا ایسا اجتماع شاید ہی ہوا ہو، جیسا کہ منگولوں کے حملے کے وقت شام ومصر کی سرزمین پر ہوا۔۔۔' ان کی اس کتاب کا محرک پچھلے برس کے رمضان المبارک میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹ 'فیس بک' پر ایک تحریر بنی۔۔۔ پھر اس کتاب کی تیاری کے لیے انھوں نے قدیم مخارج کے علاوہ جدید مستشرقین کی تحقیق سے بھی مدد لی اور کتاب کے حاشیے میں انھوں اس کے حوالوں کا بھی اہتمام کیا۔۔۔
تقریباً 460 صفحات پر مشتمل یہ تحقیقی کاوش 50 سے زائد چھوٹے چھوٹے ابواب میں تقسیم کی گئی ہے۔۔۔ سرورق اور پس ورق پر تلوار، ڈھال اور گَھڑسوار جنگجو کتاب کے مندرجات میں برپا معرکوں کی خبر دے رہے ہیں، جہاں مختلف گرم محاذوں کا احوال ہے، گھمسان کے رَن ہیں، فتح وشکست کے ماجرے ہیں۔۔۔ مختلف لشکروں کی جنگی حکمت عملیاں اور ان کے ایک دوسرے سے مکالمے اور پیغامات بھی ہیں۔۔۔کتاب کی اشاعت فضلی سنز (03362633887)کراچی سے کی گئی ہے، جب کہ یہ مکتبہ قدوسیہ (0321-4460487) لاہور سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔
''رعنائیِ تحریر''
'رعنائیِ تحریر' تفاخر محمود گوندل کے مذہبی وسماجی مضامین اور مراسلوں کا مجموعہ ہے، جو روزنامہ ایکسپریس اور دیگر معاصر روزناموں کی زینت بنتے رہے۔۔۔ ان مضامین کو پروفیسر ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی نے مرتب کیا ہے۔۔۔ 'ایکسپریس' کے ہفتہ وار صفحے دین ودانش کے انچارج عبداللطیف ابو شامل لکھتے ہیں کہ ''تفاخر محمود گوندل نے سماج میں پھیلی ہوئی تاریکی کو پرے دھکیلنے اور روشنی کو عام کرنے کے لیے اپنے قلم کو کامل ماہ تاب بنایا ہے، جس کے نور سے گم کردہ منزل پھر سے راہ راست پر آسکتی ہے۔ انھوں نے امت مسلمہ کے مسائل پر درد مندی سے کلام کیا ہے۔
ایسا دل نشیں کلام جو کبھی ہماری اردو زبان کا افتخار تھا۔'' اس کتاب میں تفاخر محمود گوندل نے سیرت طیبہ کے ساتھ مختلف دینی موضوعات پر بھی اظہارخیال کیا ہے، اہم بات یہ ہے کہ ہر تحریر کے ساتھ اخبار کا حوالہ مع تاریخ درج کیا گیا ہے، تاہم باقاعدہ فہرست کی کمی ضرور محسوس ہوتی ہے۔ اس کتاب کے صفحات 250 ہیں، قیمت درج نہیں، جب کہ ناشر قلم فائونڈیشن (0300-0515101) ہے۔
ممتاز صحافی وسیاسی کارکن حمید اختر کی دو 'زندہ کتابیں'
ممتاز صحافی اور سیاسی کارکن حمید اختر کی تصنیف 'آشنائیاں کیا کیا' میں سجاد ظہیر، فیض احمد فیض، سبط حسن، ساحر لدھیانوی، کرشن چندر، ابن انشا، اخلاق احمد دہلوی، ابراہیم جلیس، سعادت حسن منٹو اور جوش ملیح آبادی کے علاوہ حمید اختر کا خود پر لکھا گیا مضمون بھی شامل کیا گیا ہے۔۔۔ جس کے آخر میں قوسین میں درج ہے کہ ''رحلت کے بعد اشاعت کے لیے لکھا گیا، مگر دیر ہونے کی وجہ سے قبل ازوقت شایع کیا جا رہا ہے۔'' آپ اس کتاب میں شامل مندرجات کو خاکے کہہ لیجیے۔
ان شخصیات کے حوالے سے یادداشتیں قرار دے دیجیے یا ان پر سوانحی مضمون تصور کر لیجیے۔۔۔ شاید ہر طرح ہی درست رہے گا۔۔۔ ان مضامین میں فیض کے سوا ہر شخصیت پر لکھے گئے مضمون کو ایک علاحدہ عنوان بھی دیا گیا ہے۔۔۔ جیسے ساحر کو بنجارہ، کرشن چندر کو مضطرب روح، ابن انشا کو پینڈو، ابراہیم جلیس کو 'دکن کا تحفہ' اور خود کو یعنی حمید اختر کو 'بے وقوف' لکھا گیا ہے۔
یہ کتاب 1988ء میں پہلی بار شایع ہوئی، اب راشد اشرف نے سلسلے 'زندہ کتابیں' کے تحت اسے دوبارہ قارئین تک پہنچایا ہے۔۔۔ 'زندہ کتابیں' کے تحت شایع ہونے والی حمید اختر کی دوسری کتاب 'کال کوٹھری' ہے جو 1953ء میں پہلی بار شایع ہوئی ۔۔۔ 1951ء میں ان کی اسیری کی یہ کہانی قید وبند کی صعوبتوں کا بیان تو ہے ہی، لیکن اس کے مختصر مختصر مضامین کو ہم اس کی انفرادیت قرار دے سکتے ہیں۔۔۔ دو، دو اور تین، تین صفحات کے ان مضامین میں ہر ایک پر علاحدہ عنوان اس کی تفصیلات کی خبر دیتا ہے۔۔۔ چوں کہ یہ اسیری کی داستان ہے، اس لیے ہر سطر سے ہی یہ پتا چلتا ہے کہ ایک مقید شخص کے لیے زندگی کے معنی کس قدر مختلف ہوجاتے ہیں، اس کو دکھائی دینے والا مٹھی بھر آسمان اسے کتنا وسیع معلوم ہوتا ہے۔
پابند سلاسل ہوتے ہوئے کس طرح انھیں بھی چھوٹی چھوٹی چیزوں کی اہمیت پتا چلتی ہے اور اس تنہائی میں وہ گنتی کے لوگوں کے ساتھ کے لیے ترس جاتے ہیں۔۔۔ کہ اسے عرضی کرنی پڑتی ہے کہ اسے عید کی نماز تو مل کر پڑھ لینے دی جائے۔۔۔ وہیں کبھی کوئی آواز کسی خبر کسی سراغ کے لیے متوجہ کرتی ہے، پتا چلتا ہے کہ سزائے موت کے اس قیدی کی صدا ہے، جس کی ساری اپیلیں مسترد ہو چکی ہیں۔۔۔ الغرض اس کتاب میں ایسے بہت سے احوال قلم بند ہیں۔ دونوں کتابیں 'اٹلانٹس' (021-32581720, 0300-2472238) نے شایع کی ہیں، ضخامت بالترتیب 232 اور 234 صفحات اور قیمت پانچ، پانچ سو روپے ہے۔
'مہاجر قوم' کی بے چینیاں سمجھانے کی ایک احسن کوشش
محمد عثمان جامعی کی یہ کتاب اشاعت سے پہلے ہی کراچی کے کچھ حلقوں کی جانب سے تنقید کی زد میں آگئی۔۔۔ بالخصوص اس کے عنوان 'سرسید، سینتالیس، سیکٹر انچارج' اور سرورق پر بنی ہوئی پستول پر بہت زیادہ اعتراض کیا گیا کہ 'یہ تو ایک روایتی موقف کو بڑھاوا دیتا ہے اور انھی سیاسی الزامات کا تسلسل ہے۔
جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔' یہاں تک کہا گیا کہ بس 'سرورق' دیکھ لیا، اب ہمیں پتا چل گیا کہ اس کتاب کے اندر کیا ہوگا، اس لیے اب ہمیں کتاب پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں۔۔۔ ہم نے یہ آرا سننے کے بعد ازسرنو کتاب کی ورق گردانی کی کہ دیکھیں کہ اس بات میں کتنی سچائی ہے اور کتنی نہیں۔۔۔ لیکن مجموعی طور پر اب بھی ہمارا یہی خیال ہے کہ ہمیں اس کے سرورق پر بالکل نہیں اٹکنا چاہیے۔۔۔ آپ بے شک سرورق کے 10 کے 10 نمبر کاٹ لیں۔
لیکن مندرجات کے 90 نمبر اسے پڑھ کر پورے انصاف کے ساتھ دیجیے۔۔۔ ہم نے اسے کراچی اور مہاجروں پر ایک ایسی دستاویز پایا، جس نے شاید حالیہ دنوں تک کے لگ بھگ تمام ہی بڑے المیے، ظلم، جبر، دہشت، غلطیاں، سازش، بربریت، پروپیگنڈے، تعصب اور نفرت تک سب کچھ بہت سلیقے سے اور کافی حد تک تصویر کے دونوں رخ کے ساتھ ایسے قلم بند کر دیا ہے کہ جس میں ماضی کی بازگشت بھی خوب سنائی دیتی ہے۔۔۔ البتہ لکھنے والے نے کیا زیادہ لکھا اور کیا کم۔۔۔ بلاشبہ اس پر بحث ہوتی رہے گی، لیکن مجموعی طور پر اس کتاب میں بہت کچھ لکھ دیا گیا ہے، جس سے ایک طرف اس قوم کے 'راہ نمائوں' کو بھی کچھ نہ کچھ صلاح ملے گی اور اس کے ساتھ امید ہے کہ ہمارے ملک کا وہ تنگ نظر ''اہل نظر'' جس کے تخیل میں کراچی اور 'کراچی والے' ذرا کم ہی سما پاتے ہیں۔
وہ اس کتاب سے سرسری نہیں گزر سکے گا۔۔۔ اس کے ہر تیسرا ورق، اور ہر دوسرا باب اسے جھنجھوڑے گا، جگائے گا اور بتائے گا کہ تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے۔۔۔ اور پھر شاید لوگ کم ازکم دوسروں کے لیے بھی وہ بنیادی حقوق کھل کر تسلیم کر سکیں، جس کی مانگ وہ اپنی قوم کے لیے کرتے ہیں۔۔۔ 1980ء اور 1990ء کی دہائی میں سندھ اور کراچی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور سیاسی ومذہبی اٹھان کا بیان کرتا یہ ناول ایک ویب سائٹ 'ہم سب' پر قسط وار شایع ہوا۔۔۔ جس کا طرزِاظہار ایک خاتون کی ڈائری کی شکل میں ہے۔۔۔
وہ گاہے گاہے ان تغیرات اور اردگرد کے ماحول کو، غلط فہمیوں اور غلطیوں کو اپنے 'روزنامچے' پر اتارتی جاتی ہے۔۔۔ اگرچہ موضوع کے ذیل میں شاید کچھ بھی افسانوی نہیں اور نہ ہی کچھ زیبِ داستاں کے لیے ہے۔۔۔ ہاں، یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ قاری یہ کہے کہ فلاں مسئلے پر تو یہ بھی ہوا تھا اور ویسے بھی ہوا تھا، یا ایسے تو بالکل بھی نہیں ہوا تھا، تو یقیناً وہ بات بھی درست ہوگی، لیکن چوں کہ یہ ایک جگہ کے واقعات، مشاہدات اور تجربات ہیں، اور ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے، کہ مختلف لوگ ایک ہی واقعے کو اپنی اپنی بساط کے مطابق دیکھتے ہیں، اس لیے اس کتاب میں 'نوشابہ' نے جو کچھ لکھا ہے۔
وہ اپنے تئیں اس کی یادداشت اور مشاہدات ہیں، جو واقعی برپا بھی ہوئے ہیں، اس کا زمانہ ایسا ہے کہ اس میں ایک قوم کی بے چینی اور اس کے ساتھ ہونے والی مختلف نوعیت کی باتیں جمع ہوتی چلی گئی ہیں۔۔۔ اس لیے کراچی، 'مہاجر قومیت' اور سندھ کے مسئلے جیسے موضوعات پر تحقیق کرنے والوں کے لیے اس کتاب میں بے شمار تاریخی حوالے ملیں گے، یا اگر اسے آپ 'ادب' کے خانے تک محدود کرنا چاہیں، تو تب بھی یہ کتاب تحقیق کے لیے بے شمار فرضیے ضرور دے سکتی ہے۔۔۔ جیسے کسی معاملے پر ایسا ہوا یا فلاں فلاں ماجرے کو عوام نے کیسے محسوس کیا اور اس پر کیا رائے دی اور کسی بات کو قبول یا رد کیا تو اس کی توجیہ کیا رہی وغیرہ۔۔۔ اس کے مندرجات میں اختلاف رائے کی گنجائش ضرور ہے، لیکن اس موضوع اور سلسلے وار واقعات کی تاریخ سے یک سر انکار کرنا درست بات نہیں ہوگی۔۔۔ اس کتاب کی اشاعت اٹلانٹس پبلی کیشنز نے (021-32581720, 0300-2472238) کی ہے اور قیمت 480 روپے ہے۔