وزیروں کا ٹھکانا پرندوں کا آشیانہ واہ کیا دوستانہ
ہم حیران ہے کہ اتنی محب طائر سرزمین کو مزید ’’برڈزفرینڈلی‘‘ بنانے کی کیا ضرورت ہے۔
وزیراعظم عمران خان ایک عجیب عادت ڈالی ہے، وہ ملک کے مسائل کا ملبہ پچھلی حکومت پر ڈالتے اور پچھلی حکومتوں کے لوگ اپنی حکومت میں ڈال لیتے ہیں۔
سنا ہے یہ لوگ پچھلی بد حکومتوں کی نیکیاں تھیں جو انھوں نے دریا میں ڈالیں اور خان صاحب بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے گئے تو ہاتھ لگ گئیں۔ ان میں سے ایک نیکی شیخ رشید ہیں، جنھوں نے گذشتہ دنوں منسٹرزانکلیو میں پودا لگا کر شجرکاری مہم کا آغاز کیا۔
اس مقصد کے لیے شیخ صاحب سے بہتر انتخاب کیا ہوسکتا تھا، وہ گُل کھلانے کے ماہر ہیں، اسی لیے جب بھی کسی حکومت کی کونپل پھوٹتی ہے، انھیں ''چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے'' کہہ کر بلایا جاتا ہے اور وہ یہ سنتے ہی ''ترے بیٹے ترے جانباز چلے آتے ہیں'' کہتے حاضر ہوجاتے اور کسی وزارت کا کاروبار سنبھال لیتے ہیں۔ انھیں اس سے غرض نہیں ہوتی کہ یہ جس کا کاروبار چلانے کے لیے طلب کیا گیا ہے وہ سبزہ زار جاتی امرا کا چمن ہے یا ''عسکری پارک۔''
شیخ صاحب کی ''باغ بانی'' اور گل فشانی الگ موضوع ہے، یہاں ہم بات کر رہے ہیں منسٹرزانکلیو میں شجرکاری کے موقع پر ان کے اعلان کی۔ انھوں نے فرمایا کہ منسٹرز انکلیو کو ''برڈزفرینڈلی'' بنایا جائے گا، مطبل جے کہ ''پرندوں کا دوست''، بھئی ''بنایا جائے گا'' سے کیا مطلب؟ منسٹرز انکلیو اردو میں کیویں تو ''وزیروں کا قلعہ معلیٰ'' تو ہے ہی پرندوں کا دوست، اسی لیے تو یہاں شاخ درشاخ قسم قسم کے پرندے آکر بیٹھے ہیں (نئیں نئیں، اس جملے کا ''ہرشاخ۔۔۔انجام گلستاں'' والے شعر سے کوئی تعلق نہیں، آپ نے ایسا سوچا بھی کیسے، چھی)، کچھ سمندر پار سے آنے والے ''مہاجرپرندے'' بھی ہیں، جو وقت آنے یا وقت جانے پر ''چل اُڑ جا رے پنچھی'' گاتے اُڑی جائیں گے۔ واضح کردیں کہ ''مہاجر پرندے'' سے ہماری مُراد وہ نفیس پرند نہیں جو اب احتجاج بھی کریں تو لگتا ہے ''چوں چوں کرتی آئی چُڑیا۔''
یہ وزیروں کی بستی اتنی پرند دوست ہے کہ چُڑیوں کا مسکن بن چکی ہے، اسے دیکھ کر ایک پرانی کہانی یاد آجاتی ہے۔۔۔چِڑی لائی دال کا دانا، چِڑا لایا چاول کا دانا۔۔۔آگے کی کہانی یاد نہیں، پتا نہیں دونوں نے کچھڑی پکائی تھی یا مل کر ''دانے پہ دانا دانانا'' گایا تھا۔
اگر علامہ اقبال آج ہوتے تو اس بستی کی پرند دوستی دیکھ کر شاہین کو پہاڑوں پر جابسنے کا مشورہ دینے کے بجائے کہتے۔۔۔۔تو شاہیں ہے بسیرا کر ''وزیروں کے مکانوں میں''، یہ بھی ممکن ہے کہ شاعرمشرق اس بستی میں بستے اور کھاتے پیتے شاہین کو یہ کہہ کر ڈانٹ دیتے،''اے طائر لاہوتی! اس رزق سے موت اچھی۔''
ہم حیران ہے کہ اتنی محب طائر سرزمین کو مزید ''برڈزفرینڈلی'' بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ شاید ضرورت پڑگئی ہے کہ اِدھراُدھر اور دور دور سے پرندے آکر یہاں آشیانے بنائیں۔ ایک زمانہ تھا کہ جس کے سر پر ''ہما'' کا سایہ بھی پڑجائے وہ بادشاہ بن جاتا تھا، یہ وضاحت ضروری ہے کہ ''ہما'' کوئی خاتون نہیں، ایک تصوراتی پرندے کا نام ہے، البتہ ہما کے زیرسایہ آکر بادشاہ بننے والا بادشاہت ملنے کے بعد جن ''ہماؤں'' کی زلفوں کے سائے میں رہتا تھا وہ یقیناً پَر والی مخلوق نہیں تھیں۔ وہ دور گزر گیا، اب تو حکم راں رہنے اور حکومت چلانے کے لیے پرندے اکٹھا کرنے اور پالنے کا دور ہے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ اب بھی بعض اوقات حکم رانی کا حصول ''سائے'' سے مشروط ہوتا ہے، یوں تو ''اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں'' لیکن جس سائے کی ہم نے بات کی وہ جھنڈے کا نہیں ہوتا۔۔۔اس کے کسی ہم قافیہ شئے کا ہوتا ہے، جس کا نام ابھی ہمیں یاد نہیں آرہا۔
خیر ذکر تھا وزراء کی جائے اقامت پرند دوست بنانے کا، بس ذرا اس بستی میں لگائے گئے پودے ہرے بھرے پیڑ بن جائیں پھر دیکھیے گا پورے ملک کے درختوں، باغوں، جنگلوں، بجلی کے تاروں سے پنچھی اُڑ اُڑ کر وہاں پہنچیں گے۔
ہر وقت یہی منظر نگاہوں کے سامنے ہوگا کہ چڑیا اڑی کوا اڑا اور اُڑتا اُڑتا منسٹرز انکلیو کے درختوں کی شاخوں پر بیٹھا۔ عجلت میں پرواز کرتے پرندوں سے چرند پوچھیں گے کہ میاں! کہاں چلے، تو یہ اترا کر اور اٹھلا کر جواب دیں گے،''ہمارے منہ نہ لگو، کہاں تم کہاں ہم، ہمارا وزیروں سے دوستانہ، ان کی گلی میں آشیانہ، تمھارا کوئی گھر نہ ٹھکانا، دور رہو پیچھے پیچھے مت آنا، اب ہمارا اٹھنا بیٹھنا وزیروں میں ہوگا۔
کوئی کام ہو تو فون کرلینا، خود دُم ہلاتے نہ چلے آنا، وہاں تمھیں نہیں گھسنے دیا جائے گا۔'' واقعی، جنھیں وزراء کے محلے میں جانے بلکہ رہنے کا اذن مل جائے وہ بھی وزیرداخلہ سے ان کی خوشی اور فخر کا کیا کہنا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کے اس اقدام کو ''پیاں پیاں'' چلنے، رینگنے اور پھدکنے والے جانور امتیازی سلوک کا نام دیں گے اور سوال کریں گے کہ یہ مہربانی صرف اُڑنے والوں پر کیوں؟ ایوان وزیراعظم میں ایک عرصے تک قیام کرکے وہاں سے دیس نکالا دی جانے والی بھینسیں تو آنکھوں میں آنسو بھر کر شکوہ کریں گی۔۔۔۔پنچھی پہ کرم بھینسوں پہ ستم، اے جان جہاں یہ ظلم نہ کر۔ اب جانور تو جانور ہی ہیں نا، حکم رانوں کی نیت جانے بغیر کوئی بھی تہمت دھر دیں گے۔ مثلاً ''پرندوں ہی کو اپنا کیوں نہ سمجھیں یہ خود بھی تو ہواؤں میں اڑ رہے ہیں'' جانور بدتمیزی پر اترتے ہوئے وزراء کو ''طوطے'' بھی قرار دے سکتے ہیں اور ان کی پرند دوستی کو اقرباپروری کا نام دے سکتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں اس گستاخی کا جواب شیخ رشید، فیاض الحسن چوہان اور فواد چوہدری ترکی بہ ترکی دے دیں گے، لیکن ہمیں ''ان کی جناب میں'' کسی کی ذرا سی بھی گستاخی گوارا نہیں، اس لیے ہمارا ''حکومت فرینڈلی'' مشورہ ہے کہ وزراء کی بستی کو پرندوں ہی کے لیے نہیں تمام جانوروں کے لیے ''دوستانہ'' بنا دیا جائے، جہاں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پییں، کتا اور بِلّا ایک برتن میں دودھ پییں، بلی اور چوہا ساتھ بیٹھ کر گپیں لڑائیں، سانپ اور نیولے ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر مسکرائیں۔ اس سب کے لیے ان جانوروں کی تربیت کی ضرورت نہیں پڑے گے، جب وہ بھانت بھانت کے وزراء کو باہم شیروشکر دیکھیں گے تو خود ہی یہ سبق سیکھ لیں گے کہ اختلافات اور دشمنیوں کے باوجود کیسے ایک ساتھ خوش خوش رہا جاسکتا ہے، بشرطے کہ جہاں رہا جائے وہ وزیروں کا رہائشی علاقہ ہو۔
سنا ہے یہ لوگ پچھلی بد حکومتوں کی نیکیاں تھیں جو انھوں نے دریا میں ڈالیں اور خان صاحب بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے گئے تو ہاتھ لگ گئیں۔ ان میں سے ایک نیکی شیخ رشید ہیں، جنھوں نے گذشتہ دنوں منسٹرزانکلیو میں پودا لگا کر شجرکاری مہم کا آغاز کیا۔
اس مقصد کے لیے شیخ صاحب سے بہتر انتخاب کیا ہوسکتا تھا، وہ گُل کھلانے کے ماہر ہیں، اسی لیے جب بھی کسی حکومت کی کونپل پھوٹتی ہے، انھیں ''چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے'' کہہ کر بلایا جاتا ہے اور وہ یہ سنتے ہی ''ترے بیٹے ترے جانباز چلے آتے ہیں'' کہتے حاضر ہوجاتے اور کسی وزارت کا کاروبار سنبھال لیتے ہیں۔ انھیں اس سے غرض نہیں ہوتی کہ یہ جس کا کاروبار چلانے کے لیے طلب کیا گیا ہے وہ سبزہ زار جاتی امرا کا چمن ہے یا ''عسکری پارک۔''
شیخ صاحب کی ''باغ بانی'' اور گل فشانی الگ موضوع ہے، یہاں ہم بات کر رہے ہیں منسٹرزانکلیو میں شجرکاری کے موقع پر ان کے اعلان کی۔ انھوں نے فرمایا کہ منسٹرز انکلیو کو ''برڈزفرینڈلی'' بنایا جائے گا، مطبل جے کہ ''پرندوں کا دوست''، بھئی ''بنایا جائے گا'' سے کیا مطلب؟ منسٹرز انکلیو اردو میں کیویں تو ''وزیروں کا قلعہ معلیٰ'' تو ہے ہی پرندوں کا دوست، اسی لیے تو یہاں شاخ درشاخ قسم قسم کے پرندے آکر بیٹھے ہیں (نئیں نئیں، اس جملے کا ''ہرشاخ۔۔۔انجام گلستاں'' والے شعر سے کوئی تعلق نہیں، آپ نے ایسا سوچا بھی کیسے، چھی)، کچھ سمندر پار سے آنے والے ''مہاجرپرندے'' بھی ہیں، جو وقت آنے یا وقت جانے پر ''چل اُڑ جا رے پنچھی'' گاتے اُڑی جائیں گے۔ واضح کردیں کہ ''مہاجر پرندے'' سے ہماری مُراد وہ نفیس پرند نہیں جو اب احتجاج بھی کریں تو لگتا ہے ''چوں چوں کرتی آئی چُڑیا۔''
یہ وزیروں کی بستی اتنی پرند دوست ہے کہ چُڑیوں کا مسکن بن چکی ہے، اسے دیکھ کر ایک پرانی کہانی یاد آجاتی ہے۔۔۔چِڑی لائی دال کا دانا، چِڑا لایا چاول کا دانا۔۔۔آگے کی کہانی یاد نہیں، پتا نہیں دونوں نے کچھڑی پکائی تھی یا مل کر ''دانے پہ دانا دانانا'' گایا تھا۔
اگر علامہ اقبال آج ہوتے تو اس بستی کی پرند دوستی دیکھ کر شاہین کو پہاڑوں پر جابسنے کا مشورہ دینے کے بجائے کہتے۔۔۔۔تو شاہیں ہے بسیرا کر ''وزیروں کے مکانوں میں''، یہ بھی ممکن ہے کہ شاعرمشرق اس بستی میں بستے اور کھاتے پیتے شاہین کو یہ کہہ کر ڈانٹ دیتے،''اے طائر لاہوتی! اس رزق سے موت اچھی۔''
ہم حیران ہے کہ اتنی محب طائر سرزمین کو مزید ''برڈزفرینڈلی'' بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ شاید ضرورت پڑگئی ہے کہ اِدھراُدھر اور دور دور سے پرندے آکر یہاں آشیانے بنائیں۔ ایک زمانہ تھا کہ جس کے سر پر ''ہما'' کا سایہ بھی پڑجائے وہ بادشاہ بن جاتا تھا، یہ وضاحت ضروری ہے کہ ''ہما'' کوئی خاتون نہیں، ایک تصوراتی پرندے کا نام ہے، البتہ ہما کے زیرسایہ آکر بادشاہ بننے والا بادشاہت ملنے کے بعد جن ''ہماؤں'' کی زلفوں کے سائے میں رہتا تھا وہ یقیناً پَر والی مخلوق نہیں تھیں۔ وہ دور گزر گیا، اب تو حکم راں رہنے اور حکومت چلانے کے لیے پرندے اکٹھا کرنے اور پالنے کا دور ہے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ اب بھی بعض اوقات حکم رانی کا حصول ''سائے'' سے مشروط ہوتا ہے، یوں تو ''اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں'' لیکن جس سائے کی ہم نے بات کی وہ جھنڈے کا نہیں ہوتا۔۔۔اس کے کسی ہم قافیہ شئے کا ہوتا ہے، جس کا نام ابھی ہمیں یاد نہیں آرہا۔
خیر ذکر تھا وزراء کی جائے اقامت پرند دوست بنانے کا، بس ذرا اس بستی میں لگائے گئے پودے ہرے بھرے پیڑ بن جائیں پھر دیکھیے گا پورے ملک کے درختوں، باغوں، جنگلوں، بجلی کے تاروں سے پنچھی اُڑ اُڑ کر وہاں پہنچیں گے۔
ہر وقت یہی منظر نگاہوں کے سامنے ہوگا کہ چڑیا اڑی کوا اڑا اور اُڑتا اُڑتا منسٹرز انکلیو کے درختوں کی شاخوں پر بیٹھا۔ عجلت میں پرواز کرتے پرندوں سے چرند پوچھیں گے کہ میاں! کہاں چلے، تو یہ اترا کر اور اٹھلا کر جواب دیں گے،''ہمارے منہ نہ لگو، کہاں تم کہاں ہم، ہمارا وزیروں سے دوستانہ، ان کی گلی میں آشیانہ، تمھارا کوئی گھر نہ ٹھکانا، دور رہو پیچھے پیچھے مت آنا، اب ہمارا اٹھنا بیٹھنا وزیروں میں ہوگا۔
کوئی کام ہو تو فون کرلینا، خود دُم ہلاتے نہ چلے آنا، وہاں تمھیں نہیں گھسنے دیا جائے گا۔'' واقعی، جنھیں وزراء کے محلے میں جانے بلکہ رہنے کا اذن مل جائے وہ بھی وزیرداخلہ سے ان کی خوشی اور فخر کا کیا کہنا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کے اس اقدام کو ''پیاں پیاں'' چلنے، رینگنے اور پھدکنے والے جانور امتیازی سلوک کا نام دیں گے اور سوال کریں گے کہ یہ مہربانی صرف اُڑنے والوں پر کیوں؟ ایوان وزیراعظم میں ایک عرصے تک قیام کرکے وہاں سے دیس نکالا دی جانے والی بھینسیں تو آنکھوں میں آنسو بھر کر شکوہ کریں گی۔۔۔۔پنچھی پہ کرم بھینسوں پہ ستم، اے جان جہاں یہ ظلم نہ کر۔ اب جانور تو جانور ہی ہیں نا، حکم رانوں کی نیت جانے بغیر کوئی بھی تہمت دھر دیں گے۔ مثلاً ''پرندوں ہی کو اپنا کیوں نہ سمجھیں یہ خود بھی تو ہواؤں میں اڑ رہے ہیں'' جانور بدتمیزی پر اترتے ہوئے وزراء کو ''طوطے'' بھی قرار دے سکتے ہیں اور ان کی پرند دوستی کو اقرباپروری کا نام دے سکتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں اس گستاخی کا جواب شیخ رشید، فیاض الحسن چوہان اور فواد چوہدری ترکی بہ ترکی دے دیں گے، لیکن ہمیں ''ان کی جناب میں'' کسی کی ذرا سی بھی گستاخی گوارا نہیں، اس لیے ہمارا ''حکومت فرینڈلی'' مشورہ ہے کہ وزراء کی بستی کو پرندوں ہی کے لیے نہیں تمام جانوروں کے لیے ''دوستانہ'' بنا دیا جائے، جہاں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پییں، کتا اور بِلّا ایک برتن میں دودھ پییں، بلی اور چوہا ساتھ بیٹھ کر گپیں لڑائیں، سانپ اور نیولے ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر مسکرائیں۔ اس سب کے لیے ان جانوروں کی تربیت کی ضرورت نہیں پڑے گے، جب وہ بھانت بھانت کے وزراء کو باہم شیروشکر دیکھیں گے تو خود ہی یہ سبق سیکھ لیں گے کہ اختلافات اور دشمنیوں کے باوجود کیسے ایک ساتھ خوش خوش رہا جاسکتا ہے، بشرطے کہ جہاں رہا جائے وہ وزیروں کا رہائشی علاقہ ہو۔