حلال انڈسٹری میں ملازمت کے لیے ’’حلال ایجوکیشن‘‘

 شان دار کیریر کے متلاشی طلباء و طالبات کے لیے تعلیمی میدان میں اِمکانات کا ایک نیا جہاں۔


 شان دار کیریر کے متلاشی طلباء و طالبات کے لیے تعلیمی میدان میں اِمکانات کا ایک نیا جہاں۔ فوٹو: فائل

''جارج۔۔۔ آج کل تم کیا کررہے ہو؟''

''میں نے حلال سرٹیفکیشن کے شعبہ میں دوسالہ ڈگری پروگرام میں داخلہ لیا ہے۔'' جارج نے مختصر سا جواب دیا

''جارج، تم تو مسلمان بھی نہیں ہو، اور نہ ہی مسلم ملک میں رہتے ہو، پھر بھی حلال سرٹیفکیشن کے شعبے میں تعلیم حاصل کرنے کا خیال تمہارے ذہن میں کیسے آ گیا؟'' میں نے دوسرا سوال کیا۔

''دراصل، میرے کیریر پلانر نے مشورہ دیا ہے کہ مستقبل قریب میں حلال انڈسٹری کے مختلف شعبہ جات میں انتہائی پرکشش مشاہرے پر اعلیٰ ملازمتوں کے زبردست مواقع دست یاب ہوں گے۔ لہٰذا میں نے اس شعبے میں اعلیٰ تخصیصی تعلیم حاصل کرنے کا ذہن بنالیا ہے۔'' جارج نے وضاحت دیتے ہوئے کہا۔

''کیا، حلال سرٹیفکیشن کے شعبے میں تمہارے لیے تخصیصی تعلیم کا حصول کچھ مشکل اور عجیب نہیں ہوگا۔'' میں نے حیرانی سے دریافت کیا۔

''بالکل بھی نہیں، کیوںکہ ہم ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والے افراد اعلیٰ تعلیم کی منصوبہ بندی، آنے والے مستقبل کے رجحانات اور مواقع کو پیش نظر رکھ کر کرتے ہیں ۔ یہ ایسا ہی ہے، جیسے، تیل کی دولت تو مسلم ممالک کے پاس پائی جاتی ہے مگر تیل کی صنعت میں ہونے والی تحقیق و تجارت میں شامل بڑی بڑی کمپنیوں کی تمام پُرکشش ملازمتیں فقط اس لیے ہم گوروں کے پاس ہیں، کیوںکہ ہمارے بڑوں نے تیل کی دریافت کے فوراً بعد ہی اپنے بچوں کو اس شعبے میں تخصیصی تعلیم کے حصول پر لگادیا تھا۔ کچھ سمجھے!، اسے کیریر پلاننگ کہتے ہیں۔'' جارج کے طنز سے بھرپور تفصیلی جواب نے نہ صرف کیریر پلاننگ کے حوالے سے ذہن میں پائے جانے والے تمام مغالطے رفع کردیے بلکہ میرے چودہ طبق بھی روشن کردیے۔

واضح رہے کہ دنیائے انٹرنیٹ کے میرے عزیز ترین دوست جارج میکسویل کی کیریر پلاننگ کی حوالے سے تمام باتیں اور دلیلیں عین مبنی بر حقیقت ہیں۔ واقعی آج سے پچاس برس قبل تک جو ملازمتیں کیریر کے لیے انتہائی پرکشش سمجھی جاتی تھیں، آج کل وہ ملازمتیں مکمل طور پر ناپید ہوچکی ہیں، جب کہ صرف دس برس پہلے جن ملازمتوں کے لیے موزوں اُمیدوار دست یاب نہیں ہوتے تھے اَب ایسی تمام ملازمتوں کے لیے طلب کیے گئے انٹریوز اور امتحانات میں، ملازمت کے خواہش مند اُمیدوار اتنی کثیر تعداد میں سامنے آجاتے ہیں کہ ''ایک انار اور سو بیمار '' کا منظر سامنے ہوتا ہے۔

دراصل کیریر پلاننگ پر بھی طلب اور رسد کا مشہور زمانہ تجارتی اُصول پوری طرح سے لاگو ہوتا ہے۔ یعنی کسی طالب علم کے لیے اعلیٰ تعلیم، پرکشش ملازمت کے حصول میں، فقط اُس وقت ہی مددگار اور کارآمد ثابت ہوسکتی ہے، جب مقررہ شعبے میں ملازمتیں زیادہ اور اُمیدوار کم ہوں۔



اگر طلباء و طالبات درج ذیل اُصول کے مطابق اپنے تدریسی شعبہ جات کا انتخاب نہیں کریں گے تو پھر وہ ہی مناظر دیکھنے میں آئیں گے جو آج کل ملک بھر میں ہر سرکاری اور نجی ادارے کی جانب سے ملازمت مشتہر کیے جانے کے بعد ہمیں نظر آرہے ہوتے ہیں، یعنی ایک ڈاکٹر اور انجنیئر کی ملازمت کے لیے دو سے تین ہزار اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان قطار اندر قطار بھرتی دفتر کے باہر کھڑے ہوتے ہیں۔ بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ ایک قاصد اور مالی کی ملازمت کے لیے بھی بی اے، ایم اے اور ایم بی بی ایس پاس نوجوان درخواست اپنے ہاتھ میں لے کر ایم این اے اور ایم پی کے حضور التجائیں کررہے ہوتے ہیں۔

یوں سمجھ لیجیے کہ ہم نے کیریر پلاننگ کا درست معنی و مفہوم سرے سے کبھی جاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان اپنی تدریسی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کیریر پلاننگ کرنے کی مہم کا آغاز کرتے ہیں۔ حالاںکہ کیریر پلاننگ تدریسی تعلیم مکمل کرنے سے بہت پہلے کرنے کی شئے ہے نہ کہ بعد میں۔ واضح رہے کہ کیریر پلاننگ کی درست تفہیم یہ ہے کہ دورانِ تدریس ایسے شعبہ جات کا انتخاب کیا جائے، جن شعبوں میں مستقبل میں وافر ملازمتیں دست یاب ہونے کے روشن امکانات پائے جاتے ہوں۔

تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ عالمی معاشی ضروریات، صنعتی شعبہ میں ہونے والی غیرمعمولی تبدیلیوں اور معاشرتی رجحانات کے اُتار چڑھاؤ پر گہری نظر رکھنے والے تجربہ کار اور زمانہ ساز افراد سے راہ نمائی حاصل کر لی جائے، تاکہ مستقبل میں پرکشش مواقع رکھنے والے شعبوں میں تخصیصی تعلیم حاصل کر کے اپنے کیریر کو چار چاند لگائے جاسکیں۔ زیرنظر مضمون میں تیزی سے فروغ پاتے ایسے ہی ایک نئے اُبھرتے ہوئے تعلیمی شعبے کا اجمالی سا جائزہ لینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یاد رہے کہ ہیومن ریسورسز کے اکثر ماہرین کا عام خیال ہے کہ''حلال ایجوکیشن'' کے شعبے میں حاصل کی گئی تعلیم عنقریب دنیا بھر میں پیدا ہونے والی ہزاروں نئی ملازمتوں میں سے کسی تک پہنچنے میں طلبا و طالبات کے لیے انتہائی معاون اور مفید ثابت ہوسکتی ہے۔

٭حلال ایجوکیشن کی ضرورت، اہمیت اور امکانات

گذشتہ چند برسوں حلال انڈسٹری نے عالمی معیشت میں نئے اقتصادی رجحانات اور غیرمعمولی امکانات پیدا کیے ہیں اور حلال سرٹیفکیشن کا کاروبار عالمی سطح پر بام عروج تک جاپہنچا ہے۔ چناںچہ اس وقت دنیا بھر میں سیکڑوں ادارے اس نئے معاشی میدان میں مختلف شعبہ جات میں کام کررہے ہیں۔

بالخصوص ملائشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، جنوبی افریقا اور خلیج کے ممالک میں وسیع پیمانے پر حلال انڈسٹری میں پیش رفت جاری ہے۔ حیران کن طور پر مسلم ممالک کے علاوہ غیرمسلم ممالک بھی اپنے فوڈ سیفٹی (Food Safety) کی سرٹیفکیشن کو بڑی تیزی کے ساتھ حلال سرٹیفکیشن کے ساتھ بدلتے جا رہے ہیں۔

دراصل دنیا کی بڑی کمپنیاں اس لیے حلال سرٹیفکیشن کے جانب راغب ہورہی ہیں کیوںکہ انہیں یقین ہے کہ مستقبل قریب میں حلال سرٹیفکیشن کے ایک منافع بخش صنعت میں بدل جانے کے کافی روشن امکانات پائے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ حلال سرٹیفکیشن کی عالمی تنظیمIHI Alliance (International Halal Integrity Alliance) کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں حلال سرٹیفکیشن کا کام کرنے والے ادارے 300 سے زائد ہیں۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ حلال کے حوالے سے کام کرنے والے اداروں کی تعداد، اُن ممالک میں زیادہ ہے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ مثال کے طور پر اس وقت صرف امریکا میں ہی حلال سرٹیفیکیشن کے اداروں کی تعداد 14 ہے۔ علاوہ ازیں برطانیہ اور آسٹریلیا میں 7،7 کینیڈا میں 4، جنوبی افریقا میں6، ویتنام میں 3، نیدرلینڈ، جرمنی اور برازیل میں2، 2 ادارے حلال فوڈ کے میدان میں کام کررہے ہیں۔

یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ تھائی لینڈ جیسی لادین ریاست میں بھی حلال انڈسٹری کا باقاعدہ قیام عمل میں آچکا ہے، نیز آسٹریلیا، برازیل اور بھارت دنیا بھر میں سب سے زیادہ حلال سرٹیفائیڈ گوشت ایکسپورٹ کرنے والے ممالک بن چکے ہیں۔ علاوہ ازیں سعودی عرب ویژن 2030 اور انڈونیشیا اکانومکس ماسٹر پلان 2024 اگلے پانچ برس تک کم ازکم 270 ملین افراد کے لیے حلال سرٹیفکیشن لازم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس لیے اکثر عالمی معاشی ماہرین کا اصرار ہے کہ حلال انڈسٹری آنے والے چند برسوں میں دنیا کی چھے بڑی صنعتوں یعنی فوڈ، کاسمیٹکس، میڈیا، فارماسیوٹیکل، ٹورازم اور فنانس انڈسٹری کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لے گی۔

شاید یہی وجہ ہے کہ حلال انڈسٹری کے تیزی سے فروغ پذیر ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں اس صنعت کے مختلف شعبہ جات میں بڑی تعداد میں ملازمتیں پیدا ہورہی ہیں۔ مگر چوںکہ حلال ایجوکیشن کا نظام، دنیا بھر میں ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے، لہٰذا حلال انڈسٹری میں تخصیصی تعلیم اور سندیافتہ افرادی قوت کی شدید قلت ہے، جس کے باعث اس شعبے میں آئے دن تخلیق ہونے والی بے شمار پرکشش ملازمتیں اہل اور قابل افراد کی بے تابی سے راہ تک رہی ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق عالمی سطح پر صرف فوڈ انڈسٹری اور حلال بینکنگ سیکٹر میں20 ہزار سے زائد پرکشش ملازمتیں مطلوبہ اعلی تعلیم یافتہ افراد کے نہ ہونے کی وجہ سے ہنوز خالی ہیں۔ اس کے علاوہ حلال کاسمیٹکس، حلال ٹورازم اور حلال میڈیا جیسے نسبتاً نئے شعبہ جات میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ حلال ایجوکیشن کی ذیل میں مختلف تخصیصی اسناد رکھنے والے افراد کی مانگ میں زبردست اضافہ ہورہا ہے۔

٭حلال کاسمیٹکس نئی صنعت، نئے امکانات

حلال کاسمیٹکس کی مارکیٹ دنیا بھر میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ حلال میک اپ کی خریدوفروخت اس وقت پانچ سے چودہ ارب ڈالر کے درمیان ہے۔ اور اس میں سالانہ بیس فی صد تک اضافہ ہورہا ہے۔ انڈونیشیا، پولینڈ اور برطانیہ کے بعد اب انڈیا میں بھی حلال کاسمیٹکس کی نت نئے مصنوعات متعارف کروائی جارہی ہیں۔ خوش آئند بات تو یہ ہے کہ فیشن اور خوش بوؤں کے عالمی شہر پیرس میں بھی گذشتہ کئی برسوں سے ''بین الاقوامی کاسمیٹکس ایکسپو'' نمائش میں دنیا کی بڑی بیوٹی کمپنیوں کی جانب سے نسوانی چہرے کی دیکھ بھال کے لیے حلال میک اَپ کی مصنوعات تواتر کے ساتھ پیش کی جا رہی ہیں۔

گذشتہ برس پیرس میں ہونے والی ایک عالمی نمائش میں حلال میک اپ کی مصنوعات میں شائقین نے جس غیرمعمولی دل چسپی کا اظہار کیا وہ ایکسپو نمائش کے منتظمین کے لیے انتہائی حیران کن تھا۔ اس نمائش میں سوئٹزرلینڈ میں کام کرنے والی ''حلال سرٹیفکیشن سروسز'' (ایچ سی ایس) کے سربراہ شیخ علی اچکر بھی موجود تھے، جن کا ایک بین الاقوامی خبررساں ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ''جس طرح سے حلال کاسمیٹکس کی مصنوعات کو نمائش میں پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔

امکان ہے کہ اگلے چند برس کے بعد، اس عالمی نمائش میں حلال کاسمیٹکس کی مصنوعات کے علاوہ کچھ اور دکھائی نہیں دے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جانوروں کے اجزاء یا الکوحل سے تیار کی جانے والی کاسمیٹکس کی مصنوعات انسانی چہرے اور جلد پر انتہائی مضر اثرات چھوڑ جاتی ہیں۔ لہٰذا عالمی کاسمیکٹس مارکیٹ میں حلال سرٹیفکیشن کے تحت تیار ہونے والی بیوٹی مصنوعات کی طلب روز بروز بڑھ رہی ہے اور بہت سے صارفین تصدیق کیے بغیر کہ ان مصنوعات میں میں جانوروں کے اجزا ہیں یا نہیں وہ صرف حلال پروڈکٹس دیکھ کر انہیں خرید لیتے ہیں۔''

ایک محتاط اندازے کے مطابق 2025 تک حلال کاسمیٹکس کی عالمی مارکیٹ کا حجم 61 ارب ڈالر سے 90 ارب ڈالر تک بڑھ جائے گا۔ اچھی بات یہ ہے کہ دنیا کی کئی نام ور میک اَپ ساز کمپنیوں نے بھی حلال مصنوعات کی تیاری شروع کردی ہے، مثلاً جنوبی کوریا کی ''ٹیلنٹ کاسمیٹکس''، انڈونیشیا کی ''زاہارا''، آسٹریلیا کی ''انیکا کاسمیٹکس''، امریکا کی ''اَماراہ حلال'' اور برطانیہ کی ''سیمپور ے منرل'' کی بنیادی شناخت ہی اَب حلال بیوٹی مصنوعات بنتی جارہی ہیں۔



نیز حلال کاسمیٹکس کے تمام برانڈز دنیا کے سب سے بڑے آن لائن اسٹور ایمزون پر بھی دست یاب ہیں۔ حلال کاسمیٹکس انڈسٹری کی بے پناہ وسعت کے باعث ایسے افراد کے لیے ملازمتوں کے شان دار مواقع پیدا ہونے کے امکانات بڑھ رہے ہیں، جن کے پاس حلال ایجوکیشن فراہم کرنے والے تعلیمی درس گاہوں کو اسناد موجود ہیں ۔ فی الحال حلال کاسمیٹکس کے شعبے میں یہ ملازمتیں پیدا ہوچکی ہیں: حلال ڈرماٹولوجسٹ، حلال کاسمیٹو لوجسٹ، حلال آئی لیش ٹیکنیشن اور حلال پروڈکٹ ڈویلپر وغیرہ۔

٭حلال سیاحت میں کیریر کی شان دار مواقع

حلال اشیائے خورونوش، حلال بینکنگ اور اس طرح دیگر حلال تصورات کے بارے میں تو آپ نے اکثر نہ صرف سنا ہوگا بلکہ کبھی نہ کبھی ان سے استفادہ بھی کیا ہی ہوگا لیکن اب بین الاقوامی سیاحت میں ایک اور لفظ حلال ٹورازم (Halal Tourism) یعنی'' حلال سیاحت'' کا بھی استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ''حلال سیاحت'' بنیادی طور پر ایک ایسی اصطلاح ہے، جس کا مطلب مسلمان سیاحوں کو اُن کے سیاحتی سفر میںایسی سہولیات مہیا کرنا ہوتا ہے، جن کی انہیں دوران سیاحت اکثر ضرورت پڑسکتی ہے۔

یعنی اگر کوئی سیاح مکمل طور پر باعمل مسلمان ہو، تو ممکن ہے کہ اس کو دوران سفر نماز پڑھنے کی جگہ اور حلال خوراک وغیرہ کی دست یابی کے سلسلے میں کسی ایسی ناگہانی صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑے کہ جس کی بنا پر اس کی مذہبی ضروریات و ترجیحات اس کے سیاحت کے شوق کی راہ میں رکاوٹ بننے لگیں۔ ''حلال سیاحت'' میں مسلمان سیاحوں کو سیاحت کے لیے وہ موزوں اور پسندیدہ ماحول کی فراہمی یقینی بنائی جاتی ہے جس میں کوئی بھی مسلمان سیاح اپنے عقیدے کے عین مطابق حلال خوراک، شرعی پردہ، عبادت کی سہولیات کے ساتھ مکمل طور پر اپنی سیاحتی سرگرمیوں سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہوسکے۔

دنیا کی ایک معروف امریکی کریڈٹ کارڈ کمپنی اور ''حلال ٹرپ'' نامی سیاحتی کمپنی کے مشترکہ طور پر کیے جانے والے ایک تازہ مطالعاتی جائزے کے مطابق ''گذشتہ چند برسوں میں بین الاقوامی سطح پر ''حلال سیاحت'' کے رجحان میں زبردست اضافہ دیکھا گیا ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں ہوائی اڈوں، ریستورانوں اور ہوٹلوں میں ''حلال سیاحت'' کے لیے ضروری خیال کی جانے والی سہولیات اور سروسز مہیا کرنے کو ترجیح دی جانے لگی ہے۔

مثلاً برطانیہ، جرمنی، فرانس، سوئزرلینڈ سمیت بہت سے ممالک میں اہم سفری یا سیاحتی مقامات پر مسلمانوں کے لیے نماز پڑھنے کی سہولت، قرآن پاک کی فراہمی، خواتین و مردوں کے لیے علیحدہ علیحدہ سوئمنگ پولز اور حلال اشیائے خوراک فروخت کرنے والے ریستورانوں کی تعداد میں خاصا اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اس جائزے کے مطابق 2016 میں عالمی سیاحت میں ''مسلم ٹریول مارکیٹ'' کا کُل مالیاتی حجم 156 بلین ڈالر رہا تھا، جس میں نوجوان مسلم سیاحوں کا مالیاتی حصہ 55 بلین ڈالر بنتا تھا۔ اس رجحان میں مستقبل میں مزید تیزی کی بھی پیش گوئی کی گئی ہے اور تخمینہ لگایا گیا ہے کہ 2026 تک مسلمان سیاحوں کی طرف سے سیاحت کے لیے خرچ کی جانے والی رقوم کی مجموعی مالیت 300 بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔

اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد دنیا کے بڑے سیاحتی ممالک نے بھی ''حلال سیاحت'' کو اختیار کرنے پر سنجیدگی سے غوروغوض شروع کردیا ہے، جس کی وجہ سے اس شعبہ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بے پناہ ملازمتیں تخلیق ہورہی ہیں۔ مثلاً حلال ایجنسی منیجر، حلال ریجنل ٹورز منیجر، حلال انٹرنیشنل ٹریول کنسلٹنٹ، حلال ٹورازم کنسلٹنٹ، حلال گائیڈ اور حلال کروز شپ اٹینڈنٹ ایسی قابل ذکر ملازمتیں ہیں جنہیں حاصل کرنے کے لیے مستقبل میں حلال ایجوکیشن کی اسناد ناگزیر ہوں گی۔

٭حلال میڈیا اور حلال ایجوکیشن کا باہمی تعلق

لفظ ''حلال میڈیا'' پہلی بار سننے میں تو ہمیں بھی کچھ عجیب سا ہی لگا تھا جیسا کہ ان سطور کو پڑھتے وقت آپ کو محسوس ہورہا ہوگا، لیکن جب ''حلال میڈیا '' کی ہیئت اور اس کے اغراض و مقاصد کا تفصیلی جائزہ لینے کا موقع میسر آیا تو منکشف ہوا کہ ''حلال میڈیا'' پر اگر شعبہ صحافت سے منسلک نام ور افراد اور ادارے مبنی بر دلیل مکالمے اور علمی محاکمے کا آغاز کریں تو عین ممکن ہے کہ ''حلال میڈیا'' مستقبل قریب میں بین الاقوامی میڈیا کے ہر عیب، نقص اور مرض کا شافی علاج ثابت ہوجائے۔

ذہن نشین رہے کہ ''حلال میڈیا '' کی اصطلاح پر 2019 میں معروف بین الاقوامی خبررساں ادارہ ''رائٹرز'' کی جانب سے ایک خصوصی رپورٹ بھی پیش کی گئی تھی، جس میں بتا یا گیا تھا کہ کئی مسلم ممالک میں سرکاری سطح پر ''حلال میڈیا '' متعارف کروانے کے لیے سنجیدہ نوعیت کے اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں۔ بہرکیف ''حلال میڈیا'' کا ذکر خیر سنتے ہی ذہن میں فطری طور پر کئی طرح کے خدشات، اشکالات اور سوالات بھی جنم لیتے ہیں ۔

جن کے تسلی بخش جواب حاصل کیے بغیر شاید ہی اہلِ صحافت کے لیے ''حلال میڈیا'' کی اصطلاح کو قبول کرنا آسان ہوگا۔ مثلاً ''حلال میڈیا'' کی ہیئت کیا ہوگی؟ کیا یہ ایک ادارہ جاتی محکمہ ہوگا یا پھر ملکی و غیرملکی جامعات میں پڑھایا جانے والا چند قواعد و ضوابط پر مشتمل فقط ایک تدریسی کورس؟ ہمارے خیال میں سائبر میڈیا کی آمد کے بعد عالمی میڈیا جتنا زیادہ طاقت ور ہوچکا، اُس کے بعد یہ سوچنا کہ اسے کسی سرکاری یا نجی ریگولیٹری اتھارٹی کے ذریعے پابند قواعد و ضوابط کیا جاسکتا ہے، ایں خیال است و محال است و جنوں اَست۔

اس حقیقت کے پیش نظر میڈیا کے رجحانات پر اثرانداز ہونے کی بس اَب ایک ہی صورت باقی بچی ہے کہ اس میدان سے وابستہ ہونے والے افراد کی تعلیم و تربیت کے لیے کوئی صراطِ مستقیم تعمیر کردی جائے اور اس ضمن میں ''حلال میڈیا'' کے عنوان سے ملک بھر کی سرکاری و نجی جامعات میں مختصر اور طویل المدتی سرٹیفکیٹ و ڈگری کورسز متعارف کروانے کا طریقہ کار زبردست معاونت فراہم کرسکتا ہے۔ خاص طور پر سوشل میڈیائی صحافت جیسے یوٹیوب، فیس بک اور ویب بلاگز کے ذریعے آئے دن متعارف ہونے والے نت نئے ''ڈیجیٹل صحافیوں'' کے لیے ''حلال میڈیا'' کے کورسز انتہائی سودمند اور نفع بخش ثابت ہوسکتے ہیں۔

یاد رہے کہ ایک مدت سے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی بے شمار بین الاقوامی این جی اوز، مختلف طرح کے تربیتی کورسز کے نام پر صحافت سے منسلک افراد کو لبرل ازم کی باقاعدہ تربیت اسی طریق پر فراہم کرتی آئی ہیں۔ اَب دائیں بازو سے منسلک اصلاح پسند عناصر کو بھی حلال ایجوکیشن کی شکل میں ایک اچھا موقع ہاتھ آیا ہے کہ وہ بھی ''حلال میڈیا'' کے عنوان سے اہلِ صحافت کے لیے تربیتی کورسز متعارف کرواسکتے ہیں۔

حلال ایجوکیشن کی مشکل اصطلاح کو آسان لفظوں میں کچھ یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ مستقبل میں ''حلال میڈیا'' کی تعلیمی سند حاصل کرنے والے وہ افراد ہوں گے، جنہیں میڈیا کے مثبت پہلوؤں کو اُجاگر کرنے کے لیے خصوصی تعلیم و تربیت فراہم کی گئی ہوگی۔ اس لیے غالب امکان یہی ہے کہ حلال ایجوکیشن کی تحصیل آنے والے دور میں میڈیا بالخصوص ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا سے منسلک ہونے کا ارادہ رکھنے والے طلباو طالبات کی انتہائی سُود مند ثابت ہوگی۔

٭پاکستان میں حلال ایجوکیشن فراہم کرنے والی درس گاہیں

ویسے تو پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (PSQCA) کافی عرصے پہلے سے ہی حلال اسٹینڈرڈز پی ایس3733 ، پی ایس 5442 ، پی ایس 4992 ، پی ایس 5319 کے تحت حلال فوڈ، حلال فارما انڈسٹری اور حلال کاسمیٹک انڈسٹری کے لیے اپنے مسلمہ معیارات تشکیل دے چکی تھی، لیکن پاکستان میں حلال ایکٹ 2016 میں پاس ہوا تھا، جب کہ حلال اتھارٹی کا قیام گذشتہ برس 2020 میں عمل میں آیا ہے۔

نیز پاکستان میں کئی نجی و سرکاری درس گاہوں میں حلال ایجوکیشن پروگرام کے تحت باقاعدہ تعلیم و تدریس کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے اور رواں برس منہاج یونیورسٹی لاہور نے یونیورسٹی کی سطح پر حلال ایجوکیشن پروگرام کے تحت ''حلال آگاہی'' ،''حلال اسٹینڈرڈز''، حلال اکانومی''، حلال ایکریڈیشن''، ''گلوبل حلال اسٹینڈرز''، ''حلال ٹورازم''، ''حلال فیشن '' اور ''حلال آڈٹس'' کے عنوانات سے پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما اور شارٹ کورسز کا آغاز کردیا ہے، جس کے باعث ملک میں حلال ایجوکیشن نے بلندی کی سمت ایک نئی جست بھری ہے۔

یاد رہے کہ منہاج یونیورسٹی لاہور میں سب سے نمایاں پروگرام پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما ہے۔ حلال سٹینڈرڈ اور منیجمنٹ سسٹم پر کروایا جانے والا یہ پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما شریعہ اور بین الاقوامی فوڈز سائنس کے بنیادی قوانین پر مشتمل ہے، جب کہ اس ڈپلوما میں نان فوڈ سیکٹر کے مضامین جیسے حلال ٹورازم، حلال میڈیا اور حلال فیشن کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

علاوہ ازیں حلال ایجوکیشن کی ضمن میں مختصر مدت کے سرٹیفکیٹ کورسز کروانے والا ایک دوسرا بااعتماد ادارہ حلال فاؤنڈیشن بھی ہے، جس کا صدر دفتر کراچی میں اور اس کے ذیلی دفاتر ملک کے دیگر بڑے شہروں میں بھی واقع ہیں۔ حلال فاؤنڈیشن بھی حلال معیارات بنانے والے سرکاری ادارے ((P.S.Q.C.A یعنی پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈکوالٹی کنٹرول اتھارٹی سے باضابطہ طور پر کئی برسوں سے منسلک ہے۔ حلال فاؤنڈیشن بھی حلال ایجوکیشن پروگرام کے تحت اہم موضوعات پر خصوصی کورسز کا وقتاً فوقتاً انعقاد کرواتی رہتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں