بیکار کچرے کو ذریعہِ روزگار بنالیجیے
جدید سائنسی طریقوں کی بدولت فضول سمجھ کر پھینکا جانے والا کوڑا اب بذریعہ ری سائیکلنگ قابل استعمال بنانا ممکن ہوچکاہے۔
''اگر آپ کی عینک کے شیشے دھندلے ہیں تو دنیا کو گندا مت کہیے۔''(امریکی کہاوت)
٭٭
وہ پارک میں بیٹھا گنڈیریاں چوس رہا تھا اور چھلکے قریب ہی گھاس پر پھینک دیتا۔جب کھانے کا عمل ختم ہوا تو وہ کپڑے جھاڑتا اٹھا اور بے پروائی سے چلا گیا۔چھلکوں کا کچرا وہیں پڑا رہ گیا۔اب پارک کے صفائی والے شاید اسے اٹھا لیں ورنہ وہ عرصہ دراز تک وہیں براجمان رہے گا۔ہمیں پاکستان میں اکثر ایسا دلخراش منظر دکھائی دیتا ہے۔
حتیٰ کہ بظاہر تعلیم یافتہ لوگ بھی چلتے پھرتے راہ میں کوئی کاغذ یا شے گراتے ہوئے عار یا شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔اس بد روش کا بھی نتیجہ ہے کہ آج ہمیں خصوصاً پاکستانی شہروں میں جا بجا کوڑے کرکٹ کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔کیا یہ چلن اُس عظیم دین کے پیروکاروں کو زیب دیتا ہے جس میں صفائی و طہارت کو نصف ایمان کہا گیا ہے؟
سونے پر سہاگہ عوام اور حکومتیں،دونوں کچرے کی اہمیت کا کوئی شعور نہیں رکھتے۔سائنس وٹکنالوجی کی ترقی نے آج بظاہر بیکار و ناکارہ کچرے میں شامل بہت سی اشیا کو قیمتی بنا دیا ہے۔وجہ یہ کہ مختلف طریقوں کی مدد سے ان اشیا کو دوبارہ قابل استعمال بنا کر نئی چیزیں بنانا ممکن ہو چکا۔یہ عمل سائنسی اصطلاح میں ''ری سائیکلنگ''(Recycling)کہلاتا ہے۔اگر بیروزگار پاکستانی نوجوان اس نئے شعبے کے اسرار ورموز سے واقف ہو جائیں تو وہ اسے اپنا کر معقول آمدن کما سکتے ہیں۔گویا اب کچرے سے پیسا کمانا ممکن ہو گیا۔قدرت الہی نے نوجوانوں کو اپنی تقدیر بدلنے کا سنہرا موقع فراہم کیا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں عام لوگوں کا وتیرہ ہے کہ وہ گھر کا کوڑا باہر کسی بھی جگہ پھینک دیتے ہیں۔حالانکہ مقامی حکومتوں نے کچرا پھینکنے کا مقامات بنا رکھے ہیں۔شہریوں کی اخلاقی اور قانونی ذمے داری ہے کہ وہ صرف انہی مقامات پر کچرا پھینکیں مگر بیشتر مرد وزن جہاں دل چاہے،کوڑا پھینک دیتے ہیں۔یہ مہذب اور تعلیم یافتہ ہونے کی قطعاً علامت نہیں۔صفائی ستھرائی کے جو اصول قران وسنت نے مسلمانوں کو بتائے تھے،وہ اب غیرمسلموں نے اختیار کر لیے ہیں۔اسی باعث ان کے اقبال کا ستارہ بھی چمک رہا ہے۔سبھی مغربی ممالک میں بچوں کو اول دن سے کچرا کا انتظام کرنے کی تربیت ملتی ہے۔اس تربیت کے تین بنیادی اصول ہیں:''Reduce, Reuse and Recycle''یعنی کوڑا کم سے کم پیدا کرو،اسے دوبارہ استعمال کرنے کی کوشش کرو یا پھر اسے بحافظت ٹھکانے لگا دو۔حفاظت سے ٹھکانے کی تعلیم اس لیے دی گئی کہ اُس کچرے کی ری سائیکلنگ سے نئی اشیا بنتی ہیں۔اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ مغربی ممالک میں سڑکیں اور گلیاں صاف ستھری دکھائی دیتی ہیں۔
مغربی ملکوں میں ہر گھر میں کم ازکم تین کوڑے دان یا بن ہوتے ہیں۔ایک میں نامیاتی(organic waste)کچرا یعنی کھانے پینے کی اشیا وغیرہ ڈالاجاتا ہے۔دوسرے میں کاغذ اور تیسرے میں دیگر غیر نامیاتی(Inorganic waste) کوڑا مثلاً پلاسٹک،دھاتیں اور گلاس زینت بنتا ہے۔یہ کوڑے دان مقررہ جگہ رکھے ہوتے ہیں۔روزانہ مقامی حکومت کی گاڑی آتی اور کچرا لے جاتی ہے۔کوڑا اگر بڑی جسامت کا ہو تو اسے کوڑے دانوں کے ساتھ رکھ دیا جاتا ہے۔یوں پہلے شہری اپنی ذمے داری نبھاتے ہیں اور پھر حکومت اپنا فرض انجام دیتی ہے۔ان دونوں کے تعاون اور تال میل سے ماحول صاف ستھرا رہتا ہے اور انسانی صحت کو نقصان نہیں پہنچاتا۔
انسانی آبادی کا سارا کچرا مقامی حکومت مخصوص مقامات پر جمع کرتی ہے۔وہاں حکومتی کارندے کچرے کی درجہ بندی کرتے ہیں۔بعض نامیاتی کچرا کھاد بنانے والے کارخانوں کا رخ کرتا ہے۔بقیہ بجلی گھروں میں جل کر بجلی بناتا ہے۔ غیرنامیاتی کچرے کو بھی بہ لحاظ قسم الگ کیا جاتا ہے۔ پلاسٹک، گلاس، کارڈ بورڈ،کاغذ اور دھاتیں علیحدہ کر کے برائے ری سائیکلنگ کارخانوں میں بھیجی جاتی ہیں۔یہ کارخانے انھیں مختلف پروسیس یعنی مرحلوں سے گذار کر آخرکار ان سے نئی اشیا بنائیں گے۔
کوڑے کرکٹ کا یہ سارا انتظام ''ویسٹ مینجمنٹ'' (Waste management)یا کچرا ٹھکانے لگانے کا انتظام کہلاتا ہے۔مغربی حکومتیں یہ انتظام کرنے میں ماہر اور تجربے کار ہو چکیں۔اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ عوام نے بھی ان سے بھرپور تعاون کیا۔اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی کہ بیشتر مغربی ممالک اپنا اکثر کچرا دوبارہ استعمال کر لیتے ہیں۔اتنا کوڑا بھی نہیں بچتا کہ اس زیرزمین دفن کیا جا سکے۔جو کچرا باکل ناکارہ ہو،مغربی مقامی حکومتیں اسے آبادی سے باہر مخصوص مقامات پر زمین میں دباتی ہیں۔یہ مقام ''لینڈ فل سائٹ '' کہلاتا ہے۔حال یہ ہے کہ سویڈن،ڈنمارک ،سوئٹزرلینڈ اور دیگر یورپی مالک بیرون ملکوں سے نامیاتی و غیر نامیاتی کچرا منگواتے ہیں تاکہ اسے استعمال کے قابل بنا کر اپنی ضرورت پوری کر سکیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ مغربی شہروں میں روزانہ کئی لاکھ ٹن کچرا جمع ہوتا ہے۔مگر مقامی حکومتوں نے ویسٹ مینجنٹ کو اتنا بہترین اور کارآمد بنا لیا ہے کہ اسے بہ آسانی ٹھکانے لگانا ممکن ہو چکا۔اسی لیے وہاں چلتے پھرتے نہ ہوا کے دوش بدوش اڑتے شاپر دکھائی دیتے ہیں اور نہ کسی جگہ کچرے کی بدبو طبعیت خراب کرتی ہے۔جو مغربی کم لکھے پڑھے ہیں،وہ بھی شہری حس رکھتے اور اپنی ذمے داریوں پوری کرتے ہیں۔چاہے انھیں آدھ میل چلنا پڑے،وہ کچرا بن ہی میں پھینکیں گے۔مغرب میں سرراہ کوڑا پھینکنا جہالت و اجڈ پن کی معراج سمجھی جاتی ہے۔جس قوم کو اپنے حقوق و فرائض کا علم ہو،وہ اچھائی اور برائی میں تمیز کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔اور اللہ تعالی بھی اسے ہی ترقی وخوشحالی عطا کرتے ہیں۔بقول شاعر مشرق:
عمل سے زندگی بنتی ہے، جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
پاکستان سمیت اکثر ترقی پذیر ملکوں میں مگر یہ رواج ہے کہ جہاں زیادہ کوڑا جمع ہوا،اسے آگ لگا دی ۔یا پھر اس کو خالی زمین پہ ڈال دیا۔عام لوگ تو نالوں کے کنارے یا خالی پلاٹوں میں کچرا ڈال دیتے ہیں۔ یہ سبھی طریقے ماحول اور انسانی صحت کے دشمن ہیں۔کوڑا جلانے سے اس میں شامل مضر صحت کے زہریلے اجزا ماحول کا حصہ بن جاتے ہیں۔وہ پھر انسانوں کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کر سکتے ہیں۔زمین پہ کچرا بکھیرنے کا نقصان یہ ہے کہ اس کے زہریلے مادے فضا میں شامل ہو جاتے ہیں۔اس علاقے کی فضا پھر معیاری نہیں رہتی اور انسانی صحت کو نقصان پہنچاتی ہے۔غرض پاکستان میں مقامی حکومتوںنے کچرا ٹھکانے لگانے کے جو طریقے اختیار کر رکھے ہیں،وہ ماحول اور انسان کے لیے مضر ہیں۔
کچرا جلایا جائے تو اس میں شامل کیمیائی مادے جل اٹھتے ہیں۔ان کا زہریلا دھواں پھر ماحول آلودہ کرتا ہے۔اس دھوئیں میں سانس لے کر انسان متفرق بیماریوں کا نشانہ بن سکتا ہے۔ کچرا کھلی جگہ بکھیرا جائے تو وہ بھی ماحول اور فضا کو نقصان پہنچاتا ہے۔یہ تو بھلا ہو کوڑے کرکٹ سے کارآمد اشیا چننے والے ہم وطنوں کا جو اپنی محنت مشقت کی بدولت کچرے کی مقدار کم کر دیتے ہیں۔وہ نہ ہوتے تو سڑکوں پہ بکھرا کچرا راستہ روک لیتا اور شہریوں کا جینا حرام کر ڈالتا۔اب بھی یہ مصیبت خاصی تکلیف دہ ہے۔اہل کراچی واقف ہیں کہ کچرے کے بدبودار ڈھیروں کے سنگ سنگ سفر کرنا یا رہنا کتنا اذیت ناک تجربہ ہے۔اب ساکنان
پولی تھین بیگ اور ریپر
ہمارے ہاں عام افراد پولی تھین بیگوں(شاپروں) میں سودا لاتے لے جاتے ہیں۔مگر یہ بیگ ری سائیکل نہیں ہو سکتا۔اسی لیے دنیا میں سبھی حکومتیں ان بیگوں کے استعمال پر پابندیاں لگا چکیں۔عام اشیا کے چمکدار ریپر بھی بہ مشکل ری سائیکل ہوتے ہیں۔ان کو بھی ٹھکانے لگانا مسئلہ بن چکا۔
''ای''کچرا
اکیسویں صدی میں کچرے کی نئی قسم''ای(الیکٹرونک)کچرا ''جنم لے چکی۔یہ کچرا الیکٹرونکس اشیا پہ مشتمل ہے مثلاً کپمیوٹر،ٹی وی،موبائل وغیرہ۔خیال ہے کہ ہر سال دنیا میں پانچ کروڑ ٹن ای کچرا جنم لیتا ہے۔بیشتر ایسا کوڑا ایشیا اور افریقہ کے غریب ممالک میں پھینکا جاتا ہے ۔اس کوڑے میں زہریلے کیمیکل بھی شامل ہوتے ہیں۔لہذا اس کچرے کو باحفاظت ٹھکانے نہ لگایا جائے تو اس کے زہریلے مادے انسانی صحت اور ماحول،دونوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
ِلاہور بھی اس کیفیت سے گذر رہے ہیں۔ہم کچرا اٹھانے والوں کو عموماً بہ نظر تضحیک دکھتے ہیں۔حقیقتاً ہمیں ان کا شکرگذار ہونا چاہیے کہ وہ خود گندگی میں لتھڑ کر ہمیں کچرے کی بھرمار سے بچاتے ہیں۔وہ یہ کام غربت سے مجبور ہو کر کرتے ہیں پھر بھی ان کا وجود کسی نعمت سے کم نہیں!
ویسے بھی کاندھوںپہ تھیلے کا بوجھ اٹھائے قریہ قریہ گھومنا جاں گسل اور کٹھن کام ہے۔مگر پاکستان بھر میں بلا مبالغہ ہزارہا مرد،عورتیں اور بچے بوڑھے یہ کام کرتے ہیں۔وہ صبح سویرے نکلتے اور کچرے کے ڈھیروں سے مطلوبہ چیزیں تلاش کرتے ہیں۔یہ اللہ پاک کی قدرت ہے کہ انھوں نے کسی شے کو بیکار نہیں بنایا،وہ کوئی نہ کوئی مصرف رکھتی ہے۔انہی اشیا کو ڈھونڈ کر کوڑا چننے والے روزی روٹی کماتے ہیں۔
ہم جن اشیا کو ردی اور بے فائدہ سمجھ کر پھینک دیتے ہیں،رب العزت نے اپنی قدرت سے انہی کے ساتھ دنیا بھر میں لاکھوں انسانوں کا رزق وابستہ کر دیا۔اگرچہ ان میں چھوٹے چھوٹے بچے بھی شامل ہیں۔انھیں اسکول میں پڑھنا اور میدانوں میں کھلینا چاہیے۔مگر غربت انھیں ماں باپ کا مددگار بنا دیتی ہے۔لیکن یہ حکمران طبقے کی نااہلی اور کوتاہی ہے کہ وہ غریب بچوں کو تعلیم وتربیت اور مالی سہارا نہیں دے پاتی۔چناں چہ مجبوراً نوخیز عمر میں انھیں دو وقت کی روٹی کی خاطر محنت کرنا پڑتی ہے۔
اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال 21ٹن کچرا جنم لیتا ہے۔اس کی بیشتر مقدار شہروں میں پیدا ہوتی ہے۔سب سے بڑے شہر،کراچی میں روزانہ بارہ تیرہ ہزار ٹن(سالانہ ساڑھے چار لاکھ ٹن)کوڑا نکلتا ہے۔اس میں ہر قسم کو کچرا شامل ہے۔لاہور میں پانچ چھ ہزار ٹن روزانہ کچرا سامنے آتا ہے۔فیصل آباد،راولپنڈی،گوجرانوالہ،پشاور وغیرہ میں بھی ہر روز ہزارہا ٹن کچرا بنتا ہے۔یاد رہے،پاکستان میں ایک لاکھ آبادی والے شہر سو سے زائد ہیں۔
دنیا بھر کے شہروں میں بنتے کچرے میں 24فیصد کاغذ اور کارڈ بورڈ پر مشتمل ہوتا ہے۔کچرے کی دیگر اقسام کا تناسب یہ ہے:غذائی اور دیگر نامیاتی 33فیصد،پلاسٹک12فیصد،دھاتیں9 فیصد،لکڑی6فیصد،کپڑے 5فیصداور ربڑ و چمڑا 3 فیصد۔انسانی آبادیوں میں کنسٹرکشن کا کچرا مثلاً ملبہ،اینٹیںوغیرہ بھی بڑی تعداد میں پیدا ہوتا ہے،تاہم اسے دوبارہ استعمال کر لیا جاتا ہے۔خاص بات یہ کہ درج بالا کچرے میں شامل کئی اشیا اب مطلوبہ پروسیسنگ کے بعد دوبارہ استعمال کی جا سکتی ہیں۔اسی حقیقت نے ان کئی چیزوں کو بھی فائدے مند بنا دیاجنھیں ہم بیکار جان کر پھینک دیتے ہیں۔مگر دنیا بھر کے لاکھوں انسانوں کی نظر میں وہ معمولی اشیا نہیں کیونکہ وہی انھیں روزگار مہیا کرتی ہیں۔وہ آبادی میں جگہ جگہ گھوم پھر کر کچرا نما مفید اشیا جمع کرتے اور پھر عام طو پہ انھیں ہول سیلر کباڑیوں کے پاس بیچ ڈالتے ہیں۔
کچرے میں شامل جن چیزوں کو دوبارہ قابل استعمال بنانا ممکن ہے،ان میں کاغذ،کارڈ بورڈ،دھاتیں،گلاس اور پلاسٹک کی بعض اقسام نمایاں ہیں۔ہماری سڑکوں اور گلیوں میں ہوا کے دوش بدوش اڑتے پھرتے پولی پلاسٹک بیگ المعروف بہ شاپر ایک بار گندا ہونے کے بعد بدقسمتی سے دوبارہ قابل استعمال نہیں بنائے جا سکتے۔اسی باعث وہ ماحول اور انسانی صحت،دونوں کے لیے خطرہ ہیں۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کو چھوڑ کر ہمارے سبھی شہروں میں کچرا اٹھانے کا نظام ناقص ہے۔اسی باعث بیشتر کچرا سڑکوں پہ پڑے پڑے سڑتا اور تعفن زدہ ہوتا ہے۔کچرے کے انبار تلے وہ اشیا بھی ضائع ہو جاتی ہیں جنھیں پھر استعمال کے قابل بنانا ممکن ہے۔ویسٹ مینجمنٹ کی عدم موجودگی سے جنم لینے والا یہ اہم نقصان ہے۔
پچھلے چند برس سے اہل کراچی شہر میں بکھرے کوڑے کے ڈھیروں سے سخت تنگ ہیں۔وہ انھیں صاف کرنے کی دہائی دیتے ہیں مگر مقامی حکومتوں کے کرتا دھرتا رقم نہ ہونے اور کم عملے کا رونا رو کر اپنی بے بسی دکھاتے ہیں۔سابق وزیراعلی،شہباز شریف کے دور میں لاہور سمیت پنجاب کے دیگر شہروں میں صفائی کا انتظام کافی بہتر تھا۔موجودہ دور میں لاہور بھی دیوہیکل کچرا کنڈی بن چکا۔یہ خراب حکومتی انتظام (بیڈ گورننس)کی نمایاں مثال ہے۔قابل ذکر بات یہ کہ دنیا کے اکثر ممالک میں ہر شہری روزانہ1.42 کلو کوڑا پیدا کرتا ہے۔پاکستان میں یہ شرح اوسط 0.8کلو فی کس ہے۔پھر بھی وطن عزیز کے چپے چپے پر کچرے کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔وجہ یہی کہ شہر ودیہات میں مقامی انتظامیہ کچرا اٹھانے کا معقول بندوبست نہیں کرتی۔کچرا جمع ہوتا رہتا ہے۔تب اسے ٹھکانے لگانا مشکل سے مشکل تر ہو جاتا ہے۔لاہور میں پچھلے چند ماہ سے یہی عجوبہ جنم لے چکا۔
خدا خدا کر کے انتظامیہ کچرا اٹھائے تو وہ آبادی کے مضافات میں کھلی جہگوں پر بکھیر دیا جاتا ہے۔ہماری مقامی حکومتیں اس معاملے میں بھی بدانتظامی دکھاتی ہیں۔دنیا بھر میں لینڈ فل سائٹ کا بہترین انتظام ہوتا ہے۔بلکہ وہ کچرا کنڈی نہیں کوئی سیاحتی مقام نظر آتے ہیں۔مگر پاکستان میں ایسا مقام کچرے کے بے ہنگم انباروں کا کریہہ منظر پیش کرتا ہے۔ان سے اتنا زیادہ تعفن اٹھتا ہے کہ عام آدمی وہاں کھڑا نہیں ہو سکتا۔کچرے کے پہاڑ ماحول اور اردگرد آباد انسانوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔
ایک بڑا مسئلہ یہ جنم لے چکا کہ شہروں کے مضافات میں واقع زمین دن بدن مہنگی ہو رہی ہے۔لہذا اب کئی ایکڑ زمین کوڑا کرکٹ کی خاطر مخصوص کرنا وارے نہیں کھاتا۔اس کے بجائے پاکستانی حکومتوں کو کچرا تھکانے لگانے کے متبادل طریقے اختیار کرنے چاہیں تاکہ پاکستان کوڑے کرکٹ کا عالمی دارالحکومت کہلانے کے بدنما داغ سے بچ سکے۔ایک طریق یہ ہے کہ کچرے سے قابل استعمال اشیا چننے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انھیں سہولیات دی جائیں۔ان کی بدولت اگر یہ کام منظم شکل اختیار کر گیا تو تعلیم یافتہ نوجوان بھی اس شعبے میں داخل ہوں گے۔وہ پھر نئے نظریات و خیالات سے اس میں مثبت تبدیلیاں لائیں گے۔یوں زیادہ سے زیادہ پاکستانیوں کی شمولیت سے نہ صرف کچرے کی مقدار میں کمی آئے گی بلکہ مقامی حکومتوں کے لیے اسے اٹھانا بھی مسئلہ نہیں رہے گا۔
ایک تحقیقی رپورٹ کی رو سے پاکستانی شہروں میں کچرا چننے والے مرد وخواتین کوڑے کے ڈھیروں میں جمع تقریباً ساری دھاتیں اور گلاس اٹھا لیتے ہیں۔جبکہ 90فیصد کاغذ اور 60فیصد پلاسٹک بھی اٹھایا جاتا ہے۔مذید براں ردی والے اور پھری والے بھی گھروں سے براہ راست کاغذ و ردی مال خریدتے ہیں۔یہ ساری اشیا مقامی ہول سیلر کباڑی والے کے ہاں پہنچتی ہیں۔اس کے کارندے پہلے کچرے کو اقسام کے لحاظ سے الگ کرتے ہیں۔پھر ان کی صفائی کا مرحلہ آتا ہے۔
آخر میں قابل استعمال اشیا فیکٹریوں یا ان کے ٹھیکے داروں کو بیچ دی جاتی ہیں۔پچھلے دو عشروں سے پوری دنیا میں زیادہ سے زیادہ کچرے کو ری سائیکل کرنے کا نیارجحان سامنے آ چکا۔وجہ صاف ظاہر ہے۔کچرے کو قابل استعمال بنانے سے نہ صرف کچرا کم ہوتا بلکہ صنعتوں کو سستا خام مال میسر آتا ہے۔اسی باعث اب دنیا بھر میں لاکھوں افراد کا روزگار کچرے کی ری سائیکلنگ سے وابستہ ہو چکا۔یہ کام بتدریج صنعت بن رہا ہے۔اپنی گوناگوں خصوصیات کی وجہ سے پاکستان میں بھی وسعت پذیر ہے۔
ہمارے شہر ودیہات میں کباڑی والے کوڑا چننے والوں سے کاغذ اور پلاسٹک فی کلو تیس بتیس روپے میں خریدتے ہیں۔گلاس کی قیمت فی کلو پانچ چھ روپے ہے۔دھاتیں فی کلو ساٹھ تا ستر روپے میں بکتی ہیں۔کباڑی والے یہ مال پروسیسنگ کے بعد چھوٹے کارخانوں کو بیچتے ہیں۔ان کارخانوں میں مال کو پیسا یا چھوٹے حصّوں میں تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ اس سے نئی اشیا تیار ہو سکیں۔مثال کے طور پہ کاغذ بنانے والے کارخانے کچرے سے بنا پلپ خریدتے اور پھر اس سے نیا کاغذ بناتے ہیں۔
اسی طرح فولاد اور گلاس پگھلا کر نئی چیزیں بنائی جاتی ہیں۔پلاسٹک کو دانوں کی شکل ملتی ہے۔اگرچہ پاکستان میں معیاری پلاسٹک بنانے والی فیکٹریاں بیرون ممالک سے خام مال منگواتی ہیں۔وجہ یہ کہ کچرے سے جو پلاسٹک بنتا ہے،عموماً اس میں سڑتی غذا اور گندگی مثلاً ڈائپروں کے اجزا بھی شامل ہو جاتے ہیں۔لہذا وہ اچھی کوالٹی کی نہیں ہوتی۔پلاسٹک کی سبھی معیاری اشیا امپورٹیڈ رال(raisin)اور دانوں(pellets)سے بنتی ہیں۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ پچھلے دس سال میں نوجوان پاکستانی بھی کچرے سے حاصل شدہ مختلف اشیا ری سائیکل کرنے والے چھوٹے کارخانے کھول چکے۔یوں ان اشیا کی تیاری سے لے کر خرید وفروخت تک کے لیے ''سپلائی چین''بھی وجود میں آ چکی۔اس سپلائی چین میں سب سے پہلے کچرا چننے والے آتے ہیں۔وہ قابل استعمال چیزیں چن کر کباڑیوں کو دیتے ہیں۔کباڑی والا اشیا کو قسم کے لحاظ سے بانٹ اور صفائی کر کے چھوٹے کارخانوں کو فروخت کرتا ہے۔چھوٹے کارخانے چیزوں کو چھوٹی صورت میں پروسیس کرتے ہیں۔آخر میں چھوٹی اشیا کے ذریعے بڑے کارخانوں میں نئی چیزیں بنائی جاتی ہیں۔وہ پھر بیچنے کی خاطر مارکیٹوں میں پہنچتی ہیں۔
درج بالا سپلائی چین بننے کے باوجود پاکستان میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تعلیم یافتہ لوگ بھی سارا کچرا ایک جگہ جمع کرتے ہیں۔نامیاتی اور غیرنامیاتی کچرے میں بھی تمیز نہیں کرتے۔اسی لیے کوڑے کرکٹ سے جو قابل استعمال اشیا برامد ہوں،وہ نامیاتی کچرے سے آلودہ ہوتی ہیں۔انھیں الگ اور پھر صاف کرنے میں وقت،توانائی اور پیسا لگتا ہے۔اسی لیے ان سے حاصل شدہ منافع کافی گھٹ جاتا ہے اور بعض اوقات تو گھاٹا ہوتا ہے۔صرف کاغذ ایسی شے ہے جسے بیشتر پاکستانی ردی والوں کو فروخت کرتے ہیں۔ورنہ پلاسٹک،دھاتیں اور گلاس کچرے میں لت پت ہی ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے،پاکستان میں کچرے سے حاصل شدہ اشیا سے ایسی نئی چیزیں ہی بن سکتی ہیں جو کھانے پینے میں استعمال نہ ہوں۔یہ چیزیں بیرونی استعمال میں آتی ہیں جیسے آئوٹ ڈور فرنیچر،چھتوں کی تعمیر میں کام آنے والا میٹریل،مین ہول کے ڈھکنے،پلاسٹک دانے وغیرہ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کچرا اس لیے بھی زیادہ ہوتا ہے کہ عام لوگ نامیاتی اور غیرنامیاتی کوڑے کو بھی الگ نہیں رکھتے اور ساتھ ملا دیتے ہیں۔چناں چہ ایسی کئی اشیا جو دوبارہ قابل استعمال بن سکتی ہیں،نامیاتی کچرے میں لتھڑ کر تقریباً ناکارہ ہو جاتی ہیں۔اگر پاکستانی کم از کم دونوں اقسام کے کچرے الگ الگ رکھنے لگیں تو پاکستان میں ہر سال ہزارہا ٹن کچرا ضائع ہونے سے بچ سکے گا۔نامیاتی کچرے سے کھاد بنے گی جبکہ غیرنامیاتی کچرا نئی چیزیں بنانے میں کام آئے گا۔یوں کام بڑھنے سے لوگوں کو روزگار ملے گا اور غربت کم ہو گی۔نیز کچرے کے ڈھیر بھی کم ہو سکیں گے۔
یہ فوائد دیکھتے ہوئے پاکستانی قوم کو یہ تعلیم و تربیت دینے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ گھروں،دفاتر اور دیگر جہگوں پر دو کوڑے دان ضرور استعمال کریں۔ایک میں نامیاتی یعنی غذا کا بچا کھچا ڈالا جائے اور دوسرے میں غیر نامیاتی کچرا۔صرف یہی چلن اختیار کر کے وہ نہ صرف اپنے ملک کو پاک صاف بنا سکتے ہیں بلکہ ان کی صحت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔یہ بھی ضروری ہے کہ بچوں کو اول دن سے سکھایا جائے کہ کچرے کو کیسے ٹھکانے لگانا ہے۔اس طرح ارض پاک کو صاف ستھرا رکھنے کی روایت پڑ جائے گی۔
مغربی استعمار کا نیا ظلم
پچھلے دو تین عشروں سے یہ انوکھا رجحان سامنے آ چکا کہ مغربی ممالک اپنا زہریلا صنعتی کچرا غریب ملکوں میں پھینکنے لگے ہیں۔اس ضمن میں مغربی حکومتیں یہ دغا بازی دکھاتی ہیں کہ اس کچرے کو قیمتی ظاہر کر دیتی ہیں۔یہ جھوٹا دعوی کرتی ہیں کہ اس کچرے میں ری سائیکلنگ کے قابل اشیا موجود ہیں۔مگر اس کے اندر صنعتی اور دیگرمضر صحت کوڑا بھی چھپایا جاتا ہے۔یہ مغربی استعمار کا غریب ملکوں پہ ایک نیا ظلم ہے۔تاہم اب کئی ترقی پذیر ممالک نے مغربی ملکوں سے کوڑا کرکٹ منگوانے پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ہماری سرزمین غیروں کے لیے کچرا گھر نہیں بن سکتی۔
جام چکرو... بڑی لینڈ فل سائٹ
1996 ء میں کراچی کے مضافات میں جام چکرو دیہہ کے نزدیک ایک لینڈ فل سائٹ بنائی گئی۔یہ پانچ سوایکڑ پہ محیط ہے۔اس کا شمار دنیا کی بڑی لینڈ فل سائٹس میں ہوتا ہے۔بعد ازاں اس کے قریب ہی دیہہ گوندل پاس کے مقام پر ایک اور لینڈ فل بنائی گئی۔
اس کا رقبہ بھی پانچ سو ایکڑ ہے۔مگر یہ دونوں سائٹس کراچی میں کچرے کے ڈھیر کم نہ کر سکیں۔بنیادی وجہ کچرا اٹھانے کے نظام میں در آئی مختلف خرابیاں ہیں۔اکثر سننے میں آتا ہے کہ حکمران طبقہ دھابیجی یا کراچی کے کسی اور مضافاتی مقام پر تیسری بڑی لینڈ فل سائٹ بنا رہا ہے مگر یہ خبر تاحال عملی جامہ نہیں پہن سکی۔
اسی طرح کچھ عرصہ قبل سننے میں آیا تھا کہ سندھ حکومت جام چکرو اور دیہہ گوندل میں کچرا جلانے والے بجلی گھر بنائے گی۔مگر یہ معاملہ بھی سیاسی چکربازیوں کی دلدل میں کہیں دفن ہو گیا۔لاہور میں شہباز شریف حکومت نے2016ء میں ایک ارب روپے کی لاگت سے لکھو ڈیرو کے مقام پر لینڈ فل سائٹ بنائی تھی۔
یہ 56ایکڑ رقبے پر محیط ہے۔خبر ہے کہ یہ سائٹ بھی کوڑے کرکٹ سے بھر چکی۔شاید یہی وجہ ہے،اب لاہور میں بھی شہر قائد کی طرح جابجا کچرے کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں اور ماحول میں تعفن بڑھ چکا۔مقامی حکومت کچرا صاف کرنے کے سلسلے میں روزانہ بیان داغتی ہے مگر عمل کم ہی ہوتا ہے۔
ری سائیکلنگ کی انوکھی باتیں
٭...ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں روزانہ جو کچرا جنم لے،اس کا 75فیصد حصہ ری سائیکل ہو سکتا ہے۔لیکن صرف 30فیصد ری سائیکل ہو پاتا اور بقیہ ضائع ہو جاتا ہے۔
٭...کچرے میں شامل اگر کاغذ سے نیا مال بنایا جائے تو ہر ایک ٹن نئے کاغذ کی تیاری پر 350گیلن تیل اور 17درختوں کی بچت ہوتی ہے۔نیز زمین کا بڑا حصہ کچرے کی نذر نہیں ہو پاتا۔
٭...ترقی یافتہ ممالک میں ہر شہری سالانہ دو درختوں سے بنی کاغذ کی اشیا استعمال کرتا ہے۔
٭...گاڑیوں کا تیل استعمال سے ناکارہ نہیں بس گندا ہوتا ہے۔اسے ری سائیکل کرنا ممکن ہے۔
٭...ایک پلاسٹک بوتل کو گلنے سڑنے میں 500سال لگتے ہیں۔
٭...المونیم کے ڈبے(کین)دنیا میں سب سے زیادہ ری سائیکل ہوتے ہیں۔
٭٭
وہ پارک میں بیٹھا گنڈیریاں چوس رہا تھا اور چھلکے قریب ہی گھاس پر پھینک دیتا۔جب کھانے کا عمل ختم ہوا تو وہ کپڑے جھاڑتا اٹھا اور بے پروائی سے چلا گیا۔چھلکوں کا کچرا وہیں پڑا رہ گیا۔اب پارک کے صفائی والے شاید اسے اٹھا لیں ورنہ وہ عرصہ دراز تک وہیں براجمان رہے گا۔ہمیں پاکستان میں اکثر ایسا دلخراش منظر دکھائی دیتا ہے۔
حتیٰ کہ بظاہر تعلیم یافتہ لوگ بھی چلتے پھرتے راہ میں کوئی کاغذ یا شے گراتے ہوئے عار یا شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔اس بد روش کا بھی نتیجہ ہے کہ آج ہمیں خصوصاً پاکستانی شہروں میں جا بجا کوڑے کرکٹ کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔کیا یہ چلن اُس عظیم دین کے پیروکاروں کو زیب دیتا ہے جس میں صفائی و طہارت کو نصف ایمان کہا گیا ہے؟
سونے پر سہاگہ عوام اور حکومتیں،دونوں کچرے کی اہمیت کا کوئی شعور نہیں رکھتے۔سائنس وٹکنالوجی کی ترقی نے آج بظاہر بیکار و ناکارہ کچرے میں شامل بہت سی اشیا کو قیمتی بنا دیا ہے۔وجہ یہ کہ مختلف طریقوں کی مدد سے ان اشیا کو دوبارہ قابل استعمال بنا کر نئی چیزیں بنانا ممکن ہو چکا۔یہ عمل سائنسی اصطلاح میں ''ری سائیکلنگ''(Recycling)کہلاتا ہے۔اگر بیروزگار پاکستانی نوجوان اس نئے شعبے کے اسرار ورموز سے واقف ہو جائیں تو وہ اسے اپنا کر معقول آمدن کما سکتے ہیں۔گویا اب کچرے سے پیسا کمانا ممکن ہو گیا۔قدرت الہی نے نوجوانوں کو اپنی تقدیر بدلنے کا سنہرا موقع فراہم کیا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں عام لوگوں کا وتیرہ ہے کہ وہ گھر کا کوڑا باہر کسی بھی جگہ پھینک دیتے ہیں۔حالانکہ مقامی حکومتوں نے کچرا پھینکنے کا مقامات بنا رکھے ہیں۔شہریوں کی اخلاقی اور قانونی ذمے داری ہے کہ وہ صرف انہی مقامات پر کچرا پھینکیں مگر بیشتر مرد وزن جہاں دل چاہے،کوڑا پھینک دیتے ہیں۔یہ مہذب اور تعلیم یافتہ ہونے کی قطعاً علامت نہیں۔صفائی ستھرائی کے جو اصول قران وسنت نے مسلمانوں کو بتائے تھے،وہ اب غیرمسلموں نے اختیار کر لیے ہیں۔اسی باعث ان کے اقبال کا ستارہ بھی چمک رہا ہے۔سبھی مغربی ممالک میں بچوں کو اول دن سے کچرا کا انتظام کرنے کی تربیت ملتی ہے۔اس تربیت کے تین بنیادی اصول ہیں:''Reduce, Reuse and Recycle''یعنی کوڑا کم سے کم پیدا کرو،اسے دوبارہ استعمال کرنے کی کوشش کرو یا پھر اسے بحافظت ٹھکانے لگا دو۔حفاظت سے ٹھکانے کی تعلیم اس لیے دی گئی کہ اُس کچرے کی ری سائیکلنگ سے نئی اشیا بنتی ہیں۔اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ مغربی ممالک میں سڑکیں اور گلیاں صاف ستھری دکھائی دیتی ہیں۔
مغربی ملکوں میں ہر گھر میں کم ازکم تین کوڑے دان یا بن ہوتے ہیں۔ایک میں نامیاتی(organic waste)کچرا یعنی کھانے پینے کی اشیا وغیرہ ڈالاجاتا ہے۔دوسرے میں کاغذ اور تیسرے میں دیگر غیر نامیاتی(Inorganic waste) کوڑا مثلاً پلاسٹک،دھاتیں اور گلاس زینت بنتا ہے۔یہ کوڑے دان مقررہ جگہ رکھے ہوتے ہیں۔روزانہ مقامی حکومت کی گاڑی آتی اور کچرا لے جاتی ہے۔کوڑا اگر بڑی جسامت کا ہو تو اسے کوڑے دانوں کے ساتھ رکھ دیا جاتا ہے۔یوں پہلے شہری اپنی ذمے داری نبھاتے ہیں اور پھر حکومت اپنا فرض انجام دیتی ہے۔ان دونوں کے تعاون اور تال میل سے ماحول صاف ستھرا رہتا ہے اور انسانی صحت کو نقصان نہیں پہنچاتا۔
انسانی آبادی کا سارا کچرا مقامی حکومت مخصوص مقامات پر جمع کرتی ہے۔وہاں حکومتی کارندے کچرے کی درجہ بندی کرتے ہیں۔بعض نامیاتی کچرا کھاد بنانے والے کارخانوں کا رخ کرتا ہے۔بقیہ بجلی گھروں میں جل کر بجلی بناتا ہے۔ غیرنامیاتی کچرے کو بھی بہ لحاظ قسم الگ کیا جاتا ہے۔ پلاسٹک، گلاس، کارڈ بورڈ،کاغذ اور دھاتیں علیحدہ کر کے برائے ری سائیکلنگ کارخانوں میں بھیجی جاتی ہیں۔یہ کارخانے انھیں مختلف پروسیس یعنی مرحلوں سے گذار کر آخرکار ان سے نئی اشیا بنائیں گے۔
کوڑے کرکٹ کا یہ سارا انتظام ''ویسٹ مینجمنٹ'' (Waste management)یا کچرا ٹھکانے لگانے کا انتظام کہلاتا ہے۔مغربی حکومتیں یہ انتظام کرنے میں ماہر اور تجربے کار ہو چکیں۔اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ عوام نے بھی ان سے بھرپور تعاون کیا۔اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی کہ بیشتر مغربی ممالک اپنا اکثر کچرا دوبارہ استعمال کر لیتے ہیں۔اتنا کوڑا بھی نہیں بچتا کہ اس زیرزمین دفن کیا جا سکے۔جو کچرا باکل ناکارہ ہو،مغربی مقامی حکومتیں اسے آبادی سے باہر مخصوص مقامات پر زمین میں دباتی ہیں۔یہ مقام ''لینڈ فل سائٹ '' کہلاتا ہے۔حال یہ ہے کہ سویڈن،ڈنمارک ،سوئٹزرلینڈ اور دیگر یورپی مالک بیرون ملکوں سے نامیاتی و غیر نامیاتی کچرا منگواتے ہیں تاکہ اسے استعمال کے قابل بنا کر اپنی ضرورت پوری کر سکیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ مغربی شہروں میں روزانہ کئی لاکھ ٹن کچرا جمع ہوتا ہے۔مگر مقامی حکومتوں نے ویسٹ مینجنٹ کو اتنا بہترین اور کارآمد بنا لیا ہے کہ اسے بہ آسانی ٹھکانے لگانا ممکن ہو چکا۔اسی لیے وہاں چلتے پھرتے نہ ہوا کے دوش بدوش اڑتے شاپر دکھائی دیتے ہیں اور نہ کسی جگہ کچرے کی بدبو طبعیت خراب کرتی ہے۔جو مغربی کم لکھے پڑھے ہیں،وہ بھی شہری حس رکھتے اور اپنی ذمے داریوں پوری کرتے ہیں۔چاہے انھیں آدھ میل چلنا پڑے،وہ کچرا بن ہی میں پھینکیں گے۔مغرب میں سرراہ کوڑا پھینکنا جہالت و اجڈ پن کی معراج سمجھی جاتی ہے۔جس قوم کو اپنے حقوق و فرائض کا علم ہو،وہ اچھائی اور برائی میں تمیز کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔اور اللہ تعالی بھی اسے ہی ترقی وخوشحالی عطا کرتے ہیں۔بقول شاعر مشرق:
عمل سے زندگی بنتی ہے، جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
پاکستان سمیت اکثر ترقی پذیر ملکوں میں مگر یہ رواج ہے کہ جہاں زیادہ کوڑا جمع ہوا،اسے آگ لگا دی ۔یا پھر اس کو خالی زمین پہ ڈال دیا۔عام لوگ تو نالوں کے کنارے یا خالی پلاٹوں میں کچرا ڈال دیتے ہیں۔ یہ سبھی طریقے ماحول اور انسانی صحت کے دشمن ہیں۔کوڑا جلانے سے اس میں شامل مضر صحت کے زہریلے اجزا ماحول کا حصہ بن جاتے ہیں۔وہ پھر انسانوں کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کر سکتے ہیں۔زمین پہ کچرا بکھیرنے کا نقصان یہ ہے کہ اس کے زہریلے مادے فضا میں شامل ہو جاتے ہیں۔اس علاقے کی فضا پھر معیاری نہیں رہتی اور انسانی صحت کو نقصان پہنچاتی ہے۔غرض پاکستان میں مقامی حکومتوںنے کچرا ٹھکانے لگانے کے جو طریقے اختیار کر رکھے ہیں،وہ ماحول اور انسان کے لیے مضر ہیں۔
کچرا جلایا جائے تو اس میں شامل کیمیائی مادے جل اٹھتے ہیں۔ان کا زہریلا دھواں پھر ماحول آلودہ کرتا ہے۔اس دھوئیں میں سانس لے کر انسان متفرق بیماریوں کا نشانہ بن سکتا ہے۔ کچرا کھلی جگہ بکھیرا جائے تو وہ بھی ماحول اور فضا کو نقصان پہنچاتا ہے۔یہ تو بھلا ہو کوڑے کرکٹ سے کارآمد اشیا چننے والے ہم وطنوں کا جو اپنی محنت مشقت کی بدولت کچرے کی مقدار کم کر دیتے ہیں۔وہ نہ ہوتے تو سڑکوں پہ بکھرا کچرا راستہ روک لیتا اور شہریوں کا جینا حرام کر ڈالتا۔اب بھی یہ مصیبت خاصی تکلیف دہ ہے۔اہل کراچی واقف ہیں کہ کچرے کے بدبودار ڈھیروں کے سنگ سنگ سفر کرنا یا رہنا کتنا اذیت ناک تجربہ ہے۔اب ساکنان
پولی تھین بیگ اور ریپر
ہمارے ہاں عام افراد پولی تھین بیگوں(شاپروں) میں سودا لاتے لے جاتے ہیں۔مگر یہ بیگ ری سائیکل نہیں ہو سکتا۔اسی لیے دنیا میں سبھی حکومتیں ان بیگوں کے استعمال پر پابندیاں لگا چکیں۔عام اشیا کے چمکدار ریپر بھی بہ مشکل ری سائیکل ہوتے ہیں۔ان کو بھی ٹھکانے لگانا مسئلہ بن چکا۔
''ای''کچرا
اکیسویں صدی میں کچرے کی نئی قسم''ای(الیکٹرونک)کچرا ''جنم لے چکی۔یہ کچرا الیکٹرونکس اشیا پہ مشتمل ہے مثلاً کپمیوٹر،ٹی وی،موبائل وغیرہ۔خیال ہے کہ ہر سال دنیا میں پانچ کروڑ ٹن ای کچرا جنم لیتا ہے۔بیشتر ایسا کوڑا ایشیا اور افریقہ کے غریب ممالک میں پھینکا جاتا ہے ۔اس کوڑے میں زہریلے کیمیکل بھی شامل ہوتے ہیں۔لہذا اس کچرے کو باحفاظت ٹھکانے نہ لگایا جائے تو اس کے زہریلے مادے انسانی صحت اور ماحول،دونوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
ِلاہور بھی اس کیفیت سے گذر رہے ہیں۔ہم کچرا اٹھانے والوں کو عموماً بہ نظر تضحیک دکھتے ہیں۔حقیقتاً ہمیں ان کا شکرگذار ہونا چاہیے کہ وہ خود گندگی میں لتھڑ کر ہمیں کچرے کی بھرمار سے بچاتے ہیں۔وہ یہ کام غربت سے مجبور ہو کر کرتے ہیں پھر بھی ان کا وجود کسی نعمت سے کم نہیں!
ویسے بھی کاندھوںپہ تھیلے کا بوجھ اٹھائے قریہ قریہ گھومنا جاں گسل اور کٹھن کام ہے۔مگر پاکستان بھر میں بلا مبالغہ ہزارہا مرد،عورتیں اور بچے بوڑھے یہ کام کرتے ہیں۔وہ صبح سویرے نکلتے اور کچرے کے ڈھیروں سے مطلوبہ چیزیں تلاش کرتے ہیں۔یہ اللہ پاک کی قدرت ہے کہ انھوں نے کسی شے کو بیکار نہیں بنایا،وہ کوئی نہ کوئی مصرف رکھتی ہے۔انہی اشیا کو ڈھونڈ کر کوڑا چننے والے روزی روٹی کماتے ہیں۔
ہم جن اشیا کو ردی اور بے فائدہ سمجھ کر پھینک دیتے ہیں،رب العزت نے اپنی قدرت سے انہی کے ساتھ دنیا بھر میں لاکھوں انسانوں کا رزق وابستہ کر دیا۔اگرچہ ان میں چھوٹے چھوٹے بچے بھی شامل ہیں۔انھیں اسکول میں پڑھنا اور میدانوں میں کھلینا چاہیے۔مگر غربت انھیں ماں باپ کا مددگار بنا دیتی ہے۔لیکن یہ حکمران طبقے کی نااہلی اور کوتاہی ہے کہ وہ غریب بچوں کو تعلیم وتربیت اور مالی سہارا نہیں دے پاتی۔چناں چہ مجبوراً نوخیز عمر میں انھیں دو وقت کی روٹی کی خاطر محنت کرنا پڑتی ہے۔
اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال 21ٹن کچرا جنم لیتا ہے۔اس کی بیشتر مقدار شہروں میں پیدا ہوتی ہے۔سب سے بڑے شہر،کراچی میں روزانہ بارہ تیرہ ہزار ٹن(سالانہ ساڑھے چار لاکھ ٹن)کوڑا نکلتا ہے۔اس میں ہر قسم کو کچرا شامل ہے۔لاہور میں پانچ چھ ہزار ٹن روزانہ کچرا سامنے آتا ہے۔فیصل آباد،راولپنڈی،گوجرانوالہ،پشاور وغیرہ میں بھی ہر روز ہزارہا ٹن کچرا بنتا ہے۔یاد رہے،پاکستان میں ایک لاکھ آبادی والے شہر سو سے زائد ہیں۔
دنیا بھر کے شہروں میں بنتے کچرے میں 24فیصد کاغذ اور کارڈ بورڈ پر مشتمل ہوتا ہے۔کچرے کی دیگر اقسام کا تناسب یہ ہے:غذائی اور دیگر نامیاتی 33فیصد،پلاسٹک12فیصد،دھاتیں9 فیصد،لکڑی6فیصد،کپڑے 5فیصداور ربڑ و چمڑا 3 فیصد۔انسانی آبادیوں میں کنسٹرکشن کا کچرا مثلاً ملبہ،اینٹیںوغیرہ بھی بڑی تعداد میں پیدا ہوتا ہے،تاہم اسے دوبارہ استعمال کر لیا جاتا ہے۔خاص بات یہ کہ درج بالا کچرے میں شامل کئی اشیا اب مطلوبہ پروسیسنگ کے بعد دوبارہ استعمال کی جا سکتی ہیں۔اسی حقیقت نے ان کئی چیزوں کو بھی فائدے مند بنا دیاجنھیں ہم بیکار جان کر پھینک دیتے ہیں۔مگر دنیا بھر کے لاکھوں انسانوں کی نظر میں وہ معمولی اشیا نہیں کیونکہ وہی انھیں روزگار مہیا کرتی ہیں۔وہ آبادی میں جگہ جگہ گھوم پھر کر کچرا نما مفید اشیا جمع کرتے اور پھر عام طو پہ انھیں ہول سیلر کباڑیوں کے پاس بیچ ڈالتے ہیں۔
کچرے میں شامل جن چیزوں کو دوبارہ قابل استعمال بنانا ممکن ہے،ان میں کاغذ،کارڈ بورڈ،دھاتیں،گلاس اور پلاسٹک کی بعض اقسام نمایاں ہیں۔ہماری سڑکوں اور گلیوں میں ہوا کے دوش بدوش اڑتے پھرتے پولی پلاسٹک بیگ المعروف بہ شاپر ایک بار گندا ہونے کے بعد بدقسمتی سے دوبارہ قابل استعمال نہیں بنائے جا سکتے۔اسی باعث وہ ماحول اور انسانی صحت،دونوں کے لیے خطرہ ہیں۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کو چھوڑ کر ہمارے سبھی شہروں میں کچرا اٹھانے کا نظام ناقص ہے۔اسی باعث بیشتر کچرا سڑکوں پہ پڑے پڑے سڑتا اور تعفن زدہ ہوتا ہے۔کچرے کے انبار تلے وہ اشیا بھی ضائع ہو جاتی ہیں جنھیں پھر استعمال کے قابل بنانا ممکن ہے۔ویسٹ مینجمنٹ کی عدم موجودگی سے جنم لینے والا یہ اہم نقصان ہے۔
پچھلے چند برس سے اہل کراچی شہر میں بکھرے کوڑے کے ڈھیروں سے سخت تنگ ہیں۔وہ انھیں صاف کرنے کی دہائی دیتے ہیں مگر مقامی حکومتوں کے کرتا دھرتا رقم نہ ہونے اور کم عملے کا رونا رو کر اپنی بے بسی دکھاتے ہیں۔سابق وزیراعلی،شہباز شریف کے دور میں لاہور سمیت پنجاب کے دیگر شہروں میں صفائی کا انتظام کافی بہتر تھا۔موجودہ دور میں لاہور بھی دیوہیکل کچرا کنڈی بن چکا۔یہ خراب حکومتی انتظام (بیڈ گورننس)کی نمایاں مثال ہے۔قابل ذکر بات یہ کہ دنیا کے اکثر ممالک میں ہر شہری روزانہ1.42 کلو کوڑا پیدا کرتا ہے۔پاکستان میں یہ شرح اوسط 0.8کلو فی کس ہے۔پھر بھی وطن عزیز کے چپے چپے پر کچرے کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔وجہ یہی کہ شہر ودیہات میں مقامی انتظامیہ کچرا اٹھانے کا معقول بندوبست نہیں کرتی۔کچرا جمع ہوتا رہتا ہے۔تب اسے ٹھکانے لگانا مشکل سے مشکل تر ہو جاتا ہے۔لاہور میں پچھلے چند ماہ سے یہی عجوبہ جنم لے چکا۔
خدا خدا کر کے انتظامیہ کچرا اٹھائے تو وہ آبادی کے مضافات میں کھلی جہگوں پر بکھیر دیا جاتا ہے۔ہماری مقامی حکومتیں اس معاملے میں بھی بدانتظامی دکھاتی ہیں۔دنیا بھر میں لینڈ فل سائٹ کا بہترین انتظام ہوتا ہے۔بلکہ وہ کچرا کنڈی نہیں کوئی سیاحتی مقام نظر آتے ہیں۔مگر پاکستان میں ایسا مقام کچرے کے بے ہنگم انباروں کا کریہہ منظر پیش کرتا ہے۔ان سے اتنا زیادہ تعفن اٹھتا ہے کہ عام آدمی وہاں کھڑا نہیں ہو سکتا۔کچرے کے پہاڑ ماحول اور اردگرد آباد انسانوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔
ایک بڑا مسئلہ یہ جنم لے چکا کہ شہروں کے مضافات میں واقع زمین دن بدن مہنگی ہو رہی ہے۔لہذا اب کئی ایکڑ زمین کوڑا کرکٹ کی خاطر مخصوص کرنا وارے نہیں کھاتا۔اس کے بجائے پاکستانی حکومتوں کو کچرا تھکانے لگانے کے متبادل طریقے اختیار کرنے چاہیں تاکہ پاکستان کوڑے کرکٹ کا عالمی دارالحکومت کہلانے کے بدنما داغ سے بچ سکے۔ایک طریق یہ ہے کہ کچرے سے قابل استعمال اشیا چننے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انھیں سہولیات دی جائیں۔ان کی بدولت اگر یہ کام منظم شکل اختیار کر گیا تو تعلیم یافتہ نوجوان بھی اس شعبے میں داخل ہوں گے۔وہ پھر نئے نظریات و خیالات سے اس میں مثبت تبدیلیاں لائیں گے۔یوں زیادہ سے زیادہ پاکستانیوں کی شمولیت سے نہ صرف کچرے کی مقدار میں کمی آئے گی بلکہ مقامی حکومتوں کے لیے اسے اٹھانا بھی مسئلہ نہیں رہے گا۔
ایک تحقیقی رپورٹ کی رو سے پاکستانی شہروں میں کچرا چننے والے مرد وخواتین کوڑے کے ڈھیروں میں جمع تقریباً ساری دھاتیں اور گلاس اٹھا لیتے ہیں۔جبکہ 90فیصد کاغذ اور 60فیصد پلاسٹک بھی اٹھایا جاتا ہے۔مذید براں ردی والے اور پھری والے بھی گھروں سے براہ راست کاغذ و ردی مال خریدتے ہیں۔یہ ساری اشیا مقامی ہول سیلر کباڑی والے کے ہاں پہنچتی ہیں۔اس کے کارندے پہلے کچرے کو اقسام کے لحاظ سے الگ کرتے ہیں۔پھر ان کی صفائی کا مرحلہ آتا ہے۔
آخر میں قابل استعمال اشیا فیکٹریوں یا ان کے ٹھیکے داروں کو بیچ دی جاتی ہیں۔پچھلے دو عشروں سے پوری دنیا میں زیادہ سے زیادہ کچرے کو ری سائیکل کرنے کا نیارجحان سامنے آ چکا۔وجہ صاف ظاہر ہے۔کچرے کو قابل استعمال بنانے سے نہ صرف کچرا کم ہوتا بلکہ صنعتوں کو سستا خام مال میسر آتا ہے۔اسی باعث اب دنیا بھر میں لاکھوں افراد کا روزگار کچرے کی ری سائیکلنگ سے وابستہ ہو چکا۔یہ کام بتدریج صنعت بن رہا ہے۔اپنی گوناگوں خصوصیات کی وجہ سے پاکستان میں بھی وسعت پذیر ہے۔
ہمارے شہر ودیہات میں کباڑی والے کوڑا چننے والوں سے کاغذ اور پلاسٹک فی کلو تیس بتیس روپے میں خریدتے ہیں۔گلاس کی قیمت فی کلو پانچ چھ روپے ہے۔دھاتیں فی کلو ساٹھ تا ستر روپے میں بکتی ہیں۔کباڑی والے یہ مال پروسیسنگ کے بعد چھوٹے کارخانوں کو بیچتے ہیں۔ان کارخانوں میں مال کو پیسا یا چھوٹے حصّوں میں تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ اس سے نئی اشیا تیار ہو سکیں۔مثال کے طور پہ کاغذ بنانے والے کارخانے کچرے سے بنا پلپ خریدتے اور پھر اس سے نیا کاغذ بناتے ہیں۔
اسی طرح فولاد اور گلاس پگھلا کر نئی چیزیں بنائی جاتی ہیں۔پلاسٹک کو دانوں کی شکل ملتی ہے۔اگرچہ پاکستان میں معیاری پلاسٹک بنانے والی فیکٹریاں بیرون ممالک سے خام مال منگواتی ہیں۔وجہ یہ کہ کچرے سے جو پلاسٹک بنتا ہے،عموماً اس میں سڑتی غذا اور گندگی مثلاً ڈائپروں کے اجزا بھی شامل ہو جاتے ہیں۔لہذا وہ اچھی کوالٹی کی نہیں ہوتی۔پلاسٹک کی سبھی معیاری اشیا امپورٹیڈ رال(raisin)اور دانوں(pellets)سے بنتی ہیں۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ پچھلے دس سال میں نوجوان پاکستانی بھی کچرے سے حاصل شدہ مختلف اشیا ری سائیکل کرنے والے چھوٹے کارخانے کھول چکے۔یوں ان اشیا کی تیاری سے لے کر خرید وفروخت تک کے لیے ''سپلائی چین''بھی وجود میں آ چکی۔اس سپلائی چین میں سب سے پہلے کچرا چننے والے آتے ہیں۔وہ قابل استعمال چیزیں چن کر کباڑیوں کو دیتے ہیں۔کباڑی والا اشیا کو قسم کے لحاظ سے بانٹ اور صفائی کر کے چھوٹے کارخانوں کو فروخت کرتا ہے۔چھوٹے کارخانے چیزوں کو چھوٹی صورت میں پروسیس کرتے ہیں۔آخر میں چھوٹی اشیا کے ذریعے بڑے کارخانوں میں نئی چیزیں بنائی جاتی ہیں۔وہ پھر بیچنے کی خاطر مارکیٹوں میں پہنچتی ہیں۔
درج بالا سپلائی چین بننے کے باوجود پاکستان میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تعلیم یافتہ لوگ بھی سارا کچرا ایک جگہ جمع کرتے ہیں۔نامیاتی اور غیرنامیاتی کچرے میں بھی تمیز نہیں کرتے۔اسی لیے کوڑے کرکٹ سے جو قابل استعمال اشیا برامد ہوں،وہ نامیاتی کچرے سے آلودہ ہوتی ہیں۔انھیں الگ اور پھر صاف کرنے میں وقت،توانائی اور پیسا لگتا ہے۔اسی لیے ان سے حاصل شدہ منافع کافی گھٹ جاتا ہے اور بعض اوقات تو گھاٹا ہوتا ہے۔صرف کاغذ ایسی شے ہے جسے بیشتر پاکستانی ردی والوں کو فروخت کرتے ہیں۔ورنہ پلاسٹک،دھاتیں اور گلاس کچرے میں لت پت ہی ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے،پاکستان میں کچرے سے حاصل شدہ اشیا سے ایسی نئی چیزیں ہی بن سکتی ہیں جو کھانے پینے میں استعمال نہ ہوں۔یہ چیزیں بیرونی استعمال میں آتی ہیں جیسے آئوٹ ڈور فرنیچر،چھتوں کی تعمیر میں کام آنے والا میٹریل،مین ہول کے ڈھکنے،پلاسٹک دانے وغیرہ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کچرا اس لیے بھی زیادہ ہوتا ہے کہ عام لوگ نامیاتی اور غیرنامیاتی کوڑے کو بھی الگ نہیں رکھتے اور ساتھ ملا دیتے ہیں۔چناں چہ ایسی کئی اشیا جو دوبارہ قابل استعمال بن سکتی ہیں،نامیاتی کچرے میں لتھڑ کر تقریباً ناکارہ ہو جاتی ہیں۔اگر پاکستانی کم از کم دونوں اقسام کے کچرے الگ الگ رکھنے لگیں تو پاکستان میں ہر سال ہزارہا ٹن کچرا ضائع ہونے سے بچ سکے گا۔نامیاتی کچرے سے کھاد بنے گی جبکہ غیرنامیاتی کچرا نئی چیزیں بنانے میں کام آئے گا۔یوں کام بڑھنے سے لوگوں کو روزگار ملے گا اور غربت کم ہو گی۔نیز کچرے کے ڈھیر بھی کم ہو سکیں گے۔
یہ فوائد دیکھتے ہوئے پاکستانی قوم کو یہ تعلیم و تربیت دینے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ گھروں،دفاتر اور دیگر جہگوں پر دو کوڑے دان ضرور استعمال کریں۔ایک میں نامیاتی یعنی غذا کا بچا کھچا ڈالا جائے اور دوسرے میں غیر نامیاتی کچرا۔صرف یہی چلن اختیار کر کے وہ نہ صرف اپنے ملک کو پاک صاف بنا سکتے ہیں بلکہ ان کی صحت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔یہ بھی ضروری ہے کہ بچوں کو اول دن سے سکھایا جائے کہ کچرے کو کیسے ٹھکانے لگانا ہے۔اس طرح ارض پاک کو صاف ستھرا رکھنے کی روایت پڑ جائے گی۔
مغربی استعمار کا نیا ظلم
پچھلے دو تین عشروں سے یہ انوکھا رجحان سامنے آ چکا کہ مغربی ممالک اپنا زہریلا صنعتی کچرا غریب ملکوں میں پھینکنے لگے ہیں۔اس ضمن میں مغربی حکومتیں یہ دغا بازی دکھاتی ہیں کہ اس کچرے کو قیمتی ظاہر کر دیتی ہیں۔یہ جھوٹا دعوی کرتی ہیں کہ اس کچرے میں ری سائیکلنگ کے قابل اشیا موجود ہیں۔مگر اس کے اندر صنعتی اور دیگرمضر صحت کوڑا بھی چھپایا جاتا ہے۔یہ مغربی استعمار کا غریب ملکوں پہ ایک نیا ظلم ہے۔تاہم اب کئی ترقی پذیر ممالک نے مغربی ملکوں سے کوڑا کرکٹ منگوانے پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ہماری سرزمین غیروں کے لیے کچرا گھر نہیں بن سکتی۔
جام چکرو... بڑی لینڈ فل سائٹ
1996 ء میں کراچی کے مضافات میں جام چکرو دیہہ کے نزدیک ایک لینڈ فل سائٹ بنائی گئی۔یہ پانچ سوایکڑ پہ محیط ہے۔اس کا شمار دنیا کی بڑی لینڈ فل سائٹس میں ہوتا ہے۔بعد ازاں اس کے قریب ہی دیہہ گوندل پاس کے مقام پر ایک اور لینڈ فل بنائی گئی۔
اس کا رقبہ بھی پانچ سو ایکڑ ہے۔مگر یہ دونوں سائٹس کراچی میں کچرے کے ڈھیر کم نہ کر سکیں۔بنیادی وجہ کچرا اٹھانے کے نظام میں در آئی مختلف خرابیاں ہیں۔اکثر سننے میں آتا ہے کہ حکمران طبقہ دھابیجی یا کراچی کے کسی اور مضافاتی مقام پر تیسری بڑی لینڈ فل سائٹ بنا رہا ہے مگر یہ خبر تاحال عملی جامہ نہیں پہن سکی۔
اسی طرح کچھ عرصہ قبل سننے میں آیا تھا کہ سندھ حکومت جام چکرو اور دیہہ گوندل میں کچرا جلانے والے بجلی گھر بنائے گی۔مگر یہ معاملہ بھی سیاسی چکربازیوں کی دلدل میں کہیں دفن ہو گیا۔لاہور میں شہباز شریف حکومت نے2016ء میں ایک ارب روپے کی لاگت سے لکھو ڈیرو کے مقام پر لینڈ فل سائٹ بنائی تھی۔
یہ 56ایکڑ رقبے پر محیط ہے۔خبر ہے کہ یہ سائٹ بھی کوڑے کرکٹ سے بھر چکی۔شاید یہی وجہ ہے،اب لاہور میں بھی شہر قائد کی طرح جابجا کچرے کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں اور ماحول میں تعفن بڑھ چکا۔مقامی حکومت کچرا صاف کرنے کے سلسلے میں روزانہ بیان داغتی ہے مگر عمل کم ہی ہوتا ہے۔
ری سائیکلنگ کی انوکھی باتیں
٭...ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں روزانہ جو کچرا جنم لے،اس کا 75فیصد حصہ ری سائیکل ہو سکتا ہے۔لیکن صرف 30فیصد ری سائیکل ہو پاتا اور بقیہ ضائع ہو جاتا ہے۔
٭...کچرے میں شامل اگر کاغذ سے نیا مال بنایا جائے تو ہر ایک ٹن نئے کاغذ کی تیاری پر 350گیلن تیل اور 17درختوں کی بچت ہوتی ہے۔نیز زمین کا بڑا حصہ کچرے کی نذر نہیں ہو پاتا۔
٭...ترقی یافتہ ممالک میں ہر شہری سالانہ دو درختوں سے بنی کاغذ کی اشیا استعمال کرتا ہے۔
٭...گاڑیوں کا تیل استعمال سے ناکارہ نہیں بس گندا ہوتا ہے۔اسے ری سائیکل کرنا ممکن ہے۔
٭...ایک پلاسٹک بوتل کو گلنے سڑنے میں 500سال لگتے ہیں۔
٭...المونیم کے ڈبے(کین)دنیا میں سب سے زیادہ ری سائیکل ہوتے ہیں۔