جمہوری گرداب اور ہمارے سیاستدان
ملکی پارلیمانی نظام کو ایک غیر معمولی اوور ہالنگ کی ضرورت ہے، مسائل بے پناہ ہیں، مہنگائی بے قابو ہوچکی۔
چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں حکومتی امیدوار صادق سنجرانی، پی ڈی ایم کے امیدوار سید یوسف رضا گیلانی کے7 ووٹ مسترد ہونے سے چیئرمین سینیٹ منتخب ہوگئے۔ صادق سنجرانی کو48 جب کہ پی ڈی ایم کے سید یوسف رضا گیلانی کو 42 ووٹ ملے۔
پریذائیڈنگ افسر سینیٹر سید مظفر حسین شاہ نے یوسف رضا گیلانی کے7 ووٹ ان کے نام کے اوپر مہر لگانے کی وجہ سے مسترد کر دیے، ایک ووٹ دونوں امیدواروں کے درمیان مہر لگائے جانے کی وجہ سے مسترد ہو گیا۔ ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں حکومتی امیدوار مرزا محمد آفریدی پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار عبدالغفور حیدری کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئے۔
مرزا محمد آفریدی کو54 ووٹ ملے جب کہ پی ڈی ایم کے مولانا عبدالغفور حیدری 44 ووٹ حاصل کر سکے، ڈپٹی چیئرمین کے الیکشن میں کوئی ووٹ مسترد نہیں ہوا۔ پی ڈی ایم میں شامل اپوزیشن جماعتوں نے چیئرمین سینیٹ کے انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے مسترد ووٹوں کے معاملے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا۔
یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ ملکی پارلیمانی سیاست ناقابل یقین بحران، انتخابی عدم شفافیت اور بے حرمتی کے گھناؤنے الزامات کے مسلسل حصار میں ہے کسی دانا کا قول ہے کہ سرمستی کا ایک لمحہ استدلال کے ہزار لمحوں سے بہتر ہے۔
ملکی سیاست کو بلاشبہ کسی پل چین نصیب نہیں، ایوان بالا کے تین مارچ کے انتخاب میں بھی سینیٹرز کے حوالہ سے ہارس ٹریڈنگ اور کروڑوں کی خرید و فروخت کے قصے گردش میں رہے، ایسا بھی نہیں تھا کہ انتخابی عمل ملکی سیاست میں بوگس ووٹنگ، سیاسی جوڑ توڑ، خرید و فروخت کے الزامات کا شور و غل درپردہ ہی رہا، بلکہ ہماری انتخابی تاریخ گواہ ہے کہ جسے ایک الیکشن میں شکست ہوئی ہو وہ کبھی ہار نہیں مانتا، اتنے برسوں کی انتخابی مشق اور جمہوری تربیت کے باوجود خوشدلی سے جیت کو تسلیم کرنے کا کلچر پنپ نہیں سکا، جمہوری اسپرٹ پیدا نہیں ہوئی۔
جیت کا کلچر قوم کے سیاسی و جمہوری مزاج کا حصہ نہیں بن سکا اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ انتخابی عمل آج بھی شکوک و شبہات، فراڈ، جعلسازی، ابہام، تضاد اور الزامات و کردار کشی کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے، چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات کے بعد شکست و ہار پر جو منظرنامہ ہے اسے ملکی سیاست کا انتخابی خیرسگالی، جمہوری بریک تھرو اور پارلیمانی ارتقا کا سنگ میل قرار دینا اور خوشگوار تبدیلی کا نام دینا بھی بہت مشکل لگتا ہے، اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کے مطابق جمہوریت کا سر جھک گیا ہے، حقیقت میں پی ڈی ایم نے چیئرمین سینیٹ کا الیکشن جیت لیا ہے اور حکومتی امیدوار بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔
احسن اقبال نے کہا کہ دھاندلی، حکومت کی شکست کو فتح میں بدلنے کے لیے کی گئی، پاکستان کے آئین اور ووٹ پر ڈاکا ڈالا گیا ہے، اسلام آباد میں پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کی اور چیئرمین سینیٹ کے انتخابات پر سوالات اٹھا دیے، راجہ پرویز اشرف نے کہا صادق سنجرانی جمہوریت سے محبت کرنیوالے ہوتے تو خود دستبردار ہو جاتے، یہ ہدایت نامہ جاری کیا گیا کہ ہر امیدوار کا ایک خانہ ہے اور اس میں آپ کو مہر لگانی ہے۔
الیکشنز میں ایسا ہوتا ہے کہ آپ چاہیں تو خانے میں مہر لگا دیں یا نام پر مہر لگا دیں،7 ووٹرز نے یوسف رضا گیلانی کے نام پر مہر لگائی جنھیں پریذائیڈنگ افسر نے مسترد کر دیا، یوسف رضا گیلانی کو دیے گئے7ووٹ مسترد کرکے ان کو ہرانے کی جو کوشش کی گئی، انھوں نے کہا کہ یقین ہے کہ جب ہم عدالت میں جائیں گے اور عدالت میں وہ بیلٹ پیپر آئیں گے، عدالت اس کا مشاہدہ کریگی اور انشاء اللہ یوسف رضا گیلانی کامیاب ہونگے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ جس طرح سینیٹ کا حالیہ الیکشن ہوا اس میں قوم کے سامنے خرید و فروخت ہوئی اور بکرا منڈی لگی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے لیے کامیاب امیدوار کی عددی برتری بڑی غیر مستحکم ہے، جس کی وجہ سے ایوان بالا کا چیئرمین کمزور ہوگا، غیر جانبدارانہ حکمت عملی اختیار کیے بغیر کوئی موثر قانون سازی بھی نہیں ہوسکے گی۔ بظاہر نئے چیئرمین سینیٹ خوف کے باعث خود کو پر اعتماد محسوس نہیں کرسکیں گے۔
سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ قانون سازی کا عمل متاثر رہے گا۔ ایوان بالا میں واضح اکثریت نہ ملنے اور آپس میں دست و گریباں ہونے کے باعث تازہ قانون سازی کا عمل خواب ہی رہے گا۔ حکومت کی ہمیشہ یہ ترجیح رہی کہ اپنی اصلاحات کے لیے اور سیاسی ایجنڈے پر عمل درآمد کیا جائے۔ عددی پوزیشن اور حکومت اپوزیشن تعلقات کو پیش نظر رکھا جائے تو آئینی ترامیم کا ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا، جب تک طرفین افہام و تفہیم سے کام نہ لیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملکی پارلیمانی نظام مفلوج ہوگیا ہے، روایات اور اقدار جمہوری روح سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے، مبصرین نے پولنگ بوتھ میں خفیہ کیمرے نصب کرنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے عدالتی، جمہوری، پارلیمانی اور سیاسی سطح پر ہر ممکن کوشش کرکے دیکھا گیا کہ ہارس ٹریڈنگ نہ ہو، پیسہ سیاستدانوں کی بدنامی کا باعث نہ بنے لیکن بے سود۔
ارباب اختیار واقعہ کی غیر جانبدارانہ چھان بین کریں کہ کیمرے کس طرح ایک ایسی جگہ لائے گئے اور کیونکر کسی کے علم میں لائے بغیر ریکارڈنگ کرنے کی اجازت دی گئی، جب کہ پولنگ بوتھ اور سینیٹ ہال میں ہائی پروفائل سیکیورٹی پہلے سے موجود تھی، حیرت انگیز تغافل برتا گیا، اور بیلٹ پیپرز پر مہر لگاتے وقت واضح ہدایت دی گئی، تربیت سے اغماض کی نشاندہی بھی ہوتی ہے، پریذائیڈنگ افسر نے انسانی غلطی کے سہواً ارتکاب پر غلطی کو معاف کرنے کا امکان بھی ووٹ اور مہر کے ساتھ مسترد کر دیا۔
ماہرین کے مطابق الیکشن کمیشن کو واضح کرنا چاہیے تھا کہ ووٹ کو کہاں مسترد کرنا چاہیے، آیا مہر لگانا انسانی اختیار اور مرضی ہوگی، سات ووٹ کیوں مسترد ہوئے؟ یا خفیہ کیمرے کس کی اجازت سے لگائے گئے، کس کا قصور تھا اور جو بھی ملوث ہوں وہ قانون، جمہوریت، انتخابی شفافیت کی بدنامی کا سبب بنے، پوری دنیا کے جمہوریت پسندوں کی نگاہ میں وطن عزیز کی بدنامی ہوئی، عالمی میڈیا اور قانون سازوں نے ایوان بالا کے انتخابی نظام اور انتظام پر نہایت غیر سنجیدہ ریمارکس دیے۔
ماہرین کا یہ استدلال بھی قابل غور ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخابی میکنزم نے کئی سوالات کے جواب نہیں دیے جس سے ابہام شدید ہوا اور فول پروف شفافیت سوالیہ نشان بن گئی، وہ انسانی ارادہ کی عملیت کے سامنے سبکی کا شکار ہوئی، حالانکہ انسانی ارادہ اور بیلٹ پیپر کے خاص نشان کی جگہ اگر خود کسی ''سوچ'' کی غمازی کرتی تھی تو وہ بھی ''ہیومن ایرر'' کے زمرے میں لائی جاسکتی تھی، اگر دیکھا جائے تو ان مسائل کے حوالہ سے نوکر شاہی، سیاستدان، انتخابی حکام سے پیش آنے والی سہواً یا دانستہ و شعوری کوتاہی ناقابل معافی ہوگی۔
سیاستدانوں کو سوچنا چاہیے کہ ان جملہ اغلاط اور شفافیت کے فقدان اور تجاہل عارفانہ سے وہ سب ڈس کریڈٹ اور تمام سسٹم سوالیہ نشان بن گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت جیت کا شور مچا رہی ہے اور اپوزیشن اس سارے جمہوری تماشے کو اپنے مناسب موقع کے لیے سنبھال کر ضرور رکھے گی لیکن ایک شفاف اور انتخابی اصلاحات سے بہتر ہو جانے والے نظام کا آئینہ دار بنانے کی کسی کو بھی فرصت نہیں۔
بعض تبصرہ نگاروں کے مطابق چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں 8 ووٹ مسترد ہونا غیرمعمولی واقعہ نہیں قانونی جنگ ہوگی، پریذائیڈنگ افسر کا کنڈکٹ ایسے انتخابی عمل میں بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ سینیٹ رولز میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب اور بیلٹ پیپر پر اسٹیمپ لگانے کا طریقہ کار درج نہیں لیکن پارلیمانی تاریخ بتاتی ہے کہ فیصلے کے لیے بیلٹ پیپر پر ووٹر کی نیت دیکھی جاتی ہے سید مظفر حسین شاہ پختہ کار پارلیمنٹیرین اور سیاستدان ہیں جو سندھ کے وزیر اعلیٰ اور صوبائی اسپیکر بھی رہ چکے ہیں، یوسف رضا گیلانی کے 7 ووٹ مسترد ہونے سے معاملہ ختم نہیں ہوا سینیٹ لابی میں موجود اپوزیشن کے کئی رہنما صورتحال سے مایوس نہیں تھے۔
وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ صادق سنجرانی کی جیت سے وزیر اعظم عمران خان کا اعتماد مزید بڑھا ہے اب وہ اگلے3 سال بھی ٹکا کر حکومت کرینگے، کیمرے لگے ہوں یا نہ لگے ہوں، نتیجہ یہی آنا تھا، جس نے بکنا ہو وہ 14پابندیوں میں بھی بک جاتا ہے، جس نے ووٹ نہیں دینا ہوتا وہ نہیں دیتا۔ یہاں تو لوگ قرآن اٹھا کر اندر جا کر کسی اور کو ووٹ دے دیتے ہیں، مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ صدارتی آرڈیننس ردی کا ٹکڑا بن گیا تو خفیہ کیمرے والے مستری لے آئے۔
حقیقت یہ ہے کہ ملکی پارلیمانی نظام کو ایک غیر معمولی اوور ہالنگ کی ضرورت ہے، مسائل بے پناہ ہیں، مہنگائی بے قابو ہوچکی، بیروزگاری اور غربت کے خاتمہ کے لیے معاشی فیصلے بڑے اقتصادی خوابوں کی تکمیل سے ہی شرمندہ تعبیر ہونگے، اکنامک وزرڈز کی ضرورت ہے، معیشت کے مانے ہوئے ایشین ٹائیگرز کو آزمائیں، ایسے ماہرین سے مشاورت کی جائے جو حکومت کو بتا سکیں کہ سیاسی ماحول کو اقتصادی سپورٹ کیسے مل سکتی ہے، پارلیمانی جنون کیسے سرد ہوگا، سیاست میں ٹکراؤ اور بلیم گیم میں ٹھہراؤ کیسے لایا جائے، مکالمہ اور جمہوری خیر سگالی کا سوئچ بورڈ کیسے آن کیا جائے۔
ارباب اختیار اس حقیقت سے آگہی حاصل کریں کہ کورونا نے ایک بار پھر ہمیں''انوکی لاک '' لگا دیا ہے، وقت کا تقاضہ ہے کہ سیاست اور جمہوریت کو ملکی معیشت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے سیاستدان ایک تاریخ ساز فیصلہ کریں اور عوام کو ایسا ریلیف دیں کہ انھیں غربت، مہنگائی اور بیروزگاری سے دائمی نجات کا راستہ مل جائے اور کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ مل سکے کہ ملکی سیاست پر کسی آسیب کا سایہ ہے۔
پریذائیڈنگ افسر سینیٹر سید مظفر حسین شاہ نے یوسف رضا گیلانی کے7 ووٹ ان کے نام کے اوپر مہر لگانے کی وجہ سے مسترد کر دیے، ایک ووٹ دونوں امیدواروں کے درمیان مہر لگائے جانے کی وجہ سے مسترد ہو گیا۔ ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں حکومتی امیدوار مرزا محمد آفریدی پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار عبدالغفور حیدری کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئے۔
مرزا محمد آفریدی کو54 ووٹ ملے جب کہ پی ڈی ایم کے مولانا عبدالغفور حیدری 44 ووٹ حاصل کر سکے، ڈپٹی چیئرمین کے الیکشن میں کوئی ووٹ مسترد نہیں ہوا۔ پی ڈی ایم میں شامل اپوزیشن جماعتوں نے چیئرمین سینیٹ کے انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے مسترد ووٹوں کے معاملے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا۔
یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ ملکی پارلیمانی سیاست ناقابل یقین بحران، انتخابی عدم شفافیت اور بے حرمتی کے گھناؤنے الزامات کے مسلسل حصار میں ہے کسی دانا کا قول ہے کہ سرمستی کا ایک لمحہ استدلال کے ہزار لمحوں سے بہتر ہے۔
ملکی سیاست کو بلاشبہ کسی پل چین نصیب نہیں، ایوان بالا کے تین مارچ کے انتخاب میں بھی سینیٹرز کے حوالہ سے ہارس ٹریڈنگ اور کروڑوں کی خرید و فروخت کے قصے گردش میں رہے، ایسا بھی نہیں تھا کہ انتخابی عمل ملکی سیاست میں بوگس ووٹنگ، سیاسی جوڑ توڑ، خرید و فروخت کے الزامات کا شور و غل درپردہ ہی رہا، بلکہ ہماری انتخابی تاریخ گواہ ہے کہ جسے ایک الیکشن میں شکست ہوئی ہو وہ کبھی ہار نہیں مانتا، اتنے برسوں کی انتخابی مشق اور جمہوری تربیت کے باوجود خوشدلی سے جیت کو تسلیم کرنے کا کلچر پنپ نہیں سکا، جمہوری اسپرٹ پیدا نہیں ہوئی۔
جیت کا کلچر قوم کے سیاسی و جمہوری مزاج کا حصہ نہیں بن سکا اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ انتخابی عمل آج بھی شکوک و شبہات، فراڈ، جعلسازی، ابہام، تضاد اور الزامات و کردار کشی کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے، چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات کے بعد شکست و ہار پر جو منظرنامہ ہے اسے ملکی سیاست کا انتخابی خیرسگالی، جمہوری بریک تھرو اور پارلیمانی ارتقا کا سنگ میل قرار دینا اور خوشگوار تبدیلی کا نام دینا بھی بہت مشکل لگتا ہے، اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کے مطابق جمہوریت کا سر جھک گیا ہے، حقیقت میں پی ڈی ایم نے چیئرمین سینیٹ کا الیکشن جیت لیا ہے اور حکومتی امیدوار بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔
احسن اقبال نے کہا کہ دھاندلی، حکومت کی شکست کو فتح میں بدلنے کے لیے کی گئی، پاکستان کے آئین اور ووٹ پر ڈاکا ڈالا گیا ہے، اسلام آباد میں پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کی اور چیئرمین سینیٹ کے انتخابات پر سوالات اٹھا دیے، راجہ پرویز اشرف نے کہا صادق سنجرانی جمہوریت سے محبت کرنیوالے ہوتے تو خود دستبردار ہو جاتے، یہ ہدایت نامہ جاری کیا گیا کہ ہر امیدوار کا ایک خانہ ہے اور اس میں آپ کو مہر لگانی ہے۔
الیکشنز میں ایسا ہوتا ہے کہ آپ چاہیں تو خانے میں مہر لگا دیں یا نام پر مہر لگا دیں،7 ووٹرز نے یوسف رضا گیلانی کے نام پر مہر لگائی جنھیں پریذائیڈنگ افسر نے مسترد کر دیا، یوسف رضا گیلانی کو دیے گئے7ووٹ مسترد کرکے ان کو ہرانے کی جو کوشش کی گئی، انھوں نے کہا کہ یقین ہے کہ جب ہم عدالت میں جائیں گے اور عدالت میں وہ بیلٹ پیپر آئیں گے، عدالت اس کا مشاہدہ کریگی اور انشاء اللہ یوسف رضا گیلانی کامیاب ہونگے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ جس طرح سینیٹ کا حالیہ الیکشن ہوا اس میں قوم کے سامنے خرید و فروخت ہوئی اور بکرا منڈی لگی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے لیے کامیاب امیدوار کی عددی برتری بڑی غیر مستحکم ہے، جس کی وجہ سے ایوان بالا کا چیئرمین کمزور ہوگا، غیر جانبدارانہ حکمت عملی اختیار کیے بغیر کوئی موثر قانون سازی بھی نہیں ہوسکے گی۔ بظاہر نئے چیئرمین سینیٹ خوف کے باعث خود کو پر اعتماد محسوس نہیں کرسکیں گے۔
سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ قانون سازی کا عمل متاثر رہے گا۔ ایوان بالا میں واضح اکثریت نہ ملنے اور آپس میں دست و گریباں ہونے کے باعث تازہ قانون سازی کا عمل خواب ہی رہے گا۔ حکومت کی ہمیشہ یہ ترجیح رہی کہ اپنی اصلاحات کے لیے اور سیاسی ایجنڈے پر عمل درآمد کیا جائے۔ عددی پوزیشن اور حکومت اپوزیشن تعلقات کو پیش نظر رکھا جائے تو آئینی ترامیم کا ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا، جب تک طرفین افہام و تفہیم سے کام نہ لیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملکی پارلیمانی نظام مفلوج ہوگیا ہے، روایات اور اقدار جمہوری روح سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے، مبصرین نے پولنگ بوتھ میں خفیہ کیمرے نصب کرنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے عدالتی، جمہوری، پارلیمانی اور سیاسی سطح پر ہر ممکن کوشش کرکے دیکھا گیا کہ ہارس ٹریڈنگ نہ ہو، پیسہ سیاستدانوں کی بدنامی کا باعث نہ بنے لیکن بے سود۔
ارباب اختیار واقعہ کی غیر جانبدارانہ چھان بین کریں کہ کیمرے کس طرح ایک ایسی جگہ لائے گئے اور کیونکر کسی کے علم میں لائے بغیر ریکارڈنگ کرنے کی اجازت دی گئی، جب کہ پولنگ بوتھ اور سینیٹ ہال میں ہائی پروفائل سیکیورٹی پہلے سے موجود تھی، حیرت انگیز تغافل برتا گیا، اور بیلٹ پیپرز پر مہر لگاتے وقت واضح ہدایت دی گئی، تربیت سے اغماض کی نشاندہی بھی ہوتی ہے، پریذائیڈنگ افسر نے انسانی غلطی کے سہواً ارتکاب پر غلطی کو معاف کرنے کا امکان بھی ووٹ اور مہر کے ساتھ مسترد کر دیا۔
ماہرین کے مطابق الیکشن کمیشن کو واضح کرنا چاہیے تھا کہ ووٹ کو کہاں مسترد کرنا چاہیے، آیا مہر لگانا انسانی اختیار اور مرضی ہوگی، سات ووٹ کیوں مسترد ہوئے؟ یا خفیہ کیمرے کس کی اجازت سے لگائے گئے، کس کا قصور تھا اور جو بھی ملوث ہوں وہ قانون، جمہوریت، انتخابی شفافیت کی بدنامی کا سبب بنے، پوری دنیا کے جمہوریت پسندوں کی نگاہ میں وطن عزیز کی بدنامی ہوئی، عالمی میڈیا اور قانون سازوں نے ایوان بالا کے انتخابی نظام اور انتظام پر نہایت غیر سنجیدہ ریمارکس دیے۔
ماہرین کا یہ استدلال بھی قابل غور ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخابی میکنزم نے کئی سوالات کے جواب نہیں دیے جس سے ابہام شدید ہوا اور فول پروف شفافیت سوالیہ نشان بن گئی، وہ انسانی ارادہ کی عملیت کے سامنے سبکی کا شکار ہوئی، حالانکہ انسانی ارادہ اور بیلٹ پیپر کے خاص نشان کی جگہ اگر خود کسی ''سوچ'' کی غمازی کرتی تھی تو وہ بھی ''ہیومن ایرر'' کے زمرے میں لائی جاسکتی تھی، اگر دیکھا جائے تو ان مسائل کے حوالہ سے نوکر شاہی، سیاستدان، انتخابی حکام سے پیش آنے والی سہواً یا دانستہ و شعوری کوتاہی ناقابل معافی ہوگی۔
سیاستدانوں کو سوچنا چاہیے کہ ان جملہ اغلاط اور شفافیت کے فقدان اور تجاہل عارفانہ سے وہ سب ڈس کریڈٹ اور تمام سسٹم سوالیہ نشان بن گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت جیت کا شور مچا رہی ہے اور اپوزیشن اس سارے جمہوری تماشے کو اپنے مناسب موقع کے لیے سنبھال کر ضرور رکھے گی لیکن ایک شفاف اور انتخابی اصلاحات سے بہتر ہو جانے والے نظام کا آئینہ دار بنانے کی کسی کو بھی فرصت نہیں۔
بعض تبصرہ نگاروں کے مطابق چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں 8 ووٹ مسترد ہونا غیرمعمولی واقعہ نہیں قانونی جنگ ہوگی، پریذائیڈنگ افسر کا کنڈکٹ ایسے انتخابی عمل میں بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ سینیٹ رولز میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب اور بیلٹ پیپر پر اسٹیمپ لگانے کا طریقہ کار درج نہیں لیکن پارلیمانی تاریخ بتاتی ہے کہ فیصلے کے لیے بیلٹ پیپر پر ووٹر کی نیت دیکھی جاتی ہے سید مظفر حسین شاہ پختہ کار پارلیمنٹیرین اور سیاستدان ہیں جو سندھ کے وزیر اعلیٰ اور صوبائی اسپیکر بھی رہ چکے ہیں، یوسف رضا گیلانی کے 7 ووٹ مسترد ہونے سے معاملہ ختم نہیں ہوا سینیٹ لابی میں موجود اپوزیشن کے کئی رہنما صورتحال سے مایوس نہیں تھے۔
وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ صادق سنجرانی کی جیت سے وزیر اعظم عمران خان کا اعتماد مزید بڑھا ہے اب وہ اگلے3 سال بھی ٹکا کر حکومت کرینگے، کیمرے لگے ہوں یا نہ لگے ہوں، نتیجہ یہی آنا تھا، جس نے بکنا ہو وہ 14پابندیوں میں بھی بک جاتا ہے، جس نے ووٹ نہیں دینا ہوتا وہ نہیں دیتا۔ یہاں تو لوگ قرآن اٹھا کر اندر جا کر کسی اور کو ووٹ دے دیتے ہیں، مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ صدارتی آرڈیننس ردی کا ٹکڑا بن گیا تو خفیہ کیمرے والے مستری لے آئے۔
حقیقت یہ ہے کہ ملکی پارلیمانی نظام کو ایک غیر معمولی اوور ہالنگ کی ضرورت ہے، مسائل بے پناہ ہیں، مہنگائی بے قابو ہوچکی، بیروزگاری اور غربت کے خاتمہ کے لیے معاشی فیصلے بڑے اقتصادی خوابوں کی تکمیل سے ہی شرمندہ تعبیر ہونگے، اکنامک وزرڈز کی ضرورت ہے، معیشت کے مانے ہوئے ایشین ٹائیگرز کو آزمائیں، ایسے ماہرین سے مشاورت کی جائے جو حکومت کو بتا سکیں کہ سیاسی ماحول کو اقتصادی سپورٹ کیسے مل سکتی ہے، پارلیمانی جنون کیسے سرد ہوگا، سیاست میں ٹکراؤ اور بلیم گیم میں ٹھہراؤ کیسے لایا جائے، مکالمہ اور جمہوری خیر سگالی کا سوئچ بورڈ کیسے آن کیا جائے۔
ارباب اختیار اس حقیقت سے آگہی حاصل کریں کہ کورونا نے ایک بار پھر ہمیں''انوکی لاک '' لگا دیا ہے، وقت کا تقاضہ ہے کہ سیاست اور جمہوریت کو ملکی معیشت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے سیاستدان ایک تاریخ ساز فیصلہ کریں اور عوام کو ایسا ریلیف دیں کہ انھیں غربت، مہنگائی اور بیروزگاری سے دائمی نجات کا راستہ مل جائے اور کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ مل سکے کہ ملکی سیاست پر کسی آسیب کا سایہ ہے۔