انسانیت
انسان تو ہر گھر میں پیدا ہوتا ہے لیکن انسانیت کہیں کہیں جنم لیتی ہے۔
انسانیت رحم دلی اور اخلاقیات کا نام ہے، انسان ہونا ہمارا انتخاب نہیں قدرت کی عطا ہے لیکن اندر انسانیت بنائے رکھنا ہمارا انتخاب ہے۔ انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت اور انسانیت کی خدمت ہے مذہب میں انسانیت اور خدمت نکال دی جائے تو عبادت رہ جاتی ہے محض عبادت کے لیے اللہ تعالیٰ کے پاس فرشتوں کی کوئی کمی نہیں۔
حضرت جعفرؓ نے شاہ حبشہ نجاشی کے دربار میں اعتراف حقیقت کے طور پر کہا کہ اے بادشاہ ہم بتوں کی پرستش کرتے تھے، مردار کھاتے تھے، بے خیالی کے دلدادہ تھے۔ اپنے بھائیوں پر ظلم ڈھاتے، کمزوروں کو تکلیف پہنچاتے تھے، ہم طاقتور، یتیم، مساکینوں پر ستم کیا کرتے، ہم میں انسانیت نام کی کوئی شے نہ تھی۔ مہمان داری کا نام و نشان نہ تھا کوئی قواعد و ضوابط نہ تھے۔
اللہ نے ہمارے درمیان اپنے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کو معبوث فرمایا، جنھوں نے بتایا کہ اللہ ایک ہے سچ بولو، وعدہ پورا کرو، برے کاموں سے بچو، خون ریزی مت کرو، کسی پر بہتان اور عیب مت لگاؤ اور پابندی سے نماز پڑھنے کی تلقین کی، روزہ رکھنے زکوٰۃ ادا کرنے کی تاکید فرمائی، مہمان نوازی کا درس دیا، ہم سب ایمان لائے ہم سب ان پر دل و جان سے فدا ہوئے ان کی باتوں پر عمل کیا۔ انسانیت کا درس دیا۔
اللہ تعالیٰ خدمت سے خوش ہوتا ہے اس کا اجر دنیا میں اور آخرت میں ملتا ہے جب ایک انسان سے دوسرے انسان کا احترام ختم ہو جائے تو وہ درندہ صفت ہو جاتا ہے اس میں تمیز باقی نہیں رہتی جب انگاروں میں سے آگ ختم ہو جاتی ہے تو صرف کوئلہ باقی رہتا ہے۔ کچھ ایسا ہی ہوتا ہے جب انسان میں سے انسانیت نکل جائے۔ ضروری نہیں جن میں سانسیں نہ ہوں وہی مردہ ہے جن لوگوں میں انسانیت نہیں وہ بھی تو مردہ ہیں۔
انسان تو ہر گھر میں پیدا ہوتا ہے لیکن انسانیت کہیں کہیں جنم لیتی ہے۔ خود بھوکا رہ کر کسی کو کھلا کر تو دیکھیں یوں انسانیت کا فرض تو نبھا کردیکھیں۔ خط جو میں نے لکھا تھا انسانیت کے پتے پر ڈاکیہ چل بسا۔ انسانیت ڈھونڈتے ڈھونڈتے انسان چاند پر، سمندر کی تہہ تک تو پہنچ گیا مگر افسوس انسانیت تک نہ پہنچ سکا۔ آنکھیں بند کرکے تماشا دیکھ رہا ہے انسان، انسانیت زمین بوس ہوگئی ہے۔انسانیت قائم کرنے کے بنیادی اصول:
٭انسان کی خوشی جو بڑی اچھائی نیکی و خدمت پر ہوتی ہے۔٭انسان کو اپنی خوشی سے پہلے ساری انسانیت کے ساتھ ہم آہنگی ضروری ہے۔٭ایک انسان کو دوسرے انسان کے لیے کچھ بھی ایسا نہ کرنا چاہیے جو وہ خود کے ساتھ نہیں کرنا چاہتا۔
انسان تو ہر جگہ پیدا ہوتے ہیں مگر انسانیت کہیں کہیں جنم لیتی ہے، جیسے جیسے انسان بڑھتے جا رہے ہیں انسانیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ آج کل ہمارا معاشرہ طرح طرح کی خرابیوں، بدعنوانیوں، فتنہ و فساد میں ڈھل چکا ہے کسی کی جان و مال عزت محفوظ نہیں۔ احترام انسانیت دلوں سے اٹھ گیا ہے اس کی جگہ دشمنی، جذبہ انتقام اور دیگر لسانی جذبوں نے لے لی ہے۔ ایسا لگتا ہے کچھ لوگوں کے ضمیر مر گئے۔ جب ضمیر ملامت کرنا چھوڑ دیں تو سمجھ لیں اب انسانیت ختم ہوگئی ہے۔
لوگ کامیاب ہونے کے لیے کسی مقام پر اپنے مفاد کی خاطر دوسروں کا نقصان کرتے ہیں۔ ایسی بلندی کس کام کی کہ انسان اس پر چڑھے اور انسانیت سے گر جائے۔ انسانیت تو خود ایک گنجینہ ہے بس اس میں نیک انسان تلاش کرو۔تشویش ناک صورتحال میں اصلاح کا یہی راستہ ہے کہ ہم اپنے خالق حقیقی کو اپنی زندگی پر لازم کریں۔ رواداری سے کام لیں قربانی و ایثار سے کام لیتے ہوئے نفرتوں اور انتقام کے بجائے دلوں میں محبت پیدا کریں۔
اپنی ضروریات کی خاطر انسانیت کا شجر کاٹتے چلے جاتے ہیں اور آخرکار خود کو گھنے سائے سے محروم ہو جاتے ہیں جو انسانیت کا ہوتا ہے، کچھ لوگ اکثر نرم لہجوں سے کئی سخت بات کر جاتے ہیں کہ ان کے الفاظ کی تپش بھولنے میں ایک عمر لگ جاتی ہے۔ رشتے اور موسم دونوں ایک جیسے ہوتے ہیں کبھی حد سے زیادہ اچھے اور کبھی برداشت سے باہر۔ فرق بس اتنا ہے کہ موسم جسم کو تکلیف دیتا ہے اور رشتے روح کو۔
اپنی ذات سے کی ہوئی نیکی اور دوسروں سے سرزد ہونے والے گناہ کا ذکر ہمیں کسی سے نہیں کرنا چاہیے یہ ہمارے کردار کا امتحان ہے۔کبھی دوسروں کے لیے دل سے دعا مانگ کر دیکھیں، تمہیں کبھی اپنے لیے مانگنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کسی کے حق میں دعا کرنا انسانیت کی معراج ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری بڑی بڑی کوتاہیوں کو معاف کردے اور خود دوسروں کی چھوٹی چھوٹی غلطیاں بھی نظرانداز نہیں کرتے۔لوگ بدلتے نہیں، صرف اتنا فرق ہوتا ہے یا تو ہم میں ان کی دلچسپی ختم ہو جاتی ہے یا ہم سے زیادہ دلچسپ ان کو کوئی اور مل جاتا ہے اور شاید وہ انسانیت بھول جاتے ہیں۔ کچھ زخم وقت کے ساتھ بھر جاتے ہیں اور کچھ زخم وقت کے ساتھ گہرے ہو جاتے ہیں۔ کسی کے لگائے ہوئے زخم انسانیت کی تذلیل نہیں تو پھر کیا ہے؟
مجھے آتا نہیں یقیں کسی کی بات پر اس نے جو کہا۔ نظام ٹوٹ رہا ہے آپ اس کو ٹوٹتا ہوا دیکھو گے۔ موصوف کو کہے کئی سال بیت گئے وہ سسٹم ٹوٹا نہ وہ اس نظام سے الگ ہوئے اسی میں موجود ہیں لیکن ہمیشہ یہی کہا سسٹم ٹوٹ رہا ہے اس کو آپ ٹوٹتا ہوا دیکھیں گے۔کسی نے کہا انسانیت دم توڑ رہی ہے اس کی سسکیاں سنائی دینے لگی ہیں۔
میں سسکیاں سننے کی غرض سے بڑی سے بڑی جگہ گیا مایوس رہا۔ جب یہ بات اپنے دوست سے پوچھی ، بولے خان صاحب انسانیت کی سسکیاں غریب کی زندگی، اس کی آبادیوں میں اور اس کے گھروں میں انسانیت کی سسکیاں سنائی دیں گی۔ آپ بڑے بڑے محلات، مال و زر، نئے نئے نوٹوں سے بھرے صندوق اور بوریاں جو تہہ خانوں اور زیر زمین میں ہیں وہاں انسانیت کی سسکیاں بھلا کیوں کر وہاں دولت کے انبار سارا مال و زر چھپانے کی فکر اس کا تحفظ کرنے میں کوششیں بھاگ دوڑ نظر آئے گی۔
اب انسانیت دو طریقے کی ہے۔ 1۔غریب کی انسانیت۔ 2۔ امیر کی انسانیت۔غریب اپنی غربت میں اللہ کو یاد کرتے ہوئے وہ تمام شرعی قوانین پر عمل کرتا ہے جس طرح اسلام نے کہا وہ انسانیت پر عمل کرتا ہے۔ وہ ایک روٹی خود کھاتا ہے دوسری روٹی دوسرے کو کھلاتا ہے یہ ہے انسانیت۔ جس امیر کا خود پیٹ نہیں بھرتا بھلا وہ کیسے کسی کو کھلائے گا؟