فلسطین وکشمیرکی مظلوم خواتین

نام نہاد سول سوسائٹی کی خواتین نے ایک بھی پلے کارڈ فلسطین کی خواتین کے حقوق کے لیے بلند نہیں کیا۔

ہر سال آٹھ مارچ عالمی یوم خواتین منایا جاتا ہے، جس کا مقصد دنیا بھر میں خواتین کے حقوق سے متعلق آگاہی پھیلانا ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی یہ دن گزشتہ کئی برس سے شدت کے ساتھ منایا جاتا ہے جس میں دیکھا جاتا ہے کہ ایک مخصوص طبقہ فکر اور انھی س کی حامل خواتین سڑکوں پر نکل آتی ہیں اور بینرز اور پلے کارڈز اٹھا کر نعروں کی مدد سے خواتین کے حقوق کی بات کرتی ہیں۔

اگر خواتین کے حقوق سے متعلق بات کی جائے تو ہمیں دنیا میں سب سے زیادہ خواتین کے حقوق کی پامالی مغربی معاشروں میں ہی نظر آتی ہے کہ جہاں سرمایہ دارانہ نظام نے صنف نازک کو سرمایہ داری کا ایک ہتھیار بنا کر استعمال کیا ہے۔ کیا جس طرح کے نعرے آج یوم خواتین کے موقع پر لگائے جاتے ہیں کیا واقعی ان سب باتوں کا خواتین کے حقوق سے تعلق ہے؟

کیا یہ نعرہ لگانا اور مطالبہ کرنا کہ عورت کو عورت کے ساتھ شادی کرنے کا حق ہونا چاہیے کسی صورت بھی خواتین کے حقوق سے مطابقت رکھتا ہے یا پھر ان استعماری قوتوں کا ایک آلہ کار ہے کہ جن کے خود کے انسانی معاشرے جانوروں سے بھی بد تر ہو چکے ہیں اور اب وہ چاہتے ہیں کہ دنیا کے دیگر مذاہب اور قوموں کے انسانی معاشروں کو جانوروں کے معاشروں سے بھی بد تر بنا دیں؟

یہ ایسے سوالات ہیں جن کے بارے میں پاکستان کی نسل نو کو سوچ بچار کرنا ہو گی۔ جہاں تک خواتین کے حقوق کی بات ہے تو ہمارے معاشروں میں خواتین کو تعلیمی سرگرمیوں میں برابر کے حقوق حاصل ہیں، اگر تعلیم کے حقوق سے متعلق تحقیق کی جائے تو یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ تعلیمی اداروں میں مردوں کی نسبت خواتین کی تعداد دوگنا ہے۔ کیا ایسے کسی معاشرے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ خواتین کے حقوق سلب کیے جا رہے ہیں؟

آج متعدد ایسی جامعات ہیں کہ جہاں صدر شعبہ خواتین ہیں۔ اسی طرح سرکاری دفاتر ہوں یا پھر روزگار کے دیگر مواقع، تمام مقامات پر خواتین مردوں کے شانہ بہ شانہ اپنے فرائض ادا کر رہی ہیں تو پھر یہ کون سی قوم ہے جو سال میں ایک دن آٹھ مارچ کو سڑکوں پر نکل کر صرف اور صرف نعرے بلند کرتی ہے اور پھر عالمی استعماری ذرایع ابلاغ ان کو اس قدر کوریج فراہم کرتے ہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں ان کا نعرہ گونج رہا ہوتا ہے۔

حالانکہ استعماری قوتیں اور ان کے ممالک خود اس قسم کی قدروں کے انسانی معاشروں میں مسلسل پروان چڑھنے سے پریشان ہیں لیکن اب وہ چاہتے ہیں کہ اس پریشانی کو دنیا بھر کے تمام انسانی معاشروں میں سرائیت کریں اور دنیا میں انسانی معاشرتی نظام کو مفلوج کر دیں۔ حالانکہ یہ بات ایک کڑوا سچ ہے کہ جو عناصر آٹھ مارچ کو یوم خواتین کی مناسبت سے نعروں کو بلند کرتے ہیں انھیں یہ بات بالکل نظر نہیں آتی ہے کہ دنیا میں اگر سب سے زیادہ کوئی خواتین کے حقوق پامال کر رہا ہے تو وہ یہی مغربی استعماری نظام کی حکومتیں ہیں کہ جنھوں نے آج ان نو زادوں کو حقوق نسواں کا نعرہ تھما کر معاشرتی نظام میں خلل ڈالنے کے لیے سرگرم کر رکھا ہے۔

امریکا میں انسانی حقوق اور خاص طور پر خواتین کے حقوق کی پامالی کی داستان بیان کی جائے تو نہ ختم ہونے والی داستانیں وجود رکھتی ہیں۔ اسی طر ح یورپی ممالک میں خواتین کے حقوق کو جس قدر پامال کیا جاتا ہے شاید ہی کسی اور معاشروں میں ایسا دکھائی دے۔ فلسطینی خواتین دنیا کی سب سے مظلوم ترین خواتین ہیں کہ جن کے سامنے ان کے بچوں کو قتل کیا جاتا ہے، ان کے پیاروں کو قید وبند کیا جاتا ہے، خود خواتین کو بلا کسی وجہ کے گرفتار کر کے جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے اور یہ سب کے سب کام اسرائیل کے ہاتھوں انجام پا رہا ہے۔

فلسطینی خواتین کے حقوق کی پامالی کی داستان ستر سال سے جاری ہے لیکن آج تک کسی بھی آٹھ مارچ کے مظاہروں اور ریلیوں میں ان نام نہاد سول سوسائٹی کی خواتین نے ایک بھی پلے کارڈ فلسطین کی خواتین کے حقوق کے لیے بلند نہیں کیا۔ مقبوضہ کشمیر کی حالت دیکھ لیجیے جہاں بھارت کی ریاستی دہشتگردی اپنے عروج پر ہے۔ فلسطین کی طرح یہاں بھی ستر سالہ تاریخ ہے۔ خواتین کی عصمت دری کی درجنوں داستانیں موجود ہیں، مقبوضہ کشمیر میں بھی خواتین کو قید کر کے جنسی ہراساں کیا جاتا ہے۔


ماؤں کے سامنے ان کے پیاروں کو قتل کیا جاتا ہے، بیویوں کے سامنے ان کے شوہروں کو گرفتار اور قتل کر دیا جاتا ہے۔ معصوم بچیوں کو ظلم و جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سفاکیت کی کون کون سی داستان یہاں بیان کی جائے؟ یہ سب کچھ بھارت کی حکومت کے زیر اثر اور اس کے حکم پرکیا جا رہا ہے، لیکن کبھی بھی آٹھ مارچ کو ان نام نہاد سول سوسائٹی خواتین نے مقبوضہ کشمیر کی ان بے سہارا خواتین کے حقوق کے لیے ایک بھی نعرہ تو دورکی بات ہے ایک لفظ بھی نہیں کہا ہے۔

بطور مرد میں بھی خواتین کے حقوق کا حامی ہوں، چاہتا ہوں خواتین کا احترام ہو، عزت ہو، ان کا جو مقام ہے انھیں وہ دیا جائے لیکن کیا عورت کا مقام صرف اور صرف یہی ہے کہ جو ریلیوں میں بیان ہو رہا ہے؟ آخر ان مغرب زدہ خواتین کو کیوں فلسطین سے کشمیر تک ہونیوالے ظلم اور بربریت کی داستانیں نظر نہیں آتی ہیں؟ آخر کیوں آج فلسطینی عورت اسرائیل کی قیدمیں ہے؟ آخر کشمیر کی خواتین کا کیا قصور ہے؟ ان کے حق کے لیے کوئی کیوں پلے کارڈ اور نعرے لگاتا ہوا عورت مارچ میں سڑکوں پر نہیں نکلا؟

کشمیر میڈیا سروس کے تحقیقاتی شعبے کی جانب سے خواتین کے عالمی دن کے موقوع پر جاری کی گئی رپورٹ انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں وکشمیر میں بھارتی فوجیوں، پولیس اہلکاروں اور خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے کشمیری خواتین پر ظلم و جبر کا سلسلہ مسلسل جاری ہے مقبوضہ کشمیر میں جنوری 1989 سے اب تک بھارتی فوجیوں نے ہزاروں خواتین سمیت 95 ہزار 747 شہریوں کو شہید کیا جب کہ صرف جنوری 2001 سے اب تک کم سے کم 675 خواتین کو شہید کیا۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جاری بھارتی ریاستی دہشتگردی کے نتیجے میں 22 ہزار 924 خواتین بیوہ ہوئیں 11 ہزار 236 خواتین کی بے حرمتی کی جن میں کنن پوشپورہ میں اجتماعی آبروریزی اور شوپیاں میں بے حرمتی کے بعد قتل کی جانیوالی 17 سالہ آسیہ جان اور اس کی بھابی نیلوفر جان بھی شامل تھیں، لیکن اس بارے میں آپ کو نکالی جانیوالی حقوق نسواں ریلیوں میں کوئی آواز بلند ہوتی سنائی نہیں دی ہو گی۔

دنیا بھر میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر مقبوضہ فلسطین میں اسیران کلب کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صیہونی ریاستی دہشتگردی میں فلسطینیوں کے ساتھ بغیر کسی تخصیص کے مظالم جاری ہیں، صیہونی فوجیوں نے جہاں ہزاروں فلسطینی باشندوں کو شہید کیا ہے ان میں بچوں سمیت خواتین کی بھی بڑی تعداد شامل ہیں جب کہ فلسطینی خواتین کی بڑی تعداد ہے جو صیہونی زندانوں میں اپنی زندگیوں کے قیمتی سال گزار رہی ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صیہونی ریاست کی مختلف جیلوں میں اس وقت 45 خواتین پابند سلاسل ہیں جن میں سماجی، سیاسی، اور انسانی کارکنان سمیت معلمات، خواتین صحافیوں سمیت طالبات بھی شامل ہیں جب کہ ان 35 خواتین میں 26 ایسی ہیں جو صیہونی ریاست کی انتظامی حراست کی غیر قانونی پالیسی کے تحت بغیر کسی جرم کے قیدہیں۔ قابض صیہونی ریاست نے 1967 سے اب تک کم سے کم سولہ ہزار سے زیادہ خواتین کو گرفتار کر کے صیہونی عقوبت خانوں میں قیدکیا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ خواتین نے معاشروں کے کردار سازی کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے، یہ خواتین کبھی ماں تو کبھی بہن اور کبھی بیٹی اور کبھی بیوی جیسے مقدس رشتوں کی صورت میں اپنا فرض نبھاتی رہی ہیں۔ جہاد کا مقام ہو تو بھی ہمیں مسلم خواتین میدان میں زخمیوں کی مدد کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اسی طرح دور حاضر کی دنیا میں فلسطین میں لیلی خالد جیسی خواتین موجود ہیں، کشمیر میں آسیہ اندرابی ہیں، عراق میں ہمیں خواتین کے اصل حقوق کی جدوجہد کرتے ہوئے شہید ہونے والی آمنہ بنت الہدی ملتی ہیں، اسی طرح امریکن لڑکی راشیل کوری نے فلسطینیوں کی خاطر اپنی جان قربان کر دی۔ تاریخ ایسی شریف زادیوں اور بہادر خواتین سے بھری پڑی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں آج انھی کا مقام اور نام باقی ہے۔ ہماری خواتین کو اپنے حقوق اور معاملات کے لیے ایسی ہی خواتین کو مشعل راہ بنانے کی ضرورت ہے۔ آج دنیا میں اگر سب سے زیادہ کوئی مظلوم خواتین کو دیکھنا چاہتا ہے تو فلسطین اور کشمیرکی خواتین سے زیادہ کوئی مظلوم نہیں ہے۔
Load Next Story