اور کیا دیکھنے کو باقی ہے
مظلوموں نے بہت ظلم سہہ لیے، اب اور نہیں۔ مظلوموں کو لوٹ کھسوٹ کا مال لوٹا دو۔ ان کا حق انھیں دے دو۔
SAN FRANCISCO:
سینیٹ کے الیکشن میں کروڑوں، اربوں روپے کی بولیاں سنی گئیں، کروڑوں روپوں میں انسان بکے۔
یہ اس ملک کا قصہ ہے جہاں انسان بھوکے پیاسے، دوا دارو سے محروم ، جہاں کروڑوں معصوم بچے اسکولوں سے محروم ، چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے مزدوری کرتے ، مالکان کی مارکھاتے، گالیاں کھاتے اور روکھی سوکھی روٹی جھوٹے سالن کھاتے ہیں ، جہاں غریب لڑکیوں کی عصمتیں لوٹنا ، امیروں کا حق ٹھہرا ہے۔ جہاں غلاظت بھرے ماحول میں مہلک جراثیموں کے ساتھ غریب انسان زندگی بسر کرتے ہیں۔
یہ اس ملک خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قصہ ہے کہ جو نہ اسلامی ہے نہ جمہوریہ ہے اور نہ ہی پاک ستان ہے۔ وہاں چند دولت والے، الیکشن الیکشن کھیلتے ہیں اور اپنی اپنی اناؤں کی مستی کا مزہ لیتے ہیں۔ ان دولت والوں کے حواری دن رات اپنے اپنے آقاؤں کے گن گا گا کر خوب مزے لوٹ رہے ہیں اور مدہوش ہیں۔
ان حواریوں کو دیکھ کر مجھے جنرل ایوب خان کے دور کے جنرل صاحب کے دو حواری یاد آ رہے ہیں ان کے نام تھے مسعود صادق اور عبدالوحید خان۔ یہ دونوں دن رات جنرل ایوب کی مدح سرائی میں لگے رہتے تھے حتیٰ کہ عبدالوحید خان کی مدح سرائی سے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح بھی محفوظ نہ رہ سکیں۔ یہی تماشے آج بھی ہو رہے ہیں۔
پاکستان قرضوں میں جکڑا ہے اور ان دولت والوں کو اٹکھیلیوں سے فرصت نہیں ۔ کیا یہ دولت والے کبھی نہیں سوچیں گے کہ '' ہم اپنی جائیدادیں، بینک بیلنس، پاکستان کے غریبوں، مفلوک الحال پر نچھاور کردیں۔'' میری یہ ''دیوانے کی بڑ'' کہہ کر بڑے بڑے پڑھے لکھے، تجزیہ کار ہنس کر ٹال دیں گے، مگر کبھی تو سوچنا چاہیے۔
آخر اس ''دیوانے کی بڑ'' پر ذرا سا سوچ لینے میں کیا حرج ہے۔ ''دیوانے کی بڑ'' ابھی ختم نہیں ہوئی۔ دیوانہ چاہتا ہے یہ مے فیئر اپارٹمنٹ، یہ جاتی امرا، یہ بلاول ہاؤسز، یہ بنی گالا اور ان کا روپیہ پیسہ سب غریبوں پر نثار کردیا جائے۔ ذرا دیرکو یہ سوچ لیں، اگر ایسا ہو جائے تو ہمارا ملک پاکستان دنیا کا حسین ترین ملک بن جائے، ملک کا ذرہ ذرہ، کونا کونا جگمگا جائے، پاکستان کے شہر، گاؤں، رستے، گلیاں دنیا میں جنت بن جائیں۔
یہ سارے دولت والے کس کس کا نام لکھوں اور کیوں لکھوں! یہ سب کے سب غریبوں پر اپنا سب کچھ قربان کردیں، اپنی جائیدادوں اور روپے پیسے کے بڑے مزے لوٹ لیے اب ایسی لذت بھی چکھ لو جس کا مزہ روحوں تک نہال کر دے۔ اس وقت مجھے اپنا ساتھی کلرک اور غضب کا شاعر انوار حبیب یاد آگیا ہے۔ انوار حبیب بہت بڑے باپ کا بیٹا تھا اس کے والد پنڈت حبیب الرحمن شاستری، گاندھی جی کے دوست تھے۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے۔ انوار حبیب مرحوم کی شاعری پڑھیے:
آؤ بڑھ کر کسی مینار پہ قبضہ کرلیں
تاکہ دنیا میں برابرکا اندھیرا ہو جائے
روشنی اونچے مکانوں کو ہی کیوں راس آئے
زندگی میں نے کبھی تجھ سے کوئی بھیک نہ لی
تیرا مشکور رہوں گا ' مرا دامن بھر دے
صرف اک بار میری مونس و ہمدم بن کے
بسترِ مرگ پہ خوشیوں کو فراہم کردے
بہت ہوگیا اب تو انتہا ہوگئی۔ اب تو ''دولت والو'' ذرا سوچ لو، ذرا دھیان دے دو۔ ایک میں ہی دیوانہ نہیں ہوں۔ ''دیوانے کی بڑ'' والے کہیں زیادہ نام والے ہیں۔ میری نہ سہی انھی کی مان لو اور اس وقت سے اپنے مال و دولت کو تباہی بربادی سے بچا لو، میں فیض احمد فیض کو ہم نوائی کے لیے لے آیا ہوں۔
ہم دیکھیں گے/ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے/وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے/ جو لوحِ ازل میں لکھا ہے/ جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں/ روئی کی طرح اڑ جائیں گے / ہم محکوموں کے پاؤں تلے/ جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی/ اور اہل حکم کے سر اوپر/ جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی/ جب ارضِ خدا کے کعبے سے/ سب بت اٹھوائے جائیں گے/ ہم اہل صفا مردودِ حرم/ مسند پہ بٹھائے جائیں گے/ سب تاج اچھالے جائیں گے/ سب تخت گرائے جائیں گے/ بس نام رہے گا اللہ کا/ جو غائب بھی ہے حاضر بھی/ جو منظر بھی ہے ناظر بھی / اور راج کرے گی خلق خدا/ جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو ۔ (فیض نے یہ نظم جنوری 1979، امریکا میں لکھی)۔
اب بتاؤ دولت والو! تمہارا کیا بنے گا؟ اور وہ عوام کا حبیب، عوام کا جالب بھی تو کہہ گیا ہے ''میں ضرور آؤں گا' اک عہدِ حسیں کی صورت'' (جالب نے کبھی جھوٹا وعدہ نہیں کیا)
''لو! کرلو گل'' فلم شعلے کا گبر سنگھ یاد آگیا ہے۔ گبر سنگھ، ٹھاکر سے کہتا ہے۔
''ٹھاکر! تجھے اپنے باجوؤں (بازوؤں) کی طاقت پر بڑا ناج (ناز) ہے۔'' اور پھر غضب ناک ہوکر گبر سنگھ یہ کہتا ہوا ٹکٹکی سے بندھے بازوؤں پر اپنے ہاتھوں میں پکڑی تلواروں سے وار کرتا ہے۔ ''ٹھاکر! اپنے باجو (بازو) مجھے دے دے۔'' مجھے یہ منظر لکھنا اچھا نہیں لگ رہا، مگر کیا کروں ''دولت والوں'' نے جو ظلم و ستم کے پہاڑ مظلوموں پر توڑے ہیں وہ کہاں جائیں گے۔ عبدالستار ایدھی نے 30 اپریل 2009 کراچی پریس کلب میں کہا تھا ''میں خونی انقلاب دیکھ رہا ہوں''۔
مظلوموں نے بہت ظلم سہہ لیے، اب اور نہیں۔ مظلوموں کو لوٹ کھسوٹ کا مال لوٹا دو۔ ان کا حق انھیں دے دو۔ ان کو خوشیاں فراہم کر دو، بس اسی میں تمہاری مکتی ہے، بچت ہے۔ زلزلے، سونامی، سمندری طوفان، بلاخیز بارشیں اور کووڈ کورونا بقول فیض ''اور کیا دیکھنے کو باقی ہے؟''
سینیٹ کے الیکشن میں کروڑوں، اربوں روپے کی بولیاں سنی گئیں، کروڑوں روپوں میں انسان بکے۔
یہ اس ملک کا قصہ ہے جہاں انسان بھوکے پیاسے، دوا دارو سے محروم ، جہاں کروڑوں معصوم بچے اسکولوں سے محروم ، چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے مزدوری کرتے ، مالکان کی مارکھاتے، گالیاں کھاتے اور روکھی سوکھی روٹی جھوٹے سالن کھاتے ہیں ، جہاں غریب لڑکیوں کی عصمتیں لوٹنا ، امیروں کا حق ٹھہرا ہے۔ جہاں غلاظت بھرے ماحول میں مہلک جراثیموں کے ساتھ غریب انسان زندگی بسر کرتے ہیں۔
یہ اس ملک خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قصہ ہے کہ جو نہ اسلامی ہے نہ جمہوریہ ہے اور نہ ہی پاک ستان ہے۔ وہاں چند دولت والے، الیکشن الیکشن کھیلتے ہیں اور اپنی اپنی اناؤں کی مستی کا مزہ لیتے ہیں۔ ان دولت والوں کے حواری دن رات اپنے اپنے آقاؤں کے گن گا گا کر خوب مزے لوٹ رہے ہیں اور مدہوش ہیں۔
ان حواریوں کو دیکھ کر مجھے جنرل ایوب خان کے دور کے جنرل صاحب کے دو حواری یاد آ رہے ہیں ان کے نام تھے مسعود صادق اور عبدالوحید خان۔ یہ دونوں دن رات جنرل ایوب کی مدح سرائی میں لگے رہتے تھے حتیٰ کہ عبدالوحید خان کی مدح سرائی سے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح بھی محفوظ نہ رہ سکیں۔ یہی تماشے آج بھی ہو رہے ہیں۔
پاکستان قرضوں میں جکڑا ہے اور ان دولت والوں کو اٹکھیلیوں سے فرصت نہیں ۔ کیا یہ دولت والے کبھی نہیں سوچیں گے کہ '' ہم اپنی جائیدادیں، بینک بیلنس، پاکستان کے غریبوں، مفلوک الحال پر نچھاور کردیں۔'' میری یہ ''دیوانے کی بڑ'' کہہ کر بڑے بڑے پڑھے لکھے، تجزیہ کار ہنس کر ٹال دیں گے، مگر کبھی تو سوچنا چاہیے۔
آخر اس ''دیوانے کی بڑ'' پر ذرا سا سوچ لینے میں کیا حرج ہے۔ ''دیوانے کی بڑ'' ابھی ختم نہیں ہوئی۔ دیوانہ چاہتا ہے یہ مے فیئر اپارٹمنٹ، یہ جاتی امرا، یہ بلاول ہاؤسز، یہ بنی گالا اور ان کا روپیہ پیسہ سب غریبوں پر نثار کردیا جائے۔ ذرا دیرکو یہ سوچ لیں، اگر ایسا ہو جائے تو ہمارا ملک پاکستان دنیا کا حسین ترین ملک بن جائے، ملک کا ذرہ ذرہ، کونا کونا جگمگا جائے، پاکستان کے شہر، گاؤں، رستے، گلیاں دنیا میں جنت بن جائیں۔
یہ سارے دولت والے کس کس کا نام لکھوں اور کیوں لکھوں! یہ سب کے سب غریبوں پر اپنا سب کچھ قربان کردیں، اپنی جائیدادوں اور روپے پیسے کے بڑے مزے لوٹ لیے اب ایسی لذت بھی چکھ لو جس کا مزہ روحوں تک نہال کر دے۔ اس وقت مجھے اپنا ساتھی کلرک اور غضب کا شاعر انوار حبیب یاد آگیا ہے۔ انوار حبیب بہت بڑے باپ کا بیٹا تھا اس کے والد پنڈت حبیب الرحمن شاستری، گاندھی جی کے دوست تھے۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے۔ انوار حبیب مرحوم کی شاعری پڑھیے:
آؤ بڑھ کر کسی مینار پہ قبضہ کرلیں
تاکہ دنیا میں برابرکا اندھیرا ہو جائے
روشنی اونچے مکانوں کو ہی کیوں راس آئے
زندگی میں نے کبھی تجھ سے کوئی بھیک نہ لی
تیرا مشکور رہوں گا ' مرا دامن بھر دے
صرف اک بار میری مونس و ہمدم بن کے
بسترِ مرگ پہ خوشیوں کو فراہم کردے
بہت ہوگیا اب تو انتہا ہوگئی۔ اب تو ''دولت والو'' ذرا سوچ لو، ذرا دھیان دے دو۔ ایک میں ہی دیوانہ نہیں ہوں۔ ''دیوانے کی بڑ'' والے کہیں زیادہ نام والے ہیں۔ میری نہ سہی انھی کی مان لو اور اس وقت سے اپنے مال و دولت کو تباہی بربادی سے بچا لو، میں فیض احمد فیض کو ہم نوائی کے لیے لے آیا ہوں۔
ہم دیکھیں گے/ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے/وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے/ جو لوحِ ازل میں لکھا ہے/ جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں/ روئی کی طرح اڑ جائیں گے / ہم محکوموں کے پاؤں تلے/ جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی/ اور اہل حکم کے سر اوپر/ جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی/ جب ارضِ خدا کے کعبے سے/ سب بت اٹھوائے جائیں گے/ ہم اہل صفا مردودِ حرم/ مسند پہ بٹھائے جائیں گے/ سب تاج اچھالے جائیں گے/ سب تخت گرائے جائیں گے/ بس نام رہے گا اللہ کا/ جو غائب بھی ہے حاضر بھی/ جو منظر بھی ہے ناظر بھی / اور راج کرے گی خلق خدا/ جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو ۔ (فیض نے یہ نظم جنوری 1979، امریکا میں لکھی)۔
اب بتاؤ دولت والو! تمہارا کیا بنے گا؟ اور وہ عوام کا حبیب، عوام کا جالب بھی تو کہہ گیا ہے ''میں ضرور آؤں گا' اک عہدِ حسیں کی صورت'' (جالب نے کبھی جھوٹا وعدہ نہیں کیا)
''لو! کرلو گل'' فلم شعلے کا گبر سنگھ یاد آگیا ہے۔ گبر سنگھ، ٹھاکر سے کہتا ہے۔
''ٹھاکر! تجھے اپنے باجوؤں (بازوؤں) کی طاقت پر بڑا ناج (ناز) ہے۔'' اور پھر غضب ناک ہوکر گبر سنگھ یہ کہتا ہوا ٹکٹکی سے بندھے بازوؤں پر اپنے ہاتھوں میں پکڑی تلواروں سے وار کرتا ہے۔ ''ٹھاکر! اپنے باجو (بازو) مجھے دے دے۔'' مجھے یہ منظر لکھنا اچھا نہیں لگ رہا، مگر کیا کروں ''دولت والوں'' نے جو ظلم و ستم کے پہاڑ مظلوموں پر توڑے ہیں وہ کہاں جائیں گے۔ عبدالستار ایدھی نے 30 اپریل 2009 کراچی پریس کلب میں کہا تھا ''میں خونی انقلاب دیکھ رہا ہوں''۔
مظلوموں نے بہت ظلم سہہ لیے، اب اور نہیں۔ مظلوموں کو لوٹ کھسوٹ کا مال لوٹا دو۔ ان کا حق انھیں دے دو۔ ان کو خوشیاں فراہم کر دو، بس اسی میں تمہاری مکتی ہے، بچت ہے۔ زلزلے، سونامی، سمندری طوفان، بلاخیز بارشیں اور کووڈ کورونا بقول فیض ''اور کیا دیکھنے کو باقی ہے؟''