لگتا ہے ڈرامہ آرٹ سے نکل کر نوٹنکی بن گیا ہے حسینہ معین
بری سے بری بات کوسلیقے سے کہا اور دکھایا جاسکتا ہے بس یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ٹی وی ہر گھر میں دیکھا جاتا ہے،حسینہ معین
معروف مصنفہ اور ڈرامہ نویس حسینہ معین کہتی ہیں کہ مجھے تو کبھی کبھی لگتا ہے کہ ڈرامہ آرٹ کی شکل سے نکل کر نوٹنکی بن چکا ہے۔
غیر ملکی اردو ویب سائیٹ کو دیئے گئے انٹرویو میں حسینہ معین نے کہا کہ ماضی میں ایک ڈرامے میں دکھایا گیا کہ لڑکی شادی کے لیے نہیں مانتی تو لڑکا اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیتا ہے، یہ منظر دیکھنے کے بعد بہت سارے ایسے واقعات رونما ہوئے تھے، اس لئے ہمیں ایسی چیزوں کا خیال ضرور رکھنا چاہیے اور معاشرے کی حقیقتوں کو طریقے سے دکھایا جانا چاہیے۔
حسینہ معین کا کہنا تھا کہ بری سے بری بات کو بھی سلیقے سے کہا اور دکھایا جا سکتا ہے بس یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ٹی وی کو ہر گھر میں دیکھا جاتا ہے، بچے بڑے بوڑھے ہر کوئی ڈرامے دیکھتا ہے اور ٹی وی پر دکھائی جانے والی چیز کا اثر دیرپا ہوتا ہے۔ لوگ جو دیکھتے ہیں ویسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دور حاضر کے ڈراموں اور ان پر ہونے والی تنقید اور پابندیوں کے حوالے سے حسینہ معین نے کہا کہ چینلز کا کام تو اب جیسے صرف پراڈکٹ بیچنا ہی رہ گیا ہے، انہیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ باقی پیمرا کو بھی سوچ سمجھ کر حرکت میں آنا چاہیے۔ آج کئی ایسے ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں جن میں سسر بہو پر گندی نظر رکھے ہوئے ہے، دیور بھابھی پر نظر رکھے ہوئے ہے اب ایسی کہانیاں دیکھ کر بچیاں تو دل ہی دل ہی میں سسر دیور اور جیٹھ سے یقیناً ڈریں گی۔ مصنف کا کام حدود میں رہ کر معاشرے کو آگہی دینا، معلومات دینا اور لوگوں کو تفریح فراہم کرنا ہے۔ مجھے تو کبھی کبھی لگتا ہے کہ ڈرامہ آرٹ کی شکل سے نکل کر نوٹنکی بن چکا ہے۔
غیر ملکی اردو ویب سائیٹ کو دیئے گئے انٹرویو میں حسینہ معین نے کہا کہ ماضی میں ایک ڈرامے میں دکھایا گیا کہ لڑکی شادی کے لیے نہیں مانتی تو لڑکا اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیتا ہے، یہ منظر دیکھنے کے بعد بہت سارے ایسے واقعات رونما ہوئے تھے، اس لئے ہمیں ایسی چیزوں کا خیال ضرور رکھنا چاہیے اور معاشرے کی حقیقتوں کو طریقے سے دکھایا جانا چاہیے۔
حسینہ معین کا کہنا تھا کہ بری سے بری بات کو بھی سلیقے سے کہا اور دکھایا جا سکتا ہے بس یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ٹی وی کو ہر گھر میں دیکھا جاتا ہے، بچے بڑے بوڑھے ہر کوئی ڈرامے دیکھتا ہے اور ٹی وی پر دکھائی جانے والی چیز کا اثر دیرپا ہوتا ہے۔ لوگ جو دیکھتے ہیں ویسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دور حاضر کے ڈراموں اور ان پر ہونے والی تنقید اور پابندیوں کے حوالے سے حسینہ معین نے کہا کہ چینلز کا کام تو اب جیسے صرف پراڈکٹ بیچنا ہی رہ گیا ہے، انہیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ باقی پیمرا کو بھی سوچ سمجھ کر حرکت میں آنا چاہیے۔ آج کئی ایسے ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں جن میں سسر بہو پر گندی نظر رکھے ہوئے ہے، دیور بھابھی پر نظر رکھے ہوئے ہے اب ایسی کہانیاں دیکھ کر بچیاں تو دل ہی دل ہی میں سسر دیور اور جیٹھ سے یقیناً ڈریں گی۔ مصنف کا کام حدود میں رہ کر معاشرے کو آگہی دینا، معلومات دینا اور لوگوں کو تفریح فراہم کرنا ہے۔ مجھے تو کبھی کبھی لگتا ہے کہ ڈرامہ آرٹ کی شکل سے نکل کر نوٹنکی بن چکا ہے۔