اولمپکس میں ذمہ داریاں سرانجام دینا چاہتی ہوں نرمینہ علی
بیڈمنٹن امپائر نرمینہ علی نے خواب آنکھوں میں سجالیا۔
نرمینہ علی نے کم عمری میں ہی سپورٹس کی دنیا میں نام کمالیا، اتھلیٹکس میں قومی کھلاڑی ہونے کیساتھ ورلڈاور ایشین بیڈمنٹن فیڈریشن کی ٹیوٹر کے طور پر اپنا نام درج کرواچکی ہیں،اسپورٹس میڈیسن آسٹریلیا اور سپورٹس میڈیسن ایسوسی آف پاکستان کے تحت لیول ون ٹرینر کا سرٹیفکیٹ بھی حاصل کیا ہے،ہیلتھ، فزیکل ایجوکیشن اور اسپورٹس سائنسز میں حال ہی میں ماسٹرز ڈگری مکمل کرنے والے نرمینا علی پاکستان کی کم عمر ترین امپائر بھی ہیں،ایک مقامی سکول میں سپورٹس کوچ کے طور پر بچوں کی صلاحیتیں نکھارنے کیلئے سرگرم ہیں۔
''ایکسپریس'' کو خصوصی انٹرویو میں نرمینہ علی نے کہا کہ بیڈمنٹن میں کیریئر کا سفر سندھ میں ٹیکنیکل آفیشل کورس کیساتھ شروع ہوا تھا،اس میں صوبہ بھر میں ٹاپ کیا تو مزید آگے بڑھنے اور سیکھنے کیلئے حوصلہ افزائی ہوئی،اس وقت یہی سوچ تھی کہ اس شعبے میں مزید کام کرنا ہے،اس کے بعد انٹرنیشنل سطح پر امپائرنگ کا موقع مل گیا،یونیکس سیریز میں ذمہ داریاں نبھانے والی کم عمر ترین اور پاکستان کی پہلی خاتون ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔
اس موقع پر نہ صرف کے سب سے زیادہ میچز سپروائز کئے بلکہ اچھی پرفارمنس کو دیکھتے ہوئے پہلا فائنل میچ کروانے کا موقع بھی فراہم کیا گیا،اس کے بعد ابھی تک 57ویں قومی بیڈمنٹن چیمپئن شپ، قومی جونیئر بیڈمنٹن چیمپئن شپ،58 ویں قومی بیڈمنٹن چیمپئن شپ،سندھ بیڈمنٹن چیمپئن شپ سمیت کئی مقابلوں میں کم عمر ترین امپائر ہونے کا اعزاز حاصل کیا جو ابھی تک برقرار ہے۔
نرمینہ علی نے کہ بھرپور سپورٹ کرنے پر اپنی فیملی اور پاکستان اور سندھ کی بیڈمنٹن ایسوسی ایشنز کی شکرگزار ہوں،ان کی معاونت کے بغیر کھیل کے شعبے میں سرگرمیاں جاری کررکھنا ممکن نہ ہوتا، مستقبل میں بھی مزید سیکھنے اور اپنی کارکردگی کا گراف بلند رکھنے کی کوشش کروں گی۔
انہوں نے کہا کہ میرا خواب ہے کہ اولمپکس میں بھی امپائر کے طور ذمہ داریاں سرانجام دوں، میگا ایونٹ میں امپائرنگ کرنے والی پاکستان کی پہلی خاتون ہونے کا اعزاز حاصل کرنے کیلئے کھیل سے متعلق اپنے علم میں مزید اضافہ کرنے کیلئے کوشاں اور پر امید ہوں کہ میرا یہ خواب ضرور پورا ہوگا۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستانی خواتین بھی ٹیلنٹ میں کسی سے کم نہیں، اب ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہی ہیں،امپائرنگ اور کوچنگ میں بھی ان کیلئے مواقع موجود ہیں، ہمت سے کام لیتے ہوئے اپنے ٹیلنٹ کو پرکھیں اور پھر اس میں نام بنانے کیلئے سخت محنت کریں تو کامیابی قدم چومے گی، وسائل کی کمی کے باوجود خواتین نے کرکٹ میں نام کمایا ہے،انٹرنیشنل سطح پر پاکستان ٹیم کی شناخت بن چکی ہے۔
اسی طرح بیڈمنٹن اور دیگر کھیلوں میں بھی اچھی پلیئرز موجود ہیں،ان کو صلاحیتوں کے اظہار کے اچھے مواقع اور کوچنگ میسر آئے تو ملک کو انٹرنیشنل سطح پر میڈلز حاصل ہوسکتے ہیں، انٹرنیشنل معیار کے کھلاڑی تیار کرنے کیلئے اسکول اور کالج کی سطح پر کھیلوں کے فروغ کیلئے کام کرنا ہوگا، گراس روٹ لیول پر صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع ملنے سے پاکستانی کا حقیقی ٹیلنٹ سامنے آئے گا جس کو نکھارنے کیلئے مزید کام کیا جاسکتا ہے۔
''ایکسپریس'' کو خصوصی انٹرویو میں نرمینہ علی نے کہا کہ بیڈمنٹن میں کیریئر کا سفر سندھ میں ٹیکنیکل آفیشل کورس کیساتھ شروع ہوا تھا،اس میں صوبہ بھر میں ٹاپ کیا تو مزید آگے بڑھنے اور سیکھنے کیلئے حوصلہ افزائی ہوئی،اس وقت یہی سوچ تھی کہ اس شعبے میں مزید کام کرنا ہے،اس کے بعد انٹرنیشنل سطح پر امپائرنگ کا موقع مل گیا،یونیکس سیریز میں ذمہ داریاں نبھانے والی کم عمر ترین اور پاکستان کی پہلی خاتون ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔
اس موقع پر نہ صرف کے سب سے زیادہ میچز سپروائز کئے بلکہ اچھی پرفارمنس کو دیکھتے ہوئے پہلا فائنل میچ کروانے کا موقع بھی فراہم کیا گیا،اس کے بعد ابھی تک 57ویں قومی بیڈمنٹن چیمپئن شپ، قومی جونیئر بیڈمنٹن چیمپئن شپ،58 ویں قومی بیڈمنٹن چیمپئن شپ،سندھ بیڈمنٹن چیمپئن شپ سمیت کئی مقابلوں میں کم عمر ترین امپائر ہونے کا اعزاز حاصل کیا جو ابھی تک برقرار ہے۔
نرمینہ علی نے کہ بھرپور سپورٹ کرنے پر اپنی فیملی اور پاکستان اور سندھ کی بیڈمنٹن ایسوسی ایشنز کی شکرگزار ہوں،ان کی معاونت کے بغیر کھیل کے شعبے میں سرگرمیاں جاری کررکھنا ممکن نہ ہوتا، مستقبل میں بھی مزید سیکھنے اور اپنی کارکردگی کا گراف بلند رکھنے کی کوشش کروں گی۔
انہوں نے کہا کہ میرا خواب ہے کہ اولمپکس میں بھی امپائر کے طور ذمہ داریاں سرانجام دوں، میگا ایونٹ میں امپائرنگ کرنے والی پاکستان کی پہلی خاتون ہونے کا اعزاز حاصل کرنے کیلئے کھیل سے متعلق اپنے علم میں مزید اضافہ کرنے کیلئے کوشاں اور پر امید ہوں کہ میرا یہ خواب ضرور پورا ہوگا۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستانی خواتین بھی ٹیلنٹ میں کسی سے کم نہیں، اب ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہی ہیں،امپائرنگ اور کوچنگ میں بھی ان کیلئے مواقع موجود ہیں، ہمت سے کام لیتے ہوئے اپنے ٹیلنٹ کو پرکھیں اور پھر اس میں نام بنانے کیلئے سخت محنت کریں تو کامیابی قدم چومے گی، وسائل کی کمی کے باوجود خواتین نے کرکٹ میں نام کمایا ہے،انٹرنیشنل سطح پر پاکستان ٹیم کی شناخت بن چکی ہے۔
اسی طرح بیڈمنٹن اور دیگر کھیلوں میں بھی اچھی پلیئرز موجود ہیں،ان کو صلاحیتوں کے اظہار کے اچھے مواقع اور کوچنگ میسر آئے تو ملک کو انٹرنیشنل سطح پر میڈلز حاصل ہوسکتے ہیں، انٹرنیشنل معیار کے کھلاڑی تیار کرنے کیلئے اسکول اور کالج کی سطح پر کھیلوں کے فروغ کیلئے کام کرنا ہوگا، گراس روٹ لیول پر صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع ملنے سے پاکستانی کا حقیقی ٹیلنٹ سامنے آئے گا جس کو نکھارنے کیلئے مزید کام کیا جاسکتا ہے۔