پی ایس ایل مکمل کرنے کا فیصلہ
بائیو سیکیورٹی میں غلطیوں سے سبق سیکھنے کی ضرورت۔
کورونا وبا کے منحوس سائے دنیا بھر میں پھیلے تو کھیلوں پر بھی مایوسی چھاگئے،بائیو سیکیورٹی کا تصور متعارف کرواتے ہوئے سرگرمیاں بحال کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو کرکٹ بورڈز بھی متحرک ہوئے۔
انگلینڈ نے ویسٹ انڈیز اور پاکستان کی میزبانی کا مرحلہ کامیابی سے مکمل کر کے دیگر ملکوں کا حوصلہ بڑھایا،پی سی بی نے ڈومیسٹک کرکٹ کیساتھ زمبابوے اور جنوبی افریقہ کا بھی کامیابی سے انعقاد کیا،اس کے بعد ایک بڑا چیلنج ملکی اور غیر ملکی کرکٹرز پر مشتمل 6ٹیموں کے میگا ایونٹ پی ایس ایل کروانے کا تھا۔
کراچی میں ہونے والے جاندار مقابلوں نے شائقین کے دل بھی جیتے مگر اس دوران بائیو سیکیورٹی میں غفلت نے میلہ اجاڑ دیا،اس کی ایک یا دو نہیں کئی مثالیں سامنے آئیں، ایک فرنچائز کے معاون سٹاف کے ایک رکن کا ٹورنامنٹ کے افتتاحی روز ہی کورونا ٹیسٹ مثبت آیا، اس کو اگلے روز ہوٹل میں ہی آئسولیشن میں رکھا گیا مگر رابطے میں رہنے والے دیگر افراد کی ٹیسٹنگ اور ٹریسنگ نہیں کی گئی، صرف اس کو بائیو ببل چھوڑ کر لاہور جانے کیلئے کہا گیا۔
دریں اثناء27فروری کو علامات ظاہر ہونے پر فواد احمد کی شکایت کا فوری نوٹس نہیں لیا گیا،اسلام آباد یونائیٹڈ کے سکواڈ میں شامل آسٹریلوی سپنر نے پیٹ میں درد کا بتایا تو پی سی بی کے ڈاکٹر نے کہا کہ یہ کورونا کی علامت نہیں ہے،انہوں نے اگلی صبح تک فواد احمد کا معائنہ ہی نہیں کیا، 24گھنٹے سے زائد وقت گزرنے کے بعد رات کو 9بجے کورونا ٹیسٹ کیا گیا۔
یکم مارچ کو بتایا گیا کہ رپورٹ مثبت آگئی ہے، ان سے رابطے میں رہنے والوں کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی، عام طور پر ٹیسٹنگ اور ٹریسنگ کا عمل مکمل کرنے اور دیگر متاثرین کے سامنے آنے کیلئے 3روز کا وقت درکار ہوتا ہے تاکہ اگر کوئی شکار ہوچکا تو اس کی علامات سامنے آجائیں مگر میچ صرف ایک روز کے لیے ملتوی کر دیا گیا، جس روز فواد احمد کی شکایت کو نظر انداز کیا گیا اسی شام کو ہوٹل میں ملتان سلطانز کے بولنگ کوچ اظہر محمود کی سالگرہ منائی گئی جس میں اسپنر کیساتھ میچ کھیلنے والے حسن علی بھی شریک تھے۔
تقریب میں مختلف فرنچائزز کے کھلاڑی اور معاون سٹاف ارکان وائرس کے خطرے کی زد میں آئے، فواد احمد کے کیس کی تصدیق ہونے پر بھی حسن علی اور پارٹی میں شریک تمام افراد کو آئسولیٹ نہیں کیا گیا، بعد ازاں مزید 2 کیسز کی تصدیق ہوئی، یوں پارٹی میں شریک تمام افراد ہی مشکوک ہوگئے، بعد ازاں تعداد 9تک پہنچی اور صورتحال سنگین ہوگئی،اس دوران ہوٹل میں جاری رہنے والی شادی کی تقریبات،مشترکہ کچن اور راستوں کے استعمال سمیت پرٹوکولز میں کئی نقائص بھی سامنے آئے۔
پہلا کیس سامنے آنے کے بعد پی سی بی میڈیکل پینل کی جانب سے حفاظتی تدابیر اور ٹریسسنگ کا عمل انتہائی کمزور اور فرنچائز کے ساتھ رابطے کا فقدان نظر آیا،فواد احمد میں علامات سامنے آنے پر ہی مقابلے چند روز کیلئے معطل کردیئے جاتے، تمام افراد کے ٹیسٹ کرنے کیساتھ قرنطینہ کی مدت پوری کرواکر دوسری بار بھی کیے جاتے تو اتنی تیزی سے کیسز میں اضافہ نہ ہوتا،چند روز کا تعطل ضرور ہوتا لیکن ایونٹ التوا سے بچ جاتا۔
غلطی کی کسی بھی تھی نقصان تمام سٹیک ہولڈرز کا ہوا، باقی میچز کے دوبارہ انعقاد کیلئے شیڈول ایک بہت بڑا درد سر تھا، انٹرنیشنل مصروفیات کے پیش نظر موزوں وقت تلاش کرنا مشکل مرحلہ تھا، فرنچائز مالکان کی جانب سے اصرار تھا کہ قومی ٹیم کے دورہ جنوبی افریقہ اور زمبابوے کو ری شیڈول کرتے ہوئے پی ایس ایل کے میچز رواں ماہ ہی کروالیے جائیں، ان کا جواز بھی معقول تھا کہ اپریل اور مئی میں آئی پی ایل کی وجہ سے بھی غیر ملکی کرکٹرز کی دستیابی ممکن نہیں ہوگی، اگر پی ایس ایل میچز مارچ میں ہی کروائے جائیں تو کھلاڑی یہاں کھیلنے کے بعد بھارت جاسکتے ہیں۔
دوسری طرف پی سی بی انٹرنیشنل سیریز اچانک ری شیڈول کرکے میزبان بورڈز کیساتھ تعلقات خراب کرنے کے خلاف تھا۔خوش آئند بات ہے کہ پی ایس ایل منیجمنٹ اور فرنچائز مالکان کی ورچوئل میٹنگ میں بالآخر ایونٹ کے باقی میچز جون میں کروانے پر اتفاق ہوگیا،یہ مقابلے قومی ٹیم کی 13 مئی کو زمبابوے سے واپسی اور 26 جون کو انگلینڈ روانگی کے درمیان دستیاب وقت میں کراچی میں کروائے جائیں گے، پی سی بی کی منیجمنٹ آپریشنل اور لاجسٹک انتظامات کا جائزہ لینے کے بعد تمام اسٹیک ہولڈرز سے رابطہ کرکے حتمی پلان بنائے گا۔
پی ایس ایل مکمل کرنے کا پلان خوش آئند اور شائقین کرکٹ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے مگر قبل ازیں سامنے آنے والی بائیو سیکیورٹی کی ناکامیوں سے سبق سیکھتے ہوئے سخت ترین انتظامات کرنا ہوں گے،اگرچہ غیرملکی کمپنی کی خدمات حاصل کرنے اور پورا ہوٹل بک کرنے کی بات کی گئی ہے مگر کسی ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کیلئے پی سی بی اور فرنچائزز کی منیجمنٹ کیساتھ کرکٹرز کو بھی احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
کراچی میں پی ایس ایل کے آغاز پر پشاور زلمی کے کپتان وہاب ریاض اور کوچ ڈیرن سیمی نے ٹیم اونر جاوید آفریدی سے ملاقات کرنے کی غلطی کی تھی، دونوں کو سکواڈ دوبارہ جوائن کرنے کی اجازت دینے پر سخت تنقید بھی ہوئی تھی،گرچہ پی سی بی کا موقف ہے کہ دونوں کیساتھ ان سے ملاقات کرنے والے جاوید آفریدی کے بھی ٹیسٹ منفی آنے پر ٹیکنیکل کمیٹی نے فیصلہ کیا مگر اس طرح کی کوئی سرگرمی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے، میڈیکل پینل کے سربراہ ڈاکٹر سہیل سلیم اپنا استعفٰی بورڈ کو جمع کرواچکے ہیں، بہتر ہوگا کہ جون میں ایونٹ کے انعقاد سے قبل وائرالوجی کے ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں۔
انگلینڈ نے ویسٹ انڈیز اور پاکستان کی میزبانی کا مرحلہ کامیابی سے مکمل کر کے دیگر ملکوں کا حوصلہ بڑھایا،پی سی بی نے ڈومیسٹک کرکٹ کیساتھ زمبابوے اور جنوبی افریقہ کا بھی کامیابی سے انعقاد کیا،اس کے بعد ایک بڑا چیلنج ملکی اور غیر ملکی کرکٹرز پر مشتمل 6ٹیموں کے میگا ایونٹ پی ایس ایل کروانے کا تھا۔
کراچی میں ہونے والے جاندار مقابلوں نے شائقین کے دل بھی جیتے مگر اس دوران بائیو سیکیورٹی میں غفلت نے میلہ اجاڑ دیا،اس کی ایک یا دو نہیں کئی مثالیں سامنے آئیں، ایک فرنچائز کے معاون سٹاف کے ایک رکن کا ٹورنامنٹ کے افتتاحی روز ہی کورونا ٹیسٹ مثبت آیا، اس کو اگلے روز ہوٹل میں ہی آئسولیشن میں رکھا گیا مگر رابطے میں رہنے والے دیگر افراد کی ٹیسٹنگ اور ٹریسنگ نہیں کی گئی، صرف اس کو بائیو ببل چھوڑ کر لاہور جانے کیلئے کہا گیا۔
دریں اثناء27فروری کو علامات ظاہر ہونے پر فواد احمد کی شکایت کا فوری نوٹس نہیں لیا گیا،اسلام آباد یونائیٹڈ کے سکواڈ میں شامل آسٹریلوی سپنر نے پیٹ میں درد کا بتایا تو پی سی بی کے ڈاکٹر نے کہا کہ یہ کورونا کی علامت نہیں ہے،انہوں نے اگلی صبح تک فواد احمد کا معائنہ ہی نہیں کیا، 24گھنٹے سے زائد وقت گزرنے کے بعد رات کو 9بجے کورونا ٹیسٹ کیا گیا۔
یکم مارچ کو بتایا گیا کہ رپورٹ مثبت آگئی ہے، ان سے رابطے میں رہنے والوں کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی، عام طور پر ٹیسٹنگ اور ٹریسنگ کا عمل مکمل کرنے اور دیگر متاثرین کے سامنے آنے کیلئے 3روز کا وقت درکار ہوتا ہے تاکہ اگر کوئی شکار ہوچکا تو اس کی علامات سامنے آجائیں مگر میچ صرف ایک روز کے لیے ملتوی کر دیا گیا، جس روز فواد احمد کی شکایت کو نظر انداز کیا گیا اسی شام کو ہوٹل میں ملتان سلطانز کے بولنگ کوچ اظہر محمود کی سالگرہ منائی گئی جس میں اسپنر کیساتھ میچ کھیلنے والے حسن علی بھی شریک تھے۔
تقریب میں مختلف فرنچائزز کے کھلاڑی اور معاون سٹاف ارکان وائرس کے خطرے کی زد میں آئے، فواد احمد کے کیس کی تصدیق ہونے پر بھی حسن علی اور پارٹی میں شریک تمام افراد کو آئسولیٹ نہیں کیا گیا، بعد ازاں مزید 2 کیسز کی تصدیق ہوئی، یوں پارٹی میں شریک تمام افراد ہی مشکوک ہوگئے، بعد ازاں تعداد 9تک پہنچی اور صورتحال سنگین ہوگئی،اس دوران ہوٹل میں جاری رہنے والی شادی کی تقریبات،مشترکہ کچن اور راستوں کے استعمال سمیت پرٹوکولز میں کئی نقائص بھی سامنے آئے۔
پہلا کیس سامنے آنے کے بعد پی سی بی میڈیکل پینل کی جانب سے حفاظتی تدابیر اور ٹریسسنگ کا عمل انتہائی کمزور اور فرنچائز کے ساتھ رابطے کا فقدان نظر آیا،فواد احمد میں علامات سامنے آنے پر ہی مقابلے چند روز کیلئے معطل کردیئے جاتے، تمام افراد کے ٹیسٹ کرنے کیساتھ قرنطینہ کی مدت پوری کرواکر دوسری بار بھی کیے جاتے تو اتنی تیزی سے کیسز میں اضافہ نہ ہوتا،چند روز کا تعطل ضرور ہوتا لیکن ایونٹ التوا سے بچ جاتا۔
غلطی کی کسی بھی تھی نقصان تمام سٹیک ہولڈرز کا ہوا، باقی میچز کے دوبارہ انعقاد کیلئے شیڈول ایک بہت بڑا درد سر تھا، انٹرنیشنل مصروفیات کے پیش نظر موزوں وقت تلاش کرنا مشکل مرحلہ تھا، فرنچائز مالکان کی جانب سے اصرار تھا کہ قومی ٹیم کے دورہ جنوبی افریقہ اور زمبابوے کو ری شیڈول کرتے ہوئے پی ایس ایل کے میچز رواں ماہ ہی کروالیے جائیں، ان کا جواز بھی معقول تھا کہ اپریل اور مئی میں آئی پی ایل کی وجہ سے بھی غیر ملکی کرکٹرز کی دستیابی ممکن نہیں ہوگی، اگر پی ایس ایل میچز مارچ میں ہی کروائے جائیں تو کھلاڑی یہاں کھیلنے کے بعد بھارت جاسکتے ہیں۔
دوسری طرف پی سی بی انٹرنیشنل سیریز اچانک ری شیڈول کرکے میزبان بورڈز کیساتھ تعلقات خراب کرنے کے خلاف تھا۔خوش آئند بات ہے کہ پی ایس ایل منیجمنٹ اور فرنچائز مالکان کی ورچوئل میٹنگ میں بالآخر ایونٹ کے باقی میچز جون میں کروانے پر اتفاق ہوگیا،یہ مقابلے قومی ٹیم کی 13 مئی کو زمبابوے سے واپسی اور 26 جون کو انگلینڈ روانگی کے درمیان دستیاب وقت میں کراچی میں کروائے جائیں گے، پی سی بی کی منیجمنٹ آپریشنل اور لاجسٹک انتظامات کا جائزہ لینے کے بعد تمام اسٹیک ہولڈرز سے رابطہ کرکے حتمی پلان بنائے گا۔
پی ایس ایل مکمل کرنے کا پلان خوش آئند اور شائقین کرکٹ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے مگر قبل ازیں سامنے آنے والی بائیو سیکیورٹی کی ناکامیوں سے سبق سیکھتے ہوئے سخت ترین انتظامات کرنا ہوں گے،اگرچہ غیرملکی کمپنی کی خدمات حاصل کرنے اور پورا ہوٹل بک کرنے کی بات کی گئی ہے مگر کسی ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کیلئے پی سی بی اور فرنچائزز کی منیجمنٹ کیساتھ کرکٹرز کو بھی احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
کراچی میں پی ایس ایل کے آغاز پر پشاور زلمی کے کپتان وہاب ریاض اور کوچ ڈیرن سیمی نے ٹیم اونر جاوید آفریدی سے ملاقات کرنے کی غلطی کی تھی، دونوں کو سکواڈ دوبارہ جوائن کرنے کی اجازت دینے پر سخت تنقید بھی ہوئی تھی،گرچہ پی سی بی کا موقف ہے کہ دونوں کیساتھ ان سے ملاقات کرنے والے جاوید آفریدی کے بھی ٹیسٹ منفی آنے پر ٹیکنیکل کمیٹی نے فیصلہ کیا مگر اس طرح کی کوئی سرگرمی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے، میڈیکل پینل کے سربراہ ڈاکٹر سہیل سلیم اپنا استعفٰی بورڈ کو جمع کرواچکے ہیں، بہتر ہوگا کہ جون میں ایونٹ کے انعقاد سے قبل وائرالوجی کے ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں۔