ملکی استحکام کیلئے حکومت اور اپوزیشن کو جمہوری رویے اپنانا ہونگے

’’موجودہ ملکی سیاسی صورتحال اور مستقبل کا منظر نامہ‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ


’’موجودہ ملکی سیاسی صورتحال اور مستقبل کا منظر نامہ‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ

گزشتہ کچھ عرصے سے ملکی سیاسی ماحول خاصاگرم ہے۔ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن سے ماحول میں مزید گرمی پیدا ہوگئی ہے۔

حکومتی امیدوار صادق سنجرانی کے چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے اور اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کے سات ووٹ مسترد ہونے کی وجہ سے ہار نے کے بعد ایک بار پھر حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے ہیں۔ حکومت اپنی جیت کا جشن منا رہی ہے جبکہ اپوزیشن نے نتائج کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سیاسی ماحول کی گرمی کو دیکھتے ہوئے ''موجودہ ملکی سیاسی صورتحال اور مستقبل کا منظر نامہ'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاسی اور دفاعی تجزیہ نگاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر امجد مگسی
(سیکرٹری پنجاب یونیورسٹی اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن)
پارلیمنٹ کی کمزوری کی وجہ سے آج حالات اس نہج پر پہنچے ہیں اور اس سارے عرصے میں پارلیمنٹ پرفارم نہیں کر سکی بلکہ ہم شخصیت پرستی کی طرف گئے جس سے مسائل پیدا ہوئے۔ اگر پارلیمنٹ میں ڈائیلاگ ہوتے اور وہاں مسائل کا حل تلاش کیا جاتا تو آج ایسے نہ ہوتے۔ میرے نزدیک اس ساری صورتحال کی ذمہ دار سیاسی قیادت ہے۔

پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے کی بنیادی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے، اگر پارلیمنٹ کو کام کرنے دیا جاتا، کمیٹیاں فعال ہوتی اور فیصلے وہاں ہوتے تو یقینا عوامی امنگوں کے مطابق ہوتے مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔ حکومت کی توجہ صرف اپوزیشن کو دبانے پر ہے، اسے سمجھنا چاہیے کہ اپوزیشن کو بھی عوام ہی نے منتخب کیا ہے اور اس کے بغیر پالیسی سازی ممکن نہیں لیکن اگر غیر منتخب افراد پالیسی بنائیں گے تو اس پالیسی اور عوام میں خلاء نظر آئے گا۔ حکومتی جماعت نے انتخابی مہم کے دوران تبدیلی کی امید دلائی تھی مگر تبدیلی کے لیے حکومت کی تیاری نہیں تھی ورنہ ڈھائی برس کسی بھی حکومت کی سمت درست کرنے کیلئے کافی ہوتے ہیں۔

افسوس ہے کہ عوامی مسائل حل کرنے میں حکومت کی سنجیدگی نظر نہیں آرہی، حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی عوام کے بارے میں نہیں سوچ رہے بلکہ اس لڑائی میں عوام پس رہے ہیں۔ ایک طرف حکومت ناکام نظر آئی ہے جبکہ دوسری طرف اپوزیشن بھی تعمیری کام نہیں کر رہی، اپوزیشن کے پاس بھی ملک کو مسائل سے نکالنے کا کوئی متبادل راستہ نہیں ہے، اس وقت ضرورت ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں مل کر عوام کے مسائل حل کریں۔ ملک کو اس وقت اندرونی اور بیرونی چیلنجز درپیش ہیں، اگر حکومت اور اپوزیشن لڑائی میں مصروف رہیں گے تو ان چیلنجز کا ادراک کون کرے گا؟ احتساب کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ احتساب ضرور کریں مگر گورننس اور معاشی مسائل کا حل بھی دیں۔

اگر نہیں دیا تو عوام کی بے چینی بڑھے گی اور مسائل پیدا ہونگے۔حکومت کو ماحول کی گرمی برداشت کرنی چاہیے اور اپوزیشن کو اس کا مقام دینا چاہیے۔ تعلیم، صحت سمیت ہر شعبے میں مسائل بڑھ رہے ہیں، عوام کی زندگی شدید متاثر ہورہی ہے، عام آدمی کے مینڈیٹ کا احترام نہیں ہورہا بلکہ مایوسی بڑھ رہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ پارلیمنٹ کو مضبوط کرے، ایوان میں ڈائیلاگ کرے لیکن اگر ڈائیلاگ کا راستہ بند کیا گیا تو ملک بند گلی میں داخل ہوجائے گا اور مزید بحران پیدا ہوگا۔

پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد
(چیئر پرسن شعبہ سیاسیات جامعہ پنجاب )
دنیابھر میں اس وقت بے چینی نظر آرہی ہے اور بین الاقوامی طور پر سیاست کا مزاج تلخ ہے۔ سپر پاور سے لے کر ترقی یافتہ ممالک تک، سب حالات مشکل ہیں جس میں معیشت کا بڑا عمل دخل ہے۔ کرونا کی وباء کی وجہ سے دنیا میں مشکلات پیدا ہوئیں، خط غربت سے نیچے رہنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا جس کی وجہ سے اس وقت حکومتیں دبائو میں ہیں اور مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔ ایسے ہی حالات ہمارے ملک میں بھی ہیں۔

یہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ انتخابی مہم کے دوران حکومتی جماعت کی جانب سے کیے گئے وعدے پورے نہیں ہوسکے۔ اس کے وعدے اور دعووے حالات سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ وعدے کرنے سے پہلے کوئی تحقیق نہیں کی گئی کہ زمینی حقائق کیا ہیں اور کیا یہ وعدے پورے ہو بھی سکتے ہیں یا نہیں۔ اس وجہ سے اقتدار میں آنے کے بعد حکومت کیلئے مسائل پیدا ہوئے، وہ وعدے پورے نہیں کر سکی بلکہ اس نے اپنی توجہ اپوزیشن کو دبانے اور احتساب کے نعرے لگانے پر رکھی اور عوام کو ریلیف دینے پر توجہ نہیں دی۔

حکومت نے اپوزیشن کے کردار کو منفی بنا کر پیش کیا اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اپوزیشن جمہوری نظام کا ایک اہم حصہ ہے، اگر اسے نظام سے باہر کرنے کی کوشش کی جائے گی تو کشیدگی بڑھے گی۔ اپوزیشن بھی عوام کے ووٹ لے کر ہی آتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ اسے کم ووٹ ملے، زیادہ ملتے تو حکومت میں ہوتی لہٰذا اگر اپوزیشن کو اس کا جائز مقام نہیں دیا جائے گا تو وہ اپنی جگہ بنانے کیلئے عوام کے پاس جائے گی اور تحریک چلائے گی جس میں لانگ مارچ بھی شامل ہے۔ افسوس ہے کہ حکومت سے جس کردار کی توقع تھی، وہ کردار ادا نہیں ہوا۔ حکومت نے ڈیلور نہیں کیا۔ لوگ یہ موازنہ کر رہے ہیں کہ 2018ء میں ان کی زندگی کیسی تھی اور اب کیسی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام کی آزمائشوںمیں اضافہ ہوا اور مسائل میں شدت آئی ۔

اس صورتحال سے اپوزیشن فائدہ اٹھا رہی ہے اور حکومت پر دبائو بڑھانے کی کوشش کر ہی ہے، یہ فضا خود حکومت نے فراہم کی ہے۔ بدقسمتی سے حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی اچھا نہیں کر رہے بلکہ ایک دوسرے پر الزام تراشی اور بلا وجہ تنقید سے عوام میں مایوسی پیدا کر رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی عوام میں مایوسی پیدا ہوئی، اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ ہم عوام میں شدت پسندی اور عدم برداشت کے بڑھنے کی بات کرتے ہیں اور اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں مگر اب حکومتی عہدیداروں اور سیاستدانوں میں بھی شدت پسندی آگئی ہے،پارلیمنٹ کے اندر اور باہر استعمال ہونے والی زبان افسوسناک ہے، یہ زبان اور رویہ کسی بھی طور ملکی مفاد میں نہیں ہے۔

ملکی سیاست میںا س وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس حوالے سے اگلے 15 دن انتہائی اہم ہیں۔ سینیٹر یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کی ویڈیو کیس کی سماعت ہورہی ہے۔ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا معاملہ بھی متنازع بن گیا۔ پہلے سی سی ٹی وی کیمرے اور بعد میں ووٹ کا مسترد ہونا، یہ تمام باتیں معمولی نہیں ہیں۔ اپوزیشن نے نتائج ماننے سے انکار کردیا، وہ عدالت جانے کا بھی کہہ رہی ہے، لانگ مارچ، عدم اعتماد و دیگر آپشنز بھی موجود ہیں لہٰذا آنے والے دنوں میں بڑی پیش رفت ہوگی۔ عوام ان تمام معاملات کو دیکھ رہے ہیں، میڈیا میں ان پر بحث ہورہی ہے۔

اس پر حکومت ، اپوزیشن، دانشوروں، تجزیہ نگاروں و دیگر کی جانب سے جس طرح کی باتیں ہورہی ہیں جن سے لوگوں میں بے چینی پیدا ہوئی ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اگر سسٹم سے لوگوں کا اعتبار اٹھ جائے تو بڑے سانحات ہوتے ہیں۔ سب کو وضاحت اور توجیحات دینے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ ہم اس وقت علاقائی طور پر مشکل صورتحال میں ہیں، دنیا حکومت اور اپوزیشن کے غیر جمہوری رویوں کو دیکھ رہی ہے، یہ اپنے ذاتی مفاد کیلئے ملکی مفاد کو سٹیک پر لگا رہے ہیں، انہیں سمجھنا چاہیے کہ ملک اس وقت کسی کرائسس کا متحمل نہیں ہوسکتا، فیصلہ ساز اگر وقت پر درست فیصلے نہ کریں تو انہیں تاریخ کے اوراق میں اچھے الفاظ میں یاد نہیں رکھا جاتا، اس وقت ملک کو سیاسی قیادت کے ذمہ دارانہ رویے کی ضرورت ہے،ملکی و عوامی مسائل کے حل کیلئے کاکردگی کو بہتر بنانا ہوگا۔

کرنل(ر) فرخ چیمہ
(دفاعی تجزیہ نگار)
موجوہ ملکی سیاسی حالات کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ ملکی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی جمہوریت کے نام پر تحریک چلی تو چلانے والوں کے پاس کوئی اچھا متبادل پروگرام تھا اور نہ ہی آپس میں یکجہتی تھی، ہمیشہ حکومت گرانے کیلئے ہی تحریک چلی، تعمیر کیلئے نہیں، اب ان تحریکیں چلانے والوں کی تیسری نسل ہے جسے وہ لانچ کرنے کیلئے ساری جدوجہد کر رہے ہیں، ان کا ٹارگٹ عمران خان کی حکومت ہے،پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں میں آپس میں ابھی بھی گیم چل رہی ہے۔

آصف زرداری نے فوج مخالف بیانیے، اسمبلیوں سے استعفے وغیرہ جیسے اقدامات سے پی ڈی ایم کو پھیر دیا، حکومت گرانے یا اس کی مدت ختم ہونے کے بعد یہ آپس میں گتھم گتھا ہوں گے۔ اس وقت ہم عالمی گِدھوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ عالمی طاقتوں نے یہاں مشرق وسطیٰ کا ماڈل دینے کی کوشش کی مگر افواج پاکستان اور قوم نے مل کر انہیں ناکام بنایا۔ اب یہ طاقتیںیہاں سیاسی عدم استحکام پیدا کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہیں ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ سیاسی عدم استحکام سے ہی معاشی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے جو تمام مسائل کی بنیادی وجہ ہے، یہ حالات ملک کیلئے خطرناک ہونگے ۔ آزادی سے لے کر اب تک سیاسی جماعتیں کوئی نظام نہیں بنا سکی، یہاں بیوروکریسی معاملات چلاتی ہے اور وڈیرے عوامی نمائندے بنے ہوئے ہیں۔

یہاں کتنی جمہوریت ہے یہ جاننے کیلئے دیکھنا یہ ہے کہ جمہور میں عوام کی شمولیت کتنی ہے، کیا عوامی امنگوں کی ترجمانی ہورہی ہے اور کیا پارلیمنٹ مضبوط ہے؟ افسوس ہے کہ سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ ہی مقامی حکومتوں کا نظام نہیں بننے دیا، یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں عوام کی شمولیت ہی نہیں ہے۔ ہم صرف جمہوریت کا نام لیتے ہیں مگر جمہوریت والی کوئی بات نہیں ہے، پارلیمنٹ کے بجائے فیصلے کل جماعتی کانفرنسوں میں ہوتے ہیں جو المیہ ہے۔ ہمارے ہاں ''کمپرو مائزڈ جمہویت'' ہے۔ یہاں اب لوگ کرپشن کونارمل لیتے ہیں، انصاف سے لوگوں کا اعتبار اٹھ گیا ہے بلکہ اخلاقیات، ایمانداری سمیت ہر اچھی چیز پر سمجھوتہ کر لیا گیا جو ہماری پستی کی وجہ ہے۔ میرے نزدیک موجوہ مسائل کا واحد حل ''عوامی سوموٹو'' ہے، جس دن عوام نے از خود نوٹس لے لیا اس دن مسائل حل ہوجائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں