کاغذ کا ایک ٹکڑا قاتل کی گرفتاری کا سبب بن گیا

ظاہر پیر کے علاقہ میں ہونے والے اندوہناک قتل کی روداد


Noor Muhammad Soomro September 08, 2012
موسم کی خرابی اور برسات کے باعث 12 گھنٹوں تک سرتوڑ کوششیں کی گئیں لیکن اس کے باوجود، ایس پی شیراز نذیر اور ان کی پوری ٹیم ملزمان کا سراغ لگانے میں ناکام رہی. فوٹو : ایکسپریس

گذشتہ دنوں ایک بھیڑیے نے ظاہر پیر کے علاقہ آرائیں ملک پور میں معصوم بچے کو ہوس کا نشانہ بنایا اور قتل کردیا۔

7 سالہ حمزہ ایازا اسکول سے واپس آیا ،یونیفارم تبدیل کرکے معمول کے مطابق کھیلنے چلا گیا، حمزہ کا والد ایاز روزگار کے لیے سعودی عرب میں مقیم ہے' حمزہ کی والدہ اور گھر کے دیگر افراد کسی عزیز کے ہاں گئے ہوئے تھے، واپس آئے تو حمزہ کو گھر نہ پا کر اُس کی تلاش شروع کردی، پوری بستی چھان ماری مگر حمزہ کا کہیں پتا نہ چلا، وسوسوں نے ماں کی ممتا کو جگا دیا اور وہ کھیتوں اور پگڈنڈیوں پر کہاں ہو میرے لال، حمزہ جواب دو، حمزہ جواب دو ،پکارنے لگی، لیکن کہیں سے جواب نہ ملا۔

ماں انجانے خوف سے گھر کی دہلیز پر بیٹھ گئی اور روتے ہوئے خدا سے اپنے بچے کی زندگی اور سلامتی کی دعائیں کرنے لگی، حمزہ کا چچا، مختار احمد اور ماموں، شہزاد احمد خاندان کے دیگر افراد اور اہلِ خانہ، حمزہ کی تلاش میں بستی سے باہر کے علاقوں میں نکل پڑے، رات بھر تلاش کے باوجود ناکامی پر مساجد میں اعلانات کیے گئے اور اس کے بعد اسی بستی کے ایک لڑکے جاوید کو بدھ کی صبح حمزہ کے گھر کی گلی میں ایک کاغذ کا ٹکڑا ملا، جس پر تحریر تھا کہ حمزہ کی لاش گنّے کے کھیت میں پڑی ہے۔

اسے اُٹھا لو اور تحریر میں حمزہ کے چچا مختار کو خبردار کیا گیا تھا کہ آئندہ کسی سے لڑائی جھگڑا نہ کرنا، ورنہ انجام اس سے بھی بُرا ہوگا، سب لوگ کھیتوں میں گئے اور حمزہ کی برہنہ لاش دیکھی ،جسے مبینہ طور پر زیادتی کے بعد بے دردی سے قتل کردیا گیا تھا' قتل کی اندوہناک واردات پر پوری بستی سوگوار تھی، ماں اور دادی پر غشی کے دورے پڑنے لگے، ماں کی چیخیں عرش تک پہنچ رہی اور وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ میں اس کے باپ کو کیا منہ دکھائوںگی کہ اس کے پھول کی حفاظت نہ کرسکی۔

اطلاع پر تھانہ ظاہر پیر کے ایکٹنگ ایس ایچ او، سب انسپکٹر رب نواز نفری سمیت جائے وقوعہ پر پہنچے لاش کو رورل ہیلتھ سینٹر میںپوسٹمارٹم کے لیے لے جایا گیا تو ڈاکٹر خان وزیر غیر حاضر تھے جس کے باعث پوسٹ مارٹم میں تاخیر ہو گئی، حمزہ کے ورثاء اور سیکڑوں اہلِ علاقہ نے حمزہ کی لاش کو قومی شاہراہ پر رکھ کر سڑک بلاک کردی اور ہیلتھ سینٹر کے عملہ کے خلاف کارروائی اور ملزمان کی جلد گرفتاری کا مطالبہ کیا،احتجاج بڑھتا گیا، دونوں اطراف سیکڑوں گاڑیوں کی لمبی لائنیں لگ گئیں۔

اطلاع ملنے پر قائم مقام ڈی پی او ایس پی شیراز نذیر موقع پر پہنچے تو مظاہرین کو ہیلتھ عملہ کے خلاف کارروائی اور ملزمان کی گرفتاری کی مکمل یقین دہانی کراتے ہوئے احتجاج ختم کرایا اور ٹریفک رواں ہوئی، لاش کا پوسٹ مارٹم کرایا گیا' شیراز نذیر جائے وقوعہ پر گئے، کھیت میں حمزہ کے خون اور مزاحمت کے نشانات اور ملزمان کے قدموں کے نشانات دیکھتے ہوئے انھوں نے وہاں موجود ایس ایچ او، تھانہ صدر، خان پور، فرخ جاوید کو سراغ رساں کتوں کو بلوانے کے احکامات دیے لیکن سراغ رساں کتے بھی ملزمان کو تلاش کرنے میں ناکام رہے۔

موسم کی خرابی اور برسات کے باعث 12 گھنٹوں تک سرتوڑ کوششیں کی گئیں لیکن اس کے باوجود، ایس پی شیراز نذیر اور ان کی پوری ٹیم ملزمان کا سراغ لگانے میں ناکام رہی ،اسی دوران پوسٹ مارٹم ہو گیا اور اس کی میت کو نمازِ جنازہ کے بعد سپرد خاک کردیا گیا' درندگی کے اس واقعہ نے پوری بستی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا' مائیں اپنے بچوں کو گھر سے باہر نہ نکلنے کی ہدایات کرنے لگیں، حمزہ کی نڈھال ماں کو تسلیاں دیتی رہیں۔

اہلِ علاقہ آپس کی رنجشوں سے بالاتر ہو کرسفاک اور درندہ صفت قاتل کی جلد از جلد گرفتاری اور اُسے تختہ دار پر دیکھنے کا عزم لیے ہوئے اپنی صفوں میں چھپے اس بھیڑیے کو تلاش کررہے تھے، وقوعہ کے روز نفری کی کمی کے باعث پولیس کو شدید مشکلات کا سامنا رہا، ڈی ایس پی خان پور، عابد شیخ، ایس ایچ او ظاہر پیر، چوہدری محمد اشرف ہائیکورٹ پیشی پرآئے، ڈی پی او سہیل ظفر چٹھہ آئی جی پنجاب کے اجلاس میں شرکت کے لیے لاہور تھے۔

اس دوران شیراز نذیر کی زیر قیادت تفتیشی ٹیم نے قاتل کی تلاش جاری رکھی تاہم ،جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب ڈی پی او سہیل ظفر چٹھہ اور ایس پی شیراز نذیر متاثرہ بستی پہنچ گئے، بستی کے چار مشکوک افراد کو حراست میں لیا اور رات بھر تفتیش کرتے رہے۔ اس دوران واردات کے ثبوت کے لیے قاتل کے گھر سمیت متعدد جگہوں پر چھاپے مارے گئے۔

کاغذ کے ایک ٹکڑے نے قاتل کی نشاندہی کی اور اس کے ظلم کی ساری کہانی سنا دی۔ جمعہ کے روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی پی او سہیل ظفر نے بتایا ، ملزم ماجد ولد اللہ بخش جو مقتول کا سوتیلا چچا ہے، نے حمزہ کو بہلانے کے لیے 80 روپے دیے۔ حمزہ نے اسی علاقہ کی خاتون دکاندار خورشید بی بی عرف گگو مائی سے پانچ روپے کے بسکٹ خریدے اور بعد ازاں ملزم اُسے لے کر گنا کے کھیتوں میں گھس گیا۔

ملزم نے زمیندار شوکت کی زمینوں سے کپاس نکال کر جیب میں ڈال لی تھی۔ معصوم نے چیخ پکار کی تو ملزم نے کپاس اُس کے منہ میں ٹھونس دی اور درندگی کا مظاہرہ کرتا رہا جس سے حمزہ مر گیا۔ ملزم ماجد لاش کھیتوں میں چھوڑ کر گھر گیا اور شلوار سمیت نہا کر اس نے شلوار سے واردات کے نشانات مٹانے کی کوشش کی۔ نئے کپڑے پہن کر شادی کی تقریب میں شرکت کی۔

گرفتاری کے خوف سے اس نے گھر میں موجود کاپی کے ورق پر تحریر بنا کر تفتیش کا رخ دوسری جانب موڑنے کی کوشش کی۔ پریس کانفرنس میں موجود مقتول کے والد، حاجی ایاز، چچا ،مختار احمد اور سابق ناظم میاں عقیل اور دیگرمعززین نے ڈی پی او، سہیل ظفر چٹھہ، ایس پی شیراز نذیر، ڈی ایس پی خان پور، شیخ عابد اختر اور ایس ایچ او، چوہدری محمد اشرف کو اندھے قتل کا سراغ 48 گھنٹوں میں سراغ لگانے اورقاتل کو گرفتار کرنے پر زبردست الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا۔

انھوں نے کہا، پولیس نے ملزم کو گرفتار کر کے عدالت کے کٹہرے کھڑا کر دیا ہے۔ عدالت اس درندے کو پھانسی پر چڑھا بھی دے تو اس سے ماں کا کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہو گا، اس کو زندگی بھر کے لیے ملنے والا دکھ کم نہیں ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |