کیا ہم ٹائم پاس کا کلچر پروان چڑھا رہے ہیں
طالبعلموں کی جانب سے بے حیائی پر مبنی یہ عمل پاکستانی قانون کے مطابق بھی قابل گرفت ہے
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی۔ ویڈیو میں ایک لڑکی گھٹنوں کے بل ایک لڑکے کو گلدستہ پیش کرتی ہے۔ لڑکا اس گلدستے کو قبول کرتا ہے اور پھر لڑکی کو کھڑا کرتے ہوئے اس کو گلے لگاتا ہے۔ اور اس کے آگے مبہم ہے کہ کیا وہ فرطِ جذبات میں اس کا بوسہ بھی لیتا ہے یا نہیں لیتا۔
یہ ویڈیو وائرل ہوتی ہے اور علم ہوتا ہے کہ یہ ویڈیو لاہور کی ایک نجی جامعہ کی ہے۔ جامعہ اس معاملے میں حرکت میں آتی ہے اور ان دونوں کو جواب طلبی کےلیے طلب کرتی ہے۔ یہ دونوں ہی پیش نہیں ہوتے۔ جس کے بعد انہیں جامعہ سے ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خارج کردیا جاتا ہے۔
میرا خیال تھا کہ میں اس معاملے میں خاموشی اختیار کروں گا لیکن جب مختلف مکتبہ ہائے فکر اور پھر وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے بھی اس معاملے پر ٹویٹ کیا ہے تو خاکسار بھی اس معاملے پر اپنی رائے پیش کرنے کی جسارت کررہا ہے۔
جامعہ کی جانب سے ویڈیو میں موجود دونوں طالب علموں کو خارج کیے جانے کے فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث نے جنم لیا۔ ایک طبقہ جامعہ کے طرزعمل کو درست مان رہا ہے اور دوسرا طبقہ اس کو ظلم قرار دے رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں حل کی جانب جانا چاہیے جو کہ ان دونوں کے درمیان میں کہیں ہے۔ اس کا ہم آگے ذکر کریں گے، پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ان طالبعلموں کی جانب سے کیا جانے والا عمل کیسا تھا؟
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ یہ بات اس کے آئین میں درج ہے اور میں یا آپ اس سے انکار نہیں کرسکتے۔ لہٰذا، انفرادی اور اجتماعی دونوں دائروں میں اسلامی اقدار پر مبنی ماحول فراہم کرنے کی ذمے داری ریاست کی ہے۔ یہ ذمے داری ایسے ہی نہیں ہے بلکہ اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ ذمے داری ریاست کے دستور کی رو سے ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ اس کے مطابق جائز و ناجائز کےلیے بنیادی معیار قرآن و سنت ہی ہوگا۔ ہمارے بہت سے علما ہیں، جنہیں لگتا ہے کہ اسلام میں کچھ تبدیلی کی ضرورت ہے لہٰذا وہ بنیاد چھوڑتے ہوئے بہت کچھ جائز اور حلال کروا چکے ہیں۔ لیکن وہ بھی ''اختلاط مرد و زن کے آداب'' جو انہوں نے اپنی ''میزان'' میں تول کر اکٹھے کیے ہیں، وہاں یہ گنجائش پیدا نہیں کرسکے ہیں کہ غیر شادی شدہ بالغ پبلک پلیس پر سرعام معانقہ کریں۔ اگر یہ جائز ہوجائے تو پھر تو بہت کچھ جائز ہوجائے گا۔
اگلا نقطہ جو بہت شدت سے کچھ لوگوں کی جانب سے سامنے آرہا ہے، وہ یہ کہ لاہور ہی نہیں پاکستان بھر کی دیگر جامعات میں بہت کچھ ہوتا ہے، مدارس اور مساجد میں بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ یادداشت کو تازہ کیجیے اور یاد کیجیے کہ مساجد و مدارس میں جو کچھ ہوتا ہے، اس کےلیے جیسے ہی آواز اٹھتی ہے، ملزم گرفتار بھی ہوتا ہے اور اس کے خلاف ایف آئی آر بھی ہوتی ہے۔ اگر اس بات کو ''دلیل'' تسلیم کرلیا جائے تو پھر تو کسی بھی جرم، کسی بھی گناہ، کسی بھی برائی کے خلاف بات نہیں کرنی چاہیے۔ سب کو خاموش رہنا چاہیے۔ لیکن کیا ایسے خاموش رہنے سے معاشرہ جنگل نہیں بن جائے گا؟ کیا ہم میں ایسے لوگ موجود نہیں ہونے چاہئیں جو برائیوں کی نشاندہی کریں؟
ان طالب علموں کی جانب سے کیا جانے والا عمل یقیناً بے حیائی ہے۔ یہ فحاشی ہے، یہ بے شرمی اور گناہ ہے۔ جو اس عمل کو ''دوسروں کی ذاتی زندگی میں مداخلت'' کہہ رہے ہیں اور جو اس کو ''دوسروں کے حقوق'' پر حملہ قرار دے رہے ہیں، انہیں بنیادی اصول پر بات کرنی چاہیے۔
اصول یہ ہے کہ ''ذاتی زندگی'' چار دیواری کے اندر ہوتی ہے۔ جیسے ہی آپ اپنے گھر کی دہلیز سے باہر آتے ہیں، وہ پبلک پلیس ہوتی ہے اور وہاں معاشرتی قوانین کا اطلاق ہوتا ہے، جو ریاست نے بنائے ہوتے ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونا فرض ہے اور جن کی خلاف ورزی پر ریاستی گرفت ہوسکتی ہے۔ کیا ان طالب علموں کے والدین نے انہیں یونیورسٹی میں معانقہ کرنے بھیجا تھا؟ کچھ اور نہیں تو اُن مغربی آقاؤں سے کچھ سیکھ لیجیے جن کی اندھی پیروی کرنا یہ لوگ فرض سمجھتے ہیں۔ ان کی این جی اوز جب پاکستان یا افغانستان میں کام کرتی ہیں تو انہیں یہ لوگ ''مقامی حساسیت'' کے حوالے سے باقاعدہ بریف کرتے ہیں اور ان پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اس کو نہ توڑیں بلکہ اس کا مکمل احترام کریں اور جب وہ ان علاقوں میں موجود ہوں تو اپنا حلیہ ایسا رکھیں کہ مقامی لوگ اس پر اعتراض نہ کریں۔ یہ باقاعدہ ان کی پالیسی کا حصہ ہوتا ہے۔ یہاں پر ''مقامی حساسیت'' نہیں ہوگی؟
ان طالبعلموں کی جانب سے بے حیائی پر مبنی یہ عمل پاکستانی قانون کے مطابق بھی قابل گرفت ہے۔ مجموعہ تعزیرات پاکستان دفعہ 294 کے مطابق یہ بالکل جرم ہے، جس پر باقاعدہ سزا ہے اور یہ بھی بالکل واضح رہے کہ یہ دفعہ انگریز نے پینل کوڈ میں رکھی تھی، جس کو بعد از قیام پاکستان ہم نے تعزیرات پاکستان میں شامل کیا تھا۔
میری ذاتی رائے میں یونیورسٹی نے اپنے مطابق ٹھیک کیا ہوگا، لیکن یہاں پر ظن یہ ہے کہ بادی النظر میں یونیورسٹی کی رائے پر سوشل میڈیا یعنی عوامی رائے اثر انداز ہوئی ہے۔ اگر یہ معاملہ ایسے مشہور نہ ہوتا تو شاید یونیورسٹی کی جانب سے اتنا سخت ایکشن بھی نہ لیا جاتا۔ احقر کے مطابق اس واقعے کے بعد، اس ویڈیو کی روشنی میں، ان کے والدین کو بلایا جاتا، بھری یونیورسٹی میں ان کا نکاح کروا دیا جاتا اور ساتھ میں ان کو سمجھا دیا جاتا اور ان کو تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دے دی جاتی۔ آخر کو یہ بچے عاقل و بالغ ہیں، ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں تو پھر ان کے والدین کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے اور ان کو بھی نکاح کرکے تعلیم جاری رکھنی چاہیے۔ اس میں کوئی دیر و حجت نہیں ہونی چاہیے۔
دو باتیں ہی ہیں، اگر تو یہ بچے ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں تو احسن طریقے سے نکاح کریں۔ بصورت دیگر کو ہم ٹائم پاس سمجھتے ہیں۔ اب اگر نکاح کرنا مقصود نہیں تو کیا ہم ٹائم پاس کا کلچر پروان چڑھا رہے ہیں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ ویڈیو وائرل ہوتی ہے اور علم ہوتا ہے کہ یہ ویڈیو لاہور کی ایک نجی جامعہ کی ہے۔ جامعہ اس معاملے میں حرکت میں آتی ہے اور ان دونوں کو جواب طلبی کےلیے طلب کرتی ہے۔ یہ دونوں ہی پیش نہیں ہوتے۔ جس کے بعد انہیں جامعہ سے ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خارج کردیا جاتا ہے۔
میرا خیال تھا کہ میں اس معاملے میں خاموشی اختیار کروں گا لیکن جب مختلف مکتبہ ہائے فکر اور پھر وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے بھی اس معاملے پر ٹویٹ کیا ہے تو خاکسار بھی اس معاملے پر اپنی رائے پیش کرنے کی جسارت کررہا ہے۔
جامعہ کی جانب سے ویڈیو میں موجود دونوں طالب علموں کو خارج کیے جانے کے فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث نے جنم لیا۔ ایک طبقہ جامعہ کے طرزعمل کو درست مان رہا ہے اور دوسرا طبقہ اس کو ظلم قرار دے رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں حل کی جانب جانا چاہیے جو کہ ان دونوں کے درمیان میں کہیں ہے۔ اس کا ہم آگے ذکر کریں گے، پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ان طالبعلموں کی جانب سے کیا جانے والا عمل کیسا تھا؟
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ یہ بات اس کے آئین میں درج ہے اور میں یا آپ اس سے انکار نہیں کرسکتے۔ لہٰذا، انفرادی اور اجتماعی دونوں دائروں میں اسلامی اقدار پر مبنی ماحول فراہم کرنے کی ذمے داری ریاست کی ہے۔ یہ ذمے داری ایسے ہی نہیں ہے بلکہ اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ ذمے داری ریاست کے دستور کی رو سے ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ اس کے مطابق جائز و ناجائز کےلیے بنیادی معیار قرآن و سنت ہی ہوگا۔ ہمارے بہت سے علما ہیں، جنہیں لگتا ہے کہ اسلام میں کچھ تبدیلی کی ضرورت ہے لہٰذا وہ بنیاد چھوڑتے ہوئے بہت کچھ جائز اور حلال کروا چکے ہیں۔ لیکن وہ بھی ''اختلاط مرد و زن کے آداب'' جو انہوں نے اپنی ''میزان'' میں تول کر اکٹھے کیے ہیں، وہاں یہ گنجائش پیدا نہیں کرسکے ہیں کہ غیر شادی شدہ بالغ پبلک پلیس پر سرعام معانقہ کریں۔ اگر یہ جائز ہوجائے تو پھر تو بہت کچھ جائز ہوجائے گا۔
اگلا نقطہ جو بہت شدت سے کچھ لوگوں کی جانب سے سامنے آرہا ہے، وہ یہ کہ لاہور ہی نہیں پاکستان بھر کی دیگر جامعات میں بہت کچھ ہوتا ہے، مدارس اور مساجد میں بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ یادداشت کو تازہ کیجیے اور یاد کیجیے کہ مساجد و مدارس میں جو کچھ ہوتا ہے، اس کےلیے جیسے ہی آواز اٹھتی ہے، ملزم گرفتار بھی ہوتا ہے اور اس کے خلاف ایف آئی آر بھی ہوتی ہے۔ اگر اس بات کو ''دلیل'' تسلیم کرلیا جائے تو پھر تو کسی بھی جرم، کسی بھی گناہ، کسی بھی برائی کے خلاف بات نہیں کرنی چاہیے۔ سب کو خاموش رہنا چاہیے۔ لیکن کیا ایسے خاموش رہنے سے معاشرہ جنگل نہیں بن جائے گا؟ کیا ہم میں ایسے لوگ موجود نہیں ہونے چاہئیں جو برائیوں کی نشاندہی کریں؟
ان طالب علموں کی جانب سے کیا جانے والا عمل یقیناً بے حیائی ہے۔ یہ فحاشی ہے، یہ بے شرمی اور گناہ ہے۔ جو اس عمل کو ''دوسروں کی ذاتی زندگی میں مداخلت'' کہہ رہے ہیں اور جو اس کو ''دوسروں کے حقوق'' پر حملہ قرار دے رہے ہیں، انہیں بنیادی اصول پر بات کرنی چاہیے۔
اصول یہ ہے کہ ''ذاتی زندگی'' چار دیواری کے اندر ہوتی ہے۔ جیسے ہی آپ اپنے گھر کی دہلیز سے باہر آتے ہیں، وہ پبلک پلیس ہوتی ہے اور وہاں معاشرتی قوانین کا اطلاق ہوتا ہے، جو ریاست نے بنائے ہوتے ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونا فرض ہے اور جن کی خلاف ورزی پر ریاستی گرفت ہوسکتی ہے۔ کیا ان طالب علموں کے والدین نے انہیں یونیورسٹی میں معانقہ کرنے بھیجا تھا؟ کچھ اور نہیں تو اُن مغربی آقاؤں سے کچھ سیکھ لیجیے جن کی اندھی پیروی کرنا یہ لوگ فرض سمجھتے ہیں۔ ان کی این جی اوز جب پاکستان یا افغانستان میں کام کرتی ہیں تو انہیں یہ لوگ ''مقامی حساسیت'' کے حوالے سے باقاعدہ بریف کرتے ہیں اور ان پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اس کو نہ توڑیں بلکہ اس کا مکمل احترام کریں اور جب وہ ان علاقوں میں موجود ہوں تو اپنا حلیہ ایسا رکھیں کہ مقامی لوگ اس پر اعتراض نہ کریں۔ یہ باقاعدہ ان کی پالیسی کا حصہ ہوتا ہے۔ یہاں پر ''مقامی حساسیت'' نہیں ہوگی؟
ان طالبعلموں کی جانب سے بے حیائی پر مبنی یہ عمل پاکستانی قانون کے مطابق بھی قابل گرفت ہے۔ مجموعہ تعزیرات پاکستان دفعہ 294 کے مطابق یہ بالکل جرم ہے، جس پر باقاعدہ سزا ہے اور یہ بھی بالکل واضح رہے کہ یہ دفعہ انگریز نے پینل کوڈ میں رکھی تھی، جس کو بعد از قیام پاکستان ہم نے تعزیرات پاکستان میں شامل کیا تھا۔
میری ذاتی رائے میں یونیورسٹی نے اپنے مطابق ٹھیک کیا ہوگا، لیکن یہاں پر ظن یہ ہے کہ بادی النظر میں یونیورسٹی کی رائے پر سوشل میڈیا یعنی عوامی رائے اثر انداز ہوئی ہے۔ اگر یہ معاملہ ایسے مشہور نہ ہوتا تو شاید یونیورسٹی کی جانب سے اتنا سخت ایکشن بھی نہ لیا جاتا۔ احقر کے مطابق اس واقعے کے بعد، اس ویڈیو کی روشنی میں، ان کے والدین کو بلایا جاتا، بھری یونیورسٹی میں ان کا نکاح کروا دیا جاتا اور ساتھ میں ان کو سمجھا دیا جاتا اور ان کو تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دے دی جاتی۔ آخر کو یہ بچے عاقل و بالغ ہیں، ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں تو پھر ان کے والدین کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے اور ان کو بھی نکاح کرکے تعلیم جاری رکھنی چاہیے۔ اس میں کوئی دیر و حجت نہیں ہونی چاہیے۔
دو باتیں ہی ہیں، اگر تو یہ بچے ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں تو احسن طریقے سے نکاح کریں۔ بصورت دیگر کو ہم ٹائم پاس سمجھتے ہیں۔ اب اگر نکاح کرنا مقصود نہیں تو کیا ہم ٹائم پاس کا کلچر پروان چڑھا رہے ہیں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔