کورونا کے آخری وار زیادہ مہلک
اب بھی اگر ہم نے پورے ملک میں کم از کم ایک ماہ کا مکمل لاک ڈاؤن نہ کیا تو ہم گھاٹے میں رہیں گے۔
GENEVA:
لیجیے ! کورونا کی تیسری لہر عوام کو متاثر کرنے کے لیے سروں پر آن پہنچی ہے، ''یہ لہر پہلے سے زیادہ سخت اور خطرناک ہوگی''، یہ بات آج سے 2ماہ قبل ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کہہ دی تھی اور خاص طور پر تھرڈ ورلڈ ممالک کا ذکر کیا تھا کہ یہ ممالک جب کورونا سے بے فکر ہو جائیں گے تب یہ مہلک وائرس دوبارہ حملہ کر دے گا۔ جب کہ ہمارے ہاں تو گزشتہ دو ،چار ماہ سے تو سینیٹ الیکشن کی ''تیاریاں'' چل رہی تھیں اس لیے ہمارے کرتا دھرتاؤں کو اس بات سے کیا لگے کہ کورونا کس شدت سے واپس آرہا ہے۔
حالانکہ کورونا ویکسین دریافت بھی ہو چکی ہے، بن بھی رہی ہے، اور موثر بھی ثابت ہورہی ہے، لیکن حکومت کو یہ بات بتانی چاہیے کہ یہ ویکسین عام آدمی تک پہنچنے میں کئی ماہ لگ جائیں گے۔تب تک اپنا بچاؤ خود ہی کرنا ہوگا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کورونا ایس اوپیز پر بالکل ہی عمل نہیں ہو رہا۔ عوامی مقامات پر ماسک پہننے کی زحمت نہیںکی جاتی۔ماسک اگر پہن لیا جائے تونہ صرف مذاق اڑایا جاتا ہے بلکہ احباب زور دے کر ماسک اتارنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
ابھی گزشتہ ہفتے مجھے ایک عزیز کی شادی پر جانا پڑگیا۔ میں نے ماسک پہن رکھا تھا، شادی ہال میں دیکھا تو ایک آدھ بزرگ نے ماسک پہنا تھا، کسی اورنے اسے لفٹ ہی نہیں کرائی حالانکہ شادی ہال کے باہر لکھا تھا کہ ماسک کے بغیر اندر نہیں جانے دیا جائے گا۔
اور اب جب کہ حکومت نے دوبارہ مائیکرو لاک ڈاؤن کر دیا ہے، اسکول و کالج بند کر دیے گئے ہیں تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ حکومت ابھی غیر سنجیدہ دکھائی دے رہی ہے، اور ویسے بھی بادی النظر میں سینیٹ کے الیکشن کی وجہ سے حکومت نے کورونا کو جس قدر نظر انداز کیا، وہ سب کے سامنے ہے، جہاں اپوزیشن جلسے کرتی، حکومت کی بھی کوشش ہوتی کہ اُسی شہر میں اپوزیشن سے بڑا جلسہ کرکے اپنا آپ منواتی۔
الغرض اس صورتحال میں تو ایسا لگتا ہے کہ حکومت اپنے بچاؤ اور اپوزیشن اسے پچھاڑنے میں وقت ضایع کرتی رہی۔ اس سے پہلے بھی اگر یاد ہو تو کورونا سے بچاؤ کے لیے حکومت نے کچھ ایس او پیز وضع کیے تھے، مگران پر عمل کروانے میں کسی کی دلچسپی نہیں۔ تیسری لہر کس درجے خطرناک ہو سکتی ہے ہمیں ابھی اس کا اندازہ نہیں، مگر باوجود اس کے حکومت احتیاطی تدابیر میں نہایت سست رو واقع ہو رہی ہے۔
بازاروں کی شام چھ بجے بندش کا اعلان کر کے شاید وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے کورونا وبا کا خطرہ کم ہو جائے گا۔ حکام نے یہ نتیجہ کیسے اخذ کر لیا کہ کاروباری سرگرمیوں پر جزوی پابندی سے کورونا وبا کا خطرہ کم ہو جاتا ہے؟ اگر سائنسی اعتبار سے دیکھا جائے تو فی الواقع یہ خطرہ بڑھ جاتا ہے کیونکہ خریداروں کی تعداد تو وہی رہتی ہے مگر بزنس کا دورانیہ کم ہو جاتا ہے ؛ چنانچہ معمول کے اوقات کی نسبت محدود دورانیے والے دنوں میں کسی بھی اسٹور یا دکان میں گاہکوں کا ہجوم زیادہ ہوتا ہے۔
ایسے میں کورونا وبا کا خطرہ کم ہونے کا تصورہی محال ہے۔ اس خطرے کو کم کرنے کا واحد حل یہ ہے کہ احتیاطی تدابیر پر عمل یقینی بنایا جائے یا کم از کم ایک ماہ کا مکمل لاک ڈاؤن کیا جائے اور اس سلسلے میں حکومت بے لچک پالیسی اختیار کرے۔ گھر سے باہر نکلنے والے ہر آدمی کے لیے ماسک کا استعمال لازمی قرار دیا جانا چاہیے اور اس پر سختی سے عمل کروایا جائے جب کہ دکانیں یا دیگر ایسے مقامات جہاں ایک وقت میں زیادہ لوگ جمع ہوتے ہیں وہاں ہاتھوں کو جراثیم کش محلول سے صاف کرنے کا اہتمام بھی لازمی قرار دینا چاہیے۔
حکومت خود اس معاملے کو سنجیدگی سے لینے سے قاصر نظر آتی ہے۔ حالیہ تیسری لہر سے چند روز پہلے تک ملک کے کئی بڑے شہروں میں جشن بہاراں کے نام سے میلے منعقد کیے جا رہے تھے اور لاکھوں افراد کو پارکوں میں جمع ہونے کے لیے اُکسایا جا رہا تھا۔ یہ نہیں سوچا گیا کہ کورونا کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔
برطانیہ میں لاک ڈاؤن میں معمولی سی نرمی نے وہاں ایک نئے قسم کے وائرس کو جنم دیا ہے، اور حالات پہلے سے زیادہ خراب ہو چکے ہیں، اٹلی سمیت یورپ کے 90فیصد ملکوں میں جزوی لاک ڈاؤن بہت پہلے سے موجود ہے، امریکا جہاں سب سے زیادہ ویکسین استعمال کی جارہی ہے، وہاں بھی کورونا سے مکمل نجات کا اعلان نہیں کیا گیا۔
پاکستان کی طرح اٹلی میں بھی سب کچھ کھولا جارہا تھا لیکن وہاں بھی آج دکانیں، ریسٹورانٹس اور اسکول بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کورونا کیسز کے حوالے سے برطانیہ کے بعد اٹلی کا دوسرا نمبر ہے۔حد تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ سمجھا جا رہا ہے کہ پاکستان میں کورونا مریضوں کی تعداد دیگر ممالک سے کم ہے یعنی چند لاکھ ہے اور ہلاکتیں12ہزار ہیں، قطعاً ایسا نہیں ہے، چونکہ یہاں ٹیسٹ کروانے والوں کی شرح کم ہے اس لیے کیسز بھی کم نکلتے ہیں۔
آج پورے ملک میں کہیں بھی سفر کر لیں، ماسوائے مہنگی سواریوں کے کہیں بھی ایس او پیز پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا، کہیں چنگ چی، رکشہ، بس یا دیگر سواریوں میں ماسک استعمال نہیں کیا جا رہا، کہیں کسی بیکری یا شاپ پر چلے جائیں آپ کو اکا دکا لوگ ماسک پہنے نظر آئیں گے، باقی سب قانون کی دھجیاں اُڑا رہے ہوں گے۔
جب کہ دوسری جانب پولیس آپ کو ہر طرف دہاڑیاں لگاتی نظر آئے گی، جس نے چھ بجے دکانیں بند نہ کیں، اُسے ہزار، 2ہزار روپے میں مک مکا کرتے نظرآئیں گے۔ یعنی ایس او پیز پر عمل تو ایک طرف اُلٹا پولیس کی چاندی ہو جائے گی۔اس لیے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں اس پر عمل درآمد کروائیں اور پولیس اگر ایسا کر تی نظر آئے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کریں اور تاجر حضرات بھی اس معاملے کو سنجیدہ لیں، کیوںکہ اگر عوام بچ گئے تو اُن سے اگلے کسی دور میں ضرور کما لیں ورنہ اگر کوئی نہ رہا تو پھر کس بات کی لڑائی اور شکوے!
بہرکیف سائنسدانوں کے مطابق اب بھی اگر ہم نے پورے ملک میں کم از کم ایک ماہ کا مکمل لاک ڈاؤن نہ کیا تو ہم گھاٹے میں رہیں گے، کیوں کہ مئی جون کے مہینے میں یہ وبا شدت اختیار کر جائے گی۔ فرد سے فرد تک منتقلی کا عمل جاری رہے گا کیونکہ انسانی جسم کا درجہ حرارت تو مستقل رہتا ہے۔ پھر آگے رمضان کے اجتماعات بھی آنے والے ہیں، عیدین بھی ہماری راہ تک رہی ہیں تو اس لیے حکومت کو اب عوام کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا، حکومت کو یہ لیبل اُتارنا ہوگا کہ حکمرانوں کو عوام کے مفاد کے ساتھ کوئی سروکار نہیں ، لہٰذاحکومت کو ٹھوس حکمت عملی کے ساتھ غریبوں کی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن نہیں بلکہ شدید لاک ڈاؤن لگانا چاہیے، تاکہ ہم اگلی نسل کو بچا سکیں !