کلب کرکٹ کی عمارت کھڑی ہونے سے پہلے ہی لرزنے لگی
فل ممبر کلب 39ہزار500، ایسوسی ایٹ 77ہزار، ایفیلیٹ ایک لاکھ 14ہزار 500روپے پی سی بی کے خزانے میں ڈالنے کا پابند ہوگا۔
SAINT MARTIN'S ISLAND, BANGLADESH:
کلب کرکٹ کی عمارت کھڑی ہونے سے پہلے ہی لرزنے لگی جب کہ آرگنائزرز بھاری اخراجات پر تلملا اٹھے۔
نئے ماڈل آئین کے تحت کوئی سسٹم نہ بنانے کی وجہ سے 2سال تک گراس روٹ کرکٹ پر ایک جمود کی کیفیت طاری رہی،اب یہ عمارت کھڑی کرنے کا فیصلہ کیا بھی گیا تو یہ ابتدا میں ہی لرزنے لگی ہے،بھاری اخرجات کی وجہ سے آرگنائزرز کی طرف سے شدید تحفظات سامنے آرہے ہیں۔
کلب کرکٹ کی ہر کیٹیگری کیلیے الگ الگ فیس مقرر کی گئی ہے،ایک فل ممبر کلب کو 5ہزار روپے رجسٹریشن فیس ادا کرنا ہوگی،3ووٹنگ ممبرز کے 15ہزار، سالانہ رجسٹریشن فیس کے 5ہزار،ہر کھلاڑی کی سالانہ رجسڑیشن کیلیے فی کس 250کے حساب سے 4ہزار 500، صدر/ خزانچی کے امیدواروں کیلیے 10ہزار جمع کروانا ہوں گی،مجموعی طور پر یہ رقم 39ہزار500روپے بنتی ہے۔
اسی طرح ایسوسی ایٹ کلب کو رجسٹریشن فیس کی مد میں 5ہزار،10ووٹنگ ممبرز کے 50ہزار، سالانہ رجسٹریشن فیس 7ہزار 500، کرکٹرز کی سالانہ رجسٹریشن کے 4ہزار 500، صدر/خزانچی کے امیدواروں کیلیے 10ہزارسمیت 77ہزار روپے کا خرچ برداشت کرنا ہوگا۔
ایفیلیٹ کلب کو 5ہزار رجسٹریشن فیس،15ووٹنگ ممبرز کے 75ہزار،سالانہ رجسٹریشن فیس کے 20ہزار،کھلاڑیوں کی سالانہ رجسٹریشن فیس کے 4ہزار 500، صدر/خزانچی کے امیدواروں کیلیے 10ہزار سمیت ایک لاکھ 14ہزار 500ادا کرنا ہوں گے۔
اگر تینوں کیٹیگریز کے ایک ایک ہزار کلبز بھی ہوں تو مجموعی طور پر ساڑھے 23کروڑ روپے کا بوجھ ان پر پڑے گا،صرف فل ممبرز کی سرگرمیوں کو دیکھا جائے تو گراؤنڈ،جم، آفس،بلز، پیٹرول،سازوسامان کی مرمت،اسٹاف و کوچز کی تنخواہوں اور نیٹ پریکٹس پر 2سے 3لاکھ روپے ماہانہ خرچ ہوں گے،ایسوسی ایٹ کو ایک لاکھ اور ایفیلیٹ کو تقریبا60ہزار ماہانہ درکار ہوں گے،ان کلبز کا سالانہ خرچ 5ارب 63کروڑ روپے کے قریب بنتا ہے۔
نمائندہ ''ایکسپریس'' نے 10 کے قریب عہدیداروں سے رابطہ کیا تو بیشتر کا کہنا تھا کہ نئے ماڈل آئین کے تحت مالی بوجھ سمیت عجیب فیصلوں پر تشویش ہے، کوئی بھی سرکاری، نیم سرکاری محکمے یا کارپوریشن کا ملازم، ایم پی اے یا ایم این اے، کونسلر اور کسی پارٹی کا عہدیدار کسی بھی کلب کا صدر نہیں بن سکتا،بھاری اخراجات کا بوجھ اٹھانے کیلیے نئے کروڑ پتی کہاں سے تلاش کریں گے، ان حالات میں کرکٹ بھی چند امیر لوگوں کی دسترس میں رہ جائے گی۔
انھوں نے کہا کہ ایسوسی ایٹ کلب کیلیے لیول ون کوچ ہونا لازمی ہے، کئی پسماندہ علاقوں میں اس معیار کے کوچز کہاں سے آئیں گے،فل ممبر کیلیے تو کوچ کے ساتھ ساتھ ایک اپنا گراؤنڈ، فٹنس کلب، کم از کم 3 پچز اور اس پر معیاری نیٹس، انتظامی امور چلانے کے لیے دفتر ہونا ضروری ہے،کتنے کلب ان ضروریات کا اہتمام کرنے کے قابل ہوں گے، بڑی مشکل سے نیٹ کی جگہ حاصل کرنے والے میچز بھی کرائے کے گراؤنڈز پر کھیلتے ہیں تو کیا اب ان کی کرکٹ ختم ہوجائے گی۔
اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے سابق پیسر شعیب اختر نے کہاکہ پاکستان کا ٹیلنٹ پول کم نہیں ہوا لیکن اس کوکھلانے والے لوگ ختم ہوگئے،کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنے والے چاچے، بابے اور گراؤنڈ مین نہیں رہے، ہم سب کلب کرکٹ سے آگے آئے ہیں، آمد ورفت کیلیے ایک موٹرسائیکل اور ایک کلب کسی کو کرکٹرز بنانے کیلیے ضروری ہوتے تھے، بچوں سے پیسے لے کر کلب کرکٹ نہیں چلانی چاہیے، اسی لیے میں نے اپنی اکیڈمی بنانے سے گریز کیا، خواہ سابق ٹیسٹ کرکٹر یا کوئی اور شخص ہو یہ درست کام نہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہمیں کوشش کرنا چاہیے کہ ہماری کرکٹ اتنی مضبوط ہو کہ کسی کی ضرورت نہ رہے، پی سی بی کو ذرائع آمدنی بڑھانا چاہیں، ڈومیسٹک اسٹرکچر بہتر ہونا چاہیے جہاں کھلاڑی کو اچھے پیسے ملیں،6 نہیں بلکہ 18ریجنز ہونا چاہئیں،ان میں سے ہر کوئی ایک ایک ارب روپے کا سرمایہ حاصل کررہا ہو،پی سی بی کسی کو اختیار نہیں دینا چاہتا تو وہ ریجن پر پیسہ کیوں لگائے گا۔
کلب کرکٹ کی عمارت کھڑی ہونے سے پہلے ہی لرزنے لگی جب کہ آرگنائزرز بھاری اخراجات پر تلملا اٹھے۔
نئے ماڈل آئین کے تحت کوئی سسٹم نہ بنانے کی وجہ سے 2سال تک گراس روٹ کرکٹ پر ایک جمود کی کیفیت طاری رہی،اب یہ عمارت کھڑی کرنے کا فیصلہ کیا بھی گیا تو یہ ابتدا میں ہی لرزنے لگی ہے،بھاری اخرجات کی وجہ سے آرگنائزرز کی طرف سے شدید تحفظات سامنے آرہے ہیں۔
کلب کرکٹ کی ہر کیٹیگری کیلیے الگ الگ فیس مقرر کی گئی ہے،ایک فل ممبر کلب کو 5ہزار روپے رجسٹریشن فیس ادا کرنا ہوگی،3ووٹنگ ممبرز کے 15ہزار، سالانہ رجسٹریشن فیس کے 5ہزار،ہر کھلاڑی کی سالانہ رجسڑیشن کیلیے فی کس 250کے حساب سے 4ہزار 500، صدر/ خزانچی کے امیدواروں کیلیے 10ہزار جمع کروانا ہوں گی،مجموعی طور پر یہ رقم 39ہزار500روپے بنتی ہے۔
اسی طرح ایسوسی ایٹ کلب کو رجسٹریشن فیس کی مد میں 5ہزار،10ووٹنگ ممبرز کے 50ہزار، سالانہ رجسٹریشن فیس 7ہزار 500، کرکٹرز کی سالانہ رجسٹریشن کے 4ہزار 500، صدر/خزانچی کے امیدواروں کیلیے 10ہزارسمیت 77ہزار روپے کا خرچ برداشت کرنا ہوگا۔
ایفیلیٹ کلب کو 5ہزار رجسٹریشن فیس،15ووٹنگ ممبرز کے 75ہزار،سالانہ رجسٹریشن فیس کے 20ہزار،کھلاڑیوں کی سالانہ رجسٹریشن فیس کے 4ہزار 500، صدر/خزانچی کے امیدواروں کیلیے 10ہزار سمیت ایک لاکھ 14ہزار 500ادا کرنا ہوں گے۔
اگر تینوں کیٹیگریز کے ایک ایک ہزار کلبز بھی ہوں تو مجموعی طور پر ساڑھے 23کروڑ روپے کا بوجھ ان پر پڑے گا،صرف فل ممبرز کی سرگرمیوں کو دیکھا جائے تو گراؤنڈ،جم، آفس،بلز، پیٹرول،سازوسامان کی مرمت،اسٹاف و کوچز کی تنخواہوں اور نیٹ پریکٹس پر 2سے 3لاکھ روپے ماہانہ خرچ ہوں گے،ایسوسی ایٹ کو ایک لاکھ اور ایفیلیٹ کو تقریبا60ہزار ماہانہ درکار ہوں گے،ان کلبز کا سالانہ خرچ 5ارب 63کروڑ روپے کے قریب بنتا ہے۔
نمائندہ ''ایکسپریس'' نے 10 کے قریب عہدیداروں سے رابطہ کیا تو بیشتر کا کہنا تھا کہ نئے ماڈل آئین کے تحت مالی بوجھ سمیت عجیب فیصلوں پر تشویش ہے، کوئی بھی سرکاری، نیم سرکاری محکمے یا کارپوریشن کا ملازم، ایم پی اے یا ایم این اے، کونسلر اور کسی پارٹی کا عہدیدار کسی بھی کلب کا صدر نہیں بن سکتا،بھاری اخراجات کا بوجھ اٹھانے کیلیے نئے کروڑ پتی کہاں سے تلاش کریں گے، ان حالات میں کرکٹ بھی چند امیر لوگوں کی دسترس میں رہ جائے گی۔
انھوں نے کہا کہ ایسوسی ایٹ کلب کیلیے لیول ون کوچ ہونا لازمی ہے، کئی پسماندہ علاقوں میں اس معیار کے کوچز کہاں سے آئیں گے،فل ممبر کیلیے تو کوچ کے ساتھ ساتھ ایک اپنا گراؤنڈ، فٹنس کلب، کم از کم 3 پچز اور اس پر معیاری نیٹس، انتظامی امور چلانے کے لیے دفتر ہونا ضروری ہے،کتنے کلب ان ضروریات کا اہتمام کرنے کے قابل ہوں گے، بڑی مشکل سے نیٹ کی جگہ حاصل کرنے والے میچز بھی کرائے کے گراؤنڈز پر کھیلتے ہیں تو کیا اب ان کی کرکٹ ختم ہوجائے گی۔
اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے سابق پیسر شعیب اختر نے کہاکہ پاکستان کا ٹیلنٹ پول کم نہیں ہوا لیکن اس کوکھلانے والے لوگ ختم ہوگئے،کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنے والے چاچے، بابے اور گراؤنڈ مین نہیں رہے، ہم سب کلب کرکٹ سے آگے آئے ہیں، آمد ورفت کیلیے ایک موٹرسائیکل اور ایک کلب کسی کو کرکٹرز بنانے کیلیے ضروری ہوتے تھے، بچوں سے پیسے لے کر کلب کرکٹ نہیں چلانی چاہیے، اسی لیے میں نے اپنی اکیڈمی بنانے سے گریز کیا، خواہ سابق ٹیسٹ کرکٹر یا کوئی اور شخص ہو یہ درست کام نہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہمیں کوشش کرنا چاہیے کہ ہماری کرکٹ اتنی مضبوط ہو کہ کسی کی ضرورت نہ رہے، پی سی بی کو ذرائع آمدنی بڑھانا چاہیں، ڈومیسٹک اسٹرکچر بہتر ہونا چاہیے جہاں کھلاڑی کو اچھے پیسے ملیں،6 نہیں بلکہ 18ریجنز ہونا چاہئیں،ان میں سے ہر کوئی ایک ایک ارب روپے کا سرمایہ حاصل کررہا ہو،پی سی بی کسی کو اختیار نہیں دینا چاہتا تو وہ ریجن پر پیسہ کیوں لگائے گا۔