سندھ سرکار اور تعلیمی نظام کی تباہی
پرائیوٹ اسکولوں کو فائدہ پہنچانے کےلیے سرکاری اسکولوں کو ایک سازش کے تحت اس حال تک پہنچایا گیا ہے
گزشتہ دنوں ایک خبر پڑھی، جس میں لکھا گیا کہ سندھ میں 6866 اسکول بند اور 7974 اسکول چلانے کے قابل نہیں۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے جسے سندھ حکومت نے انتہائی خاموشی کے ساتھ ایک طرف کردیا، کیوں کہ سندھ سرکار ہمیشہ تعلیم دشمنی کا ثبوت دیتی آرہی ہے اور یہ اس کےلیے کوئی بڑی بات نہیں۔
اس سے قبل کراچی پریس کلب کے سامنے اساتذہ کے مظاہرے کے دوران جب ایک رپورٹر نے ٹیچر، نیشنل اور ایپل کی اسپیلنگ دریافت کی تو ان تمام ٹیچرز حضرات کو اسپیلنگ تک معلوم نہیں تھی۔ سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ تھی کہ انہیں قومی ترانہ بھی یاد نہیں تھا۔ لیکن یہ سب اپنے اپنے حقوق کےلیے پریس کلب کے سامنے احتجاجی بن کر کھڑے تھے۔
سندھ میں تعلیمی صورت حال انتہائی خراب ہوچکی ہے۔ کئی علاقوں میں تعلیمی عمارتیں کھنڈرات کا منظر پیش کررہی ہیں تو کہیں اسکول کی عمارتیں ہی موجود نہیں۔ اب وہاں قبضہ مافیا نے اپنی رہائش گاہیں اور ڈیرے بنا لیے ہیں۔ یہ سب کیوں ہوا؟ اس کے پیچھے کون لوگ تھے؟ وہاں موجود ٹیچرز کی تنخواہیں کون وصول کررہا تھا؟ ان تمام سوالوں کے جوابات سندھ کے وزیر تعلیم کو دینے چاہئیں۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ نہ اس پر کوئی کارروائی ہوگی اور نہ کسی کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔ جس نے جتنا کمانا تھا کما لیا اور آگے بھی یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔
ایک پرنسپل نے ملاقات کے دوران بتایا کہ میں ایلیمنٹری اسکول کا پرنسپل ہوں اور گزشتہ کئی سال سے میں نے سیکریٹری ایجوکیشن کو درخواست دے رکھی ہے کہ اسکول کی چھت اس قابل نہیں یہاں بچے پڑھ سکیں، لہٰذا اس کی مرمت کرائی جائے۔ تاہم کئی سال گزرنے کے باوجود بھی اب تک اس اسکول کی چھت تعمیر نہیں کی گئی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب وہ اسکول بند کرکے اس کے سامنے دو کمرے تعمیر کردیے گئے، جہاں ڈبل شفٹ میں بچوں کو پڑھایا جارہا ہے۔
ہم اپنے ہاتھوں سے نظام تعلیم کو برباد کررہے ہیں لیکن اس پر کوئی کچھ کہنے والا نہیں۔ نہ کوئی قانون حرکت میں آتا ہے اور نہ ہی متعلقہ ادارے اس پر کوئی کارروائی کرنے کو تیار ہیں۔ ہاں البتہ جب کوئی حادثہ ہوجائے گا تو پھر تمام ادارے دوڑتے ہوئے آئیں گے اور کہیں گے کہ اس پر انکوائری کریں گے۔ اور یہ انکوائری بھی برسوں چلتی رہے گی۔ جب کہ دوسری طرف اس کا بجٹ کئی افسران نے آپس میں بانٹ بھی لیا ہوگا۔
پرائیوٹ اسکولوں کو فائدہ پہنچانے کےلیے سرکاری اسکولوں کو ایک سازش کے تحت اس حال تک پہنچایا گیا ہے۔ پہلے سرکاری اسکولوں میں پی ٹی ٹیچر اور اسکاؤٹس ٹیچرز بھی موجود ہوا کرتے تھے، جو ہاف ٹائم میں بچوں کو مختلف سرگرمیاں کرایا کرتے تھے۔ لیکن وہ بھی ختم ہوئے زمانہ بیت گیا۔ اب نہ سرکاری اسکولوں میں کوئی پی ٹی ٹیچر تعینات ہے اور نہ کسی کو معلوم ہے کہ اسکاؤٹس ٹیچرز بھی ہوا کرتے تھے۔ آج پرائیوٹ اسکول 60 گز پر تعمیر ہیں، جہاں نہ تو گراؤنڈ ہے اور نہ ہی اسمبلی لگانے کےلیے کوئی جگہ۔ لیکن اگر ان کی فیس دیکھی جائے تو معمولی سے معمولی اسکول کی فیس بھی ایک ہزار سے کم نہیں۔ ساتھ ہی جب اساتذہ کا لیول چیک کیا جائے تو معلوم ہوگا اسی اسکول سے میٹرک کرنے والی یا کرنے والا یہاں پرنسپل اور ٹیچرز کے عہدے پر براجمان ہوگا۔ ان اساتذہ کی نہ کبھی کوئی تربیت ہوئی ہے اور نہ انہیں یہ معلوم ہے کہ پڑھایا کیسے جاتا ہے۔ ان اسکولوں میں صرف رٹا لگایا جاتا ہے اور سارا بوجھ ٹیوشن اور والدین پر ڈال دیا جاتا ہے۔
کئی ایسے اسکول بھی نظروں سے گزرے جہاں کا عملہ بالکل ہی اَن پڑھ ہے۔ جنہیں یہ تک معلوم نہیں کہ اسکول میں بچوں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھنا ہے۔ ان اسکولوں میں بچوں پر تشدد کرکے انہیں اپاہج تک بنادیا جاتا ہے۔ کئی اسکولوں کی سیڑھیوں پر حفاظتی گرل تک موجود نہیں، جہاں آئے دن حادثات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ مگر یہ سب سندھ سرکار کو کبھی نظر نہیں آئے گا۔ کیوں کہ انہیں معلوم ہے کہ پرائیوٹ اسکول ایسوسی ایشنز انہیں بھاری رقوم بھتے کی صورت میں ادا کرتی ہیں اور اگر ان کے خلاف کوئی کارروائی کی تو یہ بھتہ بند ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ ان پرائیوٹ اسکول والوں نے اب بھاری تنخواہوں پر وکیل تک اپائنٹ کر رکھے ہیں، جو ان کے غیر قانونی عمل کو قانونی شکل دینے کےلیے ہر وقت تیار بیٹھے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ والدین جب بھی ان اسکولوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کا سوچتے ہیں، انہیں اسی وقت دھمکیاں ملنا شروع ہوجاتی ہیں۔
لاک ڈاؤن میں سندھ سرکار نے فیسوں میں بیس فیصد کمی کا اعلان کیا۔ جس طرح اعلان کیا اس سے صاف لگ رہا تھا کہ اس پر عملدرآمد کرانے کےلیے والدین کو کتنے پاپڑ بیلنا پڑیں گے؟ اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ چند اسکولوں کو چھوڑ کر باقی تمام اسکولوں نے پوری فیسیں وصول کیں۔ اس پر کسی اسکول کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ یہ تمام حرکتیں سندھ سرکار کے علم میں ہیں، مگر وہ اس لیے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے کہ انہیں تعلیم سے کوئی سروکار نہیں۔ یہ وڈیرہ شاہی لوگ ہیں، جو چاہتے ہیں کہ یہ قوم ہماری غلام بنی رہے۔ اگر انہیں بہتر تعلیم دے دی تو پھر ان کے نام کے کھوکھلے نعرے کون لگائے گا؟ کون انہیں ووٹ دے گا اور کون پھر ان کی آؤ بھگت کرے گا؟
کراچی میں تو معاملہ پھر بھی کچھ بہتر ہے، لیکن اندرون سندھ حالات انتہائی خراب ہیں۔ جہاں نہ اسکولز ہیں اور نہ ہی ٹیچرز۔ لیکن تنخواہیں برابر وصول کی جارہی ہیں۔ میرپور بھٹورو میں ایک اسکول میں جانے کا اتفاق ہوا، جہاں ٹیچر ہمیں دیکھ کر اتنا گھبرا گیا کہ شاید اب وہ خودکشی نہ کرلے۔ معلوم کرنے پر وہ صاحب جو ٹیچر بنے ہوئے تھے، کہنے لگے کہ میں یہاں نوکری نہیں کرتا، نوکری تو صاحب کرتا ہے، اس نے مجھے یہاں رکھا ہوا ہے اور میں جو تھوڑا پڑھا لکھا ہوں بس وہ ہی ان بچوں کو سکھاتا ہوں۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ اس گاؤں میں ڈبلیو ایف پی کی جانب سے ان بچوں کو راشن دیا جاتا تھا جو بچے اسکول جاتے تھے۔ یہ صرف ان کو دکھانے کے لیے بنایا گیا تھا، تاکہ راشن ملتا رہے۔ باقی تعلیم سے کسی کو کوئی سروکار نہیں۔
ان حالات کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام سو سال نہیں بلکہ دو سال سے بھی زائد پرانا ہے، جس پر کوئی اپڈیٹ نہیں کی گئی۔ ہم اپنے بچوں کو وہ کتابیں پڑھا رہے ہیں جس کا مستقبل سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ ہم دنیا سے مقابلے کی بات تو کرتے ہیں مگر یقین جانیے اگر آج بھی سرکاری اسکولوں کی کتابیں اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوجائے گا کہ یہ مستقبل تو دور کی بات، ماضی کی بات بھی غلط بتارہا ہے۔ حالات اگر یہی رہے تو عنقریب ہمارے ملک میں پڑھے لکھے جاہل ہوں گے، جن کے پاس ڈگری تو ہوگی مگر آتا جاتا کچھ نہیں ہوگا۔ اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو آج کے وزیروں کے بچوں کی نوکریاں کررہے ہوں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اس سے قبل کراچی پریس کلب کے سامنے اساتذہ کے مظاہرے کے دوران جب ایک رپورٹر نے ٹیچر، نیشنل اور ایپل کی اسپیلنگ دریافت کی تو ان تمام ٹیچرز حضرات کو اسپیلنگ تک معلوم نہیں تھی۔ سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ تھی کہ انہیں قومی ترانہ بھی یاد نہیں تھا۔ لیکن یہ سب اپنے اپنے حقوق کےلیے پریس کلب کے سامنے احتجاجی بن کر کھڑے تھے۔
سندھ میں تعلیمی صورت حال انتہائی خراب ہوچکی ہے۔ کئی علاقوں میں تعلیمی عمارتیں کھنڈرات کا منظر پیش کررہی ہیں تو کہیں اسکول کی عمارتیں ہی موجود نہیں۔ اب وہاں قبضہ مافیا نے اپنی رہائش گاہیں اور ڈیرے بنا لیے ہیں۔ یہ سب کیوں ہوا؟ اس کے پیچھے کون لوگ تھے؟ وہاں موجود ٹیچرز کی تنخواہیں کون وصول کررہا تھا؟ ان تمام سوالوں کے جوابات سندھ کے وزیر تعلیم کو دینے چاہئیں۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ نہ اس پر کوئی کارروائی ہوگی اور نہ کسی کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔ جس نے جتنا کمانا تھا کما لیا اور آگے بھی یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔
ایک پرنسپل نے ملاقات کے دوران بتایا کہ میں ایلیمنٹری اسکول کا پرنسپل ہوں اور گزشتہ کئی سال سے میں نے سیکریٹری ایجوکیشن کو درخواست دے رکھی ہے کہ اسکول کی چھت اس قابل نہیں یہاں بچے پڑھ سکیں، لہٰذا اس کی مرمت کرائی جائے۔ تاہم کئی سال گزرنے کے باوجود بھی اب تک اس اسکول کی چھت تعمیر نہیں کی گئی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب وہ اسکول بند کرکے اس کے سامنے دو کمرے تعمیر کردیے گئے، جہاں ڈبل شفٹ میں بچوں کو پڑھایا جارہا ہے۔
ہم اپنے ہاتھوں سے نظام تعلیم کو برباد کررہے ہیں لیکن اس پر کوئی کچھ کہنے والا نہیں۔ نہ کوئی قانون حرکت میں آتا ہے اور نہ ہی متعلقہ ادارے اس پر کوئی کارروائی کرنے کو تیار ہیں۔ ہاں البتہ جب کوئی حادثہ ہوجائے گا تو پھر تمام ادارے دوڑتے ہوئے آئیں گے اور کہیں گے کہ اس پر انکوائری کریں گے۔ اور یہ انکوائری بھی برسوں چلتی رہے گی۔ جب کہ دوسری طرف اس کا بجٹ کئی افسران نے آپس میں بانٹ بھی لیا ہوگا۔
پرائیوٹ اسکولوں کو فائدہ پہنچانے کےلیے سرکاری اسکولوں کو ایک سازش کے تحت اس حال تک پہنچایا گیا ہے۔ پہلے سرکاری اسکولوں میں پی ٹی ٹیچر اور اسکاؤٹس ٹیچرز بھی موجود ہوا کرتے تھے، جو ہاف ٹائم میں بچوں کو مختلف سرگرمیاں کرایا کرتے تھے۔ لیکن وہ بھی ختم ہوئے زمانہ بیت گیا۔ اب نہ سرکاری اسکولوں میں کوئی پی ٹی ٹیچر تعینات ہے اور نہ کسی کو معلوم ہے کہ اسکاؤٹس ٹیچرز بھی ہوا کرتے تھے۔ آج پرائیوٹ اسکول 60 گز پر تعمیر ہیں، جہاں نہ تو گراؤنڈ ہے اور نہ ہی اسمبلی لگانے کےلیے کوئی جگہ۔ لیکن اگر ان کی فیس دیکھی جائے تو معمولی سے معمولی اسکول کی فیس بھی ایک ہزار سے کم نہیں۔ ساتھ ہی جب اساتذہ کا لیول چیک کیا جائے تو معلوم ہوگا اسی اسکول سے میٹرک کرنے والی یا کرنے والا یہاں پرنسپل اور ٹیچرز کے عہدے پر براجمان ہوگا۔ ان اساتذہ کی نہ کبھی کوئی تربیت ہوئی ہے اور نہ انہیں یہ معلوم ہے کہ پڑھایا کیسے جاتا ہے۔ ان اسکولوں میں صرف رٹا لگایا جاتا ہے اور سارا بوجھ ٹیوشن اور والدین پر ڈال دیا جاتا ہے۔
کئی ایسے اسکول بھی نظروں سے گزرے جہاں کا عملہ بالکل ہی اَن پڑھ ہے۔ جنہیں یہ تک معلوم نہیں کہ اسکول میں بچوں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھنا ہے۔ ان اسکولوں میں بچوں پر تشدد کرکے انہیں اپاہج تک بنادیا جاتا ہے۔ کئی اسکولوں کی سیڑھیوں پر حفاظتی گرل تک موجود نہیں، جہاں آئے دن حادثات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ مگر یہ سب سندھ سرکار کو کبھی نظر نہیں آئے گا۔ کیوں کہ انہیں معلوم ہے کہ پرائیوٹ اسکول ایسوسی ایشنز انہیں بھاری رقوم بھتے کی صورت میں ادا کرتی ہیں اور اگر ان کے خلاف کوئی کارروائی کی تو یہ بھتہ بند ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ ان پرائیوٹ اسکول والوں نے اب بھاری تنخواہوں پر وکیل تک اپائنٹ کر رکھے ہیں، جو ان کے غیر قانونی عمل کو قانونی شکل دینے کےلیے ہر وقت تیار بیٹھے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ والدین جب بھی ان اسکولوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کا سوچتے ہیں، انہیں اسی وقت دھمکیاں ملنا شروع ہوجاتی ہیں۔
لاک ڈاؤن میں سندھ سرکار نے فیسوں میں بیس فیصد کمی کا اعلان کیا۔ جس طرح اعلان کیا اس سے صاف لگ رہا تھا کہ اس پر عملدرآمد کرانے کےلیے والدین کو کتنے پاپڑ بیلنا پڑیں گے؟ اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ چند اسکولوں کو چھوڑ کر باقی تمام اسکولوں نے پوری فیسیں وصول کیں۔ اس پر کسی اسکول کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ یہ تمام حرکتیں سندھ سرکار کے علم میں ہیں، مگر وہ اس لیے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے کہ انہیں تعلیم سے کوئی سروکار نہیں۔ یہ وڈیرہ شاہی لوگ ہیں، جو چاہتے ہیں کہ یہ قوم ہماری غلام بنی رہے۔ اگر انہیں بہتر تعلیم دے دی تو پھر ان کے نام کے کھوکھلے نعرے کون لگائے گا؟ کون انہیں ووٹ دے گا اور کون پھر ان کی آؤ بھگت کرے گا؟
کراچی میں تو معاملہ پھر بھی کچھ بہتر ہے، لیکن اندرون سندھ حالات انتہائی خراب ہیں۔ جہاں نہ اسکولز ہیں اور نہ ہی ٹیچرز۔ لیکن تنخواہیں برابر وصول کی جارہی ہیں۔ میرپور بھٹورو میں ایک اسکول میں جانے کا اتفاق ہوا، جہاں ٹیچر ہمیں دیکھ کر اتنا گھبرا گیا کہ شاید اب وہ خودکشی نہ کرلے۔ معلوم کرنے پر وہ صاحب جو ٹیچر بنے ہوئے تھے، کہنے لگے کہ میں یہاں نوکری نہیں کرتا، نوکری تو صاحب کرتا ہے، اس نے مجھے یہاں رکھا ہوا ہے اور میں جو تھوڑا پڑھا لکھا ہوں بس وہ ہی ان بچوں کو سکھاتا ہوں۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ اس گاؤں میں ڈبلیو ایف پی کی جانب سے ان بچوں کو راشن دیا جاتا تھا جو بچے اسکول جاتے تھے۔ یہ صرف ان کو دکھانے کے لیے بنایا گیا تھا، تاکہ راشن ملتا رہے۔ باقی تعلیم سے کسی کو کوئی سروکار نہیں۔
ان حالات کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام سو سال نہیں بلکہ دو سال سے بھی زائد پرانا ہے، جس پر کوئی اپڈیٹ نہیں کی گئی۔ ہم اپنے بچوں کو وہ کتابیں پڑھا رہے ہیں جس کا مستقبل سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ ہم دنیا سے مقابلے کی بات تو کرتے ہیں مگر یقین جانیے اگر آج بھی سرکاری اسکولوں کی کتابیں اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوجائے گا کہ یہ مستقبل تو دور کی بات، ماضی کی بات بھی غلط بتارہا ہے۔ حالات اگر یہی رہے تو عنقریب ہمارے ملک میں پڑھے لکھے جاہل ہوں گے، جن کے پاس ڈگری تو ہوگی مگر آتا جاتا کچھ نہیں ہوگا۔ اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو آج کے وزیروں کے بچوں کی نوکریاں کررہے ہوں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔