’’اخلاقی گراوٹ‘‘
سینیٹ کے چیئر مین کے الیکشن کے لیے اپنے سیاسی اتحادی کو پریزائیڈنگ افسر بنانا بھی سوال ہے۔
KARACHI:
ویسے تو ہمارے وزیرِاعظم صاحب کا وہ دن نامکمل اور لا حاصل رہتا ہے جس روز وہ اپوزیشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اظہار نہ کرلیں، حالانکہ جس مغرب کے اچھے اصولوںکی وہ مثالیں دیتے رہتے ہیں وہاں منتخب ہونے والے ایک صدر بائیڈن نے حلف اٹھانے کے بعد یقیناً اپنی ''ناتجربہ کاری''کی بناء پر یہ کہہ دیا ہے کہ وہ ایک پارٹی کا نہیں پورے امریکا کا صدر ہے، برطانیہ کاوزیرِاعظم بھی یہی کہتا ہے۔
اگر وہ دونوں ہمارے وزیرِاعظم صاحب سے کوئی مَت لیتے تو ایسی بچگانہ باتیں ہرگز نہ کرتے۔ مگر جب سے سینیٹ کے انتخابات کا چرچا ہوا ہے خان صاحب نے اعلیٰ اخلاقی اقدار کا درس روزانہ کی بنیادوں پر دینے کا سلسلہ شروع کیے رکھا ہے۔
اس دوران ان کی زبانِ مبارک سے ''اخلاقی گراوٹ'' کا لفظ درجنوں بار نکلا اور درجنوں بار انھوں نے اپوزیشن کو اخلاقی گراوٹ کا مرتکب پاکر سخت ترین تنقید کا نشانہ بنایا۔ ایک طرف سے خان صاحب کے خطابات کانوں میں پڑ رہے تھے اور دوسری طرف حقائق نظرآرہے تھے، لہٰذا اخلاقی گراوٹ کے متعلق پرائم منسٹر کے فرمودات سن کرانگریزی کا محاورہ یاد آتا رہا کہ "Bells call others to church but enter not in themselves" (گِرجے کی گھنٹیاں دوسروں کو گرجے میں آنے کے لیے پکارتی رہتی ہیں، مگرخود اندر نہیں جاتیں) یا دوسروں کو نصیحت اور خود میاں فضیحت۔
سینیٹ کی ٹکٹوں ہی کی بات کریں تو پی ٹی آئی نے اسلام آباد کے رہائشی ایک مالدار ٹھیکیدار کو بلوچستان سے ٹکٹ دے دیا۔ وہاں سے مزاحمت ہوئی تو ٹکٹ کینسل کرکے بلوچستان کے ایک پرانے ورکر کو دے دیا گیا جس پر پارٹی میں بھی اور میڈیا میں بھی بڑی واہ واہ ہوئی۔ ٹھیکیدار صاحب نے بعد میں بلوچستان کی پارٹی BAPسے ٹکٹ لے لیا۔ مگر اُسوقت عوام اور میڈیا کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب یہ معلوم ہوا کہ خان صاحب نے اپنے دیرینہ اور مخلص ورکر سے ٹکٹ واپس لے لیا ہے اور پھر اُسی مالدارکو سپورٹ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ یہ اعلیٰ اخلاقی معرکا سرانجام دینے کے بعد بھی حکومت کسی اخلاقی گراوٹ کی مرتکب نہیں ہوئی۔
سندھ سے پی ٹی آئی کے اہم رہنما نے میڈیا کے سامنے یہ انکشاف کردیا کہ سندھ میں ایک صاحب کو 35کروڑ کے بدلے پی ٹی آئی کا ٹکٹ عنایت کیا گیا ہے، مگر یہاں بھی پی ٹی آئی یا اس کی قیادت کسی اخلاقی گراوٹ کی مرتکب نہیں ہوئی، اخلاقی گراوٹ کا ارتکاب یہاں بھی اپوزیشن نے ہی کیا۔ یوسف رضا گیلانی کی جیت پر پرائم منسٹر صاحب بہت سیخ پا ہوئے اور انھوں نے پھر اخلاقیات کادرس دہرانا شروع کر دیا۔ اپنے گروپ کے جن (پندرہ یا سولہ) اراکینِ قومی اسمبلی نے حفیظ شیخ کے بجائے گیلانی صاحب کو ووٹ دیے انھیں ضمیرفروش، پیسے کے پجاری اور اخلاقی گراوٹ کی پست ترین سطح پر اترے ہوئے ایسے لوگ قرار دیاجن کے ناپاک وجود سے جمہوریت بدنام ہوتی ہے اور سسٹم کمزور ہوتے ہیں۔
کسی چینل پر وزیرِداخلہ سے پوچھا گیا کہ آپ تو ان 15/16 افراد کے نام جانتے ہوںگے تو انھوں نے جواب دیا ''میں تو نہیں مگر عمران خان صاحب ان کے نام جانتے ہیں'' خیال تھا کہ وزیرِاعظم یقیناً ان بے ضمیر اراکینِ قومی اسمبلی کو نہ صرف بے نقاب کریں گے بلکہ انھیں پارٹی سے نکال باہر کریں گے اور پھر قوم سے خطاب کرکے یہ اعلان بھی کریں گے کہ ''میں بے ضمیر افراد کے ووٹوں پر لعنت بھیجتا ہوں۔میں ایسے لوگوں سے اعتماد کا ووٹ نہ مانگوں گا اور نہ قبول کروں گا''۔
مگراُس وقت حیرانی ہوئی جب انھوں نے ان ''بے ضمیر'' افراد سے نہ صرف ووٹ مانگا بلکہ انھیں کہا گیا کہ ''آپ اعتماد کا ووٹ دیں، آپ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی'' ۔ مگر وزیروں کے نزدیک یہ بھی اخلاقی گراوٹ نہیں ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے پرانے دور کی دھاندلی کے ہتھکنڈوں کو خفیہ رکھنا بے حد مشکل بنا دیا ہے۔ عمران خان صاحب نے الیکشن میں پیسوں کے لین دین پر بہت واویلا مچایا ہے مگر صرف ایک سیٹ کے الیکشن پر، جس کے نتائج ان کی خواہش کے برعکس آئے ہیں ورنہ سینیٹ کے لیے پی ٹی آئی کی ٹکٹوں کی تقسیم میں پیسہ چلنے کی باتیںعام ہیں۔
کون نہیں جانتا کہ غیر سیاسی پس منظر رکھنے والے تین ارب پتی سرمایہ دار میاں نواز شریف یا شہباز شریف کی نہیں بلکہ عمران خان صاحب کی مدد سے سینیٹ میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کیا اپنے مخلص ورکروں کو نظرانداز کرکے ایسے لوگوں کو اُن کی دولت کے عوض ٹکٹ دینا اخلاقی گراوٹ نہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ پچھلے سال صادق سنجرانی صاحب کے خلاف عدمِ اعتماد کے وقت اپوزیشن کے 64 ارکان تھے اور سنجرانی کے حمایتیوں کی تعداد 36تھی۔ پھر ضمیروں کی خرید و فروحت ہوئی جس کے نتیجے میں سنجرانی صاحب کو زیادہ ووٹ مل گئے۔
اُس وقت اس مکروہ کاروبار پر تنقید کرنے کے بجائے خان صاحب نے بڑی مسّرت و شادمانی کا اظہار کیا تھا ۔ باخبر صحافی مختلف چینلوں پر بتا رہے ہیں کہ پی ٹی آئی نے جن تین ارب پتیوں کو ٹکٹ دیے ہیں وہ نیب کو مطلوب ہیںاور نو منتخب ڈپٹی چیئرمین کے بارے میں کہا جارہے کہ وہ بینکوں کے ڈیفالٹر ہیں مگر سب خاموش ہیں۔ کیا یہ بھی اخلاقی گراوٹ نہیں ہے؟
عمران خان صاحب بیس سال تک پولیس اور انتظامیہ کو بیرونی مداخلت سے پاک کرنے اور غیرسیاسی بنانے کے دعوے کرتے اور خواب دکھاتے رہے۔ مگر جب عمل کا وقت آیا تو انھوں نے ایف آئی اے ، نیب، پولیس ، اینٹی کرپشن ، آئی بی ، اور سول ایڈمنسٹریشن سمیت ہر سرکاری ادارے کا سربراہ اپنی من پسند سے تعینات کیا۔ ایف آئی اے کے سابق ڈی جی بشیر میمن نے تو بہت کچھ بتایا ہے۔ تمام باخبر لوگ جانتے ہیں کہ پولیس اور انتظامیہ میں اہم عہدوں پر تعیناتیاں ، افسروں کی ایمانداری نہیں، وفاداری دیکھ کر کی جارہی ہیں۔
ڈسکہ اور وزیرآباد کے ضمنی الیکشنوں میں پولیس اور انتظامیہ نے جس کھلے طریقے سے مداخلت کی، اس نے حکومت کا امیج بری طرح مسخ کیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ضلع افسران اس طرح کے کام صوبائی افسروں کی ہدایات کے بغیر نہیں کرسکتے تھے۔
ملک کے انتظامی سربراہ سے یہ توقع تھی کہ وہ بیس پریزائیڈنگ افسروں کے اغواء کا فوراً نوٹس لیں گے اور دھاندلی میں ملوث ہونے والے افسروں کو سزا دلائیں گے۔ مگر ان کی طرف سے خاموش رہنا، دھاندلی میں ملوث ہونے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنا بلکہ الیکشن کمیشن پر حملے شروع کردینا اس بات کاواضح ثبوت ہے کہ حکومت بھی اخلاقی گراوٹ کاشکارہوچکی ہے۔ 12مارچ کو سینیٹ میں خفیہ کیمرے نصب ہونے کے انکشاف سے تو حکومت کی ساکھ کو شدید دھچکا لگا ہے۔
چند روز پہلے مسلم لیگ(ن)کے سینئر رہنماؤں کے ساتھ پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پی ٹی آئی کے ورکروں نے بدتمیزی کی، تھپّڑ مارے، جوتے پھینکے، خاتون رہنماکی چادر کھینچی اور انھیں لاتیں ماریں، اس کی شیخ رشید نے بھی مذمت کی مگر وزیرِاعظم کے منہ سے ایک لفظ تک نہ نکلا۔اگر حکومت سیاسی مخالفت میں شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے فرائض ہی نظرانداز کردیتی ہے تو اسے اخلاقی بلندی کون کہے گا؟ ہائیکورٹ میں شہباز گل صاحب پر سیاہی پھینکنا بھی قابلِ مذمت ہے۔ ایسا ہرگزنہیں ہونا چاہیے تھا۔
سینیٹ کے چیئر مین کے الیکشن کے لیے اپنے سیاسی اتحادی کو پریزائیڈنگ افسر بنانا بھی سوال ہے۔ کیا اسے بھی سیاسی اخلاقی گراوٹ کے زمرے میں شامل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ پرچی پر ناموں کے آگے کوئی علیحدہ خانہ نہیں تھا اور مہر کہیں بھی لگائی جاسکتی تھی۔ مظفر شاہ صاحب نے یوسف رضا گیلانی کو پڑنے والے ووٹ مسترد کر دیے۔ بی آرٹی پشاور کی انکوائری رکوانا، فارن فنڈنگ کیس میں تاخیری ہتھکنڈے استعمال کرنا اور اپنے ہی نامزد کردہ چیف الیکشن کمشنر سے استعفے کا مطالبہ کرکے اُس پر دباؤ ڈالنا تاکہ وہ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ نہ سکے، یہ سیاسی اخلاقیات کی گراوٹ نہیں ہے۔ اگر وزیرِاعظم صاحب غور کریں تو انھیں سیاسی اخلاقی گراوٹ اپوزیشن سے زیادہ تحریک انصاف میں نظر آئے گی ۔
ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا
ویسے تو ہمارے وزیرِاعظم صاحب کا وہ دن نامکمل اور لا حاصل رہتا ہے جس روز وہ اپوزیشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اظہار نہ کرلیں، حالانکہ جس مغرب کے اچھے اصولوںکی وہ مثالیں دیتے رہتے ہیں وہاں منتخب ہونے والے ایک صدر بائیڈن نے حلف اٹھانے کے بعد یقیناً اپنی ''ناتجربہ کاری''کی بناء پر یہ کہہ دیا ہے کہ وہ ایک پارٹی کا نہیں پورے امریکا کا صدر ہے، برطانیہ کاوزیرِاعظم بھی یہی کہتا ہے۔
اگر وہ دونوں ہمارے وزیرِاعظم صاحب سے کوئی مَت لیتے تو ایسی بچگانہ باتیں ہرگز نہ کرتے۔ مگر جب سے سینیٹ کے انتخابات کا چرچا ہوا ہے خان صاحب نے اعلیٰ اخلاقی اقدار کا درس روزانہ کی بنیادوں پر دینے کا سلسلہ شروع کیے رکھا ہے۔
اس دوران ان کی زبانِ مبارک سے ''اخلاقی گراوٹ'' کا لفظ درجنوں بار نکلا اور درجنوں بار انھوں نے اپوزیشن کو اخلاقی گراوٹ کا مرتکب پاکر سخت ترین تنقید کا نشانہ بنایا۔ ایک طرف سے خان صاحب کے خطابات کانوں میں پڑ رہے تھے اور دوسری طرف حقائق نظرآرہے تھے، لہٰذا اخلاقی گراوٹ کے متعلق پرائم منسٹر کے فرمودات سن کرانگریزی کا محاورہ یاد آتا رہا کہ "Bells call others to church but enter not in themselves" (گِرجے کی گھنٹیاں دوسروں کو گرجے میں آنے کے لیے پکارتی رہتی ہیں، مگرخود اندر نہیں جاتیں) یا دوسروں کو نصیحت اور خود میاں فضیحت۔
سینیٹ کی ٹکٹوں ہی کی بات کریں تو پی ٹی آئی نے اسلام آباد کے رہائشی ایک مالدار ٹھیکیدار کو بلوچستان سے ٹکٹ دے دیا۔ وہاں سے مزاحمت ہوئی تو ٹکٹ کینسل کرکے بلوچستان کے ایک پرانے ورکر کو دے دیا گیا جس پر پارٹی میں بھی اور میڈیا میں بھی بڑی واہ واہ ہوئی۔ ٹھیکیدار صاحب نے بعد میں بلوچستان کی پارٹی BAPسے ٹکٹ لے لیا۔ مگر اُسوقت عوام اور میڈیا کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب یہ معلوم ہوا کہ خان صاحب نے اپنے دیرینہ اور مخلص ورکر سے ٹکٹ واپس لے لیا ہے اور پھر اُسی مالدارکو سپورٹ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ یہ اعلیٰ اخلاقی معرکا سرانجام دینے کے بعد بھی حکومت کسی اخلاقی گراوٹ کی مرتکب نہیں ہوئی۔
سندھ سے پی ٹی آئی کے اہم رہنما نے میڈیا کے سامنے یہ انکشاف کردیا کہ سندھ میں ایک صاحب کو 35کروڑ کے بدلے پی ٹی آئی کا ٹکٹ عنایت کیا گیا ہے، مگر یہاں بھی پی ٹی آئی یا اس کی قیادت کسی اخلاقی گراوٹ کی مرتکب نہیں ہوئی، اخلاقی گراوٹ کا ارتکاب یہاں بھی اپوزیشن نے ہی کیا۔ یوسف رضا گیلانی کی جیت پر پرائم منسٹر صاحب بہت سیخ پا ہوئے اور انھوں نے پھر اخلاقیات کادرس دہرانا شروع کر دیا۔ اپنے گروپ کے جن (پندرہ یا سولہ) اراکینِ قومی اسمبلی نے حفیظ شیخ کے بجائے گیلانی صاحب کو ووٹ دیے انھیں ضمیرفروش، پیسے کے پجاری اور اخلاقی گراوٹ کی پست ترین سطح پر اترے ہوئے ایسے لوگ قرار دیاجن کے ناپاک وجود سے جمہوریت بدنام ہوتی ہے اور سسٹم کمزور ہوتے ہیں۔
کسی چینل پر وزیرِداخلہ سے پوچھا گیا کہ آپ تو ان 15/16 افراد کے نام جانتے ہوںگے تو انھوں نے جواب دیا ''میں تو نہیں مگر عمران خان صاحب ان کے نام جانتے ہیں'' خیال تھا کہ وزیرِاعظم یقیناً ان بے ضمیر اراکینِ قومی اسمبلی کو نہ صرف بے نقاب کریں گے بلکہ انھیں پارٹی سے نکال باہر کریں گے اور پھر قوم سے خطاب کرکے یہ اعلان بھی کریں گے کہ ''میں بے ضمیر افراد کے ووٹوں پر لعنت بھیجتا ہوں۔میں ایسے لوگوں سے اعتماد کا ووٹ نہ مانگوں گا اور نہ قبول کروں گا''۔
مگراُس وقت حیرانی ہوئی جب انھوں نے ان ''بے ضمیر'' افراد سے نہ صرف ووٹ مانگا بلکہ انھیں کہا گیا کہ ''آپ اعتماد کا ووٹ دیں، آپ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی'' ۔ مگر وزیروں کے نزدیک یہ بھی اخلاقی گراوٹ نہیں ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے پرانے دور کی دھاندلی کے ہتھکنڈوں کو خفیہ رکھنا بے حد مشکل بنا دیا ہے۔ عمران خان صاحب نے الیکشن میں پیسوں کے لین دین پر بہت واویلا مچایا ہے مگر صرف ایک سیٹ کے الیکشن پر، جس کے نتائج ان کی خواہش کے برعکس آئے ہیں ورنہ سینیٹ کے لیے پی ٹی آئی کی ٹکٹوں کی تقسیم میں پیسہ چلنے کی باتیںعام ہیں۔
کون نہیں جانتا کہ غیر سیاسی پس منظر رکھنے والے تین ارب پتی سرمایہ دار میاں نواز شریف یا شہباز شریف کی نہیں بلکہ عمران خان صاحب کی مدد سے سینیٹ میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کیا اپنے مخلص ورکروں کو نظرانداز کرکے ایسے لوگوں کو اُن کی دولت کے عوض ٹکٹ دینا اخلاقی گراوٹ نہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ پچھلے سال صادق سنجرانی صاحب کے خلاف عدمِ اعتماد کے وقت اپوزیشن کے 64 ارکان تھے اور سنجرانی کے حمایتیوں کی تعداد 36تھی۔ پھر ضمیروں کی خرید و فروحت ہوئی جس کے نتیجے میں سنجرانی صاحب کو زیادہ ووٹ مل گئے۔
اُس وقت اس مکروہ کاروبار پر تنقید کرنے کے بجائے خان صاحب نے بڑی مسّرت و شادمانی کا اظہار کیا تھا ۔ باخبر صحافی مختلف چینلوں پر بتا رہے ہیں کہ پی ٹی آئی نے جن تین ارب پتیوں کو ٹکٹ دیے ہیں وہ نیب کو مطلوب ہیںاور نو منتخب ڈپٹی چیئرمین کے بارے میں کہا جارہے کہ وہ بینکوں کے ڈیفالٹر ہیں مگر سب خاموش ہیں۔ کیا یہ بھی اخلاقی گراوٹ نہیں ہے؟
عمران خان صاحب بیس سال تک پولیس اور انتظامیہ کو بیرونی مداخلت سے پاک کرنے اور غیرسیاسی بنانے کے دعوے کرتے اور خواب دکھاتے رہے۔ مگر جب عمل کا وقت آیا تو انھوں نے ایف آئی اے ، نیب، پولیس ، اینٹی کرپشن ، آئی بی ، اور سول ایڈمنسٹریشن سمیت ہر سرکاری ادارے کا سربراہ اپنی من پسند سے تعینات کیا۔ ایف آئی اے کے سابق ڈی جی بشیر میمن نے تو بہت کچھ بتایا ہے۔ تمام باخبر لوگ جانتے ہیں کہ پولیس اور انتظامیہ میں اہم عہدوں پر تعیناتیاں ، افسروں کی ایمانداری نہیں، وفاداری دیکھ کر کی جارہی ہیں۔
ڈسکہ اور وزیرآباد کے ضمنی الیکشنوں میں پولیس اور انتظامیہ نے جس کھلے طریقے سے مداخلت کی، اس نے حکومت کا امیج بری طرح مسخ کیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ضلع افسران اس طرح کے کام صوبائی افسروں کی ہدایات کے بغیر نہیں کرسکتے تھے۔
ملک کے انتظامی سربراہ سے یہ توقع تھی کہ وہ بیس پریزائیڈنگ افسروں کے اغواء کا فوراً نوٹس لیں گے اور دھاندلی میں ملوث ہونے والے افسروں کو سزا دلائیں گے۔ مگر ان کی طرف سے خاموش رہنا، دھاندلی میں ملوث ہونے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنا بلکہ الیکشن کمیشن پر حملے شروع کردینا اس بات کاواضح ثبوت ہے کہ حکومت بھی اخلاقی گراوٹ کاشکارہوچکی ہے۔ 12مارچ کو سینیٹ میں خفیہ کیمرے نصب ہونے کے انکشاف سے تو حکومت کی ساکھ کو شدید دھچکا لگا ہے۔
چند روز پہلے مسلم لیگ(ن)کے سینئر رہنماؤں کے ساتھ پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پی ٹی آئی کے ورکروں نے بدتمیزی کی، تھپّڑ مارے، جوتے پھینکے، خاتون رہنماکی چادر کھینچی اور انھیں لاتیں ماریں، اس کی شیخ رشید نے بھی مذمت کی مگر وزیرِاعظم کے منہ سے ایک لفظ تک نہ نکلا۔اگر حکومت سیاسی مخالفت میں شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے فرائض ہی نظرانداز کردیتی ہے تو اسے اخلاقی بلندی کون کہے گا؟ ہائیکورٹ میں شہباز گل صاحب پر سیاہی پھینکنا بھی قابلِ مذمت ہے۔ ایسا ہرگزنہیں ہونا چاہیے تھا۔
سینیٹ کے چیئر مین کے الیکشن کے لیے اپنے سیاسی اتحادی کو پریزائیڈنگ افسر بنانا بھی سوال ہے۔ کیا اسے بھی سیاسی اخلاقی گراوٹ کے زمرے میں شامل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ پرچی پر ناموں کے آگے کوئی علیحدہ خانہ نہیں تھا اور مہر کہیں بھی لگائی جاسکتی تھی۔ مظفر شاہ صاحب نے یوسف رضا گیلانی کو پڑنے والے ووٹ مسترد کر دیے۔ بی آرٹی پشاور کی انکوائری رکوانا، فارن فنڈنگ کیس میں تاخیری ہتھکنڈے استعمال کرنا اور اپنے ہی نامزد کردہ چیف الیکشن کمشنر سے استعفے کا مطالبہ کرکے اُس پر دباؤ ڈالنا تاکہ وہ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ نہ سکے، یہ سیاسی اخلاقیات کی گراوٹ نہیں ہے۔ اگر وزیرِاعظم صاحب غور کریں تو انھیں سیاسی اخلاقی گراوٹ اپوزیشن سے زیادہ تحریک انصاف میں نظر آئے گی ۔
ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا