تاریخ بہت ظالم ہے
کیا ہی خوب ہوکہ تاریخ کو مثال بناکر آکے بڑھا جائے اور 72 سال کے ناکام تجربوں کو دہرانے سے گریزکیا جائے۔
ISLAMABAD:
کوئی اگر یہ کہے کہ حالات اچھے ہیں اور آنے والے دنوں میں مزید بہتر ہونے والے ہیں تو لوگوں کی ایک بڑی تعداد شاید اس نکتہ نظر کو تسلیم نہیں کرے گی اور ایسا کرنے کی ایک نہیں متعدد وجوہ ہیں۔ عام شہریوں کے چند بنیادی مسائل ہیں جن کے وہ حل چاہتے ہیں۔
ان کا اہم ترین مسئلہ روزگار ہے۔ روزگار نہیں ہوگا تو گھر کے اخراجات کس طرح پورے ہوں گے ، دو وقت کی روٹی کیونکر میسر آئے گی ،گھرکا کرایہ کیسے ادا ہوگا ، بچے اسکول جاتے ہیں تو ان کی فیسوں اورکتابوں کے پیسے کہاں سے آئیں گے؟
اس وقت ملک میں بے روزگاروں کی تعداد خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ کاروباری مندی ہے ، کارکن ملازمتوں سے نکالے جا رہے ہیں ، صنعتی ترقی کی شرح بہت کم ہے اور مستقبل میں اس حوالے سے تیز رفتاری کے امکانات معدوم ہیں۔ ملک کے عوام کا دوسرا بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔
افراط زر میں اضافہ ، اشیاء کی طلب اور غذائی اجناس کی پیداوار میں کمی کے سبب ہرگزرتے دن کے ساتھ مہنگائی بے قابو ہوتی جارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان مسائل پر قابوکیسے پایا جاسکتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کام کے لیے کسی بڑے یا عالمی شہرت یافتہ ماہرمعاشیات کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ کون نہیں جانتا کہ جی ڈی پی یعنی مجموعی داخلی پیداوار میں کم ازکم 6 فیصد کا اضافہ انتہائی ضروری ہے۔ معیشت کا حجم نہیں بڑھے گا تو معاشی بحران ختم نہیں ہوگا، آج ہم اسی مسئلے سے دوچار ہیں۔
اس خطے میں ہماری معیشت کا حال سب سے خراب ہے۔ ہماری مجموعی داخلی پیداوار اور معاشی شرح نمو میں مثبت کے بجائے منفی اضافہ ہوا ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ ہماری معیشت پھیلنے کے بجائے سکڑتی جارہی ہے۔ 2018 میںہماری جی ڈی پی کا حجم 320 ارب ڈالر تھا اور اب وہ کم ہوکر 270 ارب ڈالر رہ گئی ہے۔ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ منفی شرح نمو 1.45 فیصد جب کہ سرکاری سطح پر اسے منفی 0.45 فیصد کہا جا رہا ہے۔ دونوں میں سے جس کے بھی اعداد وشمار درست ہوں یہ بات تو طے ہے کہ معیشت وسعت اختیارکرنے کے بجائے سکڑتی جارہی ہے۔ بے روزگاری اور مہنگائی پر قابو صرف اس وقت پایا جاسکتا ہے جب معاشی ترقی کا عمل مسلسل جاری رہے اور اس میں کوئی رکارٹ نہ ڈالی جائے۔
ہمارے لیے یہ بہانہ بنانا بھی مشکل ہے کہ کووڈ 19 کی وجہ سے معاشی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ کورونا کی عالمی وبا کو آئے ہوئے ایک سال ہوچکا ہے جب کہ معاشی گراؤٹ کا عمل کئی برسوں سے جاری ہے۔ یہ بھی دیکھنے کی بات ہے کہ جنوبی ایشیا میں صرف ہم ہی کورونا سے متاثر نہیں ہوئے ہیں۔ یہ عذاب سب پر نازل ہوا ہے۔ بنگلہ دیش، ہندوستان کے علاوہ افغانستان میں مجموعی طور پر ایک لاکھ سے زیادہ لوگ اس وبا کے باعث ہلاک ہوئے ہیں۔ ان تینوں ملکوں کی معیشتیں بھی کورونا کی وبا سے متاثر ہوئی ہیں لیکن ان کی شرح نمو میں مثبت اضافہ ہوا ہے۔ سال 2019 اور 2020 میں بنگلہ دیش، ہندوستان اور افغانستان کی شرح نمو میں علی الترتیب 5.2 فیصد ، 4.2 فیصد اور 2.9 فیصد کا اضافہ ہواہے۔ 2021 اور 2022 میں ان شرحوں میں دوگنا اضافہ متوقع ہے۔
مذکورہ بالا صورت حال کا تقاضا ہے کہ مزید وقت ضایع کیے بغیر معروضی رویہ اختیارکیا جائے۔ سب سے پہلے اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ معاشی استحکام ، سیاسی استحکام سے مشروط ہے۔ سیاسی استحکام جبر سے قائم نہیں ہوسکتا۔ جن ملکوں میں اس نسخے کو آزمایا گیا وہاں عارضی طور پر معیشت نے ترقی ضرورکی لیکن بالاخر انھیں بحران کا سامنا کرنا پڑا جس نے سب کچھ تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ جبر کے ذریعے سابق سوویت یونین نے بے مثال ترقی کی تھی لیکن ریاستی جبر کے خلاف ایسا عوامی رد عمل پیدا ہوا کہ دنیا کے یہ عظیم طاقت 15 آزاد ملکوں میں تقسیم ہوگئی۔
مشرقِ وسطیٰ ، ایشیا اور افریقہ کے درجنوں ملکوں میں آمرانہ جبرکے ذریعے مصنوعی سیاسی استحکام سے بہ ظاہرکافی ترقی ہوئی۔ تاہم ، یہ مظہر عارضی ثابت ہوا ، زیادہ تر ملک خانہ جنگی یا نیم خانہ جنگی کی حالت میں چلے گئے اور آخرکار انھیں نہ چاہتے ہوئے بھی جمہوریت کی راہ پر گامزن ہوکر ایک مضبوط سیاسی نظام کی بنیاد ڈالنی پڑی جس کے بعد ہی وہ اپنی مشکلات سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوسکے۔
پاکستان کے لیے سیاسی استحکام حاصل کرنا ،کوئی زیادہ مشکل یادقت طلب کام نہیںتھا کیونکہ یہ ملک بجائے خود سیاسی عمل اور عوام کے ووٹوں کے ذریعے وجود میں آیا تھا۔ نو آبادیاتی غلامی سے محکوم اقوام نے لڑ کرآزادی حاصل کی تھی۔ پاکستان غالباً واحد مثال ہے جو عوامی ووٹ سے تخلیق ہوا۔
کس قدر بد نصیبی ہے کہ جو ملک سیاسی عمل کا نتیجہ تھا اسے 72 سال بعد بھی سیاسی استحکام نصیب نہیں ہوسکا۔ آئین تشکیل پاتا ، انتخابات ہوجاتے تو جمہوری عمل کا آغاز ہوجاتا اور ہمارا شمار شاید آج ایشیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا۔ برطانوی استعمار نے جن قوتوں کے ذریعے ہندوستان پر حکمرانی کی تھی وہ قوتیں آزادی کے بعد ریاست پر قابض ہوگئیں۔ انھوں نے دانستہ طور پر آئین سازی کے عمل میں رکاوٹیں ڈالیں، وہ مشرقی پاکستان کی اکثریت اور مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں کی عوام سے خائف تھیں۔ لہٰذا جب تک مساوی نمایندگی (Parity) کے ذریعے مشرقی پاکستان کی اکثریت کم اور ون یونٹ کے تحت چھوٹے صوبوں کو ضم کرکے ایک صوبہ نہیں بنا دیا گیا۔
اس وقت تک انھوں نے 1956 کا آئین بھی نہیں بننے دیا۔ شدید کشمکش کے بعد جب آئین بن گیا تو اس کے تحت ہونے والے پہلے عام انتخابات سے محض چند ماہ قبل پہلا ملک گیر مارشل لاء نافذ کرکے ملک کو دو ٹکڑے کرنے کی ابتدا کردی گئی۔ اس وقت کے مشرقی پاکستان کے بنگالی بولنے والے پاکستانیوں کا سیاسی شعور ہم سے کہیں زیادہ تھا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد مرکز پر جو طاقتیں بالادست ہوئیں ، مستقبل میں اس کے ممکنہ نتائج کا اندازہ انھیں بہت جلد ہوگیا تھا۔ ابھی پاکستان کو بنے ہوئے ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ 11مارچ 1948 کو ڈھاکا کی سڑکوں پر عوام کا سیلاب امڈ آیا، جس کا مطالبہ تھا کہ بنگالی زبان کو ملک کی قومی زبان قرار دیا جائے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس جلوس کی قیادت شیر بنگال مولوی فضل الحق کر رہے تھے۔
جنھوں نے 1940 میں قرارداد لاہور پیش کی تھی اور جسے بعد ازاں قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا۔ اس جلوس میں ایک نوجوان بھی خوب نعرے لگا رہا تھا ، اس کا نام شیخ مجیب الرحمان تھا جس نے قیام پاکستان کی تحریک میں مسلم لیگ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے طالب علم رہنما کے طور پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ بنگالی پاکستانیوں نے مسلم لیگ سے مایوس ہوکر عوامی مسلم لیگ بنا لی۔ کچھ عرصے بعد اس پارٹی کا نام بدل کر عوامی لیگ رکھ دیا گیا۔ مولانا بھاشانی عوامی لیگ کے پہلے صدر اور شیخ مجیب الرحمان جوائنٹ سیکریٹری تھے۔
عوامی لیگ نے دیگر سیکولر اور قوم پرست جماعتوں سے مل کر جگتو فرنٹ (متحدہ محاذ) بنایا۔ پھر وہ معجزہ رونما ہوا جس کی توقع سیاست کے بڑے بڑے ماہرین تک کو نہیں تھی۔ جس بنگال نے 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ کو 119 میں سے 113 نسشتوں سے کامیابی دلائی تھی۔ اسی بنگال نے صرف 8 سال بعد 1954 کے انتخابات میں عوامی لیگ کو 97 فیصد اور مسلم لیگ کو 3 فیصد ووٹ دے کر پاکستان کی خالق جماعت کا صفایا کردیا۔
جنرل ایوب، اسکندر مرزا اور بیوروکریسی کے '' اعلیٰ ذہن '' لوگوں نے ان تلخ حقائق کو جاننے کے باوجود 1958 میں مارشل لاء لگایا ، سیاستدانوں کو دل کھول کر برا بھلا کہا ، انھیںبد عنوان اور نا اہل قرار دے کر سیاست سے نا اہل کردیا۔ ملک میں سیاسی استحکام قائم کرنے کا خوب ڈھنڈورا پیٹا گیا ، شاندار ترقی کا ''عشرہ'' منایا گیا، لیکن حاصل یہ ہوا کہ ملک ٹوٹ گیا۔ 1970 کے عام انتخابات کے بعد جنرل یحییٰ خان کی فوجی حکومت نے اقتدار پارلیمنٹ کو منتقل اور عوام کے مینڈیٹ کو قبول نہیں کیا جس کے ناگزیر نتیجے کے طور پر بنگلہ دیش دنیا کے نقشے پر نمودار ہوگیا۔
عرض کرنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ جبرکے ذریعے استحکام سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ بلکہ ایسا معاشی اور سیاسی بحران جنم لیتا ہے جس پر قابو پانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتا ہے۔ کیا ہی خوب ہوکہ تاریخ کو مثال بناکر آکے بڑھا جائے اور 72 سال کے ناکام تجربوں کو دہرانے سے گریزکیا جائے۔ تاریخ بڑی ظالم ہے جو اسے مثال نہیں بناتا وہ اسے مثال بنادیتی ہے۔
کوئی اگر یہ کہے کہ حالات اچھے ہیں اور آنے والے دنوں میں مزید بہتر ہونے والے ہیں تو لوگوں کی ایک بڑی تعداد شاید اس نکتہ نظر کو تسلیم نہیں کرے گی اور ایسا کرنے کی ایک نہیں متعدد وجوہ ہیں۔ عام شہریوں کے چند بنیادی مسائل ہیں جن کے وہ حل چاہتے ہیں۔
ان کا اہم ترین مسئلہ روزگار ہے۔ روزگار نہیں ہوگا تو گھر کے اخراجات کس طرح پورے ہوں گے ، دو وقت کی روٹی کیونکر میسر آئے گی ،گھرکا کرایہ کیسے ادا ہوگا ، بچے اسکول جاتے ہیں تو ان کی فیسوں اورکتابوں کے پیسے کہاں سے آئیں گے؟
اس وقت ملک میں بے روزگاروں کی تعداد خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ کاروباری مندی ہے ، کارکن ملازمتوں سے نکالے جا رہے ہیں ، صنعتی ترقی کی شرح بہت کم ہے اور مستقبل میں اس حوالے سے تیز رفتاری کے امکانات معدوم ہیں۔ ملک کے عوام کا دوسرا بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔
افراط زر میں اضافہ ، اشیاء کی طلب اور غذائی اجناس کی پیداوار میں کمی کے سبب ہرگزرتے دن کے ساتھ مہنگائی بے قابو ہوتی جارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان مسائل پر قابوکیسے پایا جاسکتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کام کے لیے کسی بڑے یا عالمی شہرت یافتہ ماہرمعاشیات کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ کون نہیں جانتا کہ جی ڈی پی یعنی مجموعی داخلی پیداوار میں کم ازکم 6 فیصد کا اضافہ انتہائی ضروری ہے۔ معیشت کا حجم نہیں بڑھے گا تو معاشی بحران ختم نہیں ہوگا، آج ہم اسی مسئلے سے دوچار ہیں۔
اس خطے میں ہماری معیشت کا حال سب سے خراب ہے۔ ہماری مجموعی داخلی پیداوار اور معاشی شرح نمو میں مثبت کے بجائے منفی اضافہ ہوا ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ ہماری معیشت پھیلنے کے بجائے سکڑتی جارہی ہے۔ 2018 میںہماری جی ڈی پی کا حجم 320 ارب ڈالر تھا اور اب وہ کم ہوکر 270 ارب ڈالر رہ گئی ہے۔ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ منفی شرح نمو 1.45 فیصد جب کہ سرکاری سطح پر اسے منفی 0.45 فیصد کہا جا رہا ہے۔ دونوں میں سے جس کے بھی اعداد وشمار درست ہوں یہ بات تو طے ہے کہ معیشت وسعت اختیارکرنے کے بجائے سکڑتی جارہی ہے۔ بے روزگاری اور مہنگائی پر قابو صرف اس وقت پایا جاسکتا ہے جب معاشی ترقی کا عمل مسلسل جاری رہے اور اس میں کوئی رکارٹ نہ ڈالی جائے۔
ہمارے لیے یہ بہانہ بنانا بھی مشکل ہے کہ کووڈ 19 کی وجہ سے معاشی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ کورونا کی عالمی وبا کو آئے ہوئے ایک سال ہوچکا ہے جب کہ معاشی گراؤٹ کا عمل کئی برسوں سے جاری ہے۔ یہ بھی دیکھنے کی بات ہے کہ جنوبی ایشیا میں صرف ہم ہی کورونا سے متاثر نہیں ہوئے ہیں۔ یہ عذاب سب پر نازل ہوا ہے۔ بنگلہ دیش، ہندوستان کے علاوہ افغانستان میں مجموعی طور پر ایک لاکھ سے زیادہ لوگ اس وبا کے باعث ہلاک ہوئے ہیں۔ ان تینوں ملکوں کی معیشتیں بھی کورونا کی وبا سے متاثر ہوئی ہیں لیکن ان کی شرح نمو میں مثبت اضافہ ہوا ہے۔ سال 2019 اور 2020 میں بنگلہ دیش، ہندوستان اور افغانستان کی شرح نمو میں علی الترتیب 5.2 فیصد ، 4.2 فیصد اور 2.9 فیصد کا اضافہ ہواہے۔ 2021 اور 2022 میں ان شرحوں میں دوگنا اضافہ متوقع ہے۔
مذکورہ بالا صورت حال کا تقاضا ہے کہ مزید وقت ضایع کیے بغیر معروضی رویہ اختیارکیا جائے۔ سب سے پہلے اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ معاشی استحکام ، سیاسی استحکام سے مشروط ہے۔ سیاسی استحکام جبر سے قائم نہیں ہوسکتا۔ جن ملکوں میں اس نسخے کو آزمایا گیا وہاں عارضی طور پر معیشت نے ترقی ضرورکی لیکن بالاخر انھیں بحران کا سامنا کرنا پڑا جس نے سب کچھ تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ جبر کے ذریعے سابق سوویت یونین نے بے مثال ترقی کی تھی لیکن ریاستی جبر کے خلاف ایسا عوامی رد عمل پیدا ہوا کہ دنیا کے یہ عظیم طاقت 15 آزاد ملکوں میں تقسیم ہوگئی۔
مشرقِ وسطیٰ ، ایشیا اور افریقہ کے درجنوں ملکوں میں آمرانہ جبرکے ذریعے مصنوعی سیاسی استحکام سے بہ ظاہرکافی ترقی ہوئی۔ تاہم ، یہ مظہر عارضی ثابت ہوا ، زیادہ تر ملک خانہ جنگی یا نیم خانہ جنگی کی حالت میں چلے گئے اور آخرکار انھیں نہ چاہتے ہوئے بھی جمہوریت کی راہ پر گامزن ہوکر ایک مضبوط سیاسی نظام کی بنیاد ڈالنی پڑی جس کے بعد ہی وہ اپنی مشکلات سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوسکے۔
پاکستان کے لیے سیاسی استحکام حاصل کرنا ،کوئی زیادہ مشکل یادقت طلب کام نہیںتھا کیونکہ یہ ملک بجائے خود سیاسی عمل اور عوام کے ووٹوں کے ذریعے وجود میں آیا تھا۔ نو آبادیاتی غلامی سے محکوم اقوام نے لڑ کرآزادی حاصل کی تھی۔ پاکستان غالباً واحد مثال ہے جو عوامی ووٹ سے تخلیق ہوا۔
کس قدر بد نصیبی ہے کہ جو ملک سیاسی عمل کا نتیجہ تھا اسے 72 سال بعد بھی سیاسی استحکام نصیب نہیں ہوسکا۔ آئین تشکیل پاتا ، انتخابات ہوجاتے تو جمہوری عمل کا آغاز ہوجاتا اور ہمارا شمار شاید آج ایشیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا۔ برطانوی استعمار نے جن قوتوں کے ذریعے ہندوستان پر حکمرانی کی تھی وہ قوتیں آزادی کے بعد ریاست پر قابض ہوگئیں۔ انھوں نے دانستہ طور پر آئین سازی کے عمل میں رکاوٹیں ڈالیں، وہ مشرقی پاکستان کی اکثریت اور مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں کی عوام سے خائف تھیں۔ لہٰذا جب تک مساوی نمایندگی (Parity) کے ذریعے مشرقی پاکستان کی اکثریت کم اور ون یونٹ کے تحت چھوٹے صوبوں کو ضم کرکے ایک صوبہ نہیں بنا دیا گیا۔
اس وقت تک انھوں نے 1956 کا آئین بھی نہیں بننے دیا۔ شدید کشمکش کے بعد جب آئین بن گیا تو اس کے تحت ہونے والے پہلے عام انتخابات سے محض چند ماہ قبل پہلا ملک گیر مارشل لاء نافذ کرکے ملک کو دو ٹکڑے کرنے کی ابتدا کردی گئی۔ اس وقت کے مشرقی پاکستان کے بنگالی بولنے والے پاکستانیوں کا سیاسی شعور ہم سے کہیں زیادہ تھا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد مرکز پر جو طاقتیں بالادست ہوئیں ، مستقبل میں اس کے ممکنہ نتائج کا اندازہ انھیں بہت جلد ہوگیا تھا۔ ابھی پاکستان کو بنے ہوئے ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ 11مارچ 1948 کو ڈھاکا کی سڑکوں پر عوام کا سیلاب امڈ آیا، جس کا مطالبہ تھا کہ بنگالی زبان کو ملک کی قومی زبان قرار دیا جائے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس جلوس کی قیادت شیر بنگال مولوی فضل الحق کر رہے تھے۔
جنھوں نے 1940 میں قرارداد لاہور پیش کی تھی اور جسے بعد ازاں قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا۔ اس جلوس میں ایک نوجوان بھی خوب نعرے لگا رہا تھا ، اس کا نام شیخ مجیب الرحمان تھا جس نے قیام پاکستان کی تحریک میں مسلم لیگ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے طالب علم رہنما کے طور پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ بنگالی پاکستانیوں نے مسلم لیگ سے مایوس ہوکر عوامی مسلم لیگ بنا لی۔ کچھ عرصے بعد اس پارٹی کا نام بدل کر عوامی لیگ رکھ دیا گیا۔ مولانا بھاشانی عوامی لیگ کے پہلے صدر اور شیخ مجیب الرحمان جوائنٹ سیکریٹری تھے۔
عوامی لیگ نے دیگر سیکولر اور قوم پرست جماعتوں سے مل کر جگتو فرنٹ (متحدہ محاذ) بنایا۔ پھر وہ معجزہ رونما ہوا جس کی توقع سیاست کے بڑے بڑے ماہرین تک کو نہیں تھی۔ جس بنگال نے 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ کو 119 میں سے 113 نسشتوں سے کامیابی دلائی تھی۔ اسی بنگال نے صرف 8 سال بعد 1954 کے انتخابات میں عوامی لیگ کو 97 فیصد اور مسلم لیگ کو 3 فیصد ووٹ دے کر پاکستان کی خالق جماعت کا صفایا کردیا۔
جنرل ایوب، اسکندر مرزا اور بیوروکریسی کے '' اعلیٰ ذہن '' لوگوں نے ان تلخ حقائق کو جاننے کے باوجود 1958 میں مارشل لاء لگایا ، سیاستدانوں کو دل کھول کر برا بھلا کہا ، انھیںبد عنوان اور نا اہل قرار دے کر سیاست سے نا اہل کردیا۔ ملک میں سیاسی استحکام قائم کرنے کا خوب ڈھنڈورا پیٹا گیا ، شاندار ترقی کا ''عشرہ'' منایا گیا، لیکن حاصل یہ ہوا کہ ملک ٹوٹ گیا۔ 1970 کے عام انتخابات کے بعد جنرل یحییٰ خان کی فوجی حکومت نے اقتدار پارلیمنٹ کو منتقل اور عوام کے مینڈیٹ کو قبول نہیں کیا جس کے ناگزیر نتیجے کے طور پر بنگلہ دیش دنیا کے نقشے پر نمودار ہوگیا۔
عرض کرنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ جبرکے ذریعے استحکام سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ بلکہ ایسا معاشی اور سیاسی بحران جنم لیتا ہے جس پر قابو پانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتا ہے۔ کیا ہی خوب ہوکہ تاریخ کو مثال بناکر آکے بڑھا جائے اور 72 سال کے ناکام تجربوں کو دہرانے سے گریزکیا جائے۔ تاریخ بڑی ظالم ہے جو اسے مثال نہیں بناتا وہ اسے مثال بنادیتی ہے۔