سندھ تعلیم میں پھر پیچھے

تعلیمی پسماندگی کے بارے میں سندھ ہائی کورٹ میں پیش کی جانے والی رپورٹ چونکا دینے والی ہے۔

tauceeph@gmail.com

ISLAMABAD:
سندھ میں 6 ہزار سے زائد اسکول بند ہیں اور 7ہزار سے زائد اسکول چلانے کے قابل نہیں۔ اسی طرح اساتذہ کی کل 46749 آسامیاں خالی ہیں جن میں پرائمری کی 32510 آسامیاں اور جونیئر ایلیمنٹری اساتذہ کی 14039 آسامیاں طویل عرصہ سے خالی ہیں۔

تعلیمی پسماندگی کے بارے میں سندھ ہائی کورٹ میں پیش کی جانے والی رپورٹ چونکا دینے والی ہے۔ Sindh Right of Children Act ۔ سندھ ہائی کورٹ میں اس قانون پر عملدرآمد کے بارے میں ایک عرضداشت دائرکی گئی۔

سندھ ہائی کورٹ کے فاضل جج جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل بنچ نے عوامی مفاد میں اس عرضداشت کو سننے کا فیصلہ کیا، محکمہ تعلیم کے مجاز حکام کو نوٹس جاری ہوئے۔ محکمہ تعلیم کے سیکریٹری نے اپنی رپورٹ میں اس حقیقت کا اقرارکیا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اساتذہ کی بھرتی کے بعد یہ اسکول کام کرنے لگیں گے۔

صوبائی حکومت اساتذہ کی بھرتیوں کا معاملہ سندھ پبلک سروس کمیشن کے سپرد کرنے پر یقین نہیں رکھتی، یوں سکھر میں قائم تعلیمی ادارے آئی بی اے کو ان اساتذہ کے ٹیسٹ لینے کا فریضہ سونپا ہے مگر حتمی تقرری سندھ کا محکمہ تعلیم کرے گا۔ اس رپورٹ کے مطالعے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ سرکاری اسکول صوبہ کے شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں ہیں۔

کراچی کے چھ اضلاع میں 229 اسکول بند ہیں، صرف ضلع ملیر میں 137 اسکول بند پڑے ہیں۔ سندھ تعلیمی شعبے میں دوسرے نمبر پر ہے۔ تعلیمی شعبہ کے بارے میں تحقیق کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں Pakistan Colition for Educatoin اور Pakistan Change Advocate نے پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں ایک جامع رپورٹ تیار کی ہے۔ Bring all the girls to School, A case for investment کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کے معاملے میں پورے ملک میں صورتحال مایوس کن ہے مگر سندھ میں حالات زیادہ خراب ہیں۔

سندھ کے دیہی علاقوں میں100پرائمری اسکولوں پر 10 سیکنڈری اسکول قائم ہیں جب کہ شہری علاقوں میں 100 پرائمری اسکولوں پر 31 سیکنڈری اسکول قائم ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سندھ میں پرائمری اسکولوں کی تعداد پنجاب سے زیادہ ہے مگر پنجاب سے طلبہ کے انرولمنٹ کے تناظر میں جائزہ لیا جائے تو سندھ کے شہری علاقوں میں آدھی اور دیہی علاقوں میں تعداد ایک تہائی سے کم ہے۔

آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم سے پہلے صوبے نصاب اور مالیاتی امورکے حوالے سے وفاقی حکومت کے محتاج تھے مگر 18ویں ترمیم کے بعد قومی مالیاتی ایوارڈ کا فارمولہ تبدیل ہوا، صوبوں کی آمدنی میں خاطرخواہ اضافہ ہوا، یوں صوبہ سندھ کی آمدنی بھی کئی سو گنا بڑھ گئی۔ پیپلز پارٹی کی اساسی دستاویز میں واضح طور پر تحریرکیا گیا تھا کہ ہر بچہ کو تعلیم دلانا ریاست کی بنیادی ذمے داری ہے۔


پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے اپنے منشورکی بناء پر تاریخ میں پہلی دفعہ تعلیم کو ریاست کی ذمے داری مانا تھا، یوں 18ویں ترمیم میں آرٹیکل 25-A شامل کیا گیا۔ اس آرٹیکل کی بناء پر ریاست ہر شہری کو تعلیم دلانے کی پابند ہوگی۔

سندھ میں لازمی تعلیم کے حق پر عملدرآمد کرنے کے لیے تاریخی قانون سازی ہوئی مگرگزشتہ 12سال کے پیپلز پارٹی کے دورکا جائزہ لیا جائے تو تعلیم کی اہمیت کو سمجھنے والوں کے لیے خون کے آنسو رونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے محکمہ تعلیم کو نوٹ چھاپنے کی مشین میں تبدیل کیا۔ سابق وزیر تعلیم پیر مظہر الحق کے دور میں محکمہ تعلیم کی ہر شعبے میں کرپشن عام ہوئی۔ پیپلز پارٹی نے برسر اقتدار آتے ہی سندھ پبلک سروس کمیشن کو مفلوج کیا۔ پورے سندھ میں اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کی آسامیوں کے لیے بازارکھل گئے۔

سندھ میں اسکولوں کی ترقی اور اساتذہ کے تقررکے لیے ورلڈ بینک امداد دیتا ہے۔ ورلڈ بینک نے اساتذہ کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے معیاری انٹری ٹیسٹ لازمی قرار دیا تھا مگرکئی ہزار اساتذہ کو بغیر ٹیسٹ کے بھرتی کیا گیا۔ بھرتی ہونے والے اساتذہ پرائمری اور سیکنڈری اسکول استاد کے معیار پر پورے نہیںاترتے تھے مگر ان افراد نے استاد بننے کے لیے کئی کئی لاکھ روپے ادا کیے تھے۔

معاملہ صرف اساتذہ تک محدود نہیں رہا ، پورے صوبہ میں اسکول اورکالج ڈائریکٹریٹ کے افسروں کے تبادلوں اور ترقیوں کے لیے اسٹاک ایکسچینج کی طرح بھاؤ لگنے لگے۔ جب ورلڈ بینک نے دھمکی دی کہ ان بے ضابطگیوں کے بعد وہ اپنا پروجیکٹ بند کردے گا تو اس وقت کے صدر آصف زرداری کو صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوا۔ انھوں نے اپنے ایک قریبی عزیز جو سینئر بیوروکریٹ تھا کو سیکریٹری تعلیم کے عہدہ پر فائزکیا۔ اس طاقتور بیوروکریٹ نے اس ایجوکیشن مافیا کے خلاف مزاحمت کی اور یہ افراد برطرف ہوئے، یوں ان افراد نے پورے صوبہ میں احتجاجی مہم چلائی۔

کراچی پریس کلب کے سامنے مہینوں احتجاجی کیمپ لگ گئے، یہ افراد جب وزیر اعلیٰ ہاؤ س جانے کے لیے ریڈ زون میں داخل ہوئے تو پولیس فورس آنسو گیس کے شیل برسانے لگی ، تیز رفتار پانی پھینکنے والی ہیوی ڈیوٹی گاڑی کے ذریعہ پانی کی بارش ہوتی تھی۔ ٹی وی چینلز یہ مناظر دکھاتے تھے، یوں ان لوگوں کے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا ہونے لگے۔ ان میں سے بعض قانونی پیچیدگیوں کی بناء پر عدالتوں سے بحال ہوئے۔

حکومت نے آئی بی اے سکھرکے انٹری ٹیسٹ کا سلسلہ چلایا۔ یہ ٹیسٹ گریڈ 17 کے ہیڈ ماسٹر کے لیے بھی رکھا گیا، یوں حتمی تقررکے لیے پھر بازار لگے۔ گریڈ 17 کے ہیڈ ماسٹرزکی آسامیوں پر آئی بی اے کے ٹیسٹ پاس کرنے والے اساتذہ کو جب بتایا گیا کہ وہ مستقل ہونے کے لیے سندھ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کریں تو پھر ان افراد نے کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی دھرنے منظم کرنے شروع کیے۔ سندھ میں معاملہ اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کے تقرر تک محدود نہیں رہا بلکہ اسکولوں کے قیام ، ان میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے 12 برسوں سے مختص کیے جانے والے فنڈز کہاں خرچ ہوئے کوئی بتانے کو تیار نہیں ہے۔

سندھ میں 6 ہزار سے زائد اسکولوں کا مستقل بند ہونا اور 7ہزار سے زائد اسکولوں کے کام نہ کرنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ سندھ کا محکمہ تعلیم اپنے فرائض انجام دینے میں ناکام رہا ہے۔ اس مقدمہ کو کور کرنے والے صحافیوں کو توقع ہے کہ معزز جج صاحبان مجاز افسروں سے ضرور پوچھ گچھ کریں گے کہ 13 ہزار کے قریب غیر فعال اسکولوں کے لیے مختص فنڈزکس مد میں خرچ ہوئے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کی آرزو کرنے والے اصحاب علم یہ سوچتے ہیں کہ یہ رپورٹ سندھ اسمبلی میں پیش ہونی چاہیے تھی اور اسمبلی کو اس رپورٹ پر غیر جانبداری سے بحث کرنی چاہیے تھی۔
Load Next Story