وطن کی خدمت کا ایک انداز

مغرب میں ’’ فنڈ ریزنگ‘‘ کے لیے نت نئے طریقے بھی اختیار کیے جاتے ہیں۔

rizpashatoronto@gmail.com

چیریٹی کا لفظ مغربی ممالک میں عام استعمال ہوتاہے۔اسلام میں بھی اس کی بہت اہمیت ہے۔ عربی میں اسے احسان بھی کہاگیا ہے۔مغربی ممالک میں اسے فنڈ ریزنگ کہا جاتا ہے ، یہاں کے مقامی لوگ اور تارکین وطن دل کھول کر اس کار خیر میں حصّہ لیتے ہیں۔

مغرب میں '' فنڈ ریزنگ'' کے لیے نت نئے طریقے بھی اختیار کیے جاتے ہیں۔لیکن ان سب کا مقصد بہرحال مستحقین کے لیے عطیات جمع کرنا ہوتا ہے۔گرمیوں میں باربی کیو کے ذریعہ، اسٹریٹ واک یا کھیلوں کے ذریعہ یاکبھی اسکول اور کالج کی لڑکیاں لوگوں کی گاڑیاں دھونے جیسے ایوینٹس یا اسی طرح کے مختلف کام کر کے ڈالرز اکھٹاکرتے ہیں۔

سخت سردی میں یخ بستہ پانی میں کْودنے جیسے پروگرام منعقد کراکر یا ٹھنڈے پانی سے بھری بالٹی اپنے اوپر اْنڈیل کرکسی خاص مقصد کے لیے ڈالرز جمع کرتے ہیں۔ بڑے اسپتالوں کے لیے بھی مقامی تنظیمیں لاکھوں ڈالرز اکھٹا کرتی ہیں، بعض اوقات یہ رقم کئی ملین ڈالروں تک پہنچ جاتی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے یہاں کی مسلم تنظیموں نے بھی مقامی اسپتالوں کے لیے فنڈ ریزینگ شروع کی ہے جو خوش آیند ہے۔

یہاں پرلوگ اْن اداروں کو جن کی مقامی طور پر ساکھ بہت اچھی ہوتی ہے بڑی سے بڑی رقم دینے میں بھی پیچھے نہیں رہتے۔ یہاں تک کہ اپنی وصیت میں ملین ڈالرز کی جائیدادیں بھی درسگاہوں اور یونیورسٹیز کے نام کر جاتے ہیں۔گزشتہ سال امریکا کے ایک ارب پتی اسٹیفن شوار زمن نے آکسفورڈ یونیورسٹی کو ایک سو پچاس ملین پاؤنڈ عطیہ کیے۔اس کے علاوہ بھی دْنیا کی دس امیر ترین شخصیات بھی دل کھول کر درسگاہوں کو امداد فراہم کرتی ہیں جن میں سے ایک نمایاں نام شام سے تعلق رکھنے والے ارب پتی وافق سیدکا ہے جنھوں نے 70ملین پاؤنڈز آکسفورڈ یونیورسٹی کو عطیہ کیے اور بعد میں انھوں نے 15ملین کی اضافی گرانٹ بھی یونیورسٹی کو دی۔ آج بھی اْن کے نام کا سید بزنس اسکول،آکسفورڈ یونیورسٹی میں موجود ہے۔

کینیڈا کے شہر ٹورانٹو میں پاکستانی دوستوں نے بھی چیریٹی کا ایک نیا انداز نکالا ہے۔ یہ کْل بارہ دوست ہیں، یہ ہر ماہ کے پہلے ہفتہ میں ڈنر کے لیے ایک ریسٹورانٹ کا انتخاب کرتے ہیں اور وہاں ڈنر کرتے ہیں اورجتنا بھی بل آتا وہ امیر یکن سسٹم کے مطابق آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں، ویٹرز کو اچھی خاصی ٹپ بھی دیتے ہیں۔ لیکن بات ابھی یہاں ختم نہیں ہوئی۔ کھانے سے فراغت کے بعد یہ دوست اپنی اپنی جیب سے سو سو ڈالرز کی اضافی رقم نکالتے ہیں۔ یوں بارہ سو ڈالرزجمع ہوجاتے ہیں۔


ہر ماہ یہ روایت دہرائی جاتی ہے ۔یہ بارہ سو ڈالر جس دوست کی اْس ماہ باری ہوتی ہے، اْسے دے دیے جاتے ہیں۔ اب وہ دوست یہ بارہ سو ڈالر پاکستان میں اپنے کسی قریبی عزیز یاکسی اور ضرورت مند یا کسی طالب علم کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے عطیہ کر دیتا ہے۔ اگلے ماہ کسی دوسرے دوست کی باری ہوتی، وہ کسی ریسٹورانٹ کا انتخاب کرتے ہیں، وہاںکھاتے پیتے اور پھر جس دوست کی باری ہوتی، اسے بارہ سو ڈالر جمع کر کے دے دیتے ہیں اور وہ بھی رقم پاکستان بھیج دیتاہے۔ان کامقصدصرف یہی ہے کہ یہ رقم وطن عزیز میں کسی ضرورت مند کے کام آسکے۔

ان دوستوں نے اس ماہانہ ملاقات اور دعوت کے انتظامی امور کے لیے ایک تین رْکنی کمیٹی قائم کر رکھی ہے جو ایک نگران کار ،اس کا نائب اور ایک منتظم پر مشتمل ہے۔ یہ تینوں عہدیدار سب دوستوں کے مشورے سے ہر ماہ ریسٹورانٹ کا انتخاب کرتے ہیں، دوستوں سے پیسے جمع کرتے ہیں اور اْس مہینے جس بھی دوست کی باری ہوتی ہے، بارہ سو ڈالرز اس کے حوالے کرتے ہیں۔ان دوستوں نے یہ سلسلہ تقریباً دو سال قبل شروع کیا تھا۔ابتدا میں اس کا مقصد اپنے کام اور کاروباری مصروفیات میں سے وقت نکال کر مہینے میں کم از کم ایک بار آپس میں ملنے کا موقع فراہم کرنا تھا تاکہ وہ صرف واٹس ایپ گروپ تک محدود ہوکرنہ رہ جائیں بلکہ ایک دوسرے سیملاقت کر سکیں۔

یہ بارہ دوست ہر ماہ کسی ایک ریسٹورانٹ میں ملتے، کھانا کھاتے، بل ادا کرتے اور کچھ دیر حال احوال پوچھنے کے بعد اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوجاتے۔ لیکن دو تین ماہ گزرنے کے بعد ایک دوست نے رائے دی کہ ہم ہر ماہ ملتے ہیں اور کھانا کھا کرگپ شپ لگاکر کر گھر چلے جاتے ہیں۔

ہمیں چاہیے کہ کھانے کے بل کے علاوہ اگر کچھ اضافی رقم بھی برداشت کرلی جائے اور پاکستان کسی ضرورت مند کو رقم بھیجنے کا کوئی سلسلہ شروع کرلیا جائے تو ہمارے اس آپس میں ملنے کا دوسروں کو بھی فائدہ ملنا شروع ہوجائے گا بالخصوص وطن عزیز پاکستان میں ہر ماہ کم از کم کسی ایک خاندان کے لیے کچھ آسانیاں پیدا ہوجائیں گی۔ سب ہی دوستوں نے اس تجویز کو پسند کیا، کیونکہ ہر شخص وطن عزیز میں رہنے والے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی مدد کرنا چاہتاہے۔

ان دوستوں نے ریسٹورانٹ میں جاکر کھانے کا یہ سلسلہ کورونا وباء سے قبل شروع کیا تھا۔لاک ڈاؤن کے دوران بھی جب جب ریسٹورانٹ کھلتے رہے یہ وہاں پہنچتے رہے ، جب بالکل ہی کوئی راستہ نہیں ہوتا تو یہ کسی پارک میں باربی کیو کر لیتے ہیں یا کیٹرنگ سروس حاصل کر کے کسی بھی ایک دوست کے گھر انتظام کر لیتے۔ لیکن پچھلے دو جنوری اور فروری میں ٹورانٹو میں STAY HOME ORDERکے بعد کسی بھی طور یہ ممکن نہ رہا تو ان دوستوں نے زوم میٹنگ اور ای میل ٹرانسفر کا سہارا لیا اور بارہ سو ڈالر جمع کرکے پاکستان بھیجنے کا بندوبست کر لیا۔

اْمید ہے کہ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد یہ دوست پہلے کی طرح ریسٹورانٹ میں جاکر انجوائے کر سکیں گے۔ سو ڈالرکوئی بہت بڑی رقم نہیں ہے لیکن بیرون ملک مقیم افراد اگر اس کالم کو پڑھ کر اپنے ہی دوستوں کا گروپ بناکر اسی طرز پر اپنے حصہ کا دیا جلانا چاہیں تو پاکستان میں کروڑوں عوام میں سے چند افراد اور خاندان کاکچھ نہ کچھ بھلا تو ضرور ہوجائے گا اور ساتھ میں پردیس میں پْرانے دوستوں کو مہینہ میں ایک بار ملنے اور باہر کھانے کا بہانہ بھی مل جائے گا۔
Load Next Story