ملکی سیاست میں بڑھتی تلخی اور بے یقینی بڑے طوفان کا پیش خیمہ
معاشی معاملات میں سیاسی مفادات پر مبنی فیصلے کسی صورت کامیاب نہیں ہوتے۔
ملکی سیاست کے اندر تلخی اور تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے جو کہ ملک و قوم کے ساتھ جمہوریت کیلئے بھی نقصان دہ ہے۔
حکومت اور اپوزیشن سیاسی معرکہ میں کامیابی کیلئے نئی صف بندی کر رہے ہیں اور دونوں جانب موجود میر جعفر اور میر صادق اپنی پارٹی کیلئے آستین کے سانپ ثابت ہو رہے ہیں۔
ڈسکہ ضمنی الیکشن ، سینیٹ الیکشن اور چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں جو کچھ ہوا ہے اس نے عوام کی نگاہ میں سیاستدانوں کو بے توقیر کردیا ہے ۔ مستقبل میں سیاست مزید الجھتی اور ٹکراو کرتی دکھائی دے رہی ہے ۔ حکومت ہمیشہ مفاہمت اور برداشت کے ساتھ آگے بڑھتی ہے لیکن ہماری موجودہ حکومت اپوزیشن سے دو قدم آگے بڑھ کر جارحانہ انداز اختیار کئے ہوئے ہے اور یہی سب سے خطرناک معاملہ ہے کیونکہ سیاسی ٹکراو سڑکوں پر تصادم میں تبدیل ہو گیا تو ریاستی اداروں کو اپنا کردارنبھانا پڑے گا۔
پی ڈی ایم نے حکومت کو ٹف ٹائم ضرور دے رکھا ہے لیکن دوسری جانب پی ڈی ایم میں بھی اختلاف رائے موجود ہے بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ـ''چوہدراہٹ'' کیلئے رسہ کشی ہو رہی ہے۔ گزشتہ روز پی ڈی ایم کے اجلا س میں آصف علی زرداری کی جانب سے میاں محمد نواز شریف کو وطن واپس آنے کا مطالبہ ایک بہت بڑی سیاسی پیش رفت ہے، اب اگر میاں صاحب واپس نہیں آتے تو ایک جانب ن لیگ کی ساکھ کو دھچکا پہنچے گا تو دوسری جانب پی ڈی ایم میں اختلافات بڑھیں گے۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو ایک دوسرے پر مکمل اعتماد نہیں ہے۔
چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں جس انداز میں یوسف رضا گیلانی اور غفور حیدری کوجس انداز میں تکنیکی شکست دی گئی ہے اس کا الزام اسٹیبلشمنٹ پر عائد کرنے والوں کو بھی شاید معلوم ہے کہ کون سے ''اپنے'' اس میں آلہ کار بنے ہیں۔ اس وقت ملک بھر میں افواہوں کا بازار گرم ہے ، حکومت کے کمزور اور غیر مستحکم ہونے کی باتوں نے پہلے سے زبوں حال معیشت کو مزید کمزور بنا ڈالا ہے۔ بیوروکریسی جو کہ نیب کے خوف سے پہلے ہی فائلوں پر دستخط کرنے سے پرہیز کرتی ہے اس نے اب مزید ''احتیاط'' برتنا شروع کردی ہے ۔
گزشتہ کئی روز سے ہر سطح کے طبقہ فکر میں ایک ہی سوال پر بات ہو رہی ہے کہ حکومت کا مستقبل کیا ہوگا؟۔ اگست2018 سے لیکر چند ماہ قبل تک یہ مضبوط تاثر حکومت کے ساتھ جڑا ہوا تھا کہ اس کے سیاہ و سفید کو اسٹیبلشمنٹ کی ''غیر متزلزل'' حمایت حاصل ہے۔ یہ تاثر اس لئے بھی مضبوط تھا کہ اپوزیشن کے تمام اہم افراد کسی نہ کسی کیس میں احتساب کے گرداب میں گھرے ہوئے تھے ۔ پھر اچانک ہواوں نے رخ تبدیل کرنا شروع کردیا، ڈسکہ کے الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کو الیکشن کمیشن نے اپنی پریس ریلیز کے ذریعے حقیقت ثابت کر دیا، پریس ریلیز کے الفاظ چیخ چیخ کر ''تبدیلی'' کا اعلان کر رہے تھے۔
حکومت اور تحریک انصاف سے الیکشن مینج تو نہیں ہو پایا لیکن انتہائی برے طریقہ سے''مس مینج'' ضرور کر لیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے جب ''دھند'' کا جواز مسترد کرتے ہوئے انتخابی نتیجہ روک لیا تو حکومت نے مکمل طاقت کے ساتھ کوشش کی کہ الیکشن کمیشن صرف 20 پولنگ اسٹیشن پر ری پولنگ کا حکم سنا دے لیکن اس معاملے میں بھی حکومت کو شکست ہوئی اور پورے حلقہ میں نئے الیکشن کا فیصلہ سنا دیا گیا ، اس فیصلے کی منسوخی کیلئے تحریک انصاف کا امیدوارعدالت میں گیا لیکن گزشتہ روز اس کی استدعا مسترد ہو گئی۔
سینیٹ الیکشن میں خفیہ بیلٹنگ کا طریقہ کار ختم کروانے کیلئے حکومت نے پہلے آرڈیننس جاری کیا اور پھر آئینی رائے حاصل کرنے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔ یہاں بھی عدالت کا فیصلہ حکومت کی منشا کے خلاف آیا ۔ حکومت پوری طرح سے مطمئن تھی کہ حفیظ شیخ آسانی سے جیت جائیں گے ، شیخ رشید سمیت کئی وزراء نے وزیر اعظم کو مکمل تسلی دلائی تھی لیکن پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری کی ''حکمت عملی'' نے یوسف رضا گیلانی کو فتح دلا دی۔ وزیر اعظم عمران خان کو حفیظ شیخ کی شکست سے شدید دھچکا لگا اور ان کی برہمی ابتک برقرار ہے۔
چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کیلئے حکومت اور مقتدر اداروں نے مشترکہ حکمت عملی اپنا کر پیپلز پارٹی کو انہی سکوں میں واپس ادائیگی کی ہے جو پیپلز پارٹی نے شیخ صاحب کے الیکشن میں دیئے تھے ۔ پیپلز پارٹی پر امید ہے کہ جس تشریح کے تحت یوسف رضا گیلانی کے ووٹ مسترد قرار دیئے گئے ہیں ۔عدالت میں وہ تشریح مسترد کردی جائے گی اور یوسف رضا گیلانی کو فاتح قرار دیا جا سکتا ہے۔
ڈسکہ کا ضمنی الیکشن آئندہ ماہ ہوگا جس میں مسلم لیگ(ن) کی امیدوار کی جیت کے واضح آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ حکومت کیلئے پریشانیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور انہیں اب تحریک انصاف فارن فنڈنگ کیس کے مستقبل قریب میں آنے والے فیصلے کی فکر لاحق ہے کیونکہ بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے کہ اس کیس میں تحریک انصاف کی پوزیشن کافی کمزور ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو ادراک نہیں ہو پا رہا کہ مختلف اہم معاملات میں انہوں نے اپنی جن حکومتی اور تنظیمی ٹیموں کو ٹاسک سونپا تھا وہ سبھی اپنے اہداف کے حصول میں ناکام ثابت ہوئی ہیں ۔
پی ڈی ایم کی سیاست میں تیزی اور سختی آرہی ہے ، پی ڈی ایم کا لانگ مارچ اور اجتماعی استعفے حکومت کی بنیادوں کو ہلا سکتے ہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ کیلئے بھی مسائل پیدا ہو رہے ہیں، ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ اداروں کی قیادت اور اہم افسروں کے نام سیاستدانوں کی تقاریر میں لیئے جا رہے ہیں اور اس حکومت کی معاشی و انتظامی ناکامیوں کا ملبہ اداروں پر ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
دوسری جانب حکومت نے الیکشن کمیشن کے خلاف محاذ کھول دیا ہے اور چیف الیکشن کمشنر سمیت ممبران سے استعفی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ الیکشن کی شفافیت ہمیشہ سے عمران خان کے منشور کا حصہ رہی ہے لیکن اب حکومت میں ہوتے ہوئے الیکشن کمیشن کے خلاف بیا ن بازی سے عوام میں یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ حکومت فارن فنڈنگ کیس سمیت دیگر معاملات میں اپنی کمزور پوزیشن کے سبب الیکشن کمیشن کو دباو میں لانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان تک نہ تو سیاسی حالات کی درست اطلاع پہنچ رہی ہے اور نہ ہی معاشی حالات کی حقیقی منظر کشی ہو رہی ہے۔ مخصوص افراد اپنے مفادات اور عزائم کی بنیاد پر من پسند عکاسی کر کے وزیر اعظم سے غلط فیصلے کروا رہے ہیں جس پر خود تحریک انصاف میں بہت تشویش پائی جاتی ہے۔
شدید مہنگائی نے حکومت کو عوام میں غیر مقبول کردیا ہے ،سوشل میڈیا پر چند ہزار ''انصافین ٹائیگرز'' کی پوسٹس کو عوامی مقبولیت اور حمایت قرار دینے والے وزراء اگر بغیر پروٹوکول عوام میں چند گھنٹے گزار لیں تو انہیں تمام بھاو معلوم ہو جائیں گے۔ پنجاب میں گورننس کے مسائل اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتے جب تک وزیر اعلی ایک مضبوط ایڈ منسٹریٹر اور منصوبہ ساز نہیں بن جاتے اور انہیں وفاق کی جانب سے خودمختاری نہیں مل جاتی۔ شنید ہے کہ مستقبل قریب میں پنجاب میں نئی بیوروکریٹک ٹیم لانچ کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں لیکن یہ سب کچھ پہلے بھی تو کیا جا چکا ہے اس کے کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے تھے۔کاسمیٹک چینجز کی بجائے میجر سرجری کی اشد ضرورت ہے بصورت دیگر پرانی بوتل پر نیا لیبل لگانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
عوام کا صبر اور برداشت ختم ہو رہی ہے، غریب تو پہلے ہی سسک رہا تھا لیکن اب تو سفید پوش گھرانے بھی شدید ترین معاشی تنگدستی کا شکار ہو چکے ہیں ۔ حکومت چاہے جتنے مرضی لنگر خانے اور پناہ گاہیں کھول دے اس سے مسائل حل نہیں ہوں گے،نمائشی اقدامات کی بجائے مسائل کی بنیاد کو تلاش کر کے اس کا حل کرنا ہوگا۔ رمضان پیکج کے تحت پنجاب حکومت نے دس کلو آٹے کا تھیلا 300 اور چینی60 روپے فی کلو میں دینے کا اعلان کر کے عوامی داد سمیٹنا چاہی ہے لیکن جب رمضان بازاروں میں ٹرکوں پر طویل قطاریں لگیں گی ،دھکم پیل ہو گی ،لوگ زیادہ اور اشیاء کم ہوں گی تب حکومت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا ہوگا۔ معاشی معاملات میں سیاسی مفادات پر مبنی فیصلے کسی صورت کامیاب نہیں ہوتے۔
حکومت اور اپوزیشن سیاسی معرکہ میں کامیابی کیلئے نئی صف بندی کر رہے ہیں اور دونوں جانب موجود میر جعفر اور میر صادق اپنی پارٹی کیلئے آستین کے سانپ ثابت ہو رہے ہیں۔
ڈسکہ ضمنی الیکشن ، سینیٹ الیکشن اور چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں جو کچھ ہوا ہے اس نے عوام کی نگاہ میں سیاستدانوں کو بے توقیر کردیا ہے ۔ مستقبل میں سیاست مزید الجھتی اور ٹکراو کرتی دکھائی دے رہی ہے ۔ حکومت ہمیشہ مفاہمت اور برداشت کے ساتھ آگے بڑھتی ہے لیکن ہماری موجودہ حکومت اپوزیشن سے دو قدم آگے بڑھ کر جارحانہ انداز اختیار کئے ہوئے ہے اور یہی سب سے خطرناک معاملہ ہے کیونکہ سیاسی ٹکراو سڑکوں پر تصادم میں تبدیل ہو گیا تو ریاستی اداروں کو اپنا کردارنبھانا پڑے گا۔
پی ڈی ایم نے حکومت کو ٹف ٹائم ضرور دے رکھا ہے لیکن دوسری جانب پی ڈی ایم میں بھی اختلاف رائے موجود ہے بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ـ''چوہدراہٹ'' کیلئے رسہ کشی ہو رہی ہے۔ گزشتہ روز پی ڈی ایم کے اجلا س میں آصف علی زرداری کی جانب سے میاں محمد نواز شریف کو وطن واپس آنے کا مطالبہ ایک بہت بڑی سیاسی پیش رفت ہے، اب اگر میاں صاحب واپس نہیں آتے تو ایک جانب ن لیگ کی ساکھ کو دھچکا پہنچے گا تو دوسری جانب پی ڈی ایم میں اختلافات بڑھیں گے۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو ایک دوسرے پر مکمل اعتماد نہیں ہے۔
چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں جس انداز میں یوسف رضا گیلانی اور غفور حیدری کوجس انداز میں تکنیکی شکست دی گئی ہے اس کا الزام اسٹیبلشمنٹ پر عائد کرنے والوں کو بھی شاید معلوم ہے کہ کون سے ''اپنے'' اس میں آلہ کار بنے ہیں۔ اس وقت ملک بھر میں افواہوں کا بازار گرم ہے ، حکومت کے کمزور اور غیر مستحکم ہونے کی باتوں نے پہلے سے زبوں حال معیشت کو مزید کمزور بنا ڈالا ہے۔ بیوروکریسی جو کہ نیب کے خوف سے پہلے ہی فائلوں پر دستخط کرنے سے پرہیز کرتی ہے اس نے اب مزید ''احتیاط'' برتنا شروع کردی ہے ۔
گزشتہ کئی روز سے ہر سطح کے طبقہ فکر میں ایک ہی سوال پر بات ہو رہی ہے کہ حکومت کا مستقبل کیا ہوگا؟۔ اگست2018 سے لیکر چند ماہ قبل تک یہ مضبوط تاثر حکومت کے ساتھ جڑا ہوا تھا کہ اس کے سیاہ و سفید کو اسٹیبلشمنٹ کی ''غیر متزلزل'' حمایت حاصل ہے۔ یہ تاثر اس لئے بھی مضبوط تھا کہ اپوزیشن کے تمام اہم افراد کسی نہ کسی کیس میں احتساب کے گرداب میں گھرے ہوئے تھے ۔ پھر اچانک ہواوں نے رخ تبدیل کرنا شروع کردیا، ڈسکہ کے الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کو الیکشن کمیشن نے اپنی پریس ریلیز کے ذریعے حقیقت ثابت کر دیا، پریس ریلیز کے الفاظ چیخ چیخ کر ''تبدیلی'' کا اعلان کر رہے تھے۔
حکومت اور تحریک انصاف سے الیکشن مینج تو نہیں ہو پایا لیکن انتہائی برے طریقہ سے''مس مینج'' ضرور کر لیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے جب ''دھند'' کا جواز مسترد کرتے ہوئے انتخابی نتیجہ روک لیا تو حکومت نے مکمل طاقت کے ساتھ کوشش کی کہ الیکشن کمیشن صرف 20 پولنگ اسٹیشن پر ری پولنگ کا حکم سنا دے لیکن اس معاملے میں بھی حکومت کو شکست ہوئی اور پورے حلقہ میں نئے الیکشن کا فیصلہ سنا دیا گیا ، اس فیصلے کی منسوخی کیلئے تحریک انصاف کا امیدوارعدالت میں گیا لیکن گزشتہ روز اس کی استدعا مسترد ہو گئی۔
سینیٹ الیکشن میں خفیہ بیلٹنگ کا طریقہ کار ختم کروانے کیلئے حکومت نے پہلے آرڈیننس جاری کیا اور پھر آئینی رائے حاصل کرنے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔ یہاں بھی عدالت کا فیصلہ حکومت کی منشا کے خلاف آیا ۔ حکومت پوری طرح سے مطمئن تھی کہ حفیظ شیخ آسانی سے جیت جائیں گے ، شیخ رشید سمیت کئی وزراء نے وزیر اعظم کو مکمل تسلی دلائی تھی لیکن پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری کی ''حکمت عملی'' نے یوسف رضا گیلانی کو فتح دلا دی۔ وزیر اعظم عمران خان کو حفیظ شیخ کی شکست سے شدید دھچکا لگا اور ان کی برہمی ابتک برقرار ہے۔
چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کیلئے حکومت اور مقتدر اداروں نے مشترکہ حکمت عملی اپنا کر پیپلز پارٹی کو انہی سکوں میں واپس ادائیگی کی ہے جو پیپلز پارٹی نے شیخ صاحب کے الیکشن میں دیئے تھے ۔ پیپلز پارٹی پر امید ہے کہ جس تشریح کے تحت یوسف رضا گیلانی کے ووٹ مسترد قرار دیئے گئے ہیں ۔عدالت میں وہ تشریح مسترد کردی جائے گی اور یوسف رضا گیلانی کو فاتح قرار دیا جا سکتا ہے۔
ڈسکہ کا ضمنی الیکشن آئندہ ماہ ہوگا جس میں مسلم لیگ(ن) کی امیدوار کی جیت کے واضح آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ حکومت کیلئے پریشانیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور انہیں اب تحریک انصاف فارن فنڈنگ کیس کے مستقبل قریب میں آنے والے فیصلے کی فکر لاحق ہے کیونکہ بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے کہ اس کیس میں تحریک انصاف کی پوزیشن کافی کمزور ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو ادراک نہیں ہو پا رہا کہ مختلف اہم معاملات میں انہوں نے اپنی جن حکومتی اور تنظیمی ٹیموں کو ٹاسک سونپا تھا وہ سبھی اپنے اہداف کے حصول میں ناکام ثابت ہوئی ہیں ۔
پی ڈی ایم کی سیاست میں تیزی اور سختی آرہی ہے ، پی ڈی ایم کا لانگ مارچ اور اجتماعی استعفے حکومت کی بنیادوں کو ہلا سکتے ہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ کیلئے بھی مسائل پیدا ہو رہے ہیں، ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ اداروں کی قیادت اور اہم افسروں کے نام سیاستدانوں کی تقاریر میں لیئے جا رہے ہیں اور اس حکومت کی معاشی و انتظامی ناکامیوں کا ملبہ اداروں پر ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
دوسری جانب حکومت نے الیکشن کمیشن کے خلاف محاذ کھول دیا ہے اور چیف الیکشن کمشنر سمیت ممبران سے استعفی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ الیکشن کی شفافیت ہمیشہ سے عمران خان کے منشور کا حصہ رہی ہے لیکن اب حکومت میں ہوتے ہوئے الیکشن کمیشن کے خلاف بیا ن بازی سے عوام میں یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ حکومت فارن فنڈنگ کیس سمیت دیگر معاملات میں اپنی کمزور پوزیشن کے سبب الیکشن کمیشن کو دباو میں لانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان تک نہ تو سیاسی حالات کی درست اطلاع پہنچ رہی ہے اور نہ ہی معاشی حالات کی حقیقی منظر کشی ہو رہی ہے۔ مخصوص افراد اپنے مفادات اور عزائم کی بنیاد پر من پسند عکاسی کر کے وزیر اعظم سے غلط فیصلے کروا رہے ہیں جس پر خود تحریک انصاف میں بہت تشویش پائی جاتی ہے۔
شدید مہنگائی نے حکومت کو عوام میں غیر مقبول کردیا ہے ،سوشل میڈیا پر چند ہزار ''انصافین ٹائیگرز'' کی پوسٹس کو عوامی مقبولیت اور حمایت قرار دینے والے وزراء اگر بغیر پروٹوکول عوام میں چند گھنٹے گزار لیں تو انہیں تمام بھاو معلوم ہو جائیں گے۔ پنجاب میں گورننس کے مسائل اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتے جب تک وزیر اعلی ایک مضبوط ایڈ منسٹریٹر اور منصوبہ ساز نہیں بن جاتے اور انہیں وفاق کی جانب سے خودمختاری نہیں مل جاتی۔ شنید ہے کہ مستقبل قریب میں پنجاب میں نئی بیوروکریٹک ٹیم لانچ کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں لیکن یہ سب کچھ پہلے بھی تو کیا جا چکا ہے اس کے کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے تھے۔کاسمیٹک چینجز کی بجائے میجر سرجری کی اشد ضرورت ہے بصورت دیگر پرانی بوتل پر نیا لیبل لگانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
عوام کا صبر اور برداشت ختم ہو رہی ہے، غریب تو پہلے ہی سسک رہا تھا لیکن اب تو سفید پوش گھرانے بھی شدید ترین معاشی تنگدستی کا شکار ہو چکے ہیں ۔ حکومت چاہے جتنے مرضی لنگر خانے اور پناہ گاہیں کھول دے اس سے مسائل حل نہیں ہوں گے،نمائشی اقدامات کی بجائے مسائل کی بنیاد کو تلاش کر کے اس کا حل کرنا ہوگا۔ رمضان پیکج کے تحت پنجاب حکومت نے دس کلو آٹے کا تھیلا 300 اور چینی60 روپے فی کلو میں دینے کا اعلان کر کے عوامی داد سمیٹنا چاہی ہے لیکن جب رمضان بازاروں میں ٹرکوں پر طویل قطاریں لگیں گی ،دھکم پیل ہو گی ،لوگ زیادہ اور اشیاء کم ہوں گی تب حکومت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا ہوگا۔ معاشی معاملات میں سیاسی مفادات پر مبنی فیصلے کسی صورت کامیاب نہیں ہوتے۔