کورونا وائرس کی تیسری لہر صوبائی حکومت کنٹرول کے لئے پوری طرح متحرک
کورونا اور مہنگائی کا جن ملک بھر کی طرح سندھ میں بتدریج تباہی پھیلا رہا ہے۔
ملک بھر کی طرح سندھ میں بھی کورونا وائرس کی تیسری لہر کا آغاز ہو چکا ہے، اس لہر سے عوام کو بچانے کے لیے حکومت سندھ نے صوبے بھر میں پاپندیوں کا نیا حکم نامہ جاری کردیا ہے۔
کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی)کی ہدایات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت سندھ نے 15اپریل تک تمام کاروبار، شاپنگ مال اور شادی ہال رات 10 بجے تک بند کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
محکمہ داخلہ حکومتِ سندھ کے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق صوبے بھر میں تمام کاروبار، دکانوں، شاپنگ مال اور شادی ہال کو صبح 6 بجے سے لے کر رات 10 بجے تک کھولنے کی اجازت ہوگی، البتہ میڈیکل اسٹور، کلینک، ہسپتال، پیٹرول پمپ، بیکری، دودھ کی دکانوں اور ریسٹورنٹس کو اس پابندی سے استثنیٰ حاصل ہو گا۔ تمام پارکس شام 6 بجے تک بند کر دیے جائیں گے جبکہ سرکاری اور نجی دفاتر میں 50 فیصد عملے کے ساتھ کام کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں اور بقیہ عملے کو گھر سے کام کرنے کا کہا گیا ہے۔
اس سلسلے میں مزید واضح کیا گیا ہے کہ شادی ہال کے اندر تقریبات کی اجازت نہیں ہو گی اور آؤٹ ڈور میں ایس او پیز کے ساتھ زیادہ سے زیادہ 300 افراد کو تقریب میں شرکت کی اجازت ہو گی۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیاہے کہ ریسٹورنٹ کے اندر بھی بیٹھ کر کھانے کی اجازت نہیں ہو گی اور وہ ہوم ڈیلیوری یا کھانا گھر لے جا کر کھا سکیں گے۔صوبائی حکومت نے نئی پابندیوں کا اطلاق کرتے ہوئے ان ڈور جم، کھیلوں کی سہولیات، سینما، تھیٹر اور مزارات پر بھی پابندی عائد کردی ہے جبکہ باہر منعقد کی جانے والی تقریبات میں بھی زیادہ سے زیادہ 300 افراد کو بلانے کی اجازت ہو گی۔ان تمام پابندیوں کے اطلاق کے ساتھ ساتھ تمام سرکاری اور نجی دفاتر کے ساتھ ساتھ عوامی مقامات پر فیس ماسک اور سماجی فاصلوں کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔
نوٹیفکیشن کے مطابق اگر کسی مقام پر وبا کے ہاٹ اسپاٹ کی نشاندہی ہوتی ہے تو سابقہ فیصلے کے تحت متعلقہ کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کی جانب سے اسمارٹ لاک ڈاؤن نافذ کردیا جائے گا۔ان پاپندیوں کا نوٹیفیکیشن تو حکومت سندھ نے جاری کردیا ہے تاہم صوبے میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔کراچی سمیت صوبے بھر میں عوام نے کورونا ایس اوپیز کو ہوا میں اڑا دیا ہے۔کراچی سمیت صوبہ بھر میں عوام کی بڑی تعداد ماسک پہننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مارکیٹوں اور بازاروں سمیت روزمرہ کی اشیاء کی دکانوں اور عوامی مقامات پر کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔
دکاندار ہو یا خریدار کوئی بھی سماجی دوری سمیت کورونا سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کر رہا ہے۔ مارکیٹوں اور بازاروں میں رش دکھائی دیتا ہے۔ پبلک اور انٹرسٹی ٹرانسپورٹ میں بھی کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد کے لیے عوام تیار نہیں ہیں۔سب سے زیادہ خراب صورتحال کراچی میں ہے۔کراچی کی عوام تو کورونا کو ماننے کے لیے اب تیار ہی نہیں ہیں۔ان ایس اوپیز پر عمل درآمد کرانے کے لیے ضلعی انتظامیہ کی کارروائیاں بھی صرف رسمی طور پر دکھائی دیتی ہیں۔کراچی رات کو جاگتا ہے۔
اس حکم نامے کے جاری کرنے کے باوجود شہر کے بیشتر علاقوں میں کاروباری سرگرمیاں معمول کے مطابق رات کوجاری ہیں۔کھانے پینے کے ہوٹلز اور چائے خانوں کی بڑی تعداد میں عوام کا جم غفیر نظر آتا ہے۔اس صورتحال پر کراچی میں انتظامیہ اور پولیس نے پراسرار طور پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔اس حوالے سے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریڑی جنرل پروفیسرڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا ہے کہ کورونا کی تیسری لہر خطرناک ہے۔
اگر سندھ میں عوام نے ماسک کا استعمال اور کورونا ایس اوپیزپر عمل درآمد نہیں کیا تو یہ وائرس تیزی سے پھیل سکتا ہے اور صورتحال بے قابو ہو سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو ماسک کے لازمی استعمال اور کو رونا ایس او پیز پر عمل درآمد کرانے کے لیے مذید قانونی آپشنز استعمال کرنا ہوں گے بصورت اس وباء کو ممکنہ طور پر تیزی سے پھیلنے سے روکنے کے لیے دوبارہ مکمل لاک ڈاؤن لگانا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ 60برس سے زائد عمر کے افراد لازمی طور پر کورونا ویکسین لگوائیں۔ادھر محکمہ صحت نے کورونا وباء کی تیسری لہر سے نمٹنے کے لیے دوبارہ اقدامات شروع کردیئے ہیں۔اسپتالوں میں کورونا وارڈز کو دوبارہ فعال کیا جا رہا ہے۔
کورونا کی تباہ کاریاں تو گذشتہ ایک برس سے جاری ہیں۔ اس وباء نے جہاں کراچی سمیت صوبہ بھر میں لوگوں کی زندگیاں چھین لی ہیں۔ وہاں بے شمار افراد بے روز گار ہوئے ہیں۔ اب رہی سہی کسر مہنگائی نے پوری کر دی ہے ۔کورونا کے بعد مہنگائی کا جن عوام کی زندگیاں برباد کرنے پر تلا ہو اہے۔ کراچی سمیت سندھ بھر میں آٹا، چینی، دودھ، دالیں، کھانے پکانے کا تیل، گھی، مرغی اور گائے کا گوشت اور دیگر اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں۔اجناس کے کاروبار سے وابستہ تاجروں اور دکانداروں کا جب دل چاہتا ہے وہ ان اشیاء کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں ۔ وفاقی وصوبائی حکومتوں میں کوئی بھی ان منافع خوروں کو پوچھنے والا نہیں ہے۔ اس مہنگائی کے طوفان میں سب سے زیاد ہ متاثر روزانہ اجرت پر کمانے والے ہو رہے ہیں۔
وفاق کی حکمراں جماعت پی ٹی آئی ہو یا سندھ کی حکمراں جماعت پیپلز پارٹی۔ یہ دونوں جماعتیں صرف الزام تراشی کی سیاست میں لگی ہوئی ہیں۔ عوام کو کورونا کی تیسری لہر سے آگاہ اور ڈرایا توجا رہا ہے لیکن حکومتی جماعت ہویا اپوزیشن سب معمول کے مطابق سیاست کر رہے ہیں۔ سینیٹ کا دنگل ختم ہو چکا ہے۔ اب پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کا چرچا ہے۔ پی ڈی ایم نے عندیہ دیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے لیے اپوزیشن کے لانگ مارچ کا آغاز26 مارچ کو کراچی سے ہوگا۔اس لانگ مارچ کے کیا نتائج ہوں گے؟ یہ تو وقت بتائے گا۔
وامی حلقے یہ سوال ضرور کرتے ہیں کہ کیا سیاسی سر گرمیوں کو کورونا سے استشنی ٰ حاصل ہے؟۔کورونا اور مہنگائی کا جن ملک بھر کی طرح سندھ میں بتدریج تباہی پھیلا رہا ہے۔ اب رمضان قریب ہے، رمضان میں عوام کیسے اس تباہ کاریوں سے بچیں گے یہ تو وہی بہتر جانتے ہیں۔ ایک جانب ملک بھر کی طرح سندھ میں بھی کورونا کی وباء عوام سے ان کی زندگی چھین رہی ہے۔
دوسری جانب مہنگائی عوام کی کمر توڑ رہی ہے اور اس سے ان میں بھوک و فاقوں کاخوف بڑھ رہا ہے۔ عوام کو ان دونوں جنات سے کیسے اور کب بچایا جائے گا؟۔ ان جنات سے آزادی کا نسخہ تو حکمرانوں کے پاس ہے لیکن وہ اس بارے کب سوچیں گے؟ اس کا جواب تو وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بہتر طور پر دے سکتے ہیں۔ تحریک انصاف ہویا پیپلز پارٹی کی قیادت یہ بات وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اقتدار پر وہ عوام کے ووٹوں کی طاقت سے آئے ہیں۔
اگر ان حکمرانوں نے عوام کو کورونا اور مہنگائی کے جنات سے بچانے کے لیے سنجیدہ اقدام نہیں کیے تو پھر آئندہ ان کے لیے اقتدار حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ کورونا سے بچنے کے لیے ایس او پیز پر عمل کریں کیونکہ احتیاط ہی اس وباء سے بچنے کا جسمانی اور معاشی علاج ہے۔
مہنگائی کا علاج تو یہی ہے کہ اشیائے خورونوش مہنگی کرنے والوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ بس آخر میں یہی دعا کی جا سکتی ہے کہ خدا حکمرانوں کو عوام کے مسائل حل کرنے کی توفیق دے۔ اگرسندھ میں اب بھی موجودہ وفاقی وصوبائی حکمرانوں کی جانب سے عوامی مسائل کے حل پر توجہ نہیں دی گئی تو صوبے میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کو کسی بھی لمحے کوئی عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔
کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی)کی ہدایات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت سندھ نے 15اپریل تک تمام کاروبار، شاپنگ مال اور شادی ہال رات 10 بجے تک بند کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
محکمہ داخلہ حکومتِ سندھ کے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق صوبے بھر میں تمام کاروبار، دکانوں، شاپنگ مال اور شادی ہال کو صبح 6 بجے سے لے کر رات 10 بجے تک کھولنے کی اجازت ہوگی، البتہ میڈیکل اسٹور، کلینک، ہسپتال، پیٹرول پمپ، بیکری، دودھ کی دکانوں اور ریسٹورنٹس کو اس پابندی سے استثنیٰ حاصل ہو گا۔ تمام پارکس شام 6 بجے تک بند کر دیے جائیں گے جبکہ سرکاری اور نجی دفاتر میں 50 فیصد عملے کے ساتھ کام کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں اور بقیہ عملے کو گھر سے کام کرنے کا کہا گیا ہے۔
اس سلسلے میں مزید واضح کیا گیا ہے کہ شادی ہال کے اندر تقریبات کی اجازت نہیں ہو گی اور آؤٹ ڈور میں ایس او پیز کے ساتھ زیادہ سے زیادہ 300 افراد کو تقریب میں شرکت کی اجازت ہو گی۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیاہے کہ ریسٹورنٹ کے اندر بھی بیٹھ کر کھانے کی اجازت نہیں ہو گی اور وہ ہوم ڈیلیوری یا کھانا گھر لے جا کر کھا سکیں گے۔صوبائی حکومت نے نئی پابندیوں کا اطلاق کرتے ہوئے ان ڈور جم، کھیلوں کی سہولیات، سینما، تھیٹر اور مزارات پر بھی پابندی عائد کردی ہے جبکہ باہر منعقد کی جانے والی تقریبات میں بھی زیادہ سے زیادہ 300 افراد کو بلانے کی اجازت ہو گی۔ان تمام پابندیوں کے اطلاق کے ساتھ ساتھ تمام سرکاری اور نجی دفاتر کے ساتھ ساتھ عوامی مقامات پر فیس ماسک اور سماجی فاصلوں کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔
نوٹیفکیشن کے مطابق اگر کسی مقام پر وبا کے ہاٹ اسپاٹ کی نشاندہی ہوتی ہے تو سابقہ فیصلے کے تحت متعلقہ کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کی جانب سے اسمارٹ لاک ڈاؤن نافذ کردیا جائے گا۔ان پاپندیوں کا نوٹیفیکیشن تو حکومت سندھ نے جاری کردیا ہے تاہم صوبے میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔کراچی سمیت صوبے بھر میں عوام نے کورونا ایس اوپیز کو ہوا میں اڑا دیا ہے۔کراچی سمیت صوبہ بھر میں عوام کی بڑی تعداد ماسک پہننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مارکیٹوں اور بازاروں سمیت روزمرہ کی اشیاء کی دکانوں اور عوامی مقامات پر کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔
دکاندار ہو یا خریدار کوئی بھی سماجی دوری سمیت کورونا سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کر رہا ہے۔ مارکیٹوں اور بازاروں میں رش دکھائی دیتا ہے۔ پبلک اور انٹرسٹی ٹرانسپورٹ میں بھی کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد کے لیے عوام تیار نہیں ہیں۔سب سے زیادہ خراب صورتحال کراچی میں ہے۔کراچی کی عوام تو کورونا کو ماننے کے لیے اب تیار ہی نہیں ہیں۔ان ایس اوپیز پر عمل درآمد کرانے کے لیے ضلعی انتظامیہ کی کارروائیاں بھی صرف رسمی طور پر دکھائی دیتی ہیں۔کراچی رات کو جاگتا ہے۔
اس حکم نامے کے جاری کرنے کے باوجود شہر کے بیشتر علاقوں میں کاروباری سرگرمیاں معمول کے مطابق رات کوجاری ہیں۔کھانے پینے کے ہوٹلز اور چائے خانوں کی بڑی تعداد میں عوام کا جم غفیر نظر آتا ہے۔اس صورتحال پر کراچی میں انتظامیہ اور پولیس نے پراسرار طور پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔اس حوالے سے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریڑی جنرل پروفیسرڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا ہے کہ کورونا کی تیسری لہر خطرناک ہے۔
اگر سندھ میں عوام نے ماسک کا استعمال اور کورونا ایس اوپیزپر عمل درآمد نہیں کیا تو یہ وائرس تیزی سے پھیل سکتا ہے اور صورتحال بے قابو ہو سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو ماسک کے لازمی استعمال اور کو رونا ایس او پیز پر عمل درآمد کرانے کے لیے مذید قانونی آپشنز استعمال کرنا ہوں گے بصورت اس وباء کو ممکنہ طور پر تیزی سے پھیلنے سے روکنے کے لیے دوبارہ مکمل لاک ڈاؤن لگانا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ 60برس سے زائد عمر کے افراد لازمی طور پر کورونا ویکسین لگوائیں۔ادھر محکمہ صحت نے کورونا وباء کی تیسری لہر سے نمٹنے کے لیے دوبارہ اقدامات شروع کردیئے ہیں۔اسپتالوں میں کورونا وارڈز کو دوبارہ فعال کیا جا رہا ہے۔
کورونا کی تباہ کاریاں تو گذشتہ ایک برس سے جاری ہیں۔ اس وباء نے جہاں کراچی سمیت صوبہ بھر میں لوگوں کی زندگیاں چھین لی ہیں۔ وہاں بے شمار افراد بے روز گار ہوئے ہیں۔ اب رہی سہی کسر مہنگائی نے پوری کر دی ہے ۔کورونا کے بعد مہنگائی کا جن عوام کی زندگیاں برباد کرنے پر تلا ہو اہے۔ کراچی سمیت سندھ بھر میں آٹا، چینی، دودھ، دالیں، کھانے پکانے کا تیل، گھی، مرغی اور گائے کا گوشت اور دیگر اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں۔اجناس کے کاروبار سے وابستہ تاجروں اور دکانداروں کا جب دل چاہتا ہے وہ ان اشیاء کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں ۔ وفاقی وصوبائی حکومتوں میں کوئی بھی ان منافع خوروں کو پوچھنے والا نہیں ہے۔ اس مہنگائی کے طوفان میں سب سے زیاد ہ متاثر روزانہ اجرت پر کمانے والے ہو رہے ہیں۔
وفاق کی حکمراں جماعت پی ٹی آئی ہو یا سندھ کی حکمراں جماعت پیپلز پارٹی۔ یہ دونوں جماعتیں صرف الزام تراشی کی سیاست میں لگی ہوئی ہیں۔ عوام کو کورونا کی تیسری لہر سے آگاہ اور ڈرایا توجا رہا ہے لیکن حکومتی جماعت ہویا اپوزیشن سب معمول کے مطابق سیاست کر رہے ہیں۔ سینیٹ کا دنگل ختم ہو چکا ہے۔ اب پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کا چرچا ہے۔ پی ڈی ایم نے عندیہ دیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے لیے اپوزیشن کے لانگ مارچ کا آغاز26 مارچ کو کراچی سے ہوگا۔اس لانگ مارچ کے کیا نتائج ہوں گے؟ یہ تو وقت بتائے گا۔
وامی حلقے یہ سوال ضرور کرتے ہیں کہ کیا سیاسی سر گرمیوں کو کورونا سے استشنی ٰ حاصل ہے؟۔کورونا اور مہنگائی کا جن ملک بھر کی طرح سندھ میں بتدریج تباہی پھیلا رہا ہے۔ اب رمضان قریب ہے، رمضان میں عوام کیسے اس تباہ کاریوں سے بچیں گے یہ تو وہی بہتر جانتے ہیں۔ ایک جانب ملک بھر کی طرح سندھ میں بھی کورونا کی وباء عوام سے ان کی زندگی چھین رہی ہے۔
دوسری جانب مہنگائی عوام کی کمر توڑ رہی ہے اور اس سے ان میں بھوک و فاقوں کاخوف بڑھ رہا ہے۔ عوام کو ان دونوں جنات سے کیسے اور کب بچایا جائے گا؟۔ ان جنات سے آزادی کا نسخہ تو حکمرانوں کے پاس ہے لیکن وہ اس بارے کب سوچیں گے؟ اس کا جواب تو وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بہتر طور پر دے سکتے ہیں۔ تحریک انصاف ہویا پیپلز پارٹی کی قیادت یہ بات وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اقتدار پر وہ عوام کے ووٹوں کی طاقت سے آئے ہیں۔
اگر ان حکمرانوں نے عوام کو کورونا اور مہنگائی کے جنات سے بچانے کے لیے سنجیدہ اقدام نہیں کیے تو پھر آئندہ ان کے لیے اقتدار حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ کورونا سے بچنے کے لیے ایس او پیز پر عمل کریں کیونکہ احتیاط ہی اس وباء سے بچنے کا جسمانی اور معاشی علاج ہے۔
مہنگائی کا علاج تو یہی ہے کہ اشیائے خورونوش مہنگی کرنے والوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ بس آخر میں یہی دعا کی جا سکتی ہے کہ خدا حکمرانوں کو عوام کے مسائل حل کرنے کی توفیق دے۔ اگرسندھ میں اب بھی موجودہ وفاقی وصوبائی حکمرانوں کی جانب سے عوامی مسائل کے حل پر توجہ نہیں دی گئی تو صوبے میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کو کسی بھی لمحے کوئی عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔