حوالات خودکشی کیس پولیس نظام میں چیک اینڈ بیلنس کی ضرورت
یقینی طور پر حکومت بھی ہل کر رہ گئی ہے کیونکہ بظاہر معمولی نظر آنے والا یہ واقعہ معمولی نوعیت کا نہیں۔
پشاورکے تھانہ غربی کی حوالات میں چودہ سالہ بچے کی مبینہ خودکشی اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑ گئی ہے اور اس صورت حال کی وجہ سے یقینی طور پر حکومت بھی ہل کر رہ گئی ہے کیونکہ بظاہر معمولی نظر آنے والا یہ واقعہ معمولی نوعیت کا نہیں کیونکہ یہی وہ پولیس ہے کہ جسے پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ حکومت نے بہت سے اختیارات دیتے ہوئے خود مختار بنایا اور ساتھ ہی اسے مثالی پولیس کا خطاب بھی دیا لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ اسی مثالی پولیس کی کسٹڈی میں ایک بچہ خود کشی کرتا ہے اور پولیس گھوڑے بیچ کر سوتی ہوئی پائی جاتی ہے۔
اس واقعہ کی تحقیقات کے لیے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان کی جانب سے عدالتی انکوائری کے احکامات جاری کردیئے گئے ہیں۔ اس واقعہ کی وجہ سے صوبائی حکومت کے لیے بھی مشکلات پیدا ہوئی ہیں کیونکہ یہ بات تو سب کو ہی یاد ہوگی کہ جب پرویزخٹک حکومت پولیس کو بااختیار بنانے کے لیے انھیں قانون سازی کے ذریعے اختیارات دینے جارہی تھی اس وقت اپوزیشن جماعتوں نے اس بل کی شدید مخالفت کی تھی کیونکہ اپوزیشن کا موقف یہ تھا کہ پولیس ازخود کوئی الگ حیثیت نہیں رکھتی بلکہ یہ محکمہ داخلہ کا ایک ذیلی ادارہ اور صوبائی حکومت کے ماتحت ہے اور عوام کو بھی پولیس نہیں بلکہ حکومت اور حکومتی عہدیدار ہی جوابدہ ہیں، اس وقت کے حالات کے مطابق پرویزخٹک حکومت، اپوزیشن کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں تھی ۔
عامر تہکالے کیس کی وجہ سے پولیس کا اصل چہرہ عیاں ہوا تھاجس پر پڑے ہوئے مزید پردے بھی اب حوالات میں بچہ کی خودکشی کے واقعہ سے اتر گئے ہیں اس لیے اب یہ لازم ہوگیا ہے کہ حکومت ،محکمہ پولیس کو دیئے گئے اختیارات کے حوالے سے نظر ثانی کرے اور ان اختیارات میں کمی لاتے ہوئے اپنا عمل دخل بڑھائے تاکہ حکومت ،عوام کے سامنے بہتر انداز میں جوابدہ ہوسکے ۔
اور صورت حال یہ ہے کہ سینٹ کے لیے اسلام آباد کی نشست پر سابق وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی کی کامیابی پر اپوزیشن جماعتوں نے جتنے شادیانے بجائے تھے وہ ساری کی ساری خوشی چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے موقع پر اپوزیشن امیدواروں کی شکست سے ہوا ہوکر رہ گئی ہے،چیئرمین سینٹ کے عہدہ پر الیکشن کے دوران اپوزیشن کے امیدوار سابق وزیراعظم کے ساتھ کیا ہوا؟یہ تو اپوزیشن اپنے طور پر تحقیقات ہی میں ثابت کر پائے گی کہ کیا کسی کی حد سے زیادہ ہوشیاری تو سابق وزیراعظم کو نہیں لے ڈوبی؟ تاہم جہاں تک ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے عہدہ پر الیکشن کا معاملہ ہے تو اس کے حوالے سے صورت حال قطعی طور پر مختلف ہے۔
ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے عہدہ کے لیے اپوزیشن کے امیدوار جمعیت علماء اسلام کے مولاناعبدالغفورحیدری تھے جن سے واضح انداز میں اپوزیشن جماعتوں کے سات سینیٹرز پھسل کر حکومت کی طرف چلے گئے،جے یوآئی کے ساتھ ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے عہدہ پر جو کچھ ہوا ہے اس کے بعد یقینی طور پر جے یوآئی میں بے چینی پائی جاتی ہے کیونکہ جو سینیٹرز پھسلے ہیں ان کے حوالے سے شک کا اظہار کیا جا رہاہے کہ ان میں اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز شامل ہیں ،شکوک وشبہات تو موجود ہیں ۔
تاہم قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کو اس بارے میں زیادہ واضح انداز میں معلوم ہوگا کہ ان کے ساتھ ہاتھ کرنے والوں میں کون ،کون شامل ہیں، بے اعتمادی کی اسی فضا میں اپوزیشن جماعتیں رواں مہینہ سے حکومت کے خلاف لانگ مارچ شروع کرنے جا رہی ہیں جس کے حوالے سے مختلف قیاس آرائپاں کی جاتی ہیں تاہم اپوزیشن جماعتیں اب اس موقع پر لانگ مارچ سے پیچھے ہٹنے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ ایسی فضا بنا دی گئی ہے کہ اپوزیشن خود اس جال میں پھنس چکی ہے۔
پہلی مرتبہ سابقہ فاٹا جو اب خیبرپختونخوا کاحصہ ہے ،کو ڈپٹی چیئرمین سینٹ کا عہدہ ملا ہے ،مرزامحمدآفریدی کوحکومت نے اسی مقصد کے لیے اپنا امیدوار نامزد کیاتاکہ سابقہ فاٹا کو نمائندگی دی جاسکے اور حکومت اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی ٹھہری ہے،رہی بات خیبرپختونخوا حکومت کی تو سینٹ انتخابات میں دس نشستوں پر اپنے امیدواروں کی کامیابی سے صوبائی حکومت اور پی ٹی آئی کا مورال بلند ہے جبکہ دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں بکھری ہوئی دکھائی دے رہی ہیں ،جماعت اسلامی جو سینٹ الیکشن کے لیے اپوزیشن اتحاد کا حصہ بنی تھی وہ ایک مرتبہ پھر اپنی راہیں جداکرتے ہوئے الگ جاکھڑی ہوئی ہے جہاں سے وہ اپنے طور پر حکومت مخالف تحریک چلانے میں مصروف ہے جبکہ دیگر جماعتیں ایک دوسرے کو مشکوک انداز میں دیکھ رہی ہیں ۔
عوامی نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ(ن)کے درمیان سینٹ انتخابات کے دوران فاصلے پیداہوئے جوپولنگ ڈے تک موجود بھی رہے اور بڑھے بھی جبکہ یہی صورت حال دیگر جماعتوں کے حوالے سے بھی ہے یہی وجہ ہے کہ صوبائی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن تیار ہونے کے باوجود اپوزیشن جماعتیں اسے جمع کرانے کے حوالے سے متفق نہیں ہوپارہیں، گوکہ اس سلسلے میں اپوزیشن جماعتوں کے درمیان رابطے تو جاری ہیں لیکن ریکوزیشن جمع کرانے کافیصلہ تاحال نہیں کیا جاسکا۔
اس ضمن میں توقع کی جارہی ہے کہ جلد ہی اپوزیشن جماعتوں کا اکٹھ ہوگا جس میں ایک دوسرے سے گلے شکوے کرنے اور پرانے حسابات کو چکتا کرنے کی کوشش کی جائے گی جس کے بعد ہی ریکوزیشن جمع کرانے کافیصلہ کیاجائے گا تاہم ریکوزیشن جمع ہوتی بھی ہے تو تب بھی ماہ اپریل سے پہلے اسمبلی اجلاس منعقد ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ کورونا کے وار بھی بھرپور انداز میں جاری ہیں۔
اگلے مالی سال کے لیے بجٹ کی تیاری کا سلسلہ تو جاری ہے لیکن مئی ،جون ہی میں اسے حتمی شکل دی جائے گی ،اگلے مالی سال کا بجٹ اس اعتبار سے اہمیت کا حامل ہوگا کہ یہ موجودہ حکومت کا چوتھا بجٹ ہوگا اور عموماًچوتھے سال کے لیے جو بجٹ پیش کیاجاتا ہے اس سے حکومتیں اگلے انتخابات کو مد نظررکھتے ہوئے اس کی تیاری شروع کردیتی ہیں اورموجودہ حکومت بھی اپنے اگلے بجٹ میں ایسی سکیمیں اور منصوبے شامل کررہی ہے کہ جو اگلے عام انتخابات میں ان کے لیے سود ہوسکیں کیونکہ پی ٹی آئی نے مسلسل دوسری مرتبہ اقتدار میں آتے ہوئے صوبہ کی تاریخ توتبدیل کی ہے۔
تاہم اب وہ ہیٹ ٹرک چانس پر ہے اور اس ہیٹ ٹرک چانس کو وہ ضائع نہیں ہونے دے گی۔ اگرچہ پی ٹی آئی حکومت کے لیے ہیلتھ یونیورسل کارڈ سکیم ہی ایک ایسا منصوبہ ہے کہ جو اسے اگلے انتخابات میں اچھا خاصا فائدہ دے گا تاہم اس کے ساتھ ہی صوبائی حکومت بڑے منصوبوں پر بھی فوکس کیے ہوئے ہے۔
جن میں جنوبی اضلاع کے لیے ایکسپریس وے اور چشمہ رائٹ بنک کنال جیسے منصوبوں پر کام شروع شامل ہے کیونکہ یہ دونوں ایسے منصوبے ہیں کہ جن پر کام شروع کرنے سے صوبائی حکومت کو حقیقی معنوں میں فائدہ ملے گا جبکہ سوات ایکسپریس وے کے دوسرے مرحلے پر بھی کام شروع کیاجانا ہے تاکہ اپر سوات تک کے علاقوں تک رسائی آسان بنائی جاسکے اور پھر تین سو میگاواٹ کے بالاکوٹ ہائیڈروپاور منصوبہ پر تو پہلے ہی سے کام شروع کیاجاچکاہے جس کے ساتھ ہی پشاور سمیت صوبہ کے وسطی اضلاع کے لیے بھی مختلف منصوبے زیر غور ہیں جو یقینی طور پر صوبائی حکومت کی جانب سے اگلے عام انتخابات کی منصوبہ بندی کا حصہ ہیں ۔
اس واقعہ کی تحقیقات کے لیے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان کی جانب سے عدالتی انکوائری کے احکامات جاری کردیئے گئے ہیں۔ اس واقعہ کی وجہ سے صوبائی حکومت کے لیے بھی مشکلات پیدا ہوئی ہیں کیونکہ یہ بات تو سب کو ہی یاد ہوگی کہ جب پرویزخٹک حکومت پولیس کو بااختیار بنانے کے لیے انھیں قانون سازی کے ذریعے اختیارات دینے جارہی تھی اس وقت اپوزیشن جماعتوں نے اس بل کی شدید مخالفت کی تھی کیونکہ اپوزیشن کا موقف یہ تھا کہ پولیس ازخود کوئی الگ حیثیت نہیں رکھتی بلکہ یہ محکمہ داخلہ کا ایک ذیلی ادارہ اور صوبائی حکومت کے ماتحت ہے اور عوام کو بھی پولیس نہیں بلکہ حکومت اور حکومتی عہدیدار ہی جوابدہ ہیں، اس وقت کے حالات کے مطابق پرویزخٹک حکومت، اپوزیشن کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں تھی ۔
عامر تہکالے کیس کی وجہ سے پولیس کا اصل چہرہ عیاں ہوا تھاجس پر پڑے ہوئے مزید پردے بھی اب حوالات میں بچہ کی خودکشی کے واقعہ سے اتر گئے ہیں اس لیے اب یہ لازم ہوگیا ہے کہ حکومت ،محکمہ پولیس کو دیئے گئے اختیارات کے حوالے سے نظر ثانی کرے اور ان اختیارات میں کمی لاتے ہوئے اپنا عمل دخل بڑھائے تاکہ حکومت ،عوام کے سامنے بہتر انداز میں جوابدہ ہوسکے ۔
اور صورت حال یہ ہے کہ سینٹ کے لیے اسلام آباد کی نشست پر سابق وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی کی کامیابی پر اپوزیشن جماعتوں نے جتنے شادیانے بجائے تھے وہ ساری کی ساری خوشی چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے موقع پر اپوزیشن امیدواروں کی شکست سے ہوا ہوکر رہ گئی ہے،چیئرمین سینٹ کے عہدہ پر الیکشن کے دوران اپوزیشن کے امیدوار سابق وزیراعظم کے ساتھ کیا ہوا؟یہ تو اپوزیشن اپنے طور پر تحقیقات ہی میں ثابت کر پائے گی کہ کیا کسی کی حد سے زیادہ ہوشیاری تو سابق وزیراعظم کو نہیں لے ڈوبی؟ تاہم جہاں تک ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے عہدہ پر الیکشن کا معاملہ ہے تو اس کے حوالے سے صورت حال قطعی طور پر مختلف ہے۔
ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے عہدہ کے لیے اپوزیشن کے امیدوار جمعیت علماء اسلام کے مولاناعبدالغفورحیدری تھے جن سے واضح انداز میں اپوزیشن جماعتوں کے سات سینیٹرز پھسل کر حکومت کی طرف چلے گئے،جے یوآئی کے ساتھ ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے عہدہ پر جو کچھ ہوا ہے اس کے بعد یقینی طور پر جے یوآئی میں بے چینی پائی جاتی ہے کیونکہ جو سینیٹرز پھسلے ہیں ان کے حوالے سے شک کا اظہار کیا جا رہاہے کہ ان میں اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز شامل ہیں ،شکوک وشبہات تو موجود ہیں ۔
تاہم قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کو اس بارے میں زیادہ واضح انداز میں معلوم ہوگا کہ ان کے ساتھ ہاتھ کرنے والوں میں کون ،کون شامل ہیں، بے اعتمادی کی اسی فضا میں اپوزیشن جماعتیں رواں مہینہ سے حکومت کے خلاف لانگ مارچ شروع کرنے جا رہی ہیں جس کے حوالے سے مختلف قیاس آرائپاں کی جاتی ہیں تاہم اپوزیشن جماعتیں اب اس موقع پر لانگ مارچ سے پیچھے ہٹنے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ ایسی فضا بنا دی گئی ہے کہ اپوزیشن خود اس جال میں پھنس چکی ہے۔
پہلی مرتبہ سابقہ فاٹا جو اب خیبرپختونخوا کاحصہ ہے ،کو ڈپٹی چیئرمین سینٹ کا عہدہ ملا ہے ،مرزامحمدآفریدی کوحکومت نے اسی مقصد کے لیے اپنا امیدوار نامزد کیاتاکہ سابقہ فاٹا کو نمائندگی دی جاسکے اور حکومت اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی ٹھہری ہے،رہی بات خیبرپختونخوا حکومت کی تو سینٹ انتخابات میں دس نشستوں پر اپنے امیدواروں کی کامیابی سے صوبائی حکومت اور پی ٹی آئی کا مورال بلند ہے جبکہ دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں بکھری ہوئی دکھائی دے رہی ہیں ،جماعت اسلامی جو سینٹ الیکشن کے لیے اپوزیشن اتحاد کا حصہ بنی تھی وہ ایک مرتبہ پھر اپنی راہیں جداکرتے ہوئے الگ جاکھڑی ہوئی ہے جہاں سے وہ اپنے طور پر حکومت مخالف تحریک چلانے میں مصروف ہے جبکہ دیگر جماعتیں ایک دوسرے کو مشکوک انداز میں دیکھ رہی ہیں ۔
عوامی نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ(ن)کے درمیان سینٹ انتخابات کے دوران فاصلے پیداہوئے جوپولنگ ڈے تک موجود بھی رہے اور بڑھے بھی جبکہ یہی صورت حال دیگر جماعتوں کے حوالے سے بھی ہے یہی وجہ ہے کہ صوبائی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن تیار ہونے کے باوجود اپوزیشن جماعتیں اسے جمع کرانے کے حوالے سے متفق نہیں ہوپارہیں، گوکہ اس سلسلے میں اپوزیشن جماعتوں کے درمیان رابطے تو جاری ہیں لیکن ریکوزیشن جمع کرانے کافیصلہ تاحال نہیں کیا جاسکا۔
اس ضمن میں توقع کی جارہی ہے کہ جلد ہی اپوزیشن جماعتوں کا اکٹھ ہوگا جس میں ایک دوسرے سے گلے شکوے کرنے اور پرانے حسابات کو چکتا کرنے کی کوشش کی جائے گی جس کے بعد ہی ریکوزیشن جمع کرانے کافیصلہ کیاجائے گا تاہم ریکوزیشن جمع ہوتی بھی ہے تو تب بھی ماہ اپریل سے پہلے اسمبلی اجلاس منعقد ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ کورونا کے وار بھی بھرپور انداز میں جاری ہیں۔
اگلے مالی سال کے لیے بجٹ کی تیاری کا سلسلہ تو جاری ہے لیکن مئی ،جون ہی میں اسے حتمی شکل دی جائے گی ،اگلے مالی سال کا بجٹ اس اعتبار سے اہمیت کا حامل ہوگا کہ یہ موجودہ حکومت کا چوتھا بجٹ ہوگا اور عموماًچوتھے سال کے لیے جو بجٹ پیش کیاجاتا ہے اس سے حکومتیں اگلے انتخابات کو مد نظررکھتے ہوئے اس کی تیاری شروع کردیتی ہیں اورموجودہ حکومت بھی اپنے اگلے بجٹ میں ایسی سکیمیں اور منصوبے شامل کررہی ہے کہ جو اگلے عام انتخابات میں ان کے لیے سود ہوسکیں کیونکہ پی ٹی آئی نے مسلسل دوسری مرتبہ اقتدار میں آتے ہوئے صوبہ کی تاریخ توتبدیل کی ہے۔
تاہم اب وہ ہیٹ ٹرک چانس پر ہے اور اس ہیٹ ٹرک چانس کو وہ ضائع نہیں ہونے دے گی۔ اگرچہ پی ٹی آئی حکومت کے لیے ہیلتھ یونیورسل کارڈ سکیم ہی ایک ایسا منصوبہ ہے کہ جو اسے اگلے انتخابات میں اچھا خاصا فائدہ دے گا تاہم اس کے ساتھ ہی صوبائی حکومت بڑے منصوبوں پر بھی فوکس کیے ہوئے ہے۔
جن میں جنوبی اضلاع کے لیے ایکسپریس وے اور چشمہ رائٹ بنک کنال جیسے منصوبوں پر کام شروع شامل ہے کیونکہ یہ دونوں ایسے منصوبے ہیں کہ جن پر کام شروع کرنے سے صوبائی حکومت کو حقیقی معنوں میں فائدہ ملے گا جبکہ سوات ایکسپریس وے کے دوسرے مرحلے پر بھی کام شروع کیاجانا ہے تاکہ اپر سوات تک کے علاقوں تک رسائی آسان بنائی جاسکے اور پھر تین سو میگاواٹ کے بالاکوٹ ہائیڈروپاور منصوبہ پر تو پہلے ہی سے کام شروع کیاجاچکاہے جس کے ساتھ ہی پشاور سمیت صوبہ کے وسطی اضلاع کے لیے بھی مختلف منصوبے زیر غور ہیں جو یقینی طور پر صوبائی حکومت کی جانب سے اگلے عام انتخابات کی منصوبہ بندی کا حصہ ہیں ۔