سیاست میں گالم گلوچ اور تشدد کا کلچر
عمران خان سیاسی افق پر نمودار ہوئے تو انہوں نے دوبارہ سیاست میں اوئے، تو اور بڑھکوں کا رواج متعارف کروا دیا
وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل جب لاہور ہائیکورٹ پہنچے تو وہاں پہلے سے موجود مسلم لیگ کے کارکنوں نے اُن پر انڈے اور سیاہی پھینک دی۔ مجرم اس وقت قانون کے شکجنے میں ہے، لاہور ہائیکورٹ نے بھی اس واقعے کا نوٹس لیا ہے۔
شہباز گل نے اس کے بعد ایک پریس کانفرنس کی۔ اس پریس کانفرنس میں وہ واضح طور پر پٹری سے بھی اترے، اس کی ان سے خیر توقع بھی تھی۔ کیا پاکستان کی سیاست دوبارہ سے نوے کی دہائی میں داخل ہورہی ہے؟ کیا آج کی تاریخ میں پاکستان ایسی حملہ وارانہ سیاست کا متحمل ہوسکتا ہے؟ آگے بڑھنے سے پہلے شہباز گل کے ساتھ ہونے والے اس سلوک کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی جانی چاہیے۔
ابھی چند دن پہلے سینیٹ الیکشن پر مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال پر جوتا پھینکا گیا اور وہ ان کے سر پر بھی لگا۔ پھر اسی دن، اسی مقام پر، ن لیگ کی خاتون رہنما مریم اورنگزیب کو بھی دھکے مارے گئے، جس پر شاہد خاقان عباسی اور مصدق ملک نے اس کارکن کا پیچھا بھی کیا۔ ناچیز نے تب بھی عرض کی تھی، اب بھی عرض کیے دیتا ہوں کہ پاکستان میں حملہ وارانہ سیاست بہت بھیانک نتائج لائے گی۔
یادش بخیر، ن لیگ کے رہنماؤں پر جب حملہ ہوا تھا تو پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے مذمت کی تھی۔ لیکن یہی شہباز گل تھے جنہوں نے اس واقعے کی مذمت تو کجا، اس کی الٹا حوصلہ افزائی کی تھی۔ وہ کارکنوں کو جا کر حوصلہ دے کر آئے تھے اور ان کی یہ ٹویٹ ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اگر حالیہ حملے کو اس تناظر میں دیکھا جائے تو کیا یہ حملہ ردعمل یا جوابی کارروائی نہیں لگتا؟
پھر سے عرض کردیں کہ سیاستدانوں پر یہ حملے بہت غلط ہیں۔ ان کی صرف مذمت نہیں بلکہ جو یہ حملے کرتے ہیں، ان سے اعلان لاتعلقی بھی ضروری ہے اور اس کے خلاف قانونی کارروائی بھی ہونی چاہیے۔ دوسری جانب سیاستدانوں کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ آج اگر وہ ایک گز کی گالی دیتے ہیں تو کل کو ان کو دو گز کی جوابی گالی بھی پڑے گی۔ اس کے بعد باہمی عزت اور احترام کا رشتہ تو ختم ہوگا ہی، دوسری جانب نفرت اور دشمنی بھی پیدا ہونا شروع ہوجائے گی۔
طاقت بڑی عجیب شے ہے، اسی لیے اس کو نشہ بھی کہا جاتا ہے۔ کرسی پر بیٹھ کر انسان یہی سمجھتا ہے کہ میں اتنی جلدی تو جانے والا نہیں ہوں۔ لیکن ہوتا کیا ہے؟ ہوتا یہ ہے کہ بیک جنبش قلم، کرسیاں بھی بدل دی جاتی ہیں اور سرکار بھی بدل دی جاتی ہے۔ جب پرویز مشرف نے شدید عوامی، بین الاقوامی اور سیاسی دباؤ کی وجہ سے وردی اتاری تھی تو یہ لگ رہا تھا کہ پاکستان سے اب تشدد اور عدم برداشت کی سیاست ختم ہوجائے گی۔ ہمیں بھی یہی لگ رہا تھا، تاوقتیکہ عمران خان دوبارہ سے سیاسی افق پر نمودار نہ ہوئے۔ انہوں نے سیاست میں دوبارہ سے اوئے، تو اور بڑھکوں کا رواج متعارف کروا دیا اور ہماری سیاست ایک مرتبہ پھر سے نوے کی دہائی کی جانب چلی گئی۔
اس کے بعد کی تاریخ سب کے سامنے ہے کہ لمحہ موجود کی سیاست میں محض الزام تراشی ہے۔ گندی اور اخلاقیات سے گری ہوئی زبان ہے۔ بدتمیزی ہے۔ محض دوسرے کو گندا کرنا ہے۔ حالانکہ اصول یہ ہے کہ جو الزام لگاتا ہے، بار ثبوت اس کی جانب ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں عوامی سطح پر نفرت اور حقارت پھیلتی ہے اور آج یہ حالات ہیں کہ عوام کی اکثریت اپنے مخالف سے پانی بھی پینا پسند نہیں کرتی ہے۔
اگر آج بھی تحریک انصاف اس مسئلے کو سنجیدہ لیتی ہے، اس مسئلے پر فوری غور ہوتا ہے اور تیل کو چنگاری دکھانے کے بجائے اس سلگتی ہوئی آگ کو بجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو بہت سے معاملات بہتر ہونے کی توقع ہے اور وطن عزیز کی سیاست جس کھائی اور جس آگ کی جانب بڑھ رہی ہے، وہاں رکاوٹ لگانا ممکن ہے۔
تحریک انصاف کو بھی اپنے کارکنوں کی ایسی حرکت سے اعلان لاتعلقی کرنا چاہیے اور مسلم لیگ ن سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو بھی اس بات کا فیصلہ کرتے ہوئے باقاعدہ اعلان کردینا چاہیے کہ ان کا کوئی رہنما، کوئی ممبر پارلیمنٹ، ان کا کوئی بھی پارٹی لیڈر دوسری پارٹی کے خلاف اخلاق سے گری ہوئی بات نہیں کرے گا اور جو ایسی بات کرے گا، پارٹی اس کے خلاف شدید ڈسپلنری ایکشن لے گی۔
موجودہ حکومت کے سیاستدانوں کو اس نقطے پر بھی سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ یہ امپورٹڈ سیاستدان تو وقت کے بعد اپنا سوٹ کیس اٹھا کر پہلی دستیاب فلائٹ سے نکل جائیں گے۔ یاد کیجیے کہ شوکت عزیز اینڈ کمپنی آج کہاں ہے؟ اس جواب کے بعد یہ بھی سوچیے کہ یہ کیا کریں گے؟ کیا ان حالات میں وہ اپنے حلقے میں ووٹ لینے جاسکتے ہیں؟ طاقت کے ستون بھی طاقتور کے ساتھ ہوتے ہیں، جیسے ہی ایک چھت کمزور ہوتی ہے، طاقت کے ستون کسی دوسری چھت کے نیچے ہوتے ہیں۔ لہٰذا، خدارا اس معاشرے کو تشدد کی جانب نہ لے کر جائیے۔
ماضی کے سیاسی استحکام میں صرف یہ سب نہیں بلکہ اسلحہ اور لاشیں بھی تھیں اور مجھے یہ معاشرہ وہیں دوبارہ جاتا ہوا نظر آرہا ہے۔ میری خدا سے دعا ہے کہ میں یہاں غلط ہوں، کیونکہ ہم معاشی طور پر کمزور اور پسے ہوئے لوگ بدامنی کو افورڈ ہی نہیں کرسکتےہیں۔ لہٰذا، ان امپورٹڈ سیاستدانوں کی باتوں میں آنے کے بجائے گراؤنڈ رئیلٹی پر غور کیجیے۔ لہٰذا، جیسے نواز شریف پر جوتا اچھالنے کی مذمت کی گئی، جیسے جاوید لطیف پر تشدد کی مذمت کی گئی، جیسے احسن اقبال کو گولی لگنے اور پھر جوتا لگنے کی مذمت کی گئی، جیسے خواجہ آصف پر سیاہی پھینکنے کی مذمت کی گئی، جیسے مریم اورنگزیب کو دھکا لگنے کی مذمت کی گئی، بالکل ویسے ہی شہباز گل کے ساتھ ہونے والے سلوک کی بھی بھرپور الفاظ میں مذمت کی جانی چاہیے۔
پاکستان کی سیاست ویسے بھی 'سیاہ ست' ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس سسٹم میں اخلاق، تہذیب اور شائستگی ہونی چاہیے۔ ہم نفرت، انتقام کی سیاست کو افورڈ نہیں کرسکتے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
شہباز گل نے اس کے بعد ایک پریس کانفرنس کی۔ اس پریس کانفرنس میں وہ واضح طور پر پٹری سے بھی اترے، اس کی ان سے خیر توقع بھی تھی۔ کیا پاکستان کی سیاست دوبارہ سے نوے کی دہائی میں داخل ہورہی ہے؟ کیا آج کی تاریخ میں پاکستان ایسی حملہ وارانہ سیاست کا متحمل ہوسکتا ہے؟ آگے بڑھنے سے پہلے شہباز گل کے ساتھ ہونے والے اس سلوک کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی جانی چاہیے۔
ابھی چند دن پہلے سینیٹ الیکشن پر مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال پر جوتا پھینکا گیا اور وہ ان کے سر پر بھی لگا۔ پھر اسی دن، اسی مقام پر، ن لیگ کی خاتون رہنما مریم اورنگزیب کو بھی دھکے مارے گئے، جس پر شاہد خاقان عباسی اور مصدق ملک نے اس کارکن کا پیچھا بھی کیا۔ ناچیز نے تب بھی عرض کی تھی، اب بھی عرض کیے دیتا ہوں کہ پاکستان میں حملہ وارانہ سیاست بہت بھیانک نتائج لائے گی۔
یادش بخیر، ن لیگ کے رہنماؤں پر جب حملہ ہوا تھا تو پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے مذمت کی تھی۔ لیکن یہی شہباز گل تھے جنہوں نے اس واقعے کی مذمت تو کجا، اس کی الٹا حوصلہ افزائی کی تھی۔ وہ کارکنوں کو جا کر حوصلہ دے کر آئے تھے اور ان کی یہ ٹویٹ ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اگر حالیہ حملے کو اس تناظر میں دیکھا جائے تو کیا یہ حملہ ردعمل یا جوابی کارروائی نہیں لگتا؟
پھر سے عرض کردیں کہ سیاستدانوں پر یہ حملے بہت غلط ہیں۔ ان کی صرف مذمت نہیں بلکہ جو یہ حملے کرتے ہیں، ان سے اعلان لاتعلقی بھی ضروری ہے اور اس کے خلاف قانونی کارروائی بھی ہونی چاہیے۔ دوسری جانب سیاستدانوں کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ آج اگر وہ ایک گز کی گالی دیتے ہیں تو کل کو ان کو دو گز کی جوابی گالی بھی پڑے گی۔ اس کے بعد باہمی عزت اور احترام کا رشتہ تو ختم ہوگا ہی، دوسری جانب نفرت اور دشمنی بھی پیدا ہونا شروع ہوجائے گی۔
طاقت بڑی عجیب شے ہے، اسی لیے اس کو نشہ بھی کہا جاتا ہے۔ کرسی پر بیٹھ کر انسان یہی سمجھتا ہے کہ میں اتنی جلدی تو جانے والا نہیں ہوں۔ لیکن ہوتا کیا ہے؟ ہوتا یہ ہے کہ بیک جنبش قلم، کرسیاں بھی بدل دی جاتی ہیں اور سرکار بھی بدل دی جاتی ہے۔ جب پرویز مشرف نے شدید عوامی، بین الاقوامی اور سیاسی دباؤ کی وجہ سے وردی اتاری تھی تو یہ لگ رہا تھا کہ پاکستان سے اب تشدد اور عدم برداشت کی سیاست ختم ہوجائے گی۔ ہمیں بھی یہی لگ رہا تھا، تاوقتیکہ عمران خان دوبارہ سے سیاسی افق پر نمودار نہ ہوئے۔ انہوں نے سیاست میں دوبارہ سے اوئے، تو اور بڑھکوں کا رواج متعارف کروا دیا اور ہماری سیاست ایک مرتبہ پھر سے نوے کی دہائی کی جانب چلی گئی۔
اس کے بعد کی تاریخ سب کے سامنے ہے کہ لمحہ موجود کی سیاست میں محض الزام تراشی ہے۔ گندی اور اخلاقیات سے گری ہوئی زبان ہے۔ بدتمیزی ہے۔ محض دوسرے کو گندا کرنا ہے۔ حالانکہ اصول یہ ہے کہ جو الزام لگاتا ہے، بار ثبوت اس کی جانب ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں عوامی سطح پر نفرت اور حقارت پھیلتی ہے اور آج یہ حالات ہیں کہ عوام کی اکثریت اپنے مخالف سے پانی بھی پینا پسند نہیں کرتی ہے۔
اگر آج بھی تحریک انصاف اس مسئلے کو سنجیدہ لیتی ہے، اس مسئلے پر فوری غور ہوتا ہے اور تیل کو چنگاری دکھانے کے بجائے اس سلگتی ہوئی آگ کو بجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو بہت سے معاملات بہتر ہونے کی توقع ہے اور وطن عزیز کی سیاست جس کھائی اور جس آگ کی جانب بڑھ رہی ہے، وہاں رکاوٹ لگانا ممکن ہے۔
تحریک انصاف کو بھی اپنے کارکنوں کی ایسی حرکت سے اعلان لاتعلقی کرنا چاہیے اور مسلم لیگ ن سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو بھی اس بات کا فیصلہ کرتے ہوئے باقاعدہ اعلان کردینا چاہیے کہ ان کا کوئی رہنما، کوئی ممبر پارلیمنٹ، ان کا کوئی بھی پارٹی لیڈر دوسری پارٹی کے خلاف اخلاق سے گری ہوئی بات نہیں کرے گا اور جو ایسی بات کرے گا، پارٹی اس کے خلاف شدید ڈسپلنری ایکشن لے گی۔
موجودہ حکومت کے سیاستدانوں کو اس نقطے پر بھی سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ یہ امپورٹڈ سیاستدان تو وقت کے بعد اپنا سوٹ کیس اٹھا کر پہلی دستیاب فلائٹ سے نکل جائیں گے۔ یاد کیجیے کہ شوکت عزیز اینڈ کمپنی آج کہاں ہے؟ اس جواب کے بعد یہ بھی سوچیے کہ یہ کیا کریں گے؟ کیا ان حالات میں وہ اپنے حلقے میں ووٹ لینے جاسکتے ہیں؟ طاقت کے ستون بھی طاقتور کے ساتھ ہوتے ہیں، جیسے ہی ایک چھت کمزور ہوتی ہے، طاقت کے ستون کسی دوسری چھت کے نیچے ہوتے ہیں۔ لہٰذا، خدارا اس معاشرے کو تشدد کی جانب نہ لے کر جائیے۔
ماضی کے سیاسی استحکام میں صرف یہ سب نہیں بلکہ اسلحہ اور لاشیں بھی تھیں اور مجھے یہ معاشرہ وہیں دوبارہ جاتا ہوا نظر آرہا ہے۔ میری خدا سے دعا ہے کہ میں یہاں غلط ہوں، کیونکہ ہم معاشی طور پر کمزور اور پسے ہوئے لوگ بدامنی کو افورڈ ہی نہیں کرسکتےہیں۔ لہٰذا، ان امپورٹڈ سیاستدانوں کی باتوں میں آنے کے بجائے گراؤنڈ رئیلٹی پر غور کیجیے۔ لہٰذا، جیسے نواز شریف پر جوتا اچھالنے کی مذمت کی گئی، جیسے جاوید لطیف پر تشدد کی مذمت کی گئی، جیسے احسن اقبال کو گولی لگنے اور پھر جوتا لگنے کی مذمت کی گئی، جیسے خواجہ آصف پر سیاہی پھینکنے کی مذمت کی گئی، جیسے مریم اورنگزیب کو دھکا لگنے کی مذمت کی گئی، بالکل ویسے ہی شہباز گل کے ساتھ ہونے والے سلوک کی بھی بھرپور الفاظ میں مذمت کی جانی چاہیے۔
پاکستان کی سیاست ویسے بھی 'سیاہ ست' ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس سسٹم میں اخلاق، تہذیب اور شائستگی ہونی چاہیے۔ ہم نفرت، انتقام کی سیاست کو افورڈ نہیں کرسکتے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔