معاہدے کے مطابق افغانستان سے فوج واپس بلانا مشکل ہوگا بائیڈن
امریکا نے طے شدہ مدت کے مطابق فوج نہیں نکالی تو اس کے نتائج نتائج کے لیے تیار رہے، طالبان
لاہور:
جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ طالبان سے معاہدے کے مطابق یکم مئی تک امریکی فوج کا انخلا مشکل ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں امریکی فوج کے افغانستان سے مکمل انخلا کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں بائیڈن کا کہنا تھا کہ معاہدے کے مطابق یکم مئی تک یہ ممکن تو ہے لیکن بہت مشکل نظر آتا ہے۔ میں اس حوالے سے فیصلہ سازی کررہا ہوں۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس صدر ٹرمپ کے دور میں طالبان کے ساتھ ہونے واالے معاہدے میں یکم مئی 2021 تک افغانستان سے امریکی فوج کے مکمل انخلا پر اتفاق کیا گیا تھا۔
صدر بائیڈن کے اس بیان پر طالبان کا رد عمل بھی سامنے آگیا ہے۔ امریکی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکا نے طے شدہ مدت کے مطابق فوج نہیں نکالی تو اس کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ اس اقدام سے مشکلات میں گھر امن عمل مزید دباو کا شکار ہوجائے گا۔
انٹرویو میں صدر بائیڈن نے اپنے پیش رو صدر ٹرمپ کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے ٹھوس بات چیت نہیں کی گئی۔ ٹرمپ کے بعد مجھے صدارت ملنے کی وجہ سے اب اس معاہدے کو تکیمل تک پہنچانے کے لیے مجھے وقت اور حالات کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
معاہدے میں طالبان نے افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دینے اور القاعدہ سے قطع تعلق کی شرائط بھی تسلیم کی تھیں۔ تاہم افغانستان میں جاری حملوں کی وجہ سے گزشتہ چھ ماہ افغان امن عمل مسلسل تاخیر کا شکار رہا اور امریکا کی جانب سے طالبان کو اس کا ذمے دار قرار دیا گیا ۔ جب کہ طالبان القاعدہ سے روابط ختم کرنے کے ساتھ افغانستان میں جاری تشدد کی ذمے داری بھی قبول کرنے سے انکاری ہیں۔
جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ طالبان سے معاہدے کے مطابق یکم مئی تک امریکی فوج کا انخلا مشکل ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں امریکی فوج کے افغانستان سے مکمل انخلا کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں بائیڈن کا کہنا تھا کہ معاہدے کے مطابق یکم مئی تک یہ ممکن تو ہے لیکن بہت مشکل نظر آتا ہے۔ میں اس حوالے سے فیصلہ سازی کررہا ہوں۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس صدر ٹرمپ کے دور میں طالبان کے ساتھ ہونے واالے معاہدے میں یکم مئی 2021 تک افغانستان سے امریکی فوج کے مکمل انخلا پر اتفاق کیا گیا تھا۔
صدر بائیڈن کے اس بیان پر طالبان کا رد عمل بھی سامنے آگیا ہے۔ امریکی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکا نے طے شدہ مدت کے مطابق فوج نہیں نکالی تو اس کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ اس اقدام سے مشکلات میں گھر امن عمل مزید دباو کا شکار ہوجائے گا۔
انٹرویو میں صدر بائیڈن نے اپنے پیش رو صدر ٹرمپ کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے ٹھوس بات چیت نہیں کی گئی۔ ٹرمپ کے بعد مجھے صدارت ملنے کی وجہ سے اب اس معاہدے کو تکیمل تک پہنچانے کے لیے مجھے وقت اور حالات کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
معاہدے میں طالبان نے افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دینے اور القاعدہ سے قطع تعلق کی شرائط بھی تسلیم کی تھیں۔ تاہم افغانستان میں جاری حملوں کی وجہ سے گزشتہ چھ ماہ افغان امن عمل مسلسل تاخیر کا شکار رہا اور امریکا کی جانب سے طالبان کو اس کا ذمے دار قرار دیا گیا ۔ جب کہ طالبان القاعدہ سے روابط ختم کرنے کے ساتھ افغانستان میں جاری تشدد کی ذمے داری بھی قبول کرنے سے انکاری ہیں۔