جذبات

ایک عرصے تک یہ سوال امریکی سائنس دانوں کی ایک جماعت کے لیے تحقیق کا موضوع بنا رہا۔


MJ Gohar March 19, 2021

کشتی کے عالمی سطح کے کھلاڑی اکثر یکساں جسمانی قوت کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کو تربیت بھی قریباً ایک جیسے معیارکی ملتی ہے۔ پھر سوال اٹھتا ہے کہ ان کے درمیان جب مقابلہ ہو تو ہار اور جیت کا سبب کیا ہوتا ہے۔ جو کھلاڑی جیتتا ہے وہ کیوں کر جیتتا ہے بعینہ جو ہارتا ہے وہ کیوں ہارتا ہے؟

ایک عرصے تک یہ سوال امریکی سائنس دانوں کی ایک جماعت کے لیے تحقیق کا موضوع بنا رہا۔ پھر انھوں نے سالوں کی تحقیق کے بعد اپنے نتائج شایع کر دیے۔ تحقیقی رپورٹ کے مطابق ان سائنس دانوں نے عالمی سطح کے بہترین کشتی لڑنے والے کھلاڑیوں پر تجربات کیے۔

انھوں نے ان کی عضلاتی طاقت اور ان کی نفسیاتی کیفیات کا بغور مشاہدہ کیا۔ سائنس دانوں کے مطابق عالمی مقابلوں میں جیتنے والے پہلوانوں اور ہارنے والے پہلوانوں میں ایک خاص فرق ہوتا ہے جو جسمانی قوت کے مقابلے میں زیادہ تر نفسیاتی ہوتا ہے۔ ان کے بقول یہ درحقیقت پہلوانوں کی ذہنی حالت ہی ہے جو ان کے لیے ہار جیت کا فیصلہ کرتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ہارنے والے کے مقابلے میں جیتنے والا زیادہ بااصول اور قابو یافتہ Consociations and in Control ہوتا ہے۔ سائنس دانوں کی رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے:

"Loosers tended to be more depressed and confused before, competing while the winners were positive and relaxed."

تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ'' ہارنے والے کھلاڑی مقابلے سے پہلے ہی بددل اور پریشان تھے، جب کہ جیتنے والے پُر اعتماد اور مطمئن تھے۔''

یہی بات زندگی کے وسیع تر مقابلے کے لیے بھی درست سمجھی جاتی ہے۔ میدان حیات میں جب دو آدمیوں یا دو گروہوں کا مقابلہ ہوتا ہے تو کامیاب ہونے یا نہ ہونے میں اصل فیصلہ کن چیز یہ نہیں ہوتی کہ کسی کے پاس مادی طاقت یا ظاہری ساز و سامان زیادہ ہے اور کس کے پاس کم۔ بلکہ حقیقی معنوں میں فیصلہ کن عامل دل اور دماغ کی حالت ہوتی ہے جس کے اندر قلبی اور ذہنی اوصاف زیادہ ہوتے ہیں وہی کامیاب و کامران ہوتا ہے اور جس کے اندر یہ خوبیاں کم ہوتی ہیں وہ ناکام و نامراد رہتا ہے خواہ اس کے پاس ظاہری اسباب کی کثرت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔

درحقیقت اپنے مقصد کی صحت کا کامل یقین ، نظم و ضبط کو کبھی نہ چھوڑنا، ہیجان خیز لمحات میں بھی پرسکون اور ٹھنڈے دماغ سے فیصلے کرنے کی صلاحیت، جذبات پر پوری طرح قابو رکھنا ، ہمیشہ سوچے سمجھے اقدام کے تحت فیصلے کرنا اور وقت و حالات کی نزاکتوں کا ادراک ہونا وغیرہ یہ سب دل و دماغ سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں اور یہی وہ اوصاف ہیں جو زندگی کے امتحانوں میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ فیصلہ کن عامل کا کردار ادا کرتے ہیں۔

پاکستان کی قومی سیاست کے میدان میں جو کھلاڑی ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں بدقسمتی سے ان تمام میں صبر ، تحمل ، برداشت ، دور اندیشی ، حکمت ، سیاسی بصیرت ، ٹھنڈے دل و دماغ سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت ، حالات کی نزاکتوں کو سمجھنے کا ادراک اور وقت کے تقاضوں کے مطابق اقدامات اٹھانے کا گہرا فقدان پایا جاتا ہے ، ان سب کا صرف ایک ہی مسئلہ ہے کہ ''میں نہ مانوں'' یہ اپنے مد مقابل ہر کردار کو بدعنوان ، کرپٹ ، جھوٹا ، چور ، ڈاکو ، لٹیرا اور ہر قسم کی سیاسی ، سماجی ، اخلاقی اور معاشرتی برائیوں سے لتھڑا ہوا کردار سمجھتے ہیں۔

آپ سیاستدانوں کے گزشتہ تین سالوں کے بیانات اٹھا کر دیکھ لیں کہ انھوں نے اپنے مخالف سیاستدانوں کو کون کون سے القابات سے نہیں نوازا؟ بعینہ آپ اپوزیشن کے بڑے سیاسی کھلاڑیوں کا ریکارڈ چیک کرلیں کہ انھوں نے حکمرانوں کو کن کن ناموں سے نہیں پکارا؟ یہ ہمارے سیاسی کھلاڑیوں کے اخلاقیات کی علامت ہے۔ ذرا اور گہرائی میں جائیے تو معلوم ہوگا کہ آج کی اتحادی بڑی سیاسی جماعتیں ماضی قریب میں ایک دوسرے کے خلاف کیا کیا کچھ نہیں کہتی رہیں۔

اسی طرح حکومت میں شامل جماعت اور اس کے اتحادی ایک دوسرے کو کن کن ناموں سے پکارتے رہے ہیں اور آج سب اپنے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر کیسے شیر و شکر ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف سارا غصہ اور سارے منفی جذبات جھاگ کی طرح بیٹھ چکے ہیں۔ سینیٹ کے انتخابات سے لے کر لانگ مارچ تک اپوزیشن (پی ڈی ایم) کے کردار میں غصہ، انتقام اور حقارت کا پہلو غالب نظر آتا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ کسی کو ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجوں اور مسائل کا ادراک ہی نہیں۔ کچھ ایسی ہی صورت حال دوسری جانب بھی ہے یعنی حکومت بھی افہام و تفہیم سے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسائل کو بات چیت سے حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ ہر دو جانب صرف اور صرف ''جذبات'' کا غلبہ ہے جو ہوش مندی پر حاوی ہوتا جا رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں